( تحقیقات سلسلہ نمبر 55)
باسمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تین روٹیاں)
سوال:- درج ذیل ایک واقعہ ہے اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ کہ کیا یہ واقعہ حدیث رسول سے ثابت ہے؟
واقعہ:- حضرت عیسیٰؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ : " تمہاری جیب میں کچھ ہے ...؟ "
شاگرد نے کہا : " میرے پاس دو درہم ہیں ...! "
حضرت عیسیؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا : " یہ تین درہم ہوجائیں گے، قریب ہی آبادی ہے، تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لے آئو ...! "
وہ گیا اور تین روٹیاں لیں، راستے میں آتے ہوئے سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰؑ کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھال لوں، چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہنچا ....!
آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا : " تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں ...؟ "
اس نے کہا : " دو روٹیاں ملی تھیں، ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی ...! "
حضرت عیسیٰؑ وہاں سے روانہ ہوئے، راستے میں ایک دریا آیا، شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا : " اے اللہ کے نبی ...!
ہم دریا عبور کیسے کریں گے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی نظر نہیں آتی ...؟ "
حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا : " گھبراؤ مت، میں آگے چلوں گا تم میری عبا کا دامن پکڑ کر میرے پیچھے چلتے آو ،خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کرلیں گے ....! "
چنانچہ حضرت عیسیٰؑ نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا، خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے ...!
شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا : " میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان ...! آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہوا ...! "
آپ نے فرمایا : " یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ...؟ "
اس نے کہا : " جی ہاں ...! میرا دل نور سے بھر گیا ...! "
پھر آپ نے فرمایا : " اگر تمہارا دل نورانی ہوچکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں ...؟ "
اس نے کہا : " حضرت روٹیاں بس دو ہی تھیں ...! "
پھر آپ وہاں سے چلے، راستے میں ہرنوں کا ایک غول گزر رہا تھا، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا، وہ آپ کے پاس چلا آیا، آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا۔
جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰؑ نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا : " اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا ! "
ہرن زندہ ہو گیا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسرے ہرنوں سے جا ملا !
شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہو گیا او رکہنے لگا : " اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے ! "
حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا : " یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ؟ "
شاگرد نے کہا : " اے اللہ کے نبی ...! میرا ایمان پہلے سے دوگنا ہو چکا ہے ! "
آپ نے فرمایا : " پھر بتاؤ کہ روٹیاں کتنی تھیں ...؟ "
شاگرد نے کہا : " حضرت روٹیاں دو ہی تھیں ! "
دونوں راستہ چلتے گئے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی ہیں،
آپ نے فرمایا : " ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس شخص کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی ! "
یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا : " حضرت تیسری روٹی میں نے ہی کھائی تھی ...! "
حضرت عیسی نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور فرمایا : " تینوں اینٹیں تم لے جاؤ ! "
یہ کہہ کر حضرت عیسی وہاں سے روانہ ہوگئے اور لالچی شاگرد اینٹوں کے قریب بیٹھ کر سوچنے لگا کہ انہیں کیسے گھر لے جائے !
اسی دوران تین ڈاکو وہاں سے گزرے انہوں نے دیکھا، ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں، انہوں نے اسے قتل کر دیا اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں، لہٰذا ہر شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آتی ہے، اتفاق سے وہ بھوکے تھے، انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دئیے اور کہا کہ شہر قریب ہے تم وہاں سے روٹیاں لے آو، اس کےبعد ہم اپنا اپنا حصہ اٹھالیں گے، وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو دونوں ساتھ مر جائیں گےاور تینوں اینٹیں میری ہو جائیں گی، ادھر اس کے دونوں ساتھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے اس ساتھی کو قتل کر دیں تو ہمارے میں حصہ میں سونے کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی !
جب ان کا تیسرا ساتھ زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو ان دونوں نے منصوبہ کے مطابق اس پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا، پھر جب انہوں نے روٹی کھائی تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے مر گئے، واپسی پر حضرت عیسیٰؑ وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں جبکہ ان کے پاس چار لاشیں بھی پڑی ہیں، آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر ی اور فرمایا : " دنیا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے۔
اس کی تحقیق مطلوب ہے؟ اور کیا اس کو بیان اور نشر کرسکتے ہیں؟
فقط والسلام
سائل:- سمیر انصاری صاحب بمبئی سے
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:- اولا اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇
يروى أن عيسى بن مريم عليه السلام كان بصحبته رجل من اليهود وكان معهما (مع اليهودي) ثلاثة أرغفة من الخبز، ولما أرادا أن يتناولا طعامهما وجد عيسى أنهما رغيفان فقط، فسأل اليهودي: أين الرغيف الثالث، فأجاب: والله ما كانا إلا اثنين فقط. لم يعلق نبي الله وسارا معاً حتى أتيا رجلاً أعمى فوضع عيسى عليه السلام يده على عينيه ودعا الله له فشفاه الله عز وجل ورد عليه بصرَه, فقال اليهودي متعجباً: سبحان الله! وهنا سأل عيسى صاحبه اليهودي مرة أخرى: بحق من شفى هذا الأعمى ورد عليه بصره أين الرغيف الثالث، فرد: والله ما كانا إلا اثنين. سارا ولم يعلق سيدنا عيسى على الموضوع حتى أتيا نهرا كبيرا، فقال اليهودي: كيف سنعبره؟ فقال له النبي: قل باسم الله واتبعني، فسارا على الماء، فقال اليهودي متعجبا: سبحان الله! وهنا سأل عيسى صاحبه اليهودي مرة ثالثة: بحق من سيرنا على الماء أين الرغيف الثالث؟ فأجاب: والله ما كانا إلا اثنين. لم يعلق سيدنا عيسى وعند ما وصلا الضفة الأخرى جمع عليه السلام ثلاثة أكوام من التراب ثم دعا الله أن يحولها ذهباً، فتحولت الى ذهب، فقال اليهودي متعجبا: سبحان الله لمن هذه الأكوام من الذهب؟؟! فقال عليه السلام: الأول لك، والثاني لي، وسكت قليلا، فقال اليهودي: والثالث؟؟ فقال عليه السلام: الثالث لمن أكل الرغيف الثالث!، فرد بسرعة: أنا الذي أكلته!! فقال سيدنا عيسى: هي كلها لك، ومضى تاركاً اليهودي غارقاً في لذة حب المال والدنيا. بعد أن جلس اليهودي منهمكا بالذهب لم يلبث إلا قليلا حتى جاءه ثلاثةُ فرسان، فلما رأوا الذهب ترجلوا، وقاموا بقتله شر قتلة. مسكين!! مات ولم يستمتع به إلا قليلا! بل دقائق معدودة!! سبحانك يا رب!! ما أحكمك وما أعدلك!! بعد أن حصل كل واحد منهم على كومة من الذهب بدأ الشيطان يلعب برؤوسهم جميعا، فدنا أحدهم من أحد صاحبيه قائلا له: لم لا نأخذ أنا وأنت الأكوام الثلاثة ونزيد نصف كومة إضافية بدلا من توزيعها على ثلاثة، فقال له صاحبه: فكرة رائعة!!! فنادوا الثالث وقالوا له: ممكن تشتري لنا طعاما لنتغدى قبل أن ننطلق؟؟ فوافق هذا الثالث ومضى لشراء الطعام؟ وفي الطريق حدثته نفسه فقالت له: لم لا تتخلص منهما وتظفر بالمال كله وحدك؟؟ إنها حقا فكرة ممتازة!! فقام صاحبُنا بوضع السم في الطعام ليحصل على المال كله!! وهو لا يعلم كيد صاحبيه له!!، وعندما رجع استقبلاه بطعنات في جسده حتى مات، ثم أكلا الطعام المسموم فما لبثا أن لحقا بصاحبيهما وماتا وماتوا جميعاً، وعندما رجع نبي الله عيسى عليه السلام وجد أربعة جثث ملقاة على الأرض ووجد الذهب وحده ، فقال:هكذا تفعل الدنيا بأهلها فاعبروها ولا تعمروها۔
ثانیاً حکم ملاحظہ فرمائیں 👇
یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات اسرائیلیات کے قبیل سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے، ہاں البتہ بغیر منسوب کیے ہوئے وعظ و نصیحت کے لیے بیان کرنے کی گنجائش ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں۔
تین قسمیں مع الحکم ملاحظہ فرمائیں 👇
(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔
(۲)دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔
(۳)تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لا تصدقوھا ولاتکذبوھا"۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔ (علوم القرآن مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ :۳۶۴)
اب ہم ہمارے بالا سوال میں مذکور واقعہ کو ان تین قسموں کے ساتھ تطبیق دے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تیسری قسم سے ہے۔ لہذا اس کو وعظ و نصیحت کے طور پر بیان کرنے کی گنجائش ہے۔
فقط والسلام
واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل
جمعہ ورتبہ:- ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)
مدرس:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات (الھند)
23/ جنوری/2020ء بروز سنیچر
ماشاء اللہ بہت خوب اللّٰہ تعالیٰ آپکو دونوں جہاں میں کامیابی عطا فمائیں آمین جزاک اللہ
ReplyDelete