بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے اذان نہ دینے کی وجہ سے سورج کا طلوع نہ ہونا)
سوال۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے اذان کے بارے میں شکایت کی کہ وہ کلمات اذان میں مخارج کما حقہ اداء نہیں کرتے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اذان دینے سے معزول کردیا،اور دوسرے صحابئ رسول کو مقرر کیا،جب صبح کا وقت ہوا تو سورج طلوع نہیں ہوا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین متحیر وپریشان ہوگۓ کہ سورج کیوں طلوع نہیں ہوا،پھر کیا تھا حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ آسمانوں پر کہرام مچ گیا گیا ہے،اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ جب تک بلال اذان نہیں دینگے اس وقت تک سورج طلوع نہیں ہوگا۔ کیا یہ واقعہ درست اور صحیح ہے؟ کسی مستند روایت سے ثابت ہے مکمل تحقیق مطلوب ہے؟
سائل: مولوی مجاہد ایلولوی
فاضل: جامعہ امین القرآن پانپور
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب۔ مذکور سوال کے سلسلے میں تین باتیں قابل ذکر ہیں۔
(١) اس حدیث کی تحقیق جس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ اذان میں "اشهد" کی جگہ "اسهد" (شین کی جگہ سین) پڑھتے تھے۔
(٢) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو اذان سے معزول کرنا اس واقعہ کی تحقیق۔
(٣) سورج کے طلوع ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں مکمل تحقیق۔
تفصیل الجواب (١)اس حدیث کی تحقیق جس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ اذان میں "اشهد" کی جگہ "اسهد" (شین کی جگہ سین) پڑھتے تھے۔
اس میں اکثر لوگ یہ الفاظ بطورِ حدیث کے پیش کرتے ہیں (قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنَّ سين بلالٍ عند الله شينًا)
ترجمہ۔ بیشک بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا "اسهد" کا سین اللہ تعالی کے یہاں شین ہے۔
(١) اس حدیث کے بارے میں ابن كثير (متوفی ٧٧٤ هـ)اپنی کتاب الأحكام الكبير ج١ ص ١٥٥ میں لکھتے ہیں (لا أصل له) اس قسم کے الفاظ کی کوئی حقیقت اور اصل نہیں ہے،بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے۔
( ٢) ابن كثير (متوفی ٧٧٤هـ) اپنی دوسری کتاب البداية والنهايۃ ج ٧ ص ١٠٤ میں لکھتے ہیں ( ليس له أصل)
(٣) ملا علي قاري رحمہ اللہ (متوفی ١٠١٤ هـ) اپنی کتاب الأسرار المرفوعة ص ٢٢٥ میں لکھتے ہیں ( قيل لا أصل له أو بأصله موضوع)
اس کی کوئی اصل نہیں ہے،اصل سے ہی موضوع اور من گھڑت ہے۔
(٤) امام القاوقجي (متوفی ١٣٠٥ هـ) اپنی کتاب اللؤلؤ المرصوع ص ١٠٠ پر لکھتے ہیں ( ليس له أصل)
(٥) وقال الزركشي رحمه الله:
" قَالَ الْحَافِظ جمال الدّين الْمزيّ : اشْتهر على أَلْسِنَة الْعَوام : أن بِلَالًا رَضِي الله عَنهُ كَانَ يُبدل الشين فِي الأذان سينا، وَلم نره فِي شَيْء من الْكتب" (التذكرة في الأحاديث المشتهرة) (ص: 207)
(٦) اسی طرح علامہ الزرقاني (متوفی ١١٢٢ هـ) اپنی کتاب مختصر المقاصد ص ٥٤٧ پر لکھتے ہیں کہ (باطل , لا أصل له , بل كان فصيحا) یہ تو باطل ہے، کوئی اصل نہیں ہے، اور بلال حبشی رضی اللہ عنہ تو فصیح تھے،
ان تمام اقوال سے یہ معلوم ہوگیا کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا اذان میں مخارج کا کما حقہ اداء نہ کرنے کی جو روایت واعظین میں مشہور ہے وہ موضوع اور من گھڑت ہے، نیز حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ فصیح تھے جیسے کہ المقاصد الحسنۃ میں ہے ولو كانت فيه لثغة لتوفرت الدواعي على نقلها، ولعابها أهل النفاق والضلال، المجتهدين في التنقص لأهل الإسلام (المقاصد الحسنة)(ص: 397)
اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے👇
قال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لعبد اللَّه بن زيد صاحب الرؤيا: ( ألق عليه، أي على بلال، الأذان، فإنه أندى صوتا منك) رواه أبو داود (499)
اور کشف الخفاء میں ہے (كان بلال من أفصح الناس ، وأنداهم صوتا ) (كشف الخفاء) (1/ 465)
ان تمام تر تحقیقات سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان میں توتلا پن نہیں تھا، کہ مخارج ادا کرنے میں دشواری ہو، بلکہ آپ تو فصیح اور بلند آواز تھے، جیسا کہ مذکور حدیث سے ثابت ہوا۔
تفصیل الجواب(٢) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو اذان سے معزول کرنا اس واقعہ کی تحقیق۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو واقعہ آپ نے ذکر کیا ہے بسیار تلاش کے باوجود کتب حدیث و سیر میں ہمیں نہیں ملا، علماء نے لکھا ہیں کہ یہ واقعہ موضوع اور من گھڑت ہے،اس کی کوئی اصل نہیں ہے،باطل ہے۔
تفصیل الجواب(٣) سورج کے طلوع ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں مکمل تحقیق۔
اخیر میں ہمیے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ صرف سورج کا رکنا یہ صرف حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے ہوا تھا،ان کے علاوہ سورج کا رکنا کسی اور کے لئے نہیں ہوا، اور یوشع بن نون علیہ السلام کے متعلق سورج کا رکنا صحیح روایات سے ثابت ہیں جو درج ذیل ہیں،
عن ابي هريرة رضي الله تعالى عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: (غزا نبي من الأنبياء………..فَغَزا فأدْنى لِلْقَرْيَةِ حِينَ صَلاةِ العَصْرِ، أوْ قَرِيبًا مِن ذلكَ، فقالَ لِلشَّمْسِ: أنْتِ مَأْمُورَةٌ، وأنا مَأْمُورٌ، اللَّهُمَّ، احْبِسْها عَلَيَّ شيئًا، فَحُبِسَتْ عليه حتّى فَتَحَ اللَّهُ عليه)
(صحيح مسلم رقم الحديث: ١٧٤٧، صحيح البخاري رقم الحديث:٣١٢٤،صحيح ابن حبان رقم الحديث:٤٨٠٨)
ترجمہ۔ انبیاء میں سے کسی نبی نے عصر کے وقت یا اس سے قریب قریب کسی شہر میں غزوہ کیا،تو انہوں نے سورج سے کہا کہ تو اللہ کے حکم کا مامور ہے،اور میں بھی اللہ کے حکم کا مامور ہو،پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی اے اللہ تو اس کو ہمارے لئے تھوڑا روک دے چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کو روک دیا،اور اللہ نے ان کو فتح میں کامیابی نصیب فرمائی۔
اس صحیح روایت سے معلوم ہو گیا کہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے سورج کو روکا گیا تھا۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ سورج صرف اور صرف یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے روکا گیا،اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں روکا گیا، چنانچہ مستند احمد میں ہے،
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنَّ الشَّمسَ لم تُحبَسْ على بشرٍ إلّا ليُوشَعَ لياليَ سار إلى بيتِ المقدسِ.
(المسند لاحمد بن حنبل رحمه الله (14/65) ،الألباني (متوفى ١٤٢٠ هـ) السلسلة الصحيحة ص ٢٠٢ وقال هذا صحيح ،ابن الجوزي (متوفى ٥٩٧ هـ) موضوعات ابن الجوزي ٢/١٢٣ صحيح،الذهبي (٧٤٨ هـ)، ترتيب الموضوعات ص١٠٦ صحيح،ابن كثير (٧٧٤ هـ)، البداية والنهاية ١/٣٠١ على شرط البخاري،ابن حجر العسقلاني (٨٥٢ هـ)، فتح الباري لابن حجر ٢٥٥/٦ صحيح)
اس سے معلوم ہو گیا کہ سوال مذکور میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے، کیونکہ ان احادیث میں بتایا گیا کہ سورج کا روکنا صرف اور صرف یوشع بن نون علیہ السلام کے لیے ہوا ہے، اس حدیث کو علامہ البانی نے السلسلۃ الصحیحۃ میں ذکر کر کے یہ بات نقل کی ہے کہ، يقول الشيخ الألباني رحمه الله : (فيه أن الشمس لم تحبس لأحد إلا ليوشع عليه السلام ، ففيه إشارة إلى ضعف ما يروى أنه وقع ذلك لغيره
ومن تمام الفائدة أن أسوق ما وقفنا عليه من ذلك ... )
وذكر الشيخ رحمه الله ما ورد من حبس الشمس لغير يوشع بن نون عليه السلام ، وبين عللها ، ثم قال :( وجملة القول : أنه لا يصح في حبس الشمس أو ردها شيء إلا هذا الحديث الصحيح ) انتهى.
(السلسلة الصحيحة ) (رقم/202)
ترجمہ۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورج یوشع بن نون کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں رکا،اور اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سورج کسی اور کے لئے رکنے کے جتنے بھی واقعات بیان کئے جاتے ہیں وہ سب ضعیف ہیں، اور ناقابل یقین ہیں، ہم اس کے قائل ہیں، اور شیخ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سورج کے روکنے کے بارے میں جو حدیث ثابت ہے اس حدیث کے علاوہ سب روایات ضعیف ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات (الھند)
مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا
فون نمبر: 9428359610
10/مارچ 2020بروز منگل
احادیث کی تحقیق و تخریج کے لئے مذکور واٹساپ نمبر پر رابطہ کریں۔
Mashallah
ReplyDeleteGood
ReplyDeleteما شاء اللہ بہت خوب
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائیں
Good
ReplyDeleteViry nice
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔آمین
ReplyDeleteاور دارین میں بہترین بدلہ نصیب فرمائے
آپ محترم کی تحقیقات پسند آئئ
ReplyDeleteاس طرح کا کام شروع رکھیں
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ ترقیات سے نوازے
Mashaallah
ReplyDelete👍👍👍👍👍
ReplyDeleteGood
ReplyDeleteبہت ہی اچھا
ReplyDeleteحماد
Mashaallah
ReplyDeleteBahut khoob
Sars
ReplyDeleteماشاء اللہ
ReplyDeleteشاندار
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
قبول قبول
ReplyDelete👌👌👌
ReplyDeleteآپ کی محنتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
ReplyDeleteبارك الله فيك وزادكم الله علما وعملا وفنا
ReplyDelete