بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
("حب الوطن من الايمان" کی مکمل تحقیق)
سوال۔ (حب الوطن من الايمان) وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ، اس قسم کے الفاظ کیا احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پاۓ جاتے ہیں؟اس کی تحقیق مطلوب ہے؟
سائل: مفتی زبیر صاحب تاجپوری دامت برکاتہ
استاذ الحدیث والفقہ: جامعہ امین القرآن پانپور
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب۔ (حب الوطن من الايمان)
ترجمہ۔ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے
اس کی تحقیق و تخریج👇👇👇
اس قسم کی بات عوام الناس میں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر مشہور ہے،جب کہ مذکورہ الفاظ کی نسبت، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا صحیح اور درست نہیں ہے،اس لئے کہ محدثین نے اس روایت کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہیں۔ جیسے👇👇👇
(١) امام اللغة ابو الفضائل حسن بن محمد بن حسن الصغانی رحمہ اللہ(٦٥٠ هـ) نے اپنی کتاب الموضوعات ص٥٣ میں اس کو موضوع لکھا ہے۔
(٢) علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الدرر المنتثرة ص٦٥ میں لکھا ہے لم اقف عليه.
(٣)ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الأسرار المرفوعة ص١٨٩ میں لکھا ہے قيل لا أصل له أو بأصله موضوع.
(٤) علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب السلسلة الضعيفة ص٣٦ میں لکھا ہے کہ موضوع ہے۔
(٥) ابن عثیمین محمد بن صالح بن محمد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح النزهة ص٥٥ میں لکھا ہے مشهور لا أصل له،اور آپ نے اسی کتاب کے ص ١٩٨ پر لکھا ہے کہ هذا ليس بحديث،آپ رحمہ اللہ شرح ریاض الصالحین کے ج ٥ ص ٣٣٠ پر لکھتے ہیں کہ غير صحيح۔
(٦) علامہ سخاوي نے (٩٠٢ هـ) اپنی کتاب المقاصد الحسنة ص ٢١٨ میں لکھا ہے: لم أقف عليه مجھے اس قسم کے الفاظ نہیں ملے۔
(٧) محمد بن محمد الغزي (١٠٦١ هـ) نے اپنی کتاب إتقان ما يحسن ج١ ص٢٢٢ میں رقم طراز ہے: ليس حديثا( یہ حدیث نہیں ہے)
(٨) علامہ الزرقاني (١١٢٢ هـ) اپنی کتاب مختصر المقاصد ص ٣٦١ پر لکھتے ہیں ( لا أعرفه)
(٩) محمد جار الله الصعدي (١١٨١ هـ) اپنی کتاب النوافح العطرة ص ١٢٠ لم يرد (یہ الفاظ حدیث کے طور پر وارد نہیں ہے)
(١٠) الوادعي (١٤٢٢ هـ) لکھتے ہیں اپنی کتاب الفتاوى الحديثية ج ١ ص ٥٦ لم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم(یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور مروی نہیں ہے)
یہ لمبی تحقیق لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ حب وطن ایمان کا حصہ اور جز نہیں ہے، اور اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا ہرگیز درست اور صحیح نہیں ہے،
البتہ محدثین میں سے علامہ سخاوی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے معنی کو صحیح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روایت اگرچہ صحیح نہیں، لیکن اس کا معنی درست ہے.
وقال في المقاصد: لم أقف عليه، ومعناه صحيح.
جب کہ دیگر محدثین نے علامہ سخاوی رحمہ اللہ کے اس قول کو قبول نہیں کیا اور ایمان اور وطن کی محبت کے تلازم کا انکار کیا ہے، اور ایمان کے جز ہونے کا انکار کیا ہے۔
ورد القاري قوله: (ومعناه صحيح) بأنه عجيب، قال: إذ لا تلازم بين حب الوطن وبين الإيمان.
پس مذکورہ بالا تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ وطن کی محبت کو ایمان کا جز قرار دینا اور اس کی نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا صحیح نہیں، البتہ بعض دیگر کچھ روایات سے وطن کی محبت کا ممدوح ہونا معلوم ہوتا ہے، تاہم ان روایات میں سے کسی سے بھی محبتِ وطن کا ایمان کا جز ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
١۔ ما أطيبَكِ مِن بلدةٍ وأحَبَّك إليَّ، ولولا أنَّ قومي أخرَجوني منكِ ما سكَنْتُ غيرَكِ. (صحيح ابن حبان عن عبد الله بن عباس، الصفحة أو الرقم: 3709)
ترجمہ: ہجرت کے موقعے پر مکہ کو مخاطب کرکے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ اور میرا محبوب شہر ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی میں کہیں اور نہ رہتا.
٢۔ اللَّهمَّ حبِّبْ إلينا المدينةَ كما حبَّبْتَ إلينا مكَّةَ وأشَد. اللَّهمَّ بارِكْ لنا في صاعِها ومُدِّها وانقُلْ وباءَها إلى مَهْيَعةَ. (وهي الجُحفةُ). (صحيح ابن حبان عن عائشة، الصفحة أو الرقم: 5600)
ترجمہ: ہجرت کے بعد آپ علیہ السلام نے مدینہ منورہ کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دل میں مکہ کی محبت سے زیادہ فرمادے.
٣۔ قال الإمام البخاري رحمه الله تعالي في صحيحه: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَأَبْصَرَ دَرَجَاتِ المَدِينَةِ، أَوْضَعَ نَاقَتَهُ، وَإِنْ كَانَتْ دَابَّةً حَرَّكَهَا». قَالَ أَبُوعَبْدِاللَّهِ: زَادَ الحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ: حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا.
ترجمہ: امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت نقل کی ہے کہ آپ علیہ السلام جب سفر سے واپسی پر مدینہ تشریف لاتے تو مدینہ کے راستے یا مکانات نظر آتے ہی آپ علیہ السلام اپنی سواری کو مدینہ کی محبت میں تیز کردیتے.
وقال الحافظ ابن حجر رحمه الله تعالي في الفتح: فيه دلالة على فضل المدينة، وعلى مشروعية حب الوطن، والحنين إليه.
ترجمہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مدینہ کی فضیلت کے ساتھ ساتھ وطن کی محبت کے جواز اور اس کی طرف شوق کا بھی پتا چلتا ہے.
وقال الإمام ابن بطال المالكي رحمه الله تعالى في شرحه على صحيح البخاري: قوله: (من حبها) يعني؛ لأنها وطنه، وفيها أهله وولده الذين هم أحب الناس إليه، وقد جبل الله النفوس على حب الأوطان والحنين إليها، وفعل ذلك عليه السلام، وفيه أكرم الأسوة، وأمر أمته سرعة الرجوع إلى أهلهم عند انقضاء أسفاره.
ترجمہ: ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کی محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواری تیز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کا وطن ہے، اور اس میں آپ ﷺ کے اہل وعیال تھے جو آپ ﷺ کو لوگوں میں سب سے محبوب تھے، اور جہاں انسان کے گھر والے ہوتے ہیں اس وطن سے قدرتی طور پر محبت کا ہونا اور وہاں لوٹ کر آنے پر خوش ہونا فطری عمل ہے، اور آپ علیہ السلام کے اس عمل میں بہترین نمونہ ہے، اور آپ ﷺ نے امت کو سفر ختم ہونے کے بعد جلدی اپنے گھروالوں کی طرف لوٹنے کی تعلیم دی ہے.
٤۔ فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزله الله به على موسى، يا ليتني فيها جذع! ليتني أكون حياً إذ يخرجك قومك! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أو مخرجي هم؟ قال: نعم، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك أنصرك نصراً مؤزراً. (صحيح البخاري، جزء: 1 صفحة: 4) قال السهيلي: يؤخذ منه شدة مفارقة الوطن على النفس؛ فإنه صلى الله عليه وسلم سمع قول ورقة: إنهم يؤذونه ويكذبونه، فلم يظهر منه انزعاج لذلك، فلما ذكر له الإخراج؛ تحركت نفسه لذلك؛ لحب الوطن والفته، فقال: "أو مخرجي هم؟" (فتح الباري لابن حجر، جزء 12، صفحة: 359)
ترجمہ: جب آپ علیہ السلام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئے تو انہوںنے آپ علیہ السلام کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کو جھٹلائےگی اور آپ کو اذیت دےگی اور آپ علیہ السلام کو اس شہر سے نکالےگی، تو آپ علیہ السلام نے ان تمام باتوں میں سے قوم کی جانب سے جلاوطنی پر تعجب ودکھ کا اظہار فرمایا کہ باقی تکالیف سہہ لی جاتی ہیں، لیکن وطن کی جدائی سہنا مشکل ہے۔ (ماخوذ از فتاویٰ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی)
اس قسم کے الفاظ (حب الوطن من الايمان) کو صرف شیخ عباس القمی (هو رجل شيعي إيراني معروف باسم المحدث القمي قد اشتهر بكتابه مفاتيح الجنان) نے اپنی کتاب سفينة البحار ج ٨ ص٥٢٥ پر نقل کی ہے، لکن یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ شیعہ حضرات کی ایک بھی کتاب معتبر اور صحیح نہیں ہے، چنانچہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ روافض کی روایات کے متعلق علامہ سیوطی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:-
(واما البدعة الكبرى كالرفض الكامل،والغلو فيه والحط عن الشيخين -ابي بكر وعمر رضي الله عنهما- فلا ، ولا كرامة،لا سيما لست استحضر الآن من هذا الضرب رجلا صادقا ، ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والنفاق والتقية دثارهم، فكيف يقبل من هذا حاله)
(مقدمہ فتح الملہم، روایات أہل البدع و الاہواء ص 172)
ترجمہ۔ اور اگر کسی راوی میں بدعت کبریٰ پائی جائے جیسے کوئی غالی رافضی اور شیعہ ہو،اور حضرات شیخین یعنی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو ان کے مقام سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہو، تو ان کی روایات قابل قبول نہیں ،کیوں کہ ابھی تک میں نے اس قبیل کے لوگوں میں کسی کو صادق اور امین نہیں پایا ہے، بلکہ جھوٹ منافقت اور تقیہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، تو ایسے شخص کی بات روایت کیوں قبول کی جا سکتی ہے؟
اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے دور میں فرمایا تھا کہ یہ لوگ یعنی شیعہ حضرات کافر ہیں۔
( کتاب الاعتصام للشاطبی ج2)
اور کافر کی بات احادیث وروایات میں معتبر اور قابل اعتماد نہیں ہے۔والله أعلم بالصواب
فقط والسلام
جمعه ورتبه:ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری
مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا گجرات
فون نمبر:919428359610
11/مارچ 2020ء بروز بدھ
Mashaallah
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت خوب
ReplyDeleteماشاء الله
ReplyDeleteMashallah bahut khub Allah or jayada tarqqiyat se nawaze
ReplyDeleteAllah ustaze mohatram ko Puri dunya mi chamkay
ReplyDeleteآمین ثم آمین یارب العالمین
ReplyDeleteاللہ تعالی قبول فرماءے
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت خوب
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائیں
ReplyDeleteماشاءاللہ
ReplyDeleteGood
ReplyDeleteMashaallah
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت ہی عمدہ
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
Good
ReplyDeleteماشاء اللہ
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
مولانا حسان صاحب بہت ہی خوب
ReplyDeleteتحقیق اچھی ہے
ReplyDeleteGood
ReplyDeleteVery nice
اللہ یعطیک العافیۃ فی الدنیا و الآخرۃ
ReplyDeleteتحقیق پسند آئی
ReplyDeleteحماد
ما شاء اللہ
ReplyDeleteاللہ یعطیک العافیۃ فی الدنیا والآخرۃ
Mashaallah
ReplyDeleteMashaallah thqiq khubhi psand aayi
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت خوب جناب آپ کی تحریر
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ تقبل منا و منکم جمیع أعمالنا
ReplyDeleteماشاء اللہ
ReplyDeleteشاندار
قبول قبول
ان الباطل کان زھوقا
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت خوب جناب آپ کی تحقیقات اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین ثم آمین یا رب العالمین
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت خوب جناب
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرماکر دارین میں بہترین بدلہ نصیب فرمائے آمین
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے ، اللہ تعالیٰ دارین میں بہترین بدلہ نصیب فرمائے آمین
ReplyDeleteانا من غزۃ ماشاء اللہ مقبول، جید جدا
ReplyDeleteتقبل اللہ منا ومنکم صالح أعمالنا
آپ کی محنتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
ReplyDeleteماشاء الله
ReplyDeleteماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت اور عمدہ کارکردگی
ReplyDelete