(تحقیقات سلسلہ نمبر 42)
باسمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:- درج ذیل ایک واقعہ مذکور ہے، اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟
"لات اور عزی پہلے انسان تھے، لیکن انہوں نے حرم شریف میں زنا کیا اس وجہ سے اللہ تعالی نے ان کو پتھر بنا دیا" کیا یہ واقعہ درست ہے؟
اس کی مکمل تحقیق مطلوب ہے؟
فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:- سوالِ مذکور میں جو بات ذکر کی گئی ہے وہ لات اور عزی(دو بت کے نام ہیں، جن کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہیں) کے متعلق نہیں،بلکہ یہ بات مفسرین نے اساف اور نائلہ( یہ بھی دو بت کے نام ہیں) کے متعلق ذکر کی ہیں۔
اساف اور نائلہ کے متعلق حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں 👇 اس کے بعد ان شاءاللہ لات اور عزی کے متعلق اقوام مفسرین ذکر کیے جائینگے۔
(1) قال اسمعیل بن عمر بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ في تفسیره 1/336,335
(مطبوعہ: دار الكتاب العربي بيروت)
قَالَ الشَّعْبِيُّ: كَانَ إِسَافٌ عَلَى الصَّفَا، وَكَانَتْ نَائِلَةُ عَلَى الْمَرْوَةِ، وَكَانُوا يَسْتَلِمُونَهُمَا فَتَحَرَّجُوا بَعْدَ الْإِسْلَامِ مِنَ الطَّوَافِ بَيْنَهُمَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ. قُلْتُ: وَذَكَرَ ابْنُ إِسْحَاقَ فِي كِتَابِ السِّيرَةِ أَنَّ إِسَافًا وَنَائِلَةَ كَانَا بَشَرَيْنِ، فَزَنَيَا دَاخِلَ الْكَعْبَةِ فَمُسِخَا حَجَرَيْنِ فَنَصَبَتْهُمَا قُريش تُجَاهَ الْكَعْبَةِ لِيَعْتَبِرَ بِهِمَا النَّاسُ، فَلَمَّا طَالَ عَهْدُهُمَا عُبِدَا، ثُمَّ حُوِّلَا إِلَى الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَنُصِبَا هُنَالِكَ، فَكَانَ مَنْ طَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ يَسْتَلِمُهُمَا۔
ترجمہ:-امام شعبی فرماتے ہیں: کہ اساف نامی بت صفا پہاڑی پر تھا اور نائلہ نامی بت مروہ پہاڑی پر تھا،اور لوگ ان دونوں کا استلام کرتے تھے، مگر آمد اسلام کے بعد ان دونوں کے درمیان سعی کو حرج محسوس کرنے لگے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ میرا یہ کہنا ہے کہ ابن اسحاق نے اپنی کتاب سیرۃ النبی میں ذکر کیا ہے کہ اساف اور نائلہ دونوں انسان تھے لیکن انہوں نے کعبہ میں زنا کیا تھا، لہذا ان کو پتھر بنا دیا گیا، چنانچہ قریش نے لوگوں کی عبرت کے لئے کعبہ کے قریب ان دونوں کو نصب کر دیا،پھر جب زمانہ لمبا ہوا تو ان دونوں کی عبادت کی جانے لگی،پھر ان دونوں کو صفا ، مروہ پہاڑی کی جانب منتقل کر دیا گیا، اور وہاں ان دونوں کو نصب کر دیا گیا پھر جو شخص بھی صفا ، مروہ کے درمیان سعی کرتا وہ ان دونوں کا استلام کرتا۔
(2) قال الآلوسي البغدادي في تفسيره روح المعاني تحت هذه الآية"ان الصفا والمروة من الخ"
عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعالى عَنْهُ - أنَّهُ كانَ عَلى الصَّفا صَنَمٌ عَلى صُورَةِ رَجُلٍ يُقالُ لَهُ إسافٌ، وعَلى المَرْوَةِ صَنَمٌ عَلى صُورَةِ امْرَأةٍ تُدْعى نائِلَةُ، زَعَمَ أهْلُ الكِتابِ أنَّهُما زَنَيا في الكَعْبَةِ، فَمَسَخَهُما اللَّهُ - تَعالى - حَجَرَيْنِ، فَوُضِعا عَلى الصَّفا والمَرْوَةِ لِيُعْتَبَرَ بِهِما، فَلَمّا طالَتِ المُدَّةُ عُبِدا مِن دُونِ اللَّهِ - تَعالى - فَكانَ أهْلُ الجاهِلِيَّةِ إذا طافُوا بَيْنَهُما مَسَحُوا الوَثَنَيْنِ، فَلَمّا جاءَ الإسْلامُ وكُسِّرَتِ الأصْنامُ كَرِهَ المُسْلِمُونَ الطَّوافَ بَيْنَهُما لِأجْلِ الصَّنَمَيْنِ۔۔۔۔۔۔
ترجمہ:- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ صفا پہاڑی پر ایک بت مرد کی شکل میں تھا جسے اساف کہا جاتا تھا، اور مروہ پر ایک بت عورت کی شکل میں تھا جسے نائلہ کہا جاتا تھا،اہل کتاب کا یہ گمان ہے کہ ان دونوں نے داخل کعبہ زنا کیا تھا، جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کو پتھر بنا دیا پھر انہیں صفا ، مروہ پہاڑی پر بطور عبرت کے رکھ دیا گیا پھر جب زمانہ نے طول پکڑا تو ان دونوں کی عبادت کی جانے لگی ، اہل جاہلیت جب صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے تو ان دونوں کو چھوتے،پھر جب اسلام کی آمد ہوئی اور بتوں کو پاش پاش کر دیا گیا تو مسلمانوں نے صفا،مروہ کے درمیان سعی کو ان دونوں بتوں کی وجہ سے ناپسند کیا۔۔۔۔۔
(3) قال القرطبي في الجامع تحت هذه الآية: وَزَعَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَنَّهُمَا زَنَيَا في الكعبة فمسخهما الله حجرين فَوَضَعَهُمَا عَلَى الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِيُعْتَبَرَ بِهِمَا، فَلَمَّا طَالَتِ الْمُدَّةُ عُبِدَا مِنْ دُونِ اللَّهِ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
(الجامع لأحکام القرآن للقرطبی)
(4)قال ابن كثير في كتابه السيرة النبوية: ثم بغت جرهم بمكة، وأكثرت فيها الفساد، وألحدوا بالمسجد الحرام، حتى ذكر أن رجلا منهم يقال له إساف بن بغى وامرأة يقال لها نائلة بنت وائل اجتمعا في الكعبة، فكان منه إليها الفاحشة، فمسخهما الله حجرين، فنصبهما الناس قريبا من البيت ليعتبروا بهما، فلما طال المطال بعد ذلك بمدد عبدا من دون الله في زمن خزاعة .... قال ابن إسحاق : واتخذوا إسافا ونائلة، على موضع زمزم ينحرون عندهما، ثم ذكر أنهما كانا رجلا وامرأة فوقع عليها في الكعبة، فمسخهما الله حجرين. ثم قال: حدثني عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن عمرة أنها قالت : سمعت عائشة تقول : مازلنا نسمع أن إسافا ونائلة كانا رجلا وامرأة من جرهم أحدثا في الكعبة فمسخهما الله عز وجل حجرين. اهـ
(5) نیز علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ مجمع الزوائد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ایک روایت نقل کرتے ہے:
عن عائشةَ قالت: ما زلنا نسمَعُ: إسافٌ ونائلةُ- رجلٌ وامرأةٌ مِن جُرْهُمٍ- زنَيا في الكعبةِ فمُسِخا حَجَرينِ. (ج٣ ص ٢٩٩) رواه البزار في مسنده.
ترجمہ:- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ہم لوگوں سے بار بار یہ سنتے رہے کہ اساف اور نائلہ قبیلۂ جرھم کے مرد و زن نے کعبہ میں زنا کیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں پتھر بنا دیا گیا۔
فيه أحمد بن عبد الجبار العطاردي وهو ضعيف
فعائشة رضي الله عنها لم تسند الخبر للنبي صلى الله عليه وسلم، بل قالت مازلنا نسمع، وهذا يدل على أنها إنما أضافته لما شاع عند الناس، وأنه خبر شائع عند الناس من أخبار أهل الجاهلية.
روح المعانی وغیرہ کتابوں میں لکھا ہے: زعم أهل الكتاب الخ کہ یہ اہل کتاب کا گمان ہےالخ لہذا معلوم ہوا کہ یہ روایت اسرائیلیات کی قبیل سے ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس واقعے کو بیان کرنا اور نشر کرنا درست ہے یا نہیں؟ لہذا اس سلسلے میں درج ذیل اسرائیلی روایات کے متعلق تحریر ملاحظہ فرمائیں 👇
اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے رقم فرمایا کہ:
“اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض براہِ راست بائبل یا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف ومشہور تھیں”۔ (علوم القرآن: ۳۴۵)
اسرائیلیات کا حکم:
اس سلسلہ میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:
(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔
(۲) دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔
(۳) تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “لا تصدقوھا ولاتکذبوھا”۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔ (علوم القرآن:۳۶۴)
مفتی صاحب کی بالا تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری بحث جس واقعہ سے ہے وہ اسی تیسری قسم سے ہے، بایں طور کہ نہ تو یہ قرآن و احادیث کے متنافی ہے، اور نہ ہی قرآن و احادیث میں اس کا ثبوت ہے،لہذا ہم بھی اس روایت کی نہ تصدیق کرینگے اور نہ ہی تکذیب کرینگے۔
*اب لات اور عزی کے متعلق اقوال مفسرین ملاحظہ فرمائیں 👇
پس واضح رہے کہ لات کے متعلق کتابوں میں صرف اتنا ملتا ہے کہ عرب میں ایک آدمی تھا جو خود کے ستو کو حاجیوں کے ستو کے ساتھ ملایا کرتا تھا پھر جب اس کی موت ہوئی تو عمرو بن لحی نے لوگوں سے کہا کہ یہ مرا نہیں ہے، بلکہ چٹان میں چلا گیا ہے، تو لوگ اس چٹان کی عبادت کرنے لگے اور اس پر گھر وغیرہ بنانے لگے،بعض کا کہنا ہے کہ اس کی قبر کو لوگوں نے بت بنا لیا تھا اور اسے عامر بن ظریب نامی کوئی دشمن خیال کرتے تھے۔
حوالہ جات
(1) صحيح البخاري | كِتَابُ التَّفْسِيرِ. | سُورَةُ وَالنَّجْمِ. | بَابٌ : أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى
رقم الحديث: (4859) حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، في قوله { ٱللَّـٰتَ وَٱلۡعُزَّىٰ} كان اللات رَجُلًا يَلُتُّ سَوِيقَ الْحَاجِّ.
ترجمہ:- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: کہ لات ایسا شخص تھا جو حاجی کے ستو کو گولتا تھا۔
(2) قال ابن كثير في تفسيره: قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَكَانَتِ اللَّاتُ لِثَقِيفٍ بِالطَّائِفِ، وَكَانَ سَدَنتها وَحُجَّابُهَا بَنَى مُعَتّب، قلت وقد بعث اليها رسول الله صلى الله عليه وسلم المغيرة بن شعبة و ابا سفيان صخر بن حرب فهدماها و جعلها مكانها مسجد الطائف.
ترجمہ:- ابن اسحاق فرماتے ہیں: کہ لات طائف میں آباد قبیلۂ ثقیف کا بت تھا ،اور اس کے رکھوالے اور دربان بنی معتب تھے،(اس کے بعد ابن کثیر فرماتے ہیں)میں یہ کہتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ اور ابو سفیان صخر بن حرب کو اس بستی کی جانب بھیجا وہ دونوں نے اسے منہدم کر دیا اور اس کی جگہ مسجد طائف بنا دی.
(3) علامہ آلوسی بغدادی رحمة اللہ علیہ اپنی شہرۂ آفاق تفسیر روح المعانی میں افرأيت اللات والعزى و مناة الثالثة الأخري کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
وأخْرَجَ ابْنُ أبِي حاتِمٍ وابْنَ مَرْدُوَيْهِ عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ أنَّهُ كانَ يَلِتُّ السَّوِيقَ عَلى الحَجَرِ فَلا يَشْرَبُ مِنهُ أحَدٌ إلّا سَمِنَ فَعَبَدُوهُ، وأخْرَجَ الفاكِهِيُّ عَنْهُ أنَّهُ لَمّا ماتَ قالَ لَهم عَمْرُو بْنُ لِحْيٍ: إنَّهُ لَمْ يَمُتْ ولَكِنَّهُ دَخَلَ الصَّخْرَةَ فَعَبَدُوها وبَنَوْا عَلَيْها بَيَّتا، وأخْرَجَ ابْنُ المُنْذِرِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ أنَّهُ قالَ: كانَ رَجُلُ مِن ثَقِيفٍ يَلِتُّ السَّوِيقَ بِالزَّيْتِ فَلَمّا تُوُفِّيَ جَعَلُوا قَبَرَهُ وثَنًا، وزَعَمَ النّاسُ أنَّهُ عامِرُ بْنُ الظَّرِبِ أحَدُ عُدْوانِ.
* اور عزی کے متعلق کتابوں میں یہ ملتا ہے کہ وہ ایک مؤنث بت تھا
حوالہ جات 👇
(1) علامہ قاضی ثناء اللہ عثمانی مجددی پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تفسیر مظہری میں رقم طراز ہیں: 11/101
(مطبوعہ: دار الاشاعت اردو بازار کراچی)
'مجاہد کا بیان ہے کہ عزی غطفان کی آبادی میں ایک درخت تھا۔ بنی غطفان اس کو پوجتے تھے۔
ابن اسحاق نے کہا عزی نخلہ میں ایک کوٹھڑی (کمرہ، مکان) تھی۔ اس کے مجاور دربان بنی شیبان تھے اور بنی شیبان بنی ہاشم کے حلیف (معاہد)تھے۔ قریش
اور تمام بنی کنانہ کا یہ سب سے بڑا بت تھا'عمرو بن لحی نے بنی کنانہ اور قریش سے کہ دیا تھا کہ تمہارا رب سردی کے موسم میں طائف میں لات کے پاس اور موسم گرما میں عزی کے پاس رہتا ہے اس لئے لوگ ان دونوں کی تعظیم کرتے تھے اور ہر ایک کے لئے ایک حجرہ بنادیا تھا اور جس طرح کعبہ کو قربانی کا جانور بھیجتے تھے اسی طرح ان دونوں بتوں کو بھی قربانی کے جانور بھیجتے تھے(جن کو وہاں بھینٹ چڑھایا جاتا تھا)
(2) علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں درج ذیل روایت نقل کی ہے: 14/55
(مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت،لبنان)
وأخْرَجَ النَّسائِيُّ، وابْنُ مَرْدُويَهْ، عَنْ أبِي الطُّفَيْلِ قالَ: «لَمّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ بَعَثَ خالِدَ بْنَ الوَلِيدِ إلى نَخْلَةَ، وكانَ بِها العُزّى، فَأتاها خالِدٌ، وكانَتْ عَلى ثَلاثِ سَمُراتٍ، فَقَطَعَ السَّمُراتِ، وهَدَمَ البَيْتَ الَّذِي كانَ عَلَيْها، ثُمَّ أتى النَّبِيَّ ﷺ فَأخْبَرَهُ فَقالَ: «ارْجِعْ فَإنَّكَ لَمْ تَصْنَعْ شَيْئًا» فَرَجَعَ خالِدٌ، فَلَمّا أبْصَرَتْهُ السَّدَنَةُ، وهم حَجَبَتُها، أمْعَنُوا في الجَبَلِ وهم يَقُولُونَ: يا عُزّى يا عُزّى، فَأتاها خالِدٌ فَإذا امْرَأةٌ عُرْيانَةٌ ناشِرَةٌ شَعَرَها، تَحْفِنُ التُّرابَ عَلى رَأْسِها، فَعَمَّمَها بِالسَّيْفِ حَتّى قَتَلَها، ثُمَّ رَجَعَ إلى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ – فَأخْبَرَهُ، فَقالَ: «تِلْكَ العُزّى»» .
ترجمہ:- حضرت ابو طفیل سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو بطن نخلہ کی جانب بھیجا اور وہاں عزی نامی بت تھا،حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہ اس درخت کے پاس گئے اور کیکر کے درختوں (جھاڑیوں) کو کاٹ دیا اور عزی کو (یہاں مراد وہ حجرہ ہے جسے تعظیما عزی کے ارد گرد بنا رکھا تھا)ڈھا دیا،پھر واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا دوبارہ جاؤ۔تم نے کچھ کیا ہی نہیں، حضرت خالد دوبارہ گیے اور برابر چوکنے رہے جب مجاوروں نے خالد کو دیکھا تو پہاڑوں پر پھیل گئے، اور کہنے لگے 'عزی،عزی'کہ یکایک حضرت خالد کے سامنے ایک کالی بھجنگ،برہنہ،برہنہ،بکھرے ہوئے سر اور منہ پر خاک اڑاتی ہوئی عورت برآمد ہوئی ،پھر حضرت خالد نے اس کی جانب تلوار پھیلائی اور لمحات میں اس کے ٹکڑے کر دیے اور پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر اطلاع دی تو آپ نے فرمایا۔۔ہاں!وہ عزی تھی۔
(3) اسی روایت کو ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ تغیر الفاظ کے ساتھ افرأيتم اللات والعزى کے تحت اس طرح بیان فرمایا ہے:
وَقَالَ النَّسَائِيُّ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْل، حَدَّثَنَا الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْع، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ بَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى نَخْلَةَ، وَكَانَتْ بِهَا الْعُزَّى، فَأَتَاهَا خَالِدٌ وَكَانَتْ عَلَى ثَلَاثِ سَمُرات، فَقَطَعَ السَّمُرات، وَهَدَمَ الْبَيْتَ الَّذِي كَانَ عَلَيْهَا. ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ: "ارْجِعْ فَإِنَّكَ لَمْ تَصْنَعْ شَيْئًا". فَرَجَعَ خَالِدٌ، فَلَمَّا أَبْصَرَتْهُ السَّدَنة -وَهُمْ حَجَبتها-أَمْعَنُوا فِي الحِيَل وَهُمْ يَقُولُونَ: "يَا عُزَّى، يَا عُزَّى". فَأَتَاهَا خَالِدٌ فَإِذَا امْرَأَةٌ عُرْيَانَةٌ نَاشِرَةٌ شَعْرَهَا تَحْفِنُ التُّرَابَ عَلَى رَأْسِهَا، فَغَمَسَهَا بِالسَّيْفِ حَتَّى قَتَلَهَا، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: "تِلْكَ الْعُزَّى۔
کچھ الفاظ میں تغیر ہے،معنی یکساں ہے لہذا اس کے ترجمہ کی کوئی حاجت نہیں ۔
خلاصۂ کلام:- سوال جو بات ذکر کی گئی ہے کہ لات اور عزی نے کعبہ میں زنا کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مسخ کردیا یہ بات لات اور عزی کے متعلق نہیں ہے، بلکہ اساف اور نائلہ کے متعلق ہے، اور وہ بھی اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے،لہذا اس بات کو لات اور عزی کے متعلق نشر کرنے اور بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
فقط والسلام
و اللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم۔
✍️ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات
رابطہ نمبر: 9428359610
28/ستمبر/2020ء بروز پیر
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت اور عمدہ کارکردگی
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ قبول فرما ئیں