بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(نمازے جنازہ کی ثناء میں "وجلَّ ثناءك" پڑھنے کی تحقیق)
سوال۔ نمازے جنازہ کی ثناء میں”وجل ثناءک“ کاثبوت کسی حدیث سے ثابت ہے؟ اس کے متعلق مکمل تحقیق مطلوب ہے؟
سائل:۔ مولوی عبد الصمد کلولوی
مدرس:۔ جامعہ کنز العلوم احمد آباد
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب۔ اس سلسلے میں تین باتیوں کا جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(١) کیا نمازے جنازہ میں''وجلَّ ثناءك'' کا پڑھنا بدعت ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو کیوں؟
(٢) کیا احادیث میں''وجلَّ ثناءك'' کے الفاظ کا ثبوت ملتا ہے۔
(٣) فتاویٰ کی کتابوں میں اس سلسلے (اس کو پڑھا جائے یا نہیں) میں کیا مرقوم ہے؟
تفصیل الجواب (١) کیا نمازے جنازہ میں''وجلَّ ثناءك'' کا پڑھنا بدعت ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو کیوں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثناء کے بارے میں منقول ومشہورروایات میں ''جل ثناؤک''کے الفاظ موجود نہیں ، بعض غیر مشہور و نادرروایات اور ماثور دعاؤں میں یہ الفاظ منقول ہیں ؛ لہاذا فی نفسہ اس کا ثبوت حدیث میں موجود ہے، اس لیے نماز جنازہ میں یہ الفاظ پڑھنادرست اور جائز ہے،اس کااضافہ بدعت نہیں۔
تفصیل الجواب(٢) کیا احادیث میں''وجلَّ ثناءك'' کے الفاظ کا ثبوت ملتا ہے۔
جی! احادیث میں ''وجلَّ ثناءك'' کا ثبوت ملتا ہے،اگرچہ وہ روایات غیر مشہور اور نادر ہیں۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثناء سے متعلق جوالفاظ منقول ہیں ان میں اس کااضافہ ہے
(١) عن ابن مسعود رضي الله عنه " إن من أحب الكلام إلى الله عز وجل أن يقول العبد : سبحانك اللهم وبحمدك ، وتبارك اسمك وتعالى جدك ، وجل ثناؤك ولا إله غيرك ، وأبغض الكلام إلى الله أن يقول الرجل للرجل : اتق الله فيقول عليك نفسك "
(مسند الفردوس للدیلمی الہمذانی ج1ص 214 رقم الحدیث:819المکتبۃ الوقفیۃ)
ترجمہ۔ "اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ترین کلام یہ ہے کہ بندہ کہے "سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك وجل ثناءك ولا إله غيرك" (اے اللہ! تو پاک ہے،( ہم )تیری حمد کے ساتھ (تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں)۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے اور تیری بزرگی بلند ہے۔ اور تیری حمد و ثنا بلند ہے، اور تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے) اللہ کے یہاں بدترین کلام یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو یہ کہے (اتق الله)اللہ سے ڈر؟ تو وہ کہے تو اپنی فکرکر۔
اور اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
(٢)عن ابن عباس ؓ قال: (اللہم کن لی جارا من شرہم جل ثناؤک و عز جارک و تبارک اسمک و لا الہٰ غیرک )
(مصنف ابن أبی شیبۃ کتاب الدعاء،باب الرجل یخاف السلطان ما یدعو،ج10ص 203،رقم الحدیث:29787)
ترجمہ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا اے اللہ تو میرا محافظ بنجا ان کے شر سے، تیری حمد بلند ہے، تیرا پڑوسی باعزت ہے،تیرا نام بابرکت ہے، تیرے سوا معبود حقیقی کوئی نہیں ہے۔
ترمذی شریف میں ہے:
(٣) شَكَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَنَامُ اللَّيْلَ مِنَ الْأَرَقِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ ؛ فَقُلِ : اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظَلَّتْ، وَرَبَّ الْأَرَضِينَ وَمَا أَقَلَّتْ، وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضَلَّتْ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ خَلْقِكَ كُلِّهِمْ جَمِيعًا ؛ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ، أَوْ أَنْ يَبْغِيَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ " الخ
( سنن الترمذي | أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رقم الحديث 3523)
مجمع الزوائد میں ہے
(٤)عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليہ وسلم قال:إذا تخوف أحدكم سلطاناً فليقل: اللهم رب السماوات السبع ورب العرش العظيم، كن لي جاراً من شر فلان بن فلان - يعني الذي يريد - وشر الجن والإنس وأتباعهم، أن يفرط علي أحد منهم، عز جارك وجل ثناؤك ولا إله غیرك.رواه الطبراني ، ورجاله رجال الصحيح غير جنادة بن سلم ، وقد وثقه ابن حبان ، وضعفه غيره .
(مجمع الزوائد للهيثمي كتاب الأدعية،ج10ص146)
تفصیل الجواب (٣) فتاویٰ کی کتابوں میں اس سلسلے (اس کو پڑھا جائے یا نہیں) میں کیا مرقوم ہے
تو اس سلسلے میں حاشیۃ الطحطاوی میں ہے
وذكر شمس الأئمة الحلواني وشمس الأئمۃ السرخسي أن محمداً رحمه الله ذكر في كتاب الحجج على أهل المدينة، قال شمس الأئمة الحلواني: قال مشايخنا: إن قال :وجلّ ثناؤك لم يمنع عنه، وإن سكت عنه لم يؤمر به “
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ج 1 / ص 173)
نیز طحطاوی میں ہے
قال فی سکب الانہر والاولیٰ ترک وجل ثناؤک الا فی صلاۃ الجنازۃ
(طحطاوی علی المراقی ص ۵۸۴)
نیز عمدۃ الفقہ میں ہے,وجل ثناؤک کا اضافہ بہتر ہے
(عمدۃ الفقہ ج٢)
اسی طرح درمختار وغیرہ کتبِ فقہ میں ہے کہ اسے پڑھے تو اسے روکا نہ جائے اور نہ پڑھے تو اسے اس کا حکم نہ دیا جائے۔وقرأ کما کبر سبحانک اللّٰہم تارکاً وجل ثناء ک إلا في الجنازة۔ (الدرالمختار مع الشامي ۲/۱۸۹ط:زکریا دیوبند)
وفي منیة المصلي: وإذا زاد ”وجل ثناء ک“ لا یمنع، وإن سکت لا یؤمر بہ۔
وفي الکافي: أنہ لم ینقل في المشاہیر، وفي البدائع: أن ظاہر الروایة الاقتصار علی المشہور۔ (البحر الرائق ۱/۳۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
✍️ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند
مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات
07/مارچ 2020بروز سنیچر
اللہ تعالیٰ آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے
ReplyDeleteاور اس کا دارین میں بہت سے بہت بدلہ نصیب فرمائے
ماشاءاللہ
ReplyDeleteماشاء الله
ReplyDeleteاسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ReplyDeleteوعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ReplyDeleteNice
ReplyDeleteAllah tala Kabul frmae
ReplyDeleteما شاء اللہ
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قیامت آپ محترم سے کام لے
ما شاء اللہ بہت خوب جناب
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائیں
آمین یارب العالمین
اس طرح کا کام شروع رکھے
ReplyDeleteہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہ ہے
Viry nice
ReplyDeleteViry nice
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت خوب
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائے
اللہ تعالی قبول فرمائے
ReplyDeleteابو اسید
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ ترقیات سے نوازے آمین
👍👍👍👍👍👍
ReplyDeleteمولانا حسان بن شیخ یونس صاحب
ReplyDeleteتحقیقات بہت ہی عمدہ ہیں
ابو محمد
Good
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائیں
ReplyDeleteMasha Allah
ReplyDelete👌👌👌
માશા અલલ્લાહ
ReplyDeleteتحقیقات شاندار ہیں
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے
ReplyDeleteماشاءاللہ اللہ تعالٰی آپ کو ہمیشہ خوش و خرم اور شاد و آباد رکھے آمین ثم آمین یارب العالمین
ReplyDelete