Tuesday, 14 December 2021

(عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک روایت کی تحقیق)

 

باسمہ تعالیٰ

(عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک روایت کی تحقیق)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- سوشل میڈیا پر ایک روایت ترمذی کے حوالے سے کثرت سے گردش کررہی ہے، اور اس کا عنوان یہ قائم کیا ہے، (ذکرِ میلاد، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے)

اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے۔ روایت 👇👇👇

"حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجدِ نبوی میں میلاد کی محفل منعقد ہوئی، اس میں خود آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کے فضائل بیان کئے۔" (جامع الترمذی ج2 ص201) 

اس کی تحقیق مطلوب ہے؟

فقط والسلام

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- روایتِ بالا تلاش بسیار کے بعد بھی سنن الترمذی میں نہیں ملی اور نہ کسی کتاب میں، صحاح میں اور نہ کتب ضعفاء میں، حتی کہ موضوعات میں بھی نہیں ملی، لہذا جب تک روایت نہیں ملتی اس وقت تک اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ اجتناب کیا جائے۔ 

رہا مسئلہ ذکرِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسنون ہونے کا تو اس سلسلے میں أہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ مروجہ میلاد جو بہت سی فکری، نظری، اعتقادی اور عملی غلطیوں سے مرکب ہے وہ بدعت ہے، اس کے متعلق مستقبل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ خصوصاً حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب *بارہ ربیع الاول اور عید میلاد النبی کی شرعی حیثیت* کا مطالعہ کریں۔ 

ہاں البتہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے سنن ترمذی اباب المناقب میں ایک روایت ذکر کی ہیں لکین اس میں کسی طرح سے مروجہ جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت نہیں ہوتا، لہذا اس کو عید میلاد کے طور پر ذکر کرنا بھی درست نہیں ہے۔ روایت ملاحظہ فرمائیں 👇👇

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ قَالَ : جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ : " مَنْ أَنَا ؟ ". قَالُوا : أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، عَلَيْكَ السَّلَامُ. قَالَ : " أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا، وَخَيْرِهِمْ نَفْسًا ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

سنن الترمذي |

أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  

 بَابٌ : فِي فَضْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ 

رقم الحدیث:- 3608

*ترجمہ:-* حضرتِ عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے  اور گویا انہوں نے کوئی بات سنی (وہی بات سنی ہے جو گزشتہ حدیث میں آئی ہے ) پس نبی علیہ الصلاۃ والسلام  ممبر پر کھڑے ہوئے اور سوال کیا  میں کون ہوں؟ لوگوں نے جواب دیا  آپ اللہ کے رسول ہیں،  آپ پر سلامتی ہو آپ نے فرمایا: میرا نام  محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے، میرے والد کا نام  عبداللہ ہے، اور میرے دادا کا نام  عبد المطلب ہے، بے شک اللہ تعالی نے نے مخلوق (انسانوں) کو پیدا کیا پس مجھے ان کے بہترین حصے میں گردانا پھر ان کو دو جماعتیں بنایا  پس مجھے ان کی بہترین جماعت میں گردانا، پھر ان کے قبیلے بناۓ پس مجھے  ان کے بہترین قبیلے میں گردانا پھر ان کو گھر ( خاندان) بنایا ، پس مجھے ان کے بہترین خاندان میں گردانا اور مجھے  ان میں سے بہترین ذات بنایا۔

خلاصۂ کلام:- احادیث مبارکہ کے ذخیرے میں نہ تو مروجہ جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت ملتا ہے، اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منایا ہے اور نہ تو منانے کا حکم دیا ہے، اسی طرح نہ خلفاء راشدین نے منایا ہیں اور نہ تو منانے کا حکم دیا ہیں، لہذا اس طرح کی روایات سے ذکر میلاد النبی کا مسنون سمجھنا بے وقوفی سے کم نہیں، نیز سوال بالا میں مذکور روایت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کرنا اس کو شئیر کرنا اور اس طرح کی واہیات سے جشن میلاد کو ثابت کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ لہذا اجتناب کیا جائیں۔ 

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و اکمل

✍️ *ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

خادم التدلیس:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

*رابطہ نمبر:- 9428359610*

https://t.me/Tahqeqat

No comments:

Post a Comment