Sunday, 31 October 2021

حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھما کی کُشتی کرنے کے متعلق روایت اور اس کی تحقیق

 باسمہ تعالیٰ

(تحقیقات سلسلہ نمبر 63)

*حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھما کی کُشتی کرنے کے متعلق روایت اور اس کی تحقیق*

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

*سوال:-* میں نے آپ محترم کو ایک پوسٹ ارسال کی ہے، اس میں ایک روایت ہے اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے۔ روایت ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

*حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ (ایک روز) حسن وحسین رضی اللہ عنھما کُشتی لڑنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس کشتی کو دیکھ کر) کہ رہے تھے: "اے حسن! (حسین کو) پکڑو"۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا عرض کرنے لگیں: آپ حسن سے فرماتے ہیں حسین کو پکڑو جبکہ حسین چھوٹا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام حسین سے کہ رہے ہیں: (حسن کو) پکڑو۔* 

 نیز اس حدیث کا عنوان قائم کیا گیا ہے *سیدنا حسن سیدنا حسین صلوات اللہ علیھما کی کُشتی* تو ثانیاً سوال یہ ہے کہ کیا حضرت حسن وحسین اور دیگر صحابۂ کرام کے لئے *صلوات اللہ علیہ* یا اسی طرح *علیہ السلام* کے الفاظ استعمال کرنا صحیح ہے؟  بالفاظ دیگر ان پر درود شریف بھیجنا صحیح ہے؟ باحوالہ جواب مطلوب ہے۔

 فجزاکم اللہ خیرا و أحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

*الجواب بعون الملک الوھاب:-* اولاً روایت کی تحقیق و تخریج ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

سوال بالا میں جس روایت کے متعلق سوال دریافت کیا گیا ہے اس کو بطور قصہ بیان کرسکتے ہے، اور شیئر کرنا بھی درست ہے، چونکہ احادیث مبارکہ میں اس کا ثبوت ملتا ہے؛ اگرچہ ضعیف سند سے ہو، اس لیے کہ وہ حدیث جس کے ضعف کو جمہور محدثین و فقہاءِ کرام تسلیم کرتے ہوں اس کے حوالے سے جمہور محدثین وفقہاءِ کرام کی رائے یہ ہے کہ  ضعیف حدیث کو فضا ئلِ اعمال ،ترغیب و ترہیب ،قصص اور مغازی وغیرہ میں دلیل بنایا جاسکتا ہے ،اور ان پر عمل کیاجاسکتا ہے، بشرطیکہ وہ حدیث ضعیف ہو انتہائی ضعیف اور موضوع نہ ہو ، اور اس کی اصل شریعت میں موجود ہو، اور اس عمل کی سنیت کا اعتقاد نہ رکھا جائے۔  چنانچہ ابن مہدی ، امام احمد وغیرہما سے منقول ہے : " أن الضعيف لايحتج به في العقائد والأحكام، ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك، كالقصص وفضائل الأعمال، والترغيب والترهيب، ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل، وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال : " إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال".

(النكت على مقدمة ابن الصلاح (ج2  ص308)

نیز علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اپنی مایا ناز کتاب فتح المغيث میں لکھا ہے: "قد حكى النووي في عدة من تصانيفه إجماع أهل الحديث وغيرهم على العمل به في الفضائل ونحوها خاصةً، فهذه ثلاثة مذاهب".

فتح المغيث (ج1 ص289)

روایت کی مکمل تحقیق و تخریج ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف طرق سے مروی ہے۔

(طریق نمبر1) اس میں یصطرعان کے الفاظ وارد ہے نیز اس میں قائلہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہے۔

(1) اخبرنا ابو يعلى، ثنا سلمة/سليمان بن حيان، ثنا عمر بن أبى خليفة العبدي، عن محمد بن زياد، عن أبي هريرة قال: كان الحسنُ والحسينُ يصطرعانِ بينَ يدَي رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ فكان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ يقولُ هِي حسنُ فقالت فاطمةُ لِمَ تقولُ يا رسولَ اللهِ هِي حسنُ قال إن جبريلَ يقولُ هي حسينُ.

 الكامل في الضعفاء لابن العدي ج٦‏ ص٣٤  

وقال: [فيه] عمر بن أبي خليفة لا يوافقه أحد عليه.

ترجمہ:- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کشتی کر رہے تھے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حسن! "حسین کو پکڑو" تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے اللہ کے رسول: (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ایسا کیوں کہتے ہیں کہ اے حسن! حسین کو پکڑو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرئیل کہہ رہے ہیں: اے حسین! حسن کو پکڑو.

تحقیق و تخریج ١ أبو یعلیٰ کے متعلق سیر أعلام النبلاء میں علامہ ذھبی رقم طراز ہے: (ھو)أحمد بن علي بن المثنى بن يحيى بن عيسى بن هلال التميمي الموصلي ، محدث الموصل ، وصاحب المسند والمعجم .

قال أبو موسى المديني : أخبرنا هبة الله الأبرقوهي عمن ذكره أن والد أبي عبد الله بن مندة رحل إلى أبي يعلى ، وقال له : إنما رحلت إليك لإجماع أهل العصر على ثقتك وإتقانك .

وقال السلمي : سألت الدارقطني عن أبي يعلى ، فقال : ثقة مأمون 

وقال ابن عدي : ما سمعت " مسندا " على الوجه إلا " مسند " أبي يعلى ; لأنه كان يحدث لله عز وجل .

( سیر أعلام النبلاء للذھبی ج14 ص175,176,177)

٢ سلمة بن حيان یا سلیمان بن حیان ان کے متعلق ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تقریب میں لکھا ہے کہ مقبول ہے۔ قال ابن حجر فی التقریب: مقبول، ورمزله "س" 

التقریب رقم الترجمۃ: 4925)

٣ نیز جو روای خصوصاً قابل ذکر ہے وہ عمر بن أبی خلیفہ العبدی ہے، جو محمد بن زیاد سے تنہا اس حدیث کو روایت کرتے ہیں، جیسا کہ ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل میں اس کی طرح اشارہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: *[فيه] عمر بن أبي خليفة لا يوافقه أحد عليه* نیز ہمیں درج ذیل احادیث مبارکہ سے معلوم ہوگا، اب ہمیں دیکھنا یہ ہیں کہ عمر بن أبی خلیفہ العبدی راوی کے متعلق محدثین نے جرح سے کام لیا ہے یا توثیق کی ہے چناچہ ابو حاتم رحمہ اللہ وغیرہ نے ان کو صالح الحدیث لکھا ہے:*قال أبو حاتم: صالح الحديث*

(الجرح والتعديل: ج6 ص131 / الترجمة 563)

*وقال عمرو بن علي: حدثنا عمر بن أبي خليفة من الثقات*

(تاريخ البخاري الكبير: ج6 /ص152 الترجمة 2002)

*وقال ابن حجر في "التقريب": مقبول* 

(التقریب لابن حجر: ص717)

*قال عمرو بن علي الفلاس: حدثنا عمر بن أبي خليفة، من الثقات،  عن محمد بن زياد بحديثين*

(تهذيب التهذبب وتهذيب الكمال في أسماء الرجال مع زيادة)

*قال الذهبي في الكاشف: وثّقه الفلاس.*

( الكاشف للذهبي ج2 ص60)

*قال ابن عدي: يحدث عن محمد بن زياد بما لا يوافقه عليه أحد ولم أجد للمتقدمين فيه كلاما.*

(الكامل في الضعفاء لابن العدي ج٦‏ ص٣٤)

٤ محمد بن زیاد القرشی کے متعلق بھی ثقہ ہونے کا جزم ہے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال إبراهيم بن هانئ، عن أحمد بن حنبل، ثقة، وكذلك قال عبد الله بن أحمد عن أبيه 

(العلل ومعرفة الرجال: ج2 ص32) 

اس پوری تحقیق سے معلوم ہوا کہ عمر بن أبی خلیفہ العبدی، محمد بن زیاد سے روایت کرنے میں اگرچہ منفرد ہے لیکن روایت میں کسی طرح کی کوئی ایسی علت نہیں ہے جس کی بنیاد پر حدیث کو غیر قابل حجت للبیان قرار دیا جائے، لہذا اس کو بیان کرنے کی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

اسی طرح اس روایت کو متعدد علماء محدثین نے بھی ذکر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

(2)  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَمْدَانَ ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ ، ثَنَا سَلَمَةُ بْنُ حَيَّانَ الْعَتَكِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ أَبِي خَلِيفَةَ الْعَبْدِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : " كَانَ الْحَسَنُ  وَالْحُسَيْنُ يَصْطَرِعَانِ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔۔۔۔۔۔۔ الخ مثل الحدیث السابق

(فضائل الخلفاء الراشدين لأبي نعيم الفضيلة الثانية للحسين رضي الله عنه رقم الحديث : 128)

3 وأخبرنا أبو القاسم أيضا أنا أبو الحسين محمد بن عبد الرحمن بن عثمان بن أبي نصر أنا القاضي يوسف بن القاسم الميانجي أنا أبو يعلى أحمد بن علي بن المثنى الموصلي نا سلمة بن حيان نا عمر بن أبي خليفة العبدي عن محمد بن زياد عن أبي هريرة قال كان الحسن والحسين يصطرعان۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ مثلہ

(تاریخ دمشق لابن عساکر ج14 ص165 رقم الحدیث:- 3499)

4 أخبرنا أَبُو مَنْصُورِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ السّيحِيُّ الْعَدْلُ ، أخبرنا أَبُو الْبَرَكَاتِ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُمَيْسٍ ، أخبرنا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي بْنِ طَوْقٍ ، أخبرنا أَبُو الْقَاسِمِ نَصْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْخَلِيلُ الْمُرَجَّى ، أخبرنا أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ ، أخبرنا سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ ، أخبرنا عُمَرُ بْنُ خَلِيفَةَ الْعَبْدِيُّ ، عن مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، عن أَبِي هُرَيْرَةَ ، عن رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : كَانَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ يَصْطَرِعَانِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ مثلہ

(أسد الغابة لابن الأثير رقم الحديث : 323 ج٣ ص٢٦ باب الحاء والسين)

5 حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ حِبَّانٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي خَلِيفَةَ الْعَبْدِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : كَانَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا السَّلامُ يَصْطَرِعَانِ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم۔۔۔۔۔۔۔ الخ مثل الحدیث الأول۔ 

(معجم أبي يعلى الموصلي باب السين رقم الحديث : 194)

6  وکذا ذکرہ فی (ذخیرۃ الحفاظ رقم الحدیث:- 3913 وقال: رواه عمر بن أبي خليفة العبدي البصري: عن محمد بن زياد، عن أبي هريرة. وهذا لا أعلم يرويه غير عمر هذا)

(طریق نمبر2) اس میں اتحد یا اتخذ کے الفاظ وارد ہے، نیز اس میں قائلہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہے۔

1 ابْنُ سَعْدٍ : أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : اتَّحَدَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَجَعَلَ يَقُولُ : هِيَ يَا حَسَنُ ، خُذْ يَا حَسَنُ ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : تُعِينُ الْكَبِيرَ ؟ قَالَ : إِنَّ جِبْرِيلَ يَقُولُ : خُذْ يَا حُسَيْنُ .

 (سير اعلام النبلاء ح٣ ص٢٦٦)

قال في هامشه: تهذيب ابن عساكر " 4 / 212، وسيورده المؤلف في الصفحة 284 من طريق آخر وفيه: " فاعتركا " بدل " اتحد " وفي " المطالب العالية ": اصطرع الحسن والحسين.

2 قال: أخبرنا علي بن محمد، عن حماد بن سلمة، عن عمار بن أبي عمار، عن ابن عباس، قال: اتخذ الحسن والحسين عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فجعل يقول: هي يا حسن، خذ يا حسن، فقالت عائشة - رضي الله عنها -: تعين الكبير على الصغير! فقال: إن جبريل يقول: خذ يا حسين۔

(طبقات ابن سعد ج6 ص370 الطبقة الرابعة من الصحابة ممن أسلم عند فتح مكة)

اس میں جو روایان حضرات ہیں ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہے کہ جن کی موجودگی میں روایت انتہائی ضعیف یا موضوع قرار دی جائیں، تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

١ علی بن محمد روای ثقہ ہے، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ میں سے ہے، لا یأس بہ۔ 

قال ابن حجر في التقريب: ثقة.

٢ حماد بن سلمہ اور عمار بن أبی عمار امام مسلم اور صاحب سنن اربعہ رحمہم اللہ کے شیوخ میں سے ہیں۔

 قال شعبة : كان حماد بن سلمة يفيدني عن عمار بن أبي عمار . وقال وهيب بن خالد : حماد بن سلمة سيدنا وأعلمنا .

(سیر أعلام النبلاء للذھبی ج7 ص445)

وقال ابن حجر في التقريب: (حماد بن سلمة) ثقة،عابد، أثبت الناس في ثابت، وتغير حفظه بآخرة.

وقال ایضا: (عمار بن أبي عمار) صدوق ربما اخطأ. 

(التقريب رقم الترجمة: ٤٨٢٩)

تاریخ دمشق میں بھی روایت موجود ہے:

3 أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنبأنا الحسن بن علي أنبأنا محمد بن العباس، أنبأنا أحمد بن معروف، أنبأنا الحسين بن الفهم أنبأنا محمد بن سعد أنبأنا علي بن محمد، عن حماد بن سلمة: عن عمار ابن أبي عمار، عن ابن عباس قال: اتخذ *(كذا رسمها بالاصل وفي المطبوعة : " انتجد " وفي الحاشية : انتجدا : تسابقا وتصارعاوفي اللسان : اتخذ القوم يأتخذون ائتخاذا وذلك إذا تصارعوا. في حاشية الكتاب)* الحسن والحسين عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعل يقول: هي يا حسن خذ يا حسن. فقالت عائشة: تعين الكبير على الصغير؟ فقال: إن جبرئيل يقول: خذ يا حسين.

(تاریخ دمشق لابن عساکر ج13 ص223 رقم الحدیث:- 3226)

(طریق نمبر3) اس میں الفاظ اعترکا یعنی کشتی کرنا وارد ہوئے ہیں، نیز اس میں قائل حضرت علی رضی اللہ عنہ ہے۔

1 أخبرنا أبو القاسم علي بن إبراهيم قال قرأت على والدي أبي الحسين إبراهيم بن العباس الحسيني قلت له أخبركم أبو عبد الله الحسين بن عبد الله بن محمد الأطرابلسي إجازة أنا خيثمة بن سليمان القرشي نا أحمد بن محمد بن عبد الله بن العباس الشافعي بمكة نا إبراهيم بن محمد الشافعي نا علي بن أبي علي اللهبي عن جعفر بن محمد عن أبيه (عن جده)

*(قوله:(عن جده)زيادة عن الترجمة المطبوعة وهي مستدركة فيها بين معكوفتين وسقطت أيضا من سير الاعلام)*  عن علي قال قعد رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) موضع الجنائز وأنا معه فطلع الحسن والحسين فاعتركا فقال النبي ( صلى الله عليه وسلم ) إيها حسن خذ حسينا فقال علي يا رسول الله أعلى حسين تواليه *( كذا بالاصل وسير الأعلام وفي الترجمة المطبوعة : تؤلبه معناہ فی الاردیۃ: کسی کے خلاف ابھارنا،اکسانا)* وهو أكبرهما فقال هذا جبريل يقول إيها حسين

(تاریخ دمشق لابن عساکر ج14 ص164,165 رقم الحدیث:-3498)

2 أخبرنا أبو يعقوب يوسف بن أيوب نا محمد بن علي بن محمد الهاشمي الخطيب ح

 وأخبرنا أبو غالب أحمد بن الحسن أنا أبو الغنائم عبد الصمد بن علي أنا عبيد الله بن محمد بن إسحاق أنا عبد الله بن محمد أنا أبو الفضل محرز بن عون بن أبي عون نا عبد العزيز بن محمد الدراوردي عن علي بن علي اللهبي عن جعفر بن محمد عن أبيه أن الحسن والحسين كانا يصطرعان فاطلع علي على النبي ( صلى الله عليه وسلم ) وهو يقول الحسن ويها فقال علي يا رسول الله على الحسين فقال إن جبريل يقول ويها الحسين

(تاریخ دمشق لابن عساکر ج14 ص165 رقم الحدیث:- 3500)

3 عبد العزيز الدراوردي وغيره، عن علي بن أبي علي الليثي، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، قال: قَعَدَ رَسولُ اللهِ ﷺ مَوضِعَ الجَنائِزِ، فطلَعَ الحَسَنُ والحُسَينُ، فاعتَرَكا، فقال النَّبيُّ ﷺ: إيهًا حَسَنُ. فقال علِيٌّ: يا رَسولَ اللهِ، أعلى حُسَينٍ تُواليهِ؟ فقال: هذا جِبريلُ يقولُ: إيهًا حُسَينُ.

سير أعلام النبلاء للذهبي محقق  شعيب الأرنؤوط ج٣‏ص٢٨٤  

قال المحقق شعيب الأرنؤوط:   هو على انقطاعه ضعيف جدا لضعف علي بن أبي علي الليثي.

روایت انتہائی ضعیف ہے جیسا کہ محقق کتاب شعیب ارناؤوط نے لکھا ہے۔

(طریق نمبر4) اس میں اصطرع کے الفاظ وارد ہے' اور قائلہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہے۔

1 حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ : اصْطَرَعَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ حُسَيْنٌ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ : كَأَنَّهُ أَحَبُّ إلَيْك ، قَالَ : لَا وَلَكِنَّ جِبْرِيلَ يَقُولُ : هُوَ حُسَيْنٌ .

(المصنف لابن أبي شيبة كتاب الفضائل مَا جَاءَ فِي الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا رقم الحدیث: 33858)

یہ روایت ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں راوی جابر بن یزید بن حارث الجعفی ضعیف رافضی ہے۔

قال ابن حجر في التقريب (هو) ضعيف رافضي. 

نیز مطلب بن زیاد الثقفی سچے ہیں لکین کبھی ان کو حدیث میں وہم ہوجاتا تھا۔ 

قال ابن حجر فی التقریب: (ھو) صدوق ربما وھم۔ 

(طریق نمبر5) اس میں بھی قائلہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہے۔

1 وَقَالَ الْحَارِثُ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ ، ثنا حُسَيْنُ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، قَالَ : اصْطَرَعَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : هِيَ حَسَنُ فَقَالَتْ لَهُ فَاطِمَةُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، تُعِينُ الْحَسَنَ كَأَنَّهُ - يَعْنِي الْحَسَنَ - أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنَ الْحُسَيْنِ ؟ قَالَ : إِنَّ جِبْرِيلَ يُعِينُ الْحُسَيْنَ ، وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أُعِينَ الْحَسَنَ هَذَا مُرْسَلٌ   

(المطالب العالیۃ لابن حجر العسقلانی رقم الحدیث:3966)

یہ روایت انتہائی ضعیف اور مرسل ہے، اس لیے کہ حسن بن قتیبہ راوی حدیث کے باب میں انتہائی کمزور ہے، جیسا کہ المطالب العالیۃ کے محقق لکھتے ہیں: ھذا ضعیف جدا بھذا السند، لان الحسن بن قتیبۃ ضعیف جدا ومع ذلک مرسل کما قال الحافظ رحمہ اللہ۔ 

المطالب العالیۃ حوالہ سابق) 

ثانیاً دوسرے سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

*''علیہ الصلوۃ والسلام ''* کا استعمال اصلاً انبیاء کرام کےساتھ مخصوص ہے،اس لئے اسے انبیاء کرام کے لئے ہی استعمال کرناچاہیے۔ غیر انبیاء کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے، لہذا سوال بالا میں مذکور عنوان میں *صلوات اللہ علیھما* لکھنا درست اور صحیح نہیں ہے، یہ شیعہ کا طور و طریق ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 

مفتی رشیداحمدلدھیانوی رحمہ اللہ احسن الفتاویٰ میں لکھتے ہیں:

''لفظ علیہ الصلاۃ والسلام''انبیاء وملائکہ علیہم الصلاۃ والسلام کے ساتھ خاص ہے،غیرانبیاء کے لئے اس کااستعمال جائزنہیں،لہذا حسین علیہ الصلاۃ والسلام یاعلی علیہ الصلاۃ والسلام کہناجائزنہیں ۔البتہ تبعاً استعمال کرناجائزہے،یعنی کسی نبی کے نام کے بعد آل نبی یاصلحاء کاذکرآجائے توسب کے لئے علیہم الصلاۃ والسلام کہناجائزہے۔(احسن الفتاویٰ 9/35،ط:سعید)

مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

''ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ علیہ السلام لکھنے کوشعارشیعہ واہل بدعت فرمایاہے،اس لئے وہ منع فرماتے ہیں....''۔(فتاوی محمودیہ19/145،فاروقیہ)

ملاعلی قاری رحمہ اللہ کی عبارت مندرجہ ذیل ہے:

''أن قولہ ''علی علیہ السلام''من شعار أھل البدعۃ ،فلایستحسن فی مقام المرام''۔(فقہ اکبرص:167،ط:قدیمی)

حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہیدرحمہ اللہ لکھتے ہیں:

''اہل سنت والجماعت کے یہاں ''صلی اللہ علیہ وسلم''اور''علیہ السلام''انبیائے کرام کے لئے لکھاجاتاہے،صحابہ کے لئے ''رضی اللہ عنہ لکھناچاہیئے،حضرت علی کے نامِ نامی پر''کرم اللہ وجہہ''بھی لکھتے ہیں ، ''۔(آپ کے مسائل اوران کاحل1/202،لدھیانوی) انتہی من فتاویٰ جامعہ بنوریہ ٹاون کراچی ملخصا۔

امام محی الدین نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فقال الشيخ أبو محمد الجويني من أصحابنا : هو في معنى الصلاة ، فلا يستعمل في الغائب ، فلا يفرد به غير الأنبياء ، فلا يقال : علي عليه السلام ، وسواء في هذا الأحياء والأموات" انتهى مختصرا

ہمارے اصحاب میں شیخ ابو محمد الجوینی نے کہا ہے: سلام، یہ صلاۃ کے معنی میں ہے، لہذا یہ کسی غیر موجود کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس کا استعمال انبیاء کے علاوہ کسی کے ساتھ نہ کیا جائے۔ چناں چہ علی علیہ السلام کہنا درست نہیں۔ یہ لفظ (علیہ السلام) زندہ اور فوت شدہ (غیر انبیاء) دونوں کے لیے استعمال کرنا نا درست ہے۔

[الأذكار، ص : ١١٨]

شیعہ بعض مخصوص صحابۂ کرام یعنی سیدنا علی، حسن و حسین اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ *"علیہ السلام"* یا *"صلوات اللہ علیھم"* کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ  یہ ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ اہل بیت، انبیاء کی طرح معصوم ہیں، پھر ان کے یہاں عقیدۂ امامت بھی موجود ہیں جو صریح غیر اسلامی عقائد پر مشتمل ہے۔

اہل سنت صحابہ کرام میں فرقِ مراتب کے باوجود خلفائے راشدین، مہاجر و انصار، بدری صحابہ، شرکائے بیعتِ رضوان اور عشرۂ مبشرہ سمیت تمام صحابہ کرام کے لیے "رضی اللہ عنہ" کا استعمال کرتے ہیں اور یہی درست ہے۔

خلاصۂ کلام:- سوال میں ذکر کردہ روایت اگرچہ ضعیف سند سے مروی ہے،لیکن کثرت طرق سے مروی ہونے کی بنا پر حسن لغیرہٖ کے درجے کو پہنچ گئی ہے، لہذا قابل بیان ہے، اور سوال میں جو کہا گیا کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے متعلق صلوات اللہ علیھم کہنا تو اس سلسلے میں پوری تحقیق اوپر ذکر کر دی گئی کہ جمیع صحابہ کے لیے صلوٰۃ یا سلام کے الفاظ استعمال کرنا درست اور صحیح نہیں ہے بلکہ ان کے لیے رضی اللہ عنہم استعمال کیا جائے۔

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واكمل

جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

رقم الاتصال:- 919428359610+

No comments:

Post a Comment