بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
سوال۔ (عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لا یدخل الجنة من کان فی قلبه مثقال ذرة من کبر ) (رواه الترمذي رقم الحديث ١٩٩٩)
اس روایت میں ذرۃ من کبر سے کیا مراد ہے ؟ اس لیے کہ کبر میں تجزی نہیں ہے، تو پھر ذرۃ من کبر کیوں فرمایا؟ محقق جواب مطلوب ہے؟۔
فقط والسلام
سائل: مولانا لقمان صاحب کھیڈا
مدرس: جامعہ محمودیہ بھاونگر
جواب۔ الكبر من اعمال القلب كما ان الايمان من اعمال القلب، وعمل القلب لا يتجزى،ولكن ورد في الحديث كما في البخاري اخرجوا (من النار )من كان في قلبه مثقال حبة من ايمان- الايمان لايتجزى ولكن الكيفيات اي النور والانشراح والطمانينة عليه يترتب بالاعمال، وهذه الكيفيات تتجزى، كما قال الله تعالى: ليزدادوا ايمانا مع ايمانهم، وقال: ليزداد الذين امنوا ايمانا-في هذه الايات ليس المراد نفس زيادة الايمان، بل كيفية الإيمان،الصحابة يزداد النور ايمانهم ببركة اتباع النبي صلى الله عليه وسلم،كذلك الكبر ضد الايمان،هو من اعمال القلب يترتب عليه الكيفية اي الظلمة والوحشة وعدم الطمانينة، وهي تتجزى، وبهذا الاعتبار قال في الحديث مثقال حبة من كبر_
ترجمہ۔ کبر اعمال قلوب میں سے ہے،جیسے ایمان اعمال قلب میں سے،اور اعمال قلب کہ اس میں تجزی نہیں ہے، لیکن حدیث میں جو بخاری میں ہے وارد ہوا ہے کہ تم ان کو نکال دو جہنم سے جن کے دل میں ایمان کا ایک حصہ بھی ہو،ایمان میں تجزی نہیں، لیکن کیفیات ایمانی یعنی نور،انشراح، طمانینت کے وہ اعمال کی وجہ سے مرتب ہوتے ہیں، اور یہی کیفیات میں تجزیی ہے، جیسے اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن میں فرمایا لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم اور ایک جگہ پر فرمایا لیزدادوا الذین امنوا ایمانا، ان آیات میں نفس ایمان کی زیادتی مراد نہیں ہے،بلکہ کیفیت ایمان کی زیادتی مراد ہے۔ کہ صحابہ ان کے ایمان کا نور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی برکت سے بڑھتا تھا،اسی طرح کبر ایمان کی ضد ہے، اور وہ اعمالِ قلوب میں سے ہے، اس پر بھی کیفیت مرتب ہوتی ہے، یعنی ظلمت وحشت اور عدم طمانینۃ، اور ان میں تجزیی ہے، اسی وجہ سے حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مثقال حبة من كبر.
جواب ثانی۔ ان كان في القلب عمل الخير كالايمان والتوكل والإنابة والتواضع والعجز والقناعة، يترتب عليها النور والطمانينة وبازديادها يزداد الايمان ويتقوى، وان كان في القلب عمل الشر كالكبر والحرص والبخل والغش والخيانة يترتب عليها الظلمة والوحشة، وبهذا التقرير يحصل الجواب عما قيل في الاية( يا ايها الذين امنوا امنوا) الايمان على الايمان هو تحصيل الحاصل،وهو محال،والمراد يا ايها الذين امنوا داوموا على ايمانكم واستقيموا عليه، والمداومة ليس نفس الايمان بل اثر الايمان ونتيجته.
ترجمہ۔ اگر دل میں خیر کا عمل ہے جیسے ایمان توکل فرمابرداری تواضع عاجزی اور قناعت تو اس پر نور اور اطمینان مرتب ہوتا ہے، اور ان کے بڑھنے سے ایمان بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا ہے،اور اگر دل میں شرکا عمل ہو جیسے کبر حرص بخل دھوکہ اور خیانت تو اس پر ظلم تو وحشت مرتب ہوتے ہیں،اس مختصر سی تقریر سے اس سوال کا جواب حاصل ہو گیا جو سوال قرآن کی اس آیت میں ہوتا ہے( يا ايها الذين امنوا امنوا) ایمان پر ایمان یہ تو تحصیل حاصل ہے جو محال ہے،تو اس سے مراد یہ ہوگا يا ايها الذين امنوا داوموا على ايمانكم واستقيمواعليه ایمان والو اپنے ایمان پر مضبوط اور اور قائم دائم رہو،مداومت نفس ایمان نہیں ہے، بلکہ ایمان کا اثر اور اس کا ایک نتیجہ ہے۔
فقط والسلام
هذا ما تيسر لابي وأستاذي سماحة الأستاذ شيخ الحديث محمد يونس بن عثمان المظاهري
شيخ الحديث: جامعة إسلامية إمداد العلوم بودالي
جمعه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا
19/مارچ 2020 بروز جمعرات
19/مارچ 2020 بروز جمعرات
Good
ReplyDeleteNight
ReplyDeleteویری نائس
ReplyDeleteما شاء اللہ بہت خوب
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائیں
ماشاءاللہ بہت خوب
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائیں
بہت خوب
ReplyDeleteعبد اللہ بن رشید
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین
ReplyDeleteاور ہماری دعائیں آپ محترم کے ساتھ ہے
ماشاء اللہ
ReplyDeleteاللہ تعالی قبول فرمائے ۔آمین
پسندیدہ تحقیق ہے
ReplyDeleteGood
ReplyDeleteNice
ReplyDeleteتحقیقات بہت ہی شاندار
ReplyDeleteماشاءاللہ
پسندیدہ
ReplyDeleteآپ کے والد صاحب کی بات ہی نہیں ہوسکتی
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ نے زبردست مہارت دی ہے منقول ومعقول میں
ReplyDelete👍👍👍👍👍👍
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ آپ کے والد صاحب کو شفا کاملہ عاجلہ مستمرہ نصیب فرمائے آمین
ReplyDeleteGood
ReplyDeleteBhai mast
ReplyDeleteپسندیدہ
ReplyDeleteبھائی شاندار
ReplyDeleteآپ کی محنتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
ReplyDelete