Thursday, 21 January 2021

چھ جہنمی عورتوں کا واقعہ اور اس کی تحقیق و تخریج

( تحقیقات سلسلہ نمبر53) 

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

( چھ جہنمی عورتوں کا واقعہ، اور اس کی تحقیق و تخریج) 

سوال:- میں نے حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ کی ایک کتاب " اہل دل کے تڑپا دینے والے واقعات" ص 94 پر ایک واقعہ پڑھا، اس کی تحقیق مطلوب ہے؟ وہ واقعہ درج ذیل ہے 👇 

واقعہ:- ایک مرتبہ حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)حضور اکرم ﷺ‎ سے ملنے کے لیے آپ ﷺ‎ کے گھر تشریف لے گئے۔حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی ﷺ‎ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ نبی کریم ﷺ‎  رو رہے ہیں آپ  ﷺ‎  پر گریہ طاری ہے  جب میں نے آپ ﷺ‎ کی یہ حالت دیکھی تو عرض کیا کہ یارسول اللہ  ﷺ‎ میرے ماں باپ آپﷺ‎ پر قربان ہوں آپﷺ‎ کو کس چیز نے رلایا ہے؟ اور کس بنا پر آپﷺ‎ رو رہے ہیں؟ آپﷺ‎ نے جواب میں فرمایا کہ میں نے شبِ معراج میں اپنی اُمت کی عورتوں کو جہنم کے اندر  قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا دیکھا اور ان کو جو عذاب ہو رہا تھا وہ اتنا شدید  اور ہولناک تھا کہ اس عذاب کے تصور سے مجھے رونا آرہا ہے۔اس کے بعد آپ ﷺ‎ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ میں نے جہنم کے اندر عورتوں کو کس کس عذاب میں مبتلا دیکھا چنانچہ آپﷺ‎ نے فرمایا:

 میں نے ایک عورت كو دیکھا کہ وہ اپنے بالوں کے ذریعے جہنم کے اندر لٹکی ہوئی ہے اور اس کا دماغ ہانڈی کی طرح پک رہا ہے۔ 

میں نے دوسری عورت کو جہنم میں اسطرح دیکھا کہ وہ زبان کے بل لٹکی ہوئی ہے۔

تیسری عورت کو میں نے دیکھا کہ وہ چھاتیوں کے بل جہنم میں لٹکی ہوئی ہے۔

چوتھی عورت کو میں نے  اس طرح دیکھا کہ اس کے دونوں پیر سینے سے بندھے ہوئے ہیں اور اس کے دونوں ہاتھ پیشانی سے بندھے ہوئے ہیں۔

پانچویں عورت کو میں نے اس حالت میں دیکھا کہ اس کا چہرہ خنزیر کی طرح ہے اور باقی جسم گدھےکی طرح ہے مگر حقیقت میں وہ عورت ہے اور سانپ بچھو اس عورت سے لپٹے ہوئے ہیں۔

چھٹی عورت کو میں نے اس حالت میں دیکھا کہ وہ کتے کی شکل میں ہے اور اس کے منہ کے راستے سے جہنم کی آگ داخل ہو رہی ہے۔اور پاخانہ کے راستے آگ نکل رہی ہے اور عذاب دینے والے فرشتے جہنم کے گُرز اس کو مار رہے ہیں۔

اس کے بعد حضرت فاطمہ زہرا (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)  نے عرض کیا ابا جان ان عورتوں پر یہ عذاب ان کے کون سے عمل کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ انکے کون سے ایسے اعمال تھے جن کی وجہ سے آپ ﷺ‎ نے ان کو اس ہولناک عذاب میں مبتلا دیکھا؟آپﷺ‎ نے فرمایا جس عورت کو میں نے جہنم میں لٹکا ہوا دیکھا اور اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح پک رہا تھا اِس کو یہ عذاب گھر سے باہر ننگے سر جانے کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ وہ عورت نا محرم مردوں سے اپنے سر کے بال نہیں چھپاتی تھی۔

دوسری عورت جس کو آپﷺ‎ نے دیکھا کہ زبان  کے بل جہنم میں لٹکی ہوئی ہے۔وہ عورت زبان درازی سے اپنے شوہر کو تکلیف دیا کرتی تھی۔

تیسری عورت جس کو آپﷺ‎ نے دیکھا کہ وہ اپنی چھاتیوں کے بل لٹکی ہوئی ہے وہ عورت ہے جو شادی شدہ ہونے کے باوجود دوسرے مردوں سے ناجائز تعلق رکھتی تھی۔

چوتھی عورت جس کو آپﷺ‎ نے اس حالت میں دیکھا کہ اس کے دونوں پیر سینے سے بندھے ہوئے ہیں اور دونوں ہاتھ سر سے بندھے ہوئے ہیں اس کے بارے میں آپﷺ‎ نے فرمایا کہ یہ وہ عورت ہے جو دنیا میں جنابت اور حیض سے پاک نہیں رہتی تھی اور نمازوں میں سستی کیا۔ کرتی تھی۔

پانچویں عورت جس کو آپﷺ‎ نے اس حالت میں دیکھا کہ اس کا چہرہ خنزیر کی طرح ہے اور باقی جسم گدھےکی طرح ہے اور سانپ بچھو اس سے لپٹے ہوئے ہیں۔اِس کے بارے میں آپﷺ‎  نے فرمایا کہ یہ وہ عورت ہے جس کو جھوٹ بولنے اور چغلی کھانے کی وجہ سے  یہ عذاب ہو رہا تھا۔

       اس روایت کی تحقیق و حوالہ مطلوب ھے؟

سائل: مولوی بلال اسلام پوری

فاضل: جامعہ امداد العلوم وڈالی

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- اس واقعے کو علامہ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب" کتاب الکبائر" میں بغیر حوالہ وسند کے ذکر کیا ہے۔ 

اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇

عن الإمام علي بن أبي طالب قال: دخلت أنا وفاطمة على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فوجدته يبكي بكاء شديدا فقلت: فداك أبي وأمي يا رسول الله ما الذي أبكاك؟ فقال صلى الله عليه وآله وسلم: يا علي ليلة أسري بي إلى السماء رأيت نساء من أمتي في عذاب شديد واذكرت شأنهن لما رأيت من شدة عذابهن رأيت امرأة معلقة بشعرها يغلي دماغ رأسها، ورأيت امرأة معلقة بلسانها والحميم يصب في حلقها، ورأيت امرأة معلقة بثديها، ورأيت امرأة تأكل لحم جسدها والنار توقد من تحتها، ورأيت امرأة قد شد رجلاها إلى يداها وقد سلط عليها الحيات والعقارب، ورأيت امرأة عمياء في تابوت من النار يخرج دماغ رأسها من فخذيها وبدنها يتقطع من الجذاع والبرص، ورأيت امرأة معلقة برجليها في النار، ورأيت امرأة تقطع لحم جسدها في مقدمها ومؤخرها بمقارض من نار، ورأيت امرأة تحرق وجهها ويدها وهي تأكل امعاءها، ورأيت امرأة رأسها رأس خنزير وبدنها بدن حمار وعليها ألف ألف لون من بدنها، ورأيت امرأة على صورة الكلب والنار تدخل من دبرها وتخرج من فمها والملائكة يضربون على رأسها وبدنها بمقاطع من النار، فقالت فاطمة: حسبي وقرة عيني أخبرني ما كان عملهن وسيرهن حتى و ضع الله عليه هذا العذاب فقال صلى الله عليه وآله وسلم: يا بنيتي أما المعلقة بشعرها فإنها كانت لا تغطي شعرها من الرجال، أما المعلقة بلسانها كانت تؤذي زوجها، أما المعلقة بثديها فإنها كانت تمتنع عن فراش زوجها، أما المعلقة برجلها فإنها كانت تخرج من بيتها بغير أذن زوجها، أما التي تأكل لحم جسمها فإنها كانت تزين بدنها للناس، أما التي شد رجلاها إلى يداها وسلط عليها الحيات والعقارب فإنها كانت قليلة الوضوء قذرة اللعاب وكانت لا تغتسل من الجنابة والحيض ولا تنظف وكانت تستهين بالصلاة، أما العمياء والصماء والخرساء فإنها كانت تلد من الزنا فتعلقه بأعنق زوجها، أما التي كانت تقرض لحمها بالمقارض فإنها كانت قوادة، أما التي رأسها رأس خنزير وبدنها بدن حمار فإنها كانت نمامة كذابة، أما التي على صورة الكلب والنار تدخل من دبرها وتخرج من فمها فإنها كانت معلية نواحه۔ 

(کتاب الکبائر للذھبی ص177 مطبوعہ:دار الندوة الجديدة، بيروت، لبنان) 

لکین اس کتاب کے محقق مصطفی عاشور لکھتے ہیں: "لم نقف عليه" کہ ہمیں یہ روایت نہیں ملی۔ 

اسی طرح  ابن حجر الهيتمي رحمہ اللہ نے اس کو اپنی کتاب "الزواجر عن اقتراف الكبائر" (2/97) پر بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔ اب چونکہ اس حدیث کی کوئی سند نہیں ہے، نہ صحیح اور نہ ضعیف، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرکے بیان کرنے سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہیے،

محمد عدنان وقار صدیقی صاحب کی تحقیق 👇

(نیز) اصل اس کا ماخذ شیعی کتابیں ہیں مثلا: " عیون اخبار الرضا " میں ذکر ھے: 

حدثنا علي بن عبد الله الوراق رضي الله عنه قال حدثنا محمد بن أبي عبد الله الكوفي عن سهل بن زياد الأدمي  عن عبد العظيم بن عبد الله الحسني عن محمد بن علي الرضا عن أبيه الرضا عن أبيه موسى بن جعفر عن أبيه جعفر بن محمد عن أبيه محمد بن علي عن أبيه علي بن الحسين عن أبيه الحسين بن علي عن أبيه أمير المؤمنين علي بن أبي طالب : قال دخلت أنا و فاطمة على رسول الله (ص) فوجدته يبكي بكاءً شديدا الخ 

٭ المصدر: عيون أخبار الرضا

٭ المجلد: 2

٭ المؤلف: ابو جعفر الصدوق

٭ الصفحة: 13

٭ الرقم: 24

٭ الطبع: منشورات الشريف الرضي، ايران.

💠 *روایت کا حکم*💠

یہ روایت خود شیعی علماء کی نظر میں قابل بیان نہیں ھے؛ کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی " أبو سعيد سهل بن زياد الآدمي " ھے جو روایت میں غیر مستند ہے نیز جھوٹا ھے: 

🔷 سهل بن زياد أبو سعيد الآدمي الرازي كان ضعيفاً في الحديث، غير معتمد فيه. وكان أحمد بن محمد بن عيسى يشهد عليه بالغلو والكذب وأخرجه من قم إلى الري وكان يسكنها..)ا.هـ

٭ المصدر: رجال النجاشي

٭ المؤلف: ابو العباس النجاشي

٭ الصفحة:185

٭ الرقم: 490

٭ الطبع: مؤسسة النشر الاسلامي، قم، إيران، انتہی

وقد كتبت عن الحديث اللجنة الدائمة للافتاء نشرة تحذيرية وبينت أنه موضوع مكذوب على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال بوضعه كذلك عدة من العلماء المعاصرين.

خلاصۂ کلام:- اس حدیث و واقعہ کی کوئی سند نہیں ہے، نہ صحیح اور نہ ضعیف،بس اھل تشیع کی کتب میں موجود ہے، اور اس میں بھی مجاھیل ہیں،نیز ان کی تمام کتب اھل سنت والجماعت کے نزدیک غیر معتبر ہیں، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرکے بیان کرنے سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہیے۔

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

کتبہ:- ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا شمالی گجرات (الھند)

استاذ: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات

22/ جنوری/2020ء بروز جمعہ

4 comments:

  1. اللہ تعالی مولانا کو علم میں برکت دے اور عافیت عطافرمائے آمین

    ReplyDelete
  2. اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائیں
    اور آپکی محنتوں کو قبول فرمائیں

    ReplyDelete