Sunday, 6 September 2020

مؤذن کی فضیلت کے متعلق احادیث، اور اس کی تحقیق و تخریج


(تحقیقات سلسلہ نمبر 33)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال۔ ذیل میں دو احادیث مذکور ہیں ان کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟

(۱) مؤذن(اذان دینے والے کو) قبر کے کیڑے نہیں کھائیں گے۔ 

(۲) قیامت کے دن اللہ تعالی سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائیں گے، ان کے بعد ہمارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو، پھر سارے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو، اور چوتھے نمبر پر مؤذنین کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ 

ان دو احادیث مبارکہ کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ 

فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:-  بالا سوال میں دو احادیث مذکور ہیں۔  ترتیب وار تخریج و تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇

پہلی روایت (١) مؤذن کو قبر میں کیڑے مکوڑے نہیں کھاتے اس کے متعلق تحقیق و تخریج 👇

 1 عن عبدالله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  المؤذِّنُ كالشَّهيدِ المتشحَّطِ في دمِهِ وإذا ماتَ لم يدوَّدْ في قبرِهِ.

ترجمہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان دینے والا اس شہید کے مانند ہے جو اپنے خون میں لت پت تڑپتا ہو، نیز جب وہ مؤذن مرجاتا ہے تو اس کی قبر میں کیڑے مکوڑے نہیں کھاتے۔ 

ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے " لا یصح"  (العلل المتناهية ١‏/٣٨٩)


2  المؤذِّنُ المُحتسِبُ كالشَّهيدِ المُتشَحِّطِ في دمِهِ؛ إذا ماتَ لم يدوِّدْ في قبرِهِ.

ترجمہ۔ ثواب کی امید رکھنے والا مؤذن اس شہید کے مانند ہوگا جو اپنے خون میں لت پت تڑپتا ہو، نیز جب وہ مرجاتا ہے تو اس کو قبر میں کیڑے مکوڑے نہیں کھاتے۔ 

 الترغيب والترهيب للمنذري ١‏/١٤٧  [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]  أخرجه الطبراني (١٢/٤٢٢) (١٣٥٥٤)، وأبو نعيم في «تاريخ أصبهان» (٢/٧٦) مطولاً، والديلمي في «الفردوس» (٦٦٠٢) باختلاف يسير۔ 

3  المؤذِّنُ كالشهيدِ المُتَشَحِّطُ في دَمِهِ وإذا ماتَ لم يُدَوِّدْ۔

 (تلخيص العلل المتناهية ١٣٣    باطل [وروي من قول ابن عمر بسند فيه متهم وبسند فيه متروك]

یہ روایت باطل ہے، اور ابن عمر رضی اللہ عنھما کا قول دو سندوں سے ہے' ایک سند میں متہم راوی ہے، اور ایک میں متروک۔ 

4  المؤَذِّنُ الْمُحْتَسِبُ كالشهيدِ الْمُتَشَحِّطِ فِي دمِهِ إذا ماتَ لَمْ يُدَوِّدْ في قبْرِهِ.

(الجامع الصغير ٩١١٥ )  ضعيف

5  المؤَذِّنُ الْمُحْتَسِبُ كالشهيدِ الْمُتَشَحِّطِ فِي دمِهِ إذا ماتَ لَمْ يُدَوِّدْ في قبْرِه۔ 

(ضعيف الجامع للانبانی ٥٩٠٠)   ضعيف

 6  المؤذِّنُ المحتسبُ كالشَّهيدِ يتشَّحطُ في دمِه حتّى يفرغَ من أذانِه، ويشهدُ له كلُّ رطبٍ ويابسٍ وإذا مات لم يُدَوِّدْ في قبرِہ۔

 (السلسلة الضعيفة للانبانی) ٨٥٣  •  ضعيف جداً ۔


دوسری روایت (٢) مؤذنین کو بروز قیامت کپڑے پہنانے کے متعلق۔

اولاً یہ بات واضح ہو کہ بروز قیامت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سب سے پہلے کپڑے پہنانے کے متعلق صحیح روایات کثیر تعداد میں محدثین نے ذکر کی ہیں۔ مختصراً ملاحظہ فرمائیں 👇

1  عن عبدالله بن عباس قال: خَطَبَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ فَقالَ: يا أيُّها النّاسُ، إنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إلى اللَّهِ حُفاةً عُراةً غُرْلًا، ثُمَّ قالَ: {كما بَدَأْنا أوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ، وعْدًا عَلَيْنا إنّا كُنّا فاعِلِينَ} إلى آخِرِ الآيَةِ، ثُمَّ قالَ: ألا وإنَّ أوَّلَ الخَلائِقِ يُكْسى يَومَ القِيامَةِ إبْراهِيمُ۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صحيح البخاري ٤٦٢٥)

ترجمہ۔ عبد بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، آپ نے فرمایا:اے لوگوں، یقیناً تم اللہ تعالی کے سامنے بروز قیامت ننگے سر ننگے پیر بغیر مختون جمع کیے جاؤں گے، پھر آپ نے فرمایا: {كما بَدَأْنا أوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ، وعْدًا عَلَيْنا إنّا كُنّا فاعِلِينَ} الخ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوق میں سب سے پہلے بروز قیامت کپڑے پہنائے جائیں گے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہے۔۔۔۔۔۔۔


2  [عن عبدالله بن مسعود:] إنَّكم محضُورونَ حُفاةً عُراةً غُرلًا وأوَّلُ الخَلائقِ يُكسى يومَ القيامةِ إبراهيمُ۔

(صحيح ابن حبان ٧٣٢٨    أخرجه في صحيحه)


3  [عن عبدالله بن مسعود:] إنكم محشورون حُفاةً عُراةً غُرْلًا، وأولُ الخلائقِ يُكسى يومَ القيامةِ: إبراهيمُ.

 (صحيح الموارد للانبانی ٢١٨٥)


وجہ اولیت: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سب سے پہلے کپڑے پہنائے جانے کے متعلق ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں لکھا ہے: 

ابن حجر في الفتح: قِيلَ الْحِكْمَةُ فِي كَوْنِ إِبْرَاهِيمَ أَوَّلَ مَنْ يُكْسَى أَنَّهُ جُرِّدَ حِينَ أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَقِيلَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنِ اسْتَنَّ التَّسَتُّرَ بِالسَّرَاوِيلِ، وَقِيلَ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الْأَرْضِ أَخْوَفُ لِلَّهِ مِنْهُ فَعُجِّلَتْ لَهُ الْكِسْوَةُ أَمَانًا لَهُ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبُهُ، وَهَذَا اخْتِيَارُ الْحَلِيمِيِّ، وَالْأَوَّلُ اخْتِيَارُ الْقُرْطُبِيّ، قلت: وَقد أخْرج بن مَنْدَهْ مِنْ حَدِيثِ حَيْدَةَ بِفَتْحِ الْمُهْمَلَةِ وَسُكُونِ التَّحْتَانِيَّةِ رَفَعَهُ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ يَقُولُ اللَّهُ اكْسُوَا خَلِيلِي لِيَعْلَمَ النَّاسُ الْيَوْمَ فَضْلَهُ عَلَيْهِمْ. انتهى.

اور ملا علی قاری رحمہ اللہ  مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں رقم طراز ہے: 

وقال الملا علي القاري في المرقاة: قِيلَ: لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ كَسَا الْفُقَرَاءَ، وَقِيلَ: لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ عَرِيَ فِي ذَاتِ اللَّهِ حِينَ أُلْقِيَ فِي النَّارِ، لَا لِأَنَّهُ أَفْضَلُ مِنْ نَبِيِّنَا، أَوْ لِكَوْنِهِ أَبَاهُ فَقَدَّمَهُ لِعِزَّةِ الْأُبُوَّةِ. انتهى.

یہ تو صحیح روایات تھی، اب ہم اس حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں جس کا سوال میں ذکر ہے، سب سے پہلے اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇

 قال القرطبي في التذكرة: وروى عباد بن كثير، عن أبي الزبير، عن جابر ـ رضي الله عنه ـ قال: إن المؤذنين والملبين يخرجون يوم القيامة من قبورهم يؤذن المؤذن ويلبي الملبي، وأول من يكسى من حلل الجنة إبراهيم خليل الله ثم محمد صلى الله عليه وسلم ثم النبيون والرسل عليهم السلام، ثم يكسى المؤذنون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


والحديث رواه ابن شاهين في الترغيب، وقوام السنة في الترغيب، وعباد بن كثير متروك، ولذا أورده ابن الجوزي في الموضوعات۔

حکم الحدیث: موضوع 

(موضوعات لابن الجوزی ج2 ص16 باب فی فضل المؤذن، تذکرۃ الموضوعات 460، التنزيه ج2 ص77, 78، الفوائد المجموعة 49، الآلي ج2 ص12,13) 


خلاصۂ کلام: پہلی روایت شدید ضعیف ہے، اور دوسری روایت تو موضوع اور من گھڑت ہے، لہذا بیان کرنے اور نشر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

فقط والسلام

⁦✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر:- 9428359610

07/ستمبر/2020ء بروز پیر 



4 comments: