Wednesday, 12 February 2020

خواتین کا شادی کے بعد اپنے شوہروں کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا

                                          بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
(شادی کے بعد عورت کا اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا)
سوال۔  اکثر عورتیں اپنے والد کا نام ہٹا کر  اس کی جگہ اپنے شوہر کا نام اپناتی ہیں،مثلا کسی عورت کا شادی سے پہلے نام فاطمہ مقصود تھا،اور شادی کے بعد اپنے شوہر کے نام کے ساتھ جوڑ کر فاطمہ ساجد رکھتی ہے،تو بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا حرام ہے اور یہ کفار کا طریقہ ہے تو کیا یہ صحیح ہے؟ آیت قرآنیہ اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
سائل: مولوی مقصود ویراوال گجرات الہند
                   فاضل: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

جواب۔  مذکورہ سوال کے سلسلے میں دو باتیں قابل ذکر ہیں
(١)  عورت کا اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانے کا جواز قرآن اور احادیث کی روشنی میں
(٢)   وہ قرآنی آیات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ولدیت تبدیل کرنے پردلالت کرتی ہیں اس کی مکمل وضاحت

(١)  عورت کے نام کے ساتھ والد کا نام لگے یا شوہر کا درحقیقت اس سے مقصد تعارف و شناخت ہے، اور یہ شناخت ان دونوں طریقوں سے ہو سکتی ہے، بعض عورتوں کا تعارف اللہ نے ان کے شوہروں کی نسبت سے کرایا ہے

قرآن مجید: امراة نوح وامراة لوط كانتا تحت عبدين من عبادنا صالحين (التحريم ١٠)
ترجمہ۔  نوح علیہ السلام کی بیوی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اللہ کے بندوں میں سے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھی۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کی نسبت شہروں کی طرف کی گئی ہے، اور درج ذیل آیت میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون ملعون کی طرف کی گئی ہے،
وضرب الله مثلا للذين امنوا امراة فرعون (التحريم ١١)
*وقال نسوة في المدينة امراة العزيز تراود فتاها عن نفسه قد شغفها حبا انا لنراها في ضلال مبين (يوسف)
*اذ قالت امراة عمران ربي اني نذرت لك مافي بطني محررا (آل عمران ٣٥)
مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں اللہ سبحانہ وتعالی نے عورتوں کی نسبت ان کے شوہروں کی طرف کی ہے،لہذا معلوم ہوا کہ عورت کا اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا جائز اور درست ہے،
حدیث  جاءت زينب امراة ابن مسعود رضي الله تعالى عنه تستاذن عليه فقيل يا رسول الله هذه زينب فقال اي الزيانب؟ فقيل امراة ابن مسعود قال نعم ايذنوا لها (متفق عليه)
اسی طرح حضرت عطاء رحمہ للہ کابیان ہے کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ تھے سرف کے مقام پر حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے جنازے پر حاضر ہوئے تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا هذه زوجة النبي صلى الله عليه وسلم (صحیح البخاری رقم ٤٧٨٠)
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ عورت کا اپنے شوہر کا نام لگانا صحیح اور درست ہے
اسی طرح کثیر روایات ایسی ہیں جن میں ازواج مطہرات اور دیگر صحابیات کی نسبت ان کے شوہروں کی طرف کی گئی ہے مثلا عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم

(٢)   وہ قرآنی آیات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ولدیت تبدیل کرنے پردلالت کرتی ہیں ان کی مکمل وضاحت
جو حضرات اس طرح کے نام لگانے کو حرام قرار دیتے ہیں ، اور اس کو کفار کا طریقہ کہتے ہیں ،اور قرآن و احادیث سے استدلال کرتے ہیں ،انکے مستدلات سے مراد ولدیت تبدیل کرنا ہے جو بالاتفاق حرام ہے اور اس کی احادیث میں وعیدیں بھی مذکور ہیں ،عورت کا اپنے شوہر کا نام لگانا یہ ولدیت تبدیلی نہیں ہے بلکہ صرف شناخت و تعارف کے طور پر یہ نسبت جوڑی جاتی ہے
اب ہم ذیل میں ولدیت تبدیل کرنے کو قرآن اور احادیث سے واضح کرتے ہیں
قرآن۔ ادعوهم لابائهم هو اقسط عند الله ( سورة الاحزاب ٥)
ترجمہ۔  تم ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ سے پکارا کرو یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عادل ہے
حدیث عن ابي ذر رضي الله تعالى عنه انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول ليس من رجل ادعى لغير ابيه وهو يعلمه الا كفر (صحيح البخاري رقم ٣٣١٧)(صحيح مسلم رقم ٦١)
جان بوجھ کر ولدیت تبدیل کرنے کا حکم
عن سعد رضي الله تعالى عنه طول سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول من ادعى الى غير ابيه وهو يعلم انه غير ابيه فالجنة عليه حرام (صحيح البخاري الرقم  6385، صحيح مسلم رقم 3 6)
عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من انتسب الى غير ابيه او تولى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين (سنن ابني ماجه رقم 0 7 8 دار الفكر بيروت)
قرآن کریم اور ان احادیث رسول کے دلائل سے معلوم ہو گیا کہ ولدیت تبدیل کرنا یعنی اپنا باپ دوسرا بتانا یہ تو حرام اور ناجائز ہے، جبکہ ولدیت تبدیل کیے بغیر پہچان کے لیے اپنی نسبت کسی کی طرف کرنا یہ جائز اور درست ہے، اور یہی دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہے۔
فقط والسلام
⁦✍️⁩ حسان بن شیخ یونس تاجپوری
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
تاریخ: ١١/فروری ٢٠٢٠ بروز منگل

29 comments:

  1. الله يعطيك العافيه

    ReplyDelete
  2. ما شاء اللہ بہت خوب جناب

    ReplyDelete
  3. ما شاء اللہ بہت خوب
    اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں

    ReplyDelete
  4. ماشاء اللہ
    اللہ تعالیٰ آپ کو دارین کی کامیابیوں سے سرفراز فرمائے

    ReplyDelete
  5. ماشاء اللہ بہت خوب
    اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں

    ReplyDelete
  6. اللہ تعالیٰ قبول فرمائے

    ReplyDelete
  7. اللہ تعالیٰ آپ تمام احباب کی محنتوں کو قبول فرمائے آمین

    ReplyDelete
  8. بہت ہی عمدہ تحریر

    ReplyDelete
  9. آپ محترم کو دارین میں بہترین بدلہ نصیب ہو

    ReplyDelete
  10. آپ محترم نے میرے سوال کا جواب دیدیا

    ReplyDelete
  11. جید جدا
    ابراہیم بن حافظ

    ReplyDelete
  12. کافی دنوں سے یہ سوال کھٹک رہا تھا
    آپ محترم نے تمام تر مشکلات کو دور کردیا

    ReplyDelete
  13. آپ کی محنتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین

    ReplyDelete