Thursday, 17 September 2020

شب جمعہ کا درود شریف اور اس کی فضیلت وحکم

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 40)

(شب جمعہ کا درود اور اس کی فضیلت)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- درج ذیل ایک درود شریف ہے ۔ اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ 

عن عبدالله بن عباس قال: من قال ليلةَ الجمعةِ عشرَ مِرارٍ: يا دائمَ الفضلِ على البريَّةِ، يا باسطَ اليدَيْن بالعطيَّةِ، يا صاحبَ المواهبِ السَّنيَّةِ، صلِّ على محمَّدٍ خيرِ الورى بالسجيَّةِ، واغفِرْ لنا ذا العُلى في هذه العشيَّةِ، كتب اللهُ عزَّ وجلَّ له مائةَ ألفِ ألفِ حسنةٍ، ومحا عنه مائةَ ألفِ ألفِ سيِّئةٍ، ورفع له مائةَ ألفِ ألفِ درجةٍ، فإذا كان يومُ القيامةِ زاحم إبراهيمَ الخليلَ في قُبَّتِه۔

فضیلت۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ جو شخص مذکورہ درود کو شب جمعہ میں دس مرتبہ پڑھے گا اللہ رب العزت اس کے دس کروڑ گناہ معاف فرمائیں گے، دس کروڑ نیکیاں عطا فرمائیں گے اور دس کروڑ درجے بلند فرمائیں گے۔ 

(القول البدیع فی الصلوۃ علی الحبیب الشفیع صلی اللہ علیہ وسلم)

اس کی تحقیق مطلوب ہے۔

فقط والسلام

سائل: بلال بن حافظ یاسین اسلامپوری

متعلم: جامعہ تحفیظ القران اسلامپورہ۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوہاب:- اس روایت کو علامہ دیلمی نے اپنی کتاب"الفردوس"  میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا ذکر فرمایا ہے: رقم الحدیث: (5546) عن ابن عباس قال: من قال ليلة الجمعة عشر مرات : يا دائم الفضل على البرية ، يا باسط اليدين بالعطية يا صاحب المواهب السنية ، صل على محمد خير الورى سجية ، واغفر لنا يا ذا العلى في هذه العشية. كتب الله عز وجل مائة ألف ألف حسنة ومحي عنه مائة ألف ألف سيئة ، ورفع له مائة ألف ألف درجة ، فإذا كان يوم القيامة زاحم ابراهيم الخليل في قبته۔

ترجمہ:- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جس شخص نے جمعہ کی رات کو دس مرتبہ اس درود کو پڑھا "يا دائم الفضل على البرية، يا باسط اليدين بالعطية، ياصاحب المواهب السنية، صل على محمد خير البرية بالسجية، واغفر لنا يا ذا العلی في هذه العشية" اللہ تعالی اسے ایک کروڑ نیکی عطا فرماتے ہیں،ایک کروڑ گناہ معاف فرماتے ہیں اور ایک کروڑ درجے بلند فرماتے ہیں اور روز قیامت حضرت ابراہیم علیہ السلام اسے اپنے خیمہ میں جگہ دینگے۔

حکم الحدیث: ایک معتبر ادارہ نے لکھا ہے: لا أصل له: ذكره الديلمي في ((الفردوس)) (5546)، وبيض له ولده، ولم يذكر له سند.

اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے ، امام دیلمی نے اس کو الفردوس میں ذکر فرمایا ہے،امام دیلمی کے صاحبزادہ (جنہوں نے الفردوس کی تخریج کی ہے)نے اس کی سند میں بیاض اختیار کیا ہے اور کوئی سند ذکر نہیں فرمائی۔

یہ روایت موضوع ہے، اور کتاب "الفردوس"  للدیلمی میں موضوع روایات بھی ذکر کی گئی ہیں،لہذا ذیل میں حضرت مفتی عبد الباقی صاحب کی مختصر سی تحریر ذکر کی جاتی ہے،  ملاحظہ فرمائیں 👇

كتاب "الفردوس" للديلمی کی اسنادی حیثیت:

امام دیلمی نے اس کتاب میں صحیح، ضعیف، موضوع ہر طرح کی روایات نقل کردی ہیں، گویا یہ کتاب احادیث کیلئے ایک موسوعہ (انسائیکلوپیڈیا) کی حیثیت رکھتی ہے جس کی ہر طالب علم کو ضرورت ہے، لیکن اس کی روایات مطلقا قابل اعتبار نہیں ہیں، اگرچہ

اس کتاب میں صحیح اور حسن درجے کی روایات بھی موجود ہیں.

اس کتاب کی تصنیف کا سبب:

علامہ دیلمی نے اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھا کہ جب میں نے اپنے زمانے کے لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے احادیث کو چھوڑ دیا،سند کی بحث ہی ختم کردی، ہر طرح کے سچے جھوٹے قصے سنانے شروع کردیئے، من گھڑت واقعات اور روایات بیان کرنی شروع کردیں تو میں نے ایک ایسی کتاب لکھی جس میں مختصرا دس ہزار (10,000) احادیث جمع کیں تاکہ لوگ اس سے استفادہ حاصل کرسکیں.

 ہائے افسوس

أمام دیلمی نے لوگوں کو من گھڑت اور موضوعات سے بچانا چاہا لیکن اپنی کتاب ایسی لکھ ڈالی خود ہی کمزور اور من گھڑت روایات کی پہچان بن گئی۔

 خلاصہ کلام

امام دیلمی (والد، بیٹا) دونوں ہی مضبوط علماء میں سے ہیں، مگر ان کی کتاب میں صحت کا التزام نہیں کیا گیا، لیکن اسکا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ ہر روایت من گھڑت یا موضوع ہے۔

پس اگر وہ روایت مستند کتب میں موجود ہے تو وہ مستند سمجھی جائے گی، اور اگر صرف اسی کتاب میں موجود ہے تو پھر ناقابل اعتبار کہلائی جائے گی، الا یہ کہ تحقیق سے وہ درست ثابت ہوجائے۔انتھی کلام المفتی۔۔۔۔

علامہ دیلمی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادہ کا مسند الفردوس کے نام سے جو نسخہ ہے اس میں اس روایت پر بیاض ہے اور کوئی سند بھی مذکور نہیں ہے۔۔ بالا تحریر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے، اس کی تین وجوہات ہیں

 (١) بغیر سند کے ہے

 (٢) اسی کتاب میں ہے، اور کسی محدث نے اس کو ذکر نہیں کیا ہے

(٣) اس حدیث کو علماء نے موضوع قرار دیا ہیں۔ 

(1)چنانچہ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب القول البدیع ص۔۲۰۰ (دار الریان للتراث کے نسخہ میں)پر اس درود کو ابن عباس کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے اور اسے مکذوب لکھا ہے۔

ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں 👇

ويروي مما لم اقف له علی اصل عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما رفعة من قال ليلة الجمعة عشر مرات يا دائم الفضل على البرية، يا باسط اليدين۔۔۔۔۔۔۔۔ و هذا مكذوب۔ 

ترجمہ:- ایک روایت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا روایت کی جاتی ہے جس کی اصل کے متعلق کوئی علم نہیں ہے (وہ یہ کہ)جس شخص نے جمعہ کی رات کو دس مرتبہ اس درود کو پڑھا

"يا دائم الفضل على البرية، يا باسط اليدين بالعطية، ياصاحب المواهب السنية، صل على محمد خير البرية بالسجية، واغفر لنا يا ذا العلی في هذه العشية" للہ تعالی اسے ایک کروڑ نیکی عطا فرماتے ہیں،ایک کروڑ گناہ معاف فرماتے ہیں اور ایک کروڑ درجے بلند فرماتے ہیں اور روز قیامت حضرت ابراہیم علیہ السلام اسے اپنے خیمہ میں جگہ دینگے۔  یہ روایت جھوٹی ہے۔ 

(2)نیز علامہ ابن حجر ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب الدر المنضود فی الصلوۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود میں صفحہ۔۲۲۷ پر موضوع قرار دیا ہے۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں 👇

ويروى أيضا : من قال ليلة الجمعة عشر مرار : یا دائم الفضل على البرية الخ ۔۔۔۔ وهو مكذوب یہ روایت جھوٹی ہے۔

اس عبارت کے تحت حاشیہ میں لکھا ہے: عزاه الإمام السخاوي في " القول البديع وأص۳۸۳) لأبي موسى المديني۔

نوٹ:- شیخ عباس القمی(جو ایک شیعہ عالم تھے)نے بھی اس روایت کو مفاتح الجنان میں ذکر کیا ہے: 

التاسع : أن يقول عشر مرات : يا دائِمَ الفَضْلِ عَلى البَرِيَّةِ ، يا باسِطَ اليَّدِيْنِ بِالعَطِيَّةِ الخ۔۔۔۔۔ وهذا الذكر الشريف وارد في ليلة عيد الفطر أيضاً.

لیکن چونکہ شیعہ کی کتب موضوع اور من گھڑت ہے لہذا اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہے۔ 

کتب شیعہ کے متعلق معلومات کے لئے ہماری درج ذیل لینک سے استفادہ کریں 👇

https://mohassantajpuri.blogspot.com/2020/02/blog-post_25.html?m=1

ہاں البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ خالص الفاظ درود (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف فضیلت کی نسبت کیے بغیر) پڑھنے کی گنجائش ہے، متعینہ طور پر کسی خاص صیغہ کی پابندی ضروری نہیں ہے،البتہ ماثور و منقول الفاظ باعثِ برکت ضرور ہیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت درست نہیں اس لیے کہ اگر صلاۃوسلام کے صیغے کسی  غیر معروف کتاب یا غیر منقول فضائل کے ساتھ ملے تو بشرطے صحت الفاظ ان کو پڑھنا درست ہوگا،لیکن اس کی فضیلت خاصہ کا اعتقاد رکھنا صحیح نہ ہوگا،جب تک کسی مستند عالم سے ان فضائل سے متعلق روایات کی تحقیق نہ کرائی جائے۔ 

الفاظ درود، ان کی فضیلت اور تاثیر درود و سلام کے متعلق مکمل معلومات کے لئے ہماری درج ذیل لینک سے استفادہ کریں 👇

https://mohassantajpuri.blogspot.com/2020/03/blog-post.html?m=1

خلاصہ کلام:- بالا سوال میں مذکور الفاظ درود تو صحیح ہے، پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، لکین روایت جس میں اس کی فضیلت مذکور ہے موضوع اور من گھڑت ہے،  لہذا اس کے بیان و نشر سے احتراز کرنا چاہیے۔ واللہ الموفق والمعین۔

فقط والسلام

و اللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم۔۔۔۔

✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

17/ستمبر/2020ء بروز جمعرات

1 comment: