من گھڑت اور موضوع حدیث ۔
✍️ محمد حسان بن الشيخ يونس التاجفوري الغجراتي
المدرس بجامعة تحفيظ القرآن الاسلامفورا بمديرية سابركانتا بولاية غجرات
سوشل میڈیا پر ایک حدیث گردش کررہی ہےکہ (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یااللہ! میں آپ کی عبادت کرنا چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کرلو، انہوں نے دو رکعت نماز کی نیّت باندھی اور اس اہتمام کے ساتھ نماز ادا کی کہ چالیس ہزار(٤٠,٠٠٠) سال کے بعد سلام پھیرا، اللہ پاک نے فرمایا: تم نے بہت اچھی نماز پڑھی ہے، لیکن ایک امّت آنے والی ہے جس کی فجر کی دو سنتیں تیری ان دو رکعتوں سے بڑھ جائینگی جو وہ لوگ اپنی فکروں اور سوچوں سمیت ادا کرینگے کیونکہ ان کی نماز میرے حکم سے ہوگی اور تمہاری نماز تمہاری چاہت سے ہے. جبریل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یااللہ! آپ ان کو ان کی عبادت پر کیا دینگے؟ تو اللہ رب العزت نے فرمایا کہ جنت المأوى دونگا، تو جبریل نے اللہ تعالی سے اس جنت کو دیکھنے کی اجازت مانگی تو اللہ تعالی نے اجازت دے دی، تو جبریل علیہ السلام نے اپنے سارے پَر کھول دیئے (حالانکہ جبریل جب صرف دو پر کھولتے ہیں تو ہر بار پر کھولنے اور بند کرنے پر تین ہزار سال کا سفر طے کرلیتے ہیں) اور جبریل علیہ السلام تین سو سال اڑتے رہے اور تھک کر سجدے میں گر گئے اور عرض کیا
کہ میں اس جنت کے آدھے یا ایک تہائی تک پہنچ گیا ہوں یا نہیں؟ تو جواب ملا کہ اے جبریل! اگر تجھے دوگنی قوت اور پر دیئے جائیں اور تو ہزاروں سال اڑتا رہے تب بھی امت محمدیہ کو دو رکعت پر دیئے جانے والے اجر کے دسویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتا.
روي عن النبيﷺ أنه قال: “لما خلق الله تعالى جبرائيل عليه السلام على أحسن صورة وجعل له ستمائة جناح، طول كل جناح ما بين المشرق والمغرب نظر إلى نفسه فقال (أي: جبريل): إلهي! هل خلقت أحسن صورة مني؟ فقال الله تعالى: لا، فقام جبرائيل وصلى ركعتين شكرًا لله تعالى، فقام في كل ركعة عشرين ألف سنة، فلما فرغ من الصلاة قال الله تعالى: ياجبرائيل! عبدتني حق عبادتي ولا يعبدني أحد مثل عبادتك لكن يجيء في آخر الزمان نبي كريم حبيب إليَّ يقال له: محمد، وله أمة ضعيفة مذنبة يصلون ركعتين مع سهو ونقصان في ساعة يسيرة وأفكار كثيرة وذنوب كبيرة، فوعزتي وجلالي إن صلاتهم أحب إليَّ من صلاتك؛ لأن صلاتهم بأمري وأنت صليت بغير أمري، قال جبرائيل: يا رب! ما أعطيتَهم في مقابلة عبادتهم؟ فقال الله تعالى: أعطيتُهم جنة المأوى. فاستأذن من الله تعالى أن يراها، فأذن الله تعالى له، فأتى جبرائيل وفتح جميع أجنحته ثم طار ( فكلما فتح جناحين قطع مسيرة ثلاثة آلاف سنة وكلما ضم قطع مثل ذلك) فطار على هذا ثلاثمائة عام فعجز ونزل في ظل شجرة وسجد لله تعالى فقال في سجوده: إلهي! هل بلغت نصفها أو ثلثها أو ربعها؟ فقال الله تعالى: ياجبرائيل! لو طرت ثلاثمائة ألف عام ولو أعطيتك قوة مثل قوتك وأجنحة مثل أجنحتك فطرت مثل ما طرت لا تصل إلى عشر من أعشار ما أعطيته لأمة محمد في مقابلة ركعتين من صلاتهم-
* اس حدیث کو درة الناصحين في الوعظ والإرشاد میں عثمان بن حسن بن احمد الخویری نے باب المجلس الثامن في فضيلة الصلاة مع الجماعة میں بغیر سند اور بغیر ذکر راوی کے مشكاة الانوار (ایک شیعہ عالم کی ہے جس کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ یہ کتاب غریب، ضعیف ترین،موضوع اور من گھڑت روایات کا مجموعہ ہے) کے حوالےسے ذکر کیا ہے،
* درۃ الناصحین کے متعلق ابن باز رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ یہ غیر مستند روایات کا مجموعہ ہے یعنی اس کتاب میں جھوٹی اور غیر مستند روایات بیان کی گئی ہیں، قال ابن الباز رحمه الله تعالى هذا الكتاب لا يعتمد عليه، وهو يشتمل على أحاديث موضوعة وأحاديث ضعيفة لا يعتمد عليها فلا ينبغي أن يعتمد على هذا الكتاب وما أشبهه من الكتب التي تجمع الغث والسمين والموضوع والضعيف (مجموع فتاوى ابن باز ج٦ ص٥٢٢)
* اس حدیث کے متعلق أشرف بن ابراہیم بن احمد قطقاط رحمہ اللہ نے اپنی کتاب البرهان المبين في التصدي للبدع والأباطيل ج٢ ص٥٥١ میں لکھا ہے هذه الرواية موضوعة و ليس لها أصل،
*اور اسی طرح عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ (فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية و الإفتاء رقم ٧٨١١) میں لکھا ہے کہ هذا الحديث لا أصل له بل هو من الأحاديث المكذوبة على رسول الله صلى الله عليه وسلم.
والله اعلم بالصواب وعلمه اتم_
✍️ محمد حسان بن الشيخ يونس التاجفوري الغجراتي
المدرس بجامعة تحفيظ القرآن الاسلامفورا بمديرية سابركانتا بولاية غجرات
سوشل میڈیا پر ایک حدیث گردش کررہی ہےکہ (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یااللہ! میں آپ کی عبادت کرنا چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کرلو، انہوں نے دو رکعت نماز کی نیّت باندھی اور اس اہتمام کے ساتھ نماز ادا کی کہ چالیس ہزار(٤٠,٠٠٠) سال کے بعد سلام پھیرا، اللہ پاک نے فرمایا: تم نے بہت اچھی نماز پڑھی ہے، لیکن ایک امّت آنے والی ہے جس کی فجر کی دو سنتیں تیری ان دو رکعتوں سے بڑھ جائینگی جو وہ لوگ اپنی فکروں اور سوچوں سمیت ادا کرینگے کیونکہ ان کی نماز میرے حکم سے ہوگی اور تمہاری نماز تمہاری چاہت سے ہے. جبریل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یااللہ! آپ ان کو ان کی عبادت پر کیا دینگے؟ تو اللہ رب العزت نے فرمایا کہ جنت المأوى دونگا، تو جبریل نے اللہ تعالی سے اس جنت کو دیکھنے کی اجازت مانگی تو اللہ تعالی نے اجازت دے دی، تو جبریل علیہ السلام نے اپنے سارے پَر کھول دیئے (حالانکہ جبریل جب صرف دو پر کھولتے ہیں تو ہر بار پر کھولنے اور بند کرنے پر تین ہزار سال کا سفر طے کرلیتے ہیں) اور جبریل علیہ السلام تین سو سال اڑتے رہے اور تھک کر سجدے میں گر گئے اور عرض کیا
کہ میں اس جنت کے آدھے یا ایک تہائی تک پہنچ گیا ہوں یا نہیں؟ تو جواب ملا کہ اے جبریل! اگر تجھے دوگنی قوت اور پر دیئے جائیں اور تو ہزاروں سال اڑتا رہے تب بھی امت محمدیہ کو دو رکعت پر دیئے جانے والے اجر کے دسویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتا.
روي عن النبيﷺ أنه قال: “لما خلق الله تعالى جبرائيل عليه السلام على أحسن صورة وجعل له ستمائة جناح، طول كل جناح ما بين المشرق والمغرب نظر إلى نفسه فقال (أي: جبريل): إلهي! هل خلقت أحسن صورة مني؟ فقال الله تعالى: لا، فقام جبرائيل وصلى ركعتين شكرًا لله تعالى، فقام في كل ركعة عشرين ألف سنة، فلما فرغ من الصلاة قال الله تعالى: ياجبرائيل! عبدتني حق عبادتي ولا يعبدني أحد مثل عبادتك لكن يجيء في آخر الزمان نبي كريم حبيب إليَّ يقال له: محمد، وله أمة ضعيفة مذنبة يصلون ركعتين مع سهو ونقصان في ساعة يسيرة وأفكار كثيرة وذنوب كبيرة، فوعزتي وجلالي إن صلاتهم أحب إليَّ من صلاتك؛ لأن صلاتهم بأمري وأنت صليت بغير أمري، قال جبرائيل: يا رب! ما أعطيتَهم في مقابلة عبادتهم؟ فقال الله تعالى: أعطيتُهم جنة المأوى. فاستأذن من الله تعالى أن يراها، فأذن الله تعالى له، فأتى جبرائيل وفتح جميع أجنحته ثم طار ( فكلما فتح جناحين قطع مسيرة ثلاثة آلاف سنة وكلما ضم قطع مثل ذلك) فطار على هذا ثلاثمائة عام فعجز ونزل في ظل شجرة وسجد لله تعالى فقال في سجوده: إلهي! هل بلغت نصفها أو ثلثها أو ربعها؟ فقال الله تعالى: ياجبرائيل! لو طرت ثلاثمائة ألف عام ولو أعطيتك قوة مثل قوتك وأجنحة مثل أجنحتك فطرت مثل ما طرت لا تصل إلى عشر من أعشار ما أعطيته لأمة محمد في مقابلة ركعتين من صلاتهم-
* اس حدیث کو درة الناصحين في الوعظ والإرشاد میں عثمان بن حسن بن احمد الخویری نے باب المجلس الثامن في فضيلة الصلاة مع الجماعة میں بغیر سند اور بغیر ذکر راوی کے مشكاة الانوار (ایک شیعہ عالم کی ہے جس کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ یہ کتاب غریب، ضعیف ترین،موضوع اور من گھڑت روایات کا مجموعہ ہے) کے حوالےسے ذکر کیا ہے،
* درۃ الناصحین کے متعلق ابن باز رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ یہ غیر مستند روایات کا مجموعہ ہے یعنی اس کتاب میں جھوٹی اور غیر مستند روایات بیان کی گئی ہیں، قال ابن الباز رحمه الله تعالى هذا الكتاب لا يعتمد عليه، وهو يشتمل على أحاديث موضوعة وأحاديث ضعيفة لا يعتمد عليها فلا ينبغي أن يعتمد على هذا الكتاب وما أشبهه من الكتب التي تجمع الغث والسمين والموضوع والضعيف (مجموع فتاوى ابن باز ج٦ ص٥٢٢)
* اس حدیث کے متعلق أشرف بن ابراہیم بن احمد قطقاط رحمہ اللہ نے اپنی کتاب البرهان المبين في التصدي للبدع والأباطيل ج٢ ص٥٥١ میں لکھا ہے هذه الرواية موضوعة و ليس لها أصل،
*اور اسی طرح عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ (فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية و الإفتاء رقم ٧٨١١) میں لکھا ہے کہ هذا الحديث لا أصل له بل هو من الأحاديث المكذوبة على رسول الله صلى الله عليه وسلم.
والله اعلم بالصواب وعلمه اتم_
ما شاء اللہ
ReplyDeleteبہت خوب
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں
جزاكم الله خيرا واحسن الجزاء
ReplyDelete,ما شاء اللہ
ReplyDeleteجزاكم الله خيرا واحسن الجزاء في الدارين
ReplyDeleteBest
DeleteVery nice
ReplyDeleteماشاء الله
ReplyDeleteتحقيق جيد
عطاء الله الميواتي
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین
ReplyDeleteGood
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ ترقیات سے نوازے آمین ثم آمین
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین
ReplyDelete👌👌👌
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت خوب
ابتدا ہی زبردست
ReplyDeleteشاندار
ReplyDeleteشاندار
ReplyDeleteآپ کی محنتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
ReplyDeleteMasha allah
ReplyDelete