Sunday, 23 January 2022

غیر حدیثی کتب میں ذکر کردہ احادیث کا تحقیقی جائزہ، نیت، ترتیب، موالات اور تسمیہ کے متعلق احادیث کی مکمل اور محقق تحقیق

 باسمہ تعالیٰ     حامداً ومصلیاً

(غیر حدیثی کتب میں ذکر کردہ احادیث کا تحقیقی جائزہ)

قول صاحب أصول الشاشي رحمه الله تعالىٰ: "فلا يزاد عليه شرط النية والترتيب والموالاة والتسمية بالخبر" 

(اصول الشاشی ص10 مکتبۂ المیزان)

اس میں چار چیزیں ذکر کی گئی ہے، (١) نیت (٢) ترتیب (٣) موالات ( پے درپے ہونا) (٤) اور تسمیہ، ان کے متعلق لف ونشر مرتب کے طور پر احادیث پیش کی جائے گی۔ ان شاءاللہ

(١) نیت کے متعلق وہ حدیث ہے جس کو ائمۂ ستہ نے بطریق یحیی بن سعید الانصاری، عن محمد بن ابراہیم التیمی، عن علقمۃ بن وقاص اللیثی، عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے تخریج کی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إنما الأعمال بالنيات"۔

( أخرجه البخاری فی صحيحه بَاب : كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ رقم:01، ومسلم في صحيحه في كِتَاب الْإِمَارَة، بَاب قَوْله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ " رقم: 1907 ( 155 ) بلفظ: إنما الأعمال بالنية، وأبو داود فی سننه فی كِتَاب الطَّلَاق بَاب فِيمَا عُنِي بِهِ الطَّلَاقُ وَالنِّيات، رقم: 2201، والترمذي في سننه في أَبْوَاب فَضَائِلِ الْجِهَادِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُقَاتِلُ رِيَاءً وَلِلدُّنْيَا، رقم: 1647، بلفظ: إنما الأعمال بالنية، والنسائی فی سننه في كِتَاب الطَّهَارَة، بَاب النِّيَةُ فِي الْوُضُوء، رقم: 75، بلفظ الواحد، وابن ماجة في سننه في كِتَاب الزُّهْد، بَاب النِّيَّة، رقم: 4227، وهكذا أخرجه أحمد والطيالسي والدارقطني والبيهقي وابن جارود وغيرهم، كذا في تخريج الزيلعي 01/382)

اسی طرح یہ روایت صحیح ابن حبان میں تین جگہوں پر ہیں، اور ان تینوں جگہوں میں  لفظ "إنما" نہیں ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇

01  أخبرنا علي بن محمد القباني حدثنا عبد الله بن هاشم الطوسي حدثنا يحيى بن سعيد القطان عن يحيى بن سعيد الأنصاري عن محمد بن إبراهيم التيمي عن علقمة بن وقاص عن عمر بن الخطاب رضى الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " الأعمال بالنيات"………. 

(صحيح ابن حبان كتاب البر والإحسان، باب الإخلاص وأعمال السر، ج02 ص113، رقم: 388)

02  أخبرنا عمر بن سعيد بن سنان قال حدثنا أبي قال حدثنا عيسى بن يونس عن يحيى بن سعيد الأنصاري عن محمد بن إبراهيم التيمي عن علقمة بن وقاص الليثي عن عمر بن الخطاب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " الأعمال بالنية "..........

(صحيح ابن حبان كتاب البر والإحسان، باب الإخلاص وأعمال السر، ج02 ص115، رقم:389)

03 أخبرنا العباس بن أحمد بن حسان السامي بالبصرة، حدثنا الصلت بن مسعود الجحدري، حدثنا عمر بن علي، حدثنا يحيى بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن علقمة بن وقاص، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الأعمال بالنيات"......

(صحيح ابن حبان ج11 ص210 رقم:4868)

ان تینوں روایات میں لفظ إنما نہیں ہے۔

اسی طرح علامہ بیھقی رحمہ اللہ نے اس روایت کی تخریج اپنی کتاب معرفۃ السنن والآثار میں بغیر لفظ "إنما" کے کی ہے، اور اس کو امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی طرف منسوب کیا ہے، لیکن امام مسلم رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرنے میں تسامح ہوا ہے، چونکہ بخاری شریف میں یہ روایت بغیر "إنما" کے ہے، لیکن مسلم شریف میں یہ روایت ایک ہی جگہ مروی ہے، اور اس میں "إنما" کا ذکر ہے، لہذا اس سلسلے میں امام بیھقی رحمہ اللہ کو تسامح ہوا ہے، جیسا کہ اس کی طرف علامہ زیلعی رحمۃاللہ علیہ نے نصب الرایہ میں اشارہ فرمایا ہے: " وکذالک رواه البيهقي في المعرفة بدون"إنما" وعزاه للبخاري ومسلم، وهو منه تساهل" 

(نصب الراية للزيلعي ج1 ص302)

معرفة السنن والآثار کی عبارت ملاحظہ فرمائیں 👇

….."الأعمال بالنيات".....

رواه البخاري في الصحيح عن مسدد، ورواه مسلم، عن أبي الربيع، وعن ابن نمير، عن يزيد بن هارون.

(معرفة السنن والآثار للبيهقي، ج01 ص261)

(2) ترتیب اور موالات کے متعلق درج ذیل حدیث سے فقہائے کرام استدلال کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں 👇

حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، عَنْ بَحِيرٍ - هُوَ ابْنُ سَعْدٍ - عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يُصَلِّي وَفِي ظَهْرِ قَدَمِهِ لُمْعَةٌ قَدْرُ الدِّرْهَمِ، لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ وَالصَّلَاةَ.

(سنن أبی داؤد، كِتَاب الطَّهَارَة، بَاب تَفْرِيق الْوُضُوء، رقم: 175) 

ترجمہ:- ایک صحابئ رسول رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا، اس کے پاؤں کے اوپری حصہ میں ایک درہم کے برابر حصہ خشک رہ گیا تھا، وہاں پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہے وضو، اور نماز دونوں کے لوٹانے کا حکم دیا۔ 

اس میں ایک راوی بقیۃ بن الولید ہے، جن کے متعلق ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تقریب میں لکھا ہے: "صدوق کثیر التدلیس عن الضعفاء" 

(تقریب التھذیب لابن حجر ص174)

پس ان کے شیخ بحیر ابن سعد ثقہ ہے، قال ابن حجر فی التقریب: "ثقة ثبت" (ص163)

معلوم ہوا کہ روایت قابل للاحتجاج ہے، نیز امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے سماح کی صراحت کی ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنَا بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

(مسند احمد رقم الحدیث: 15495)

وقد قال الإمام أحمد: "بقية إذا حدَّث عن قوم ليسوا بمعروفين؛ فلا تقبلوه، وإذا حدَّث بقية عن المعروفين - مثل بحير بن سعد وغيره - قُبِل"

(ضعفاء العقيلي (1/ 162)

وقد قال النَّسائي فيه: "إذا قال: "حدَّثنا"، و"أخبرنا"، فهو ثقة، وإذا قال: "عن فلان"، فلا يُؤخذ عنه؛ لأنَّه لا يُدرَى عمَّن أخذه"

((تهذيب الكمال (4/ 198))

ابن اثیر جامع الأصول میں رقم طراز ہے: "وفي سنده بقية بن الوليد، وهو كثير التدليس عن الضعفاء، ولكن رواه أحمد في " المسند "، والحاكم في " المستدرك "، (لیکن مستدرک حاکم میں روایت نہیں ہے، کما سیأتی) وقد صرح فيه عندهما بقية بالتحديث، فزالت شبهة تدليسه، فصح الحديث.

(كتاب جامع الأصول لابن الاثیر ابو السعادات ج07 ص168)

نیز علامہ زیلعی نے بھی اس کی وضاحت کی ہے ملاحظہ فرمائیں 👇

"قال في الإمام: وبقية مدلس إلا أن الحاكم رواه في المستدرك، فقال فيه: حدثنا بحير بن سعد فزالت التهمة، انتهى. ومن طريق أبی داود، رواه البيهقي في السنن، وقال: إنه مرسل، قال في الإمام: عدم ذكر اسم الصحابي لا يجعل الحديث مرسلا، فقد قال الأثرم: سألت أحمد بن حنبل عن هذا الحديث فقال: إسناده جيد، قلت له: إذا قال التابعي: حدثني رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يسمه أيكون الحديث صحيحا؟ قال: نعم انتهى."

(نصب الراية للزيلعي ج1 ص35)

نوٹ:- جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا کہ سنن ابی داود کی اس روایت کو مسند احمد اور مستدرک حاکم سے سماع کی تصریح کی وجہ سے تائید حاصل ہے، لیکن اس میں ایک بات قابلِ نظر ہے، وہ یہ کہ یہ روایت مستدرک علی الصحیحین للحاکم میں موجود نہیں ہے، مسند احمد میں ہے، مستدرک حاکم میں تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں نہیں ملی، اگرچہ زیلعی ابن اثیر اور حضرت شیخ یونس جون پوری رحمۃ اللہ علیھم (الیواقیت الغالیۃ ج3 ص485) وغیرھم نے اس کو لکھا ہے، لیکن یہ روایت مستدرک حاکم میں نہیں ملی، راقم الحروف ابو احمد حسان نے کثرت تتبع کے بعد بھی اس روایت کو مستدرک حاکم میں نہیں پایا، پھر تلاش کرتے ہوئے ایک معتبر ادارے (الألوکہ) کے ویب سائٹ پر حاشیے میں لکھا پایا: "هكذا عزَا غيرُ واحد من المتأخِّرين الحديث إلى المستدرك، قال ابن الملقِّن - بعد أن نقل هذا الكلام لابن دقيق العيد في البدر المنير (2/ 240): وقوله: قلت­: في المستدرك... لعلَّه وهم من الناسخ؛ فإن هذا الحديث ليس له ذكرٌ فيه، وإنما صوابه: في المسند؛ يعني: لأحمد بن حنبل؛ فإنه أخرجه كذلك فيه۔" انتھی

نیز شعیب الارنؤوط رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو صحیح لغیرہ قرار دیا ہے، اگرچہ آپ نے بقیۃ بن الولید کو مدلس تدلیس التسویۃ قرار دیا ہے، نیز بقیہ کا مسند احمد میں تصریح بالسماع کرنے کو بھی نا کافی قرار دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇 

"صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، بقية -وهو ابن الوليد- يدلس تدليس التسوية، فلا يكفى تصريحه بالسماع من شيخه عند أحمد، بل يجب أن يصرح به في طبقات السند كلها، ثم هو في نفسه ضعيف."

(تحقیق سنن أبی داود لشعیب الارنؤوط ج1 ص127)

لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ راوی بقیہ بن الولید کا تدلیس التسویۃ کرنا نادر اور قلیل ہے، لہذا طریق ثانی یا کسی امام کی صراحت کی وجہ سے اس کے ثبوت کا ہی حکم لگایا جائے گا، جیسا کہ ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت کی ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇

"فإن الأرجح: أن يُنفَى تدليس بقية إذا صرَّح بالتحديث عن شيخه، إلاَّ أن يتبين أنه سوَّى الإسناد بجمع طرقه، أو بنصٍّ من أحد الأئمة في الحديث بعينه۔" قاله أبو حاتم الرازي في العلل (2/ 133 – 154)

اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ بقیہ بن الولید کی جتنی روایات راوی بحیر ابن سعد سے ہیں سب صحیح ہیں، چاہے اس میں تحدیث کی صراحت ہو یا نہ ہو، جیسا کہ اس کی طرف ابن عبد الھادی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇

"ورواية بقية عن بحير صحيحة؛ سواء صرَّح بالتحديث أم لا" 

(تعليقة على عِلل ابن أبي حاتم (ص: 157) في التعليق على هذا الحديث، وقال نحوه في تنقيح التحقيق (4/ 658) في التعليق على حديث آخر، وقال فيه: حسنة أو صحيحة)

ابن عبد الھادی کی بات درج ذیل وجوہات کی بنا پر صحیح اور قابل اخذ معلوم ہوتی ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇

01 قول بقيَّة: "أشهد أني سمعته: حديث بحير عن ابن معدان"

(المعرفة والتاريخ، ليعقوب الفسوي 2/ 387)

اس سے معلوم ہوگیا کہ بقیہ بن الولید کا سماع بحیر ابن سعد سے ثابت ہے جس کو بحیر، خالد بن معدان سے روایت کرے، لہذا اس کو روایت کو بھی قابل للاحتجاج مانا جائے گا، اور عدم سماع کی بنا پر ضعیف قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

02 أنَّ شعبة بن الحجاج قال لبقية: "إنِّي لأسمع منكَ أحاديث لو لم أحفظْها عنك لطرت"، وفي لفظ: قال بقيَّة: لَمَّا قرأت على شعبة كتاب بحير بن سعد، قال لي: "يا أبا يحمد، لو لم أسمعْ هذا منك لطرت"، قال بقيَّة: "واستهداني شعبةُ أحاديثَ بحير بن سعد"، وكان شعبة يقول له: "بحِّر لنا، بحِّر لنا"، يعني: حدِّثنا عن بحير بن سعد، وقال له: "تمسَّك بحديث بحير"، ورفع شعبةُ شأنَ حديث بقيَّة عن بحير.

(انظر: تاريخ أبي زرعة الدمشقي (1/ 398 - 399)، الجرح والتعديل (2/ 435 - 436)، الكامل، لابن عدي (2/ 73 - 74)

03 أنَّ لبقية إكثارًا عن بحير واختصاصًا به، وقد تقرَّر أنَّ من قرائن قَبول رواية المدلِّس عن شيخه، ولو لم يصرِّح بسماعه: أن يكون المدلِّس مكثرًا من الرِّواية عن شيخه؛ إذ تكون روايته عن شيخه ذاك محمولةً على الاتِّصال، حتى يتبيَّن في حديثٍ معيَّن أنه دلَّسه عنه۔

((انظر: الاتصال والانقطاع، للشيخ إبراهيم اللاحم (ص: 336 - 340)، وفيه نقل أقوال الأئمة متقدِّميهم ومتأخِّريهم في تقرير ذلك، التدليس، لصالح الجزائري (ص: 155 - 157))

04 وقال الحافظ عبدالحق بن الخراط الإشبيلي: "أحسنُ حديث بقيةَ ما كان عن بحير بن سعد"۔

(الأحكام الوسطى (2/ 27)، (4/ 106)، ووقع في الموضعين تصحيف، تصويبه من بيان الوهم والإيهام، لابن القطَّان (4/ 166)

خلاصۂ کلام:- بقیہ بن الولید اگرچہ راوی مدلس ہے، نیز سنن ابی داود کی روایت معنعن ہے، لیکن مسند احمد میں سماع کی تصریح بلفظ "حدثنا" مروی ہے، فلا اشکال، بعض حضرات نے اس روایت کو تدلیس التسویۃ قرار دیا ہے لیکن چونکہ محدثین کے عبارات ہم نے اوپر ذکر کی کہ بقیہ بن الولید اگر ثقہ سے تدلیس کرے تو روایت قابل قبول ہے، نیز ائمۂ محدثین نے اس روایت کو تعدد طرق کی بنا پر صحیح لغیرہ قرار دیا ہیں، لہذا مذکور روایت قابل للاحتجاج ہے۔ رہا مسئلہ ہمارے نزدیک ترتیب اور موالات وضوء میں شرط اور ضروری ہے؟ تو اس سلسلے میں کتب فقۂ حنفی سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ 

تنبیہ:- بعض حضرات فقہائے کرام ترتیب اور موالات پر درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں، اور اس کو اپنا مستدل بناتے ہیں، وہ روایت یہ ہے: توضأَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ مُرَتِّبًا وقال: "هذا وضوءٌ لا يقبلُ الله الصلاةَ إلا به"

ترجمہ:- ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترتیب وار وضو فرمایا، پھر ارشاد فرمایا: یہ ایک ایسا وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز کو قبول نہیں کرتا ہے۔

جیسا کہ المغنی میں ابن قدامہ الحنبلی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: وتوضأ (صلى الله عليه وسلم) مرتبا، وقال: "هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به" 

(المغني لابن قدامة الحنبلي ت التركي ج01 ص190)

اسی طرح  بہت سے مصنفین نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ 

لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ روایت ترتیب کے ذکر کے ساتھ موضوع اور من گھڑت ہے، "لا أصل له"  جیسا کہ حضرت شیخ یونس جون پور رحمۃ اللہ علیہ نے الیواقیت الغالیۃ (ج3 ص485) میں اس کی وضاحت کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: استدل الفقهاء على وجوب الترتيب بحديث ذكروه وهو أنه صلى الله عليه وسلم توضأ وضوءً، وقال: "هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به" وهذا الحديث لا أصل له، كما أفاد الحافظ ابن حجر في تخريج الرافعي، ونقل عنه الشيخ عبد الحي في العمدة. (الیواقیت الغالیۃ ج3 ص485)

ترجمہ:- چند فقہائے کرام نے وضو میں ترتیب کے وجوب پر ایک ایسی حدیث سے استدلال کیا ہے جس کو انہوں نے ذکر کیا ہے، وہ حدیث یہ ہے: کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا، پھر فرمایا: "کہ یہ ایک ایسا وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالی نماز قبول نہیں فرماتے" یہ حدیث بے اصل ہے، جیسا کہ اس کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے التلخیص الحبیر میں لکھا ہے، اور آپ کے حوالے سے شیخ عبد الحی رحمہ اللہ نے عمدۃ الرعایۃ میں نقل کیا ہے۔

بہر کیف! آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی نسبت ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی التلخیص الحبیر اور شیخ عبد الحی کی عمدۃ الرعایۃ کی طرف کی ہے، لہذا ترتیب وار ان دونوں حضرات کی عبارت ملاحظہ فرمائیں 👇

ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی کتاب التلخیص الحبیر کی عبارت

قوله: روي "أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا يتوضأ أمر الماء على مرفقيه" وقد روي "أنه أدار الماء على مرفقيه" ثم قال: "هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به" الدارقطني والبيهقي من حديث القاسم بن محمد بن عبد الله بن محمد بن عقيل عن جده عن جابر بلفظ يدير الماء على المرفق والقاسم متروك عند أبي حاتم وقال أبو زرعة منكر الحديث وكذا ضعفه أحمد وابن معين وانفرد ابن حبان بذكره في الثقات ولم يلتفت إليه في ذلك وقد صرح بضعف هذا الحديث ابن الجوزي والمنذري وابن الصلاح والنووي وغيرهم۔ 

(التلخيص الحبير - ط العلمية لابن حجر العسقلاني ج1 ص221)

(وقد ضعف هذا الحديث ابن الجوزي في " التحقيق" "١/٨٧" والنووي في " المجموع " "١/٣٨٥" وابن عبد الهادي في " تنقيح التحقيق" "١/٨٧" وابن دقيق العيد وابن الصلاح كما في "البدر المنير" "٣/٣٥- ٣٦" وابن الملقن في "خلاصة البدر المنير" "١/٢٧" کذا فی ھامش التلخیص للحافظ ج1 ص221)

شیخ عبد الحی رحمہ اللہ کی عمدۃ الرعایۃ کی عبارت

" وما نقلوه في كتبهم أنه توضأ مرتبا وقال: هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به، وقد صرح الحافظ ابن حجر في (تخريج أحاديث الرافعي) وغيره إنه لا أصل له".

(عمدۃ الرعایۃ علی شرح الوقایۃ ج01 ص304) 

ترجمہ:- وہ روایت جس کو فقہاء نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترتیب کے ساتھ وضو کیا پھر فرمایا: "کہ یہ ایک ایسا وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز کو قبول نہیں کرتے" ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ حضرات نے صراحت کی ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ 

اسی طرح اکثر علماء تخریج و تحقیق نے اس کی وضاحت کی ہے، چنانچہ البانی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں: توضأَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ مُرَتِّبًا وقال: "هذا وضوءٌ لا يقبلُ اللهُ الصلاةَ إلا بهِ" لا أعلم له أصلا بذكر الترتيب فيه۔

(إرواء الغليل ص75) 

البانی صاحب دوسری جگہ رقم طراز ہیں: " توضأ صلى الله عليه وسلم على الولاء ثم قال: هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به ".  فقوله " على الولاء " مما لا أصل له في شيء من الطرق التي ذكرها، ولا فيما زدنا عليه من الطرق الأخرى! ومثله قول الشيخ إبراهيم بن ضويان في " منار السبيل " (١ / ٢٥) " توضأ صلى الله عليه وسلم مرتبا وقال ... "! والحديث مع أنه لم يذكر فيه الترتيب صراحة فلا يؤخذ ذلك من قوله فيه " فغسل وجهه مرة، ويديه مرة ورجليه مرة، وقال هذا.. " لما اشتهر أن الواو لمطلق الجمع فلا تفيد الترتيب، لاسيما والأحاديث الأخرى التي أشرنا إليها لم يذكر فيها أعضاء الوضوء، بل جاءت مختصرة بلفظ " توضأ مرة مرة، ثم قال: هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به ". ومن الواضح، أن الإشارة بـ (هذا) هنا إنما هو إلى الوضوء مرة مرة كما أن الإشارة بذلك في الفقرتين الأخريين إنما هو للوضوء مرتين مرتين والوضوء ثلاثا ثلاثا.

(سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها ج01 ص524)

اسی طرح محقق دبیان صاحب نے اپنی کتاب موسوعۃ احکام الطھارۃ میں لکھا ہے:  ما ذكره ابن قدامة، قال: توضأ النبي - صلى الله عليه وسلم - مرتبا، وقال: هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به۔  (((المغني (١/ ٩٣))) وقول ابن قدامة: توضأ مرتبا ليست من نص الحديث، وإنما وصف من ابن قدامة لما وقع منه - صلى الله عليه وسلم -، ولفظ الحديث:توضأ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مرة مرة، وقال: هذا وضوء لا يقبل الله منه الصلاة إلا به، ثم توضأ مرتين مرتين، وقال: وهذا وضوء من يضاعف الله له الأجر مرتين مرتين، ثم توضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: هذا وضوئي ووضوء المرسلين من قبلي. وقد تفرد به المسيب بن واضح، وهو ضعيف. فأراد ابن قدامة رحمه الله أن يستنبط من قوله: «لا يقبل الله الصلاة إلا به» أي بهذا الوضوء على هذه الصفة، ولم يصح الحديث حتى يمكن أن يكون حجة، ولم يذكر لنا في هذا الحديث صفة الوضوء من كونه غسل وجهه، ثم يديه، ثم مسح برأسه، ثم غسل رجليه، ولو صح لكان هناك جواب، وهو أن يقال: إن المراد به قوله: لا يقبل الله الصلاة إلا به أي في عدد الغسلات، فمن نقص عن الغسلة الواحدة فقد نقص عن المقدار الواجب، فالحكم إنما هو موجه إلى العدد، لأنه قال: وتوضأ مرتين مرتين وتوضأ ثلاثا ثلاثا، فلم يقصد من النفي نفي صحة الوضوء مع فقد الترتيب، والله أعلم.

(موسوعة أحكام الطهارة للدبيان ج10 ص578)

نیز علامہ ابو بکر الجصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں لکھا ہے "أن النبي صلى الله عليه وسلم توضأ مرة مرة وقال هذا وضوء من لا يقبل الله له صلاة إلا به" قيل له ليس في هذا الخبر ذكر الترتيب".

(أحكام القرآن للجصاص ج02 ص454)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس روایت کو ترتیب اور موالات میں قابل حجت ماننا درست نہیں ہے، اس لیے کہ علمائے محققین نے اس کو ذکرِ ترتیب موالات کے ساتھ بے أصل قرار دیا ہیں، ہاں البتہ یہ روایت مطلقاً کتب احادیث میں موجود ہے، اگرچہ اس پر بھی علمائے محدثین نے سخت کلام کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇

روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه توضأ مرة مرة، وقال: "هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به" وتوضأ مرتين مرتين، وقال: "هذا وضوء من يضاعف له الأجر مرتين" وتوضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: "هذا وضوئي ووضوء الأنبياء من قبلي فمن زاد عن هذا أو نقص فقد تعدى وظلم" قلت: غريب بجميع هذا اللفظ، وقد رواه عن النبي صلى الله عليه وسلم من الصحابة عبد الله بن عمر. وأبي بن كعب. وزيد بن ثابت. وأبو هريرة، وليس فيه: فمن زاد على هذا أو نقص فقد تعدى وظلم ولكنه مذكور في حديث آخر، سنذكره بعد ذكر هذه الأحاديث. أما حديث عبد الله بن عمر، فله طرق، أمثلها ما رواه الدارقطني (ص30) من حديث المسيب بن واضح، ثنا حفص بن ميسرة عن عبد الله بن دينار عن ابن عمر. قال: توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم مرة مرة، وقال: "هذا وضوء لا يقبل الله صلاة إلا به" ثم توضأ مرتين مرتين، وقال: " هذا وضوء من يضاعف له الأجر مرتين" ثم توضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: "هذا وضوئي ووضوء المرسلين قبلي"، انتهى. ورواه البيهقي (ص80) في سننه وقال هو، والدارقطني (ص30): تفرد به المسيب بن واضح، وهو ضعيف، وقال في المعرفة: المسيب بن واضح غير محتج به، وقد روي هذا الحديث من أوجه كلها ضعيفة، انتهى. وقال عبد الحق في أحكامه: هذا الطريق من أحسن طرق هذا الحديث، ونقل عن ابن أبي حاتم أنه قال: المسيب صدوق لكنه يخطئ كثيرا. طريق آخر رواه ابن ماجه في سننه من حديث عبد الرحيم بن زيد العمي عن أبيه عن معاوية بن قرة عن ابن عمر، قال: توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم واحدة واحدة فقال: "هذا وضوء لا يقبل الله صلاة إلا به". ثم توضأ ثنتين ثنتين، وقال: "هذا وضوء القدر من الوضوء"، وتوضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: "هذا أسبغ الوضوء وضوئي ووضوء خليل الله إبراهيم"، مختصر. ورواه البيهقي في سننه، والطبراني في معجمه، ولفظهما قالا: دعا بماء فتوضأ مرة مرة، وقال: "هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به" ثم دعا بماء فتوضأ مرتين مرتين، وقال: "هذا وضوء من أوتي أجره مرتين" ثم دعا بماء فتوضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: "هذا وضوئي ووضوء الأنبياء قبلي"، انتهى. قال البيهقي: هكذا رواه عبد الرحيم بن زيد العمي عن أبيه، وخالفهما غيرهما، وليسا في الرواية بقويين، انتهى.  ………………… مکمل تحقیق کے لیے نصب الرایہ کا مطالعہ کریں۔

(نصب الراية للزيلعي ج1 ص27)


(04) تسمیہ یعنی وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا، اس سلسلے میں یہ روایت بطور استدلال پیش کی جاتی ہے: "لا صلاة لمن لا وضوء له، ولا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه" 

اس حدیث کے سلسلے میں حضرت شیخ یونس جون پوری رحمۃ اللہ علیہ نے الیواقیت الغالیۃ میں ایک مختصر لیکن شاندار تحقیق پیش کی ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇

وأما الخير الوارد في التسمية فروي من حديث سعيد بن زيد رضى الله عنه قال قال رسول الله السلام: لا صلوة لمن لا وضوء له ، ولا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه، رواه الترمذی و ابن ماجة، و قال البخاري: وهو أحسن شيء في الباب ، وأعله ابن أبي حاتم و ابن القطان، وفي الباب عن أبي هريرة أخرجه أبو داود وابن ماجه والدارقطني والحاكم وصححه وتعقب، وأبي سعيد الخدري رضى الله عنه أخرجه ابن ماجة والحاكم وصححه ، وقال أحمد: وهو أحسن ما في الباب، وعن سهل بن سعد رواه ابن ماجة بسند ضعيف ، وأبی سیرة رواه الطبراني وطرقها وألفاظها مبسوطة في الزيلعي (۱/۳) ولا يخلو طريق عن مقال، وقد قال أحمد: لا أعلم في التسمية حديثا ثابتا وأرجو أن يجزئه الوضوء لأنه ليس فيه حديث أحكم به.

(الیواقیت الغالیۃ ج3 ص485)

کوئی مفصل تحقیق پڑھنا چاہے تو وہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ کی نصب الرایہ کی طرف رجوع کریں، بہت ہی مفصل اور محقق تحقیق پیش کی گئی ہے۔ 

فقط والسلام والله أعلم بالصواب وعلمہ اتم واكمل

جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

استاذ حدیث: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا

23/جنوری/2022 بروز اتوار


Thursday, 13 January 2022

غیر حدیثی کتب میں مذکور احادیث کا تحقیقی جائزہ) حدیث نمبر:04 وقد جاء في الخبر "لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان"

 باسمہ تعالیٰ    حامداً ومصلياً 

(غیر حدیثی کتب میں مذکور احادیث کا تحقیقی جائزہ)

حدیث نمبر:04 وقد جاء في الخبر "لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان"

(اصول الشاشی ص 09، مکتبۂ المیزان)

اس حدیث کے سلسلہ میں تین باتیں قابل ذکر ہیں۔

(١) یہ حدیث کتنے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے؟ 

(٢) ان حضرات صحابہ سے مروی احادیث مبارکہ کے الفاظ میں فرق اور ان کی وضاحت۔

(٣) بعینہ یہی الفاظ جو کتاب اصول الشاشی میں مذکور ہیں اس کے متعلق تحقیق و تخریج۔

تفصیل الجواب نمبر (1) یہ حدیث کتنے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے؟ 

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت مفرّقا پانچ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ کما اشار الیه الترمذی رحمه اللہ فی جامعه.

(١) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (٢) حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا (٣) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  (٤) حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ (٥) اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما۔

تفصیل الجواب نمبر(2) ان حضراتِ صحابہ سے مروی احادیث مبارکہ کے الفاظ میں فرق اور ان کی وضاحت۔

تو اس سلسلے میں جان لینا چاہیے کہ مختلف احادیث مبارکہ میں مختلف سندوں کے ساتھ اس نوع کے مختلف الفاظ منقول اور مروی ہیں، ترتیب وار ان الفاظ کو ملاحظہ فرمائیں 👇 

(01) "لا تحرم المصة ولا المصتان" فقط یہی الفاظ حضرت ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے دو طرق سے مروی ہیں، ان احادیث میں "الاملاجۃ ولا الاملاجتان" کے الفاظ نہیں ہیں 👇

1- بطریق ابن أبی ملیکۃ عن عائشة رضی اللہ عنھا ملاحظہ فرمائیں: حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ ".

ترجمہ: حضرت ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "بچے کا ایک مرتبہ دودھ پینا اور دو مرتبہ دودھ پینا یہ حرمت رضاعت کو ثابت نہیں کرتا"۔

(رواہ ابو داود في كتاب النكاح باب هل يحرم ما دون خمس رضعات؟ رقم:2063، والإمام أحمد في مسنده مسند عائشة ج06 ص96/95 رقم: 24644، والترمذي في كتاب الرضاع باب ما جاء لا تحرم المصة ولا المصتان ج02 ص308 رقم: 1160، ورواه مسلم والنسائى واحمد بن حنبل في غير ما ذكرنا قبل، وابن ماجة والدارمي عنها من الطريق المذكور بلفظ: "لا تحرم المصة والمصتان")

 2- بطریق عروہ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ملاحظہ فرمائیں: حدثنا عثمان، قال: حدثنا يونس، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا تحرم المصة، ولا المصتان "۔

(رواہ أحمد فی مسندہ ج43 ص206، رقم: 26099، ورواہ الدار قطنی فى سننه ج5 ص309 رقم: 4368 بلفظ: نا إبراهيم بن حماد , نا زيد بن أخزم , نا عبد الصمد , نا أبي , نا حسين المعلم , عن مكحول , عن عروة , عن عائشة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "لا تحرم المصة ولا المصتان ولكن ما فتق الأمعاء")

(02) نیز یہی الفاظ "لا تحرم المصة والمصتان" حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنھما کے حوالے سے بھی مروی ہیں، ملاحظہ فرمائیں: أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ ".

(رواه النسائي في سننه رقم: 3309 في كتاب النكاح، القدر الذي يحرِّم من الرَّضاعة، والإمام أحمد في مسنده مسند عبد الله بن الزبير رقم: 16110، وكذا في رقم: 16121 عن وكيع قال حدثنا هشام الخ….) 

اب سوال یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ تو ملاحظہ فرمائیں: وأخرج البيهقي: ص ٤٥٤ - ج ٧، قال الربيع: فقلت للشافعي رضي الله عنه: أسمع ابن الزبير من النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: نعم، وحفظ عنه، وكان يوم توفي النبي صلى الله عليه وسلم ابن تسع سنين، قال البيهقي: هو كما قال الشافعي، إلا أن ابن الزبير رضي الله عنه أخذ هذا الحديث عن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم.

یعنی حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا بھی ہے، اور احادیث مبارکہ کو محفوظ بھی کیا ہے، اور جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوری تھی اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نو سال کے تھے، لیکن مذکور حدیث حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے۔ 

اقول: بالا حدیث میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے جو روایت مروی ہے ممکن ہے کہ حضرت عبد اللہ نے اس میں ارسال کیا ہو، یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نام حذف کردیا ہو، لیکن چونکہ باتفاق علماء صحابہ کے مراسیل مقبول ہیں اس لیے آگے کوئی کلام نہیں۔ 

(03) حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا کی روایت میں "لا تحرم الإملاجة ولا الإملاجتان" والے الفاظ یا "المصۃ ولا المصتان" والے الفاظ مروی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ دونوں الفاظ ایک ساتھ جس طرح کتاب اصول الشاشی میں مذکور ہیں وارد ہوں، ملاحظہ فرمائیں: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كُلُّهُمْ، عَنِ الْمُعْتَمِرِ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى ، أَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ ، قَالَتْ : دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَهُوَ فِي بَيْتِي - فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي كَانَتْ لِي امْرَأَةٌ، فَتَزَوَّجْتُ عَلَيْهَا أُخْرَى، فَزَعَمَتِ امْرَأَتِي الْأُولَى، أَنَّهَا أَرْضَعَتِ امْرَأَتِي الْحُدْثَى رَضْعَةً أَوْ رَضْعَتَيْنِ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تُحَرِّمُ الْإِمْلَاجَةُ ، وَالْإِمْلَاجَتَانِ ". قَالَ عَمْرٌو فِي رِوَايَتِهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ.

ترجمہ: ام فضل رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بدوی صحابی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے، ان بدوی صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا نبی اللہ! میری ایک عورت تھی اور میں نے دوسری سے نکاح کیا سو پہلی نے کہا کہ میں نے اس دوسری کو ایک بار یا دو بار دودھ چوسایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ایک بار یا دو بار دودھ چوسانے سے حرمت نہیں ہوتی۔

(رواه مسلم في كتاب الرضاع، بَابٌ  فِي المصة والمصتان، رقم: 1451 ( 18 )، وكذا في رقم: 1451 ( 22 ) بلفظ: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا تُحَرِّمُ الْإِمْلَاجَةُ ، وَالْإِمْلَاجَتَانِ " وكذا رواه النسائي في سننه في كتاب النكاح، باب القدر الذي يحرم من الرضاعة ج06 ص 101، بلفظ: "لا تحرم الإملاجة ولا الإملاجتان". وقال قتادة: المصة والمصتان، وكذا في سنن ابن ماجه كتاب النكاح باب "لا تحرم المصة ولا المصتان، ج01 ص 624، رقم: 1941، من طريق قتادة وعبد الله بن الحارث عن أم الفضل، حدثته أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "لا تحرم الرضعة ولا الرضعتان أو المصة والمصتان"، اسی طرح ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا کی روایت مختلف کتب احادیث میں مروی ہیں، نیز مسلم شریف میں ایک اور روایت ہے جس میں فرق الفاظ ہے، فلیراجھا۔)

(04) نیز حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی "المصۃ ولا المصتان" اور "الاملاجۃ ولا الاملاجتان" والے الفاظ مفرّقا مروی ہیں۔

01-  بطریق حجاج بن حجاج ملاحظہ فرمائیں: نا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز, نا عثمان بن أبي شيبة, نا جرير ح ونا أبو عثمان سعيد بن محمد بن أحمد الكرخي نا يوسف بن موسى, نا جرير, عن محمد بن إسحاق, عن إبراهيم بن عقبة, قال: كان عروة بن الزبير يحدث, عن الحجاج بن الحجاج, عن أبي هريرة, أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تحرم من الرضاعة المصة ولا المصتان۔۔۔۔۔۔۔۔

(سنن دارقطنی ج05 ص305 رقم الحدیث: 4360)

بس اس میں "المصۃ ولا المصتان" سے پہلے لفظ "من الرضاعة" کی زیادتی ہے۔

02- بطریق سلیمان بن داود الھاشمی ملاحظہ فرمائیں: حدثنا محمد بن مخلد, نا العباس بن محمد الدوري, ح وحدثنا عثمان بن أحمد الدقاق, نا الحسن بن سلام السواق, قالا: نا سليمان بن داود الهاشمي, نا عبد الوهاب الثقفي, نا أيوب, عن ابن أبي مليكة, عن أبي هريرة, عن النبي صلى الله عليه وسلم.

 وأيوب عن ابن أبي مليكة, عن ابن الزبير, عن عائشة, عن النبي صلى الله عليه وسلم - قال أحدهما: - "لا تحرم المصة والمصتان" - وقال الآخر: - "لا تحرم الإملاجة والإملاجتان"

(سنن دار قطنی ج05 ص303 رقم الحدیث: 4357/4356)

أخبرنا أبو بكر أحمد بن الحسن القاضي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالا: نا أبو العباس محمد بن يعقوب، نا العباس بن محمد الدوري، نا سليمان بن داود الهاشمي، نا عبد الوهاب الثقفي، عن أيوب، عن ابن أبي مليكة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم۔

 وأيوب، عن ابن أبي مليكة، عن ابن الزبير، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " أحدهما: "لا تحرم المصة ولا المصتان"، وقال الآخر: "لا تحرم الإملاجة والإملاجتان".

(السنن الكبرى للبيهقي ط العلمية ج7 ص749، رقم الحدیث:15626)

(05) حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے بطریق محمد بن دینار الطاحی البصری وہی الفاظ مروی ہے جو کتاب اصول الشاشی اور ہدایہ وغیرہ میں مذکور ہے، یعنی "لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان" صحیح ابن حبان وغیرہ میں وہ روایت موجود ہے، ملاحظہ فرمائیں: أخبرنا عبد الله بن أحمد بن موسى بعسكر مكرم، حدثنا أحمد بن عبدة الضبي، حدثنا محمد بن دينار الطاحي، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، عن الزبير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تحرم المصة ولا المصتان، ولا الإملاجة ولا الإملاجتان".

(صحيح ابن حبان، رقم الحدیث: ٤٢٢٦)

حدثنا محمد بن علي الوراق البغدادي، نا مسلم بن إبراهيم، نا محمد بن دينار، نا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، عن أبيه الزبير، سمع النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم يقول: «لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان»

(المسند للشاشي الهيثم بن كليب، ج1 ص105 رقم الحدیث: 46)

حدثنا أحمد بن عبدة، قال: أنا محمد بن دينار، قال ثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان» ⦗١٨٣⦘. وهذا الحديث قد روي عن ابن الزبير من وجوه ولا نعلم أحدا رواه عن ابن الزبير، عن الزبير، إلا محمد بن دينار، عن هشام۔

(مسند البزار، ج03 ص182 رقم: 967)

(حديث الزبير: فرواه النسائي في الكبرى ٣/ ٢٩٩ والترمذي في علله الكبير ص ١٦٧ والطحاوى في المشكل ١١/ ٤٨٤، وأبو يعلى ١/ ٣٢٩، والطبراني في الكبير ١/ ٨٤، والعقيلى في الضعفاء ٤/ ٦٤، والدارقطني في العلل ٤/ ٢٢٥، والبيهقي ٧/ ٤٥٤: من طريق محمد بن دينار قال: حدثنا هشام بن عروة عن أبيه عن ابن الزبير عن الزبير عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان")

تفصیل الجواب نمبر (٣) بعینہ یہی الفاظ جو کتاب اصول الشاشی میں مذکور ہیں اس کے متعلق تحقیق و تخریج۔

جیسا کہ اوپر ہم نے ذکر کیا کہ صحیح ابن حبان وغیرہ میں وہی الفاظ جو کتاب اصول الشاشی میں ہیں، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کے علاوہ باقی چار حضرات صحابہ و صحابیات _ (١) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (٢) حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا (٣) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (٤) اور حضرت عبداللہ بن زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ _ سے مفرّقا (خالص لا تحرم المصۃ ولا المصتان یا خالص لا تحرم الاملاجۃ ولا الاملاجتان) مروی ہیں (کما مر آنفا) 

بہر کیف! اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ روایت جو حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کیا وہ قابل للاحتجاج ہے؟ تو اس سلسلے میں عاجز کی رای یہ ہے کہ چونکہ وہ الفاظ مسلم شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام الفضل رضی اللہ عنھما سے مروی ہیں اگرچہ مفرّقا مروی ہیں، درجۂ حسنیت کو پہنچ جاتے ہیں، لہذا یہ روایت بھی قابل قبول اور قابل للاحتجاج ہے، پھر اس پر ایک سوال ہوتاہے کہ اس روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے محمد بن دینار الطاحی کی وجہ سے غیر محفوظ اور دار قطنی اور عقیلی رحمہما اللہ نے اس کو محمد بن دینار الطاحی البصری کا وہم کیوں کر قرار دیا ہے؟ 

تو اس کا جواب یہ ہے کہ غیر محفوظ اور وھم کا ہونا الفاظ حدیث میں نہیں؛ بلکہ اس روایت کے حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے ثابت اور مروی ہونے میں ہے، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَزَادَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ الْبَصْرِيُّ : عَنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَالصَّحِيحُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ حَدِيثُ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا، فَقَالَ : الصَّحِيحُ عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ دِينَارٍ وَزَادَ فِيهِ عَنِ الزُّبَيْرِ. وَإِنَّمَا هُوَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّبَيْرِ.

یعنی یہ روایت جس کو محمد بن دینار الطاحی البصری روایت کرتے ہیں اور روایت کرنے میں منفرد ہے، یہ روایت غیر محفوظ ہے، اور صحیح روایت وہ ہے جس کو ابن أبی ملیکۃ کے طریق سے حضرت عبداللہ بن زبیر نے حضرت ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت کیا ہے، جس کو ہم نے اوپر ذکر کیا، نیز امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ سے اس سلسلے میں سوال دریافت کیا تو آپ نے جواباً عرض کیا: کہ اس روایت میں (عن الزبیر) کی زیادتی ہے، یعنی یہ روایت چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت کرتے ہیں لہذا حضرت ابن زبیر کا اسی روایت کو اپنے والد سے روایت کرنے کا کیا مفہوم۔ تو ماننا ہوگا کہ(عن الزبیر) کی زیادتی ہے۔ 

نیز علامہ عقیلی رحمہ اللہ نے اس کو محمد بن دینار الطاحی البصری کا وہم قرار دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: محمد بن دينار الطاحي بصري في حديثه وهم. حدثنا محمد بن أحمد، حدثنا معاوية بن صالح قال: سمعت يحيى بن معين، يقول: محمد بن دينار الطاحي بصري ضعيف ومن حديثه ما حدثناه محمد بن إسماعيل، وعلي بن عبد العزيز، قالا: حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا محمد بن دينار الطاحي، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن ابن الزبير، عن الزبير، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان»

(كتاب الضعفاء الكبير للعقيلي ج04 ص63، رقم: 1616)

نیز دار قطنی رحمہ اللہ نے بھی اس کو وہم قرار دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: قال الدارقطني: "تفرد به محمد بن دينار الطاحى عن هشام بن عروة عن أبيه عن ابن الزبير عن الزبير ووهم فيه". اهـ.

(كتاب نزهة الألباب في قول الترمذي «وفي الباب»

للوائلي حسن بن محمد ج04 ص1847)

تو ان حضرات کا راوی محمد بن دینار الطاحی البصری کا وہم قرار دینا بھی الفاظ حدیث کے سلسلہ میں نہیں ہے، بلکہ اس کے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہونے کے سلسلے میں ہے، لیکن ان کے اس وہم اور غیر محفوظ ہونے کے قول کی علامہ زیلعی اور علامہ عینی رحمھما اللہ نے تردید کی ہے، چنانچہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے نصب الرایۃ میں لکھا ہے کہ یہ روایت جس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اسی طرح حضرت عبداللہ بن زبیر اور ان کے والد محترم رضی اللہ عنھما سے بھی مروی ہے، عین ممکن ہے کہ اس روایت حضرت ابن زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بذات خود سنا ہو، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا سماع ثابت ہے، (کما مر) اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس روایت کو ابن زبیر نے حضرت ماں عائشہ اور ان کے والد سے بھی سنا ہو، اور چونکہ اس طرح کا امر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں پایا جاتا ہے لہذا کہنا ہوگا کہ حضرت ابن زبیر نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سنا ہے، اور اپنی خالہ اور والد سے بھی سنا ہے، تو کبھی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے ذکرکرتے ہے، اور کبھی ماں عائشہ صدیقہ اور اپنے والد کے حوالے سے روایت کرتے ہیں، فلا اعتراض علیہ، نصب الرایہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں: أخرجه ابن حبان في "صحيحه" حديثا واحدا من رواية محمد بن دينار ثنا هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تحرم المصة والمصتان، ولا الإملاجة والإملاجتان"، انتهى. رواه في النوع الحادي والثلاثين، من القسم الثالث، وروى صدره من حديث ابن الزبير، ثم قال: ولا يستنكر سماع ابن الزبير لهذا من النبي صلى الله عليه وسلم، وقد سمعه من أبيه وخالته، لأنه مرة روى ما سمع، ومرة روى عنهما، قال: وهذا شيء مستفاض في الصحابة، انتهى.

(نصب الراية للزیلعی ج3 ص217/218)

نیز علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی ایک شاندار تحقیق اپنی مایا ناز کتاب العنایۃ میں لکھی ہے، جس سے علامہ زیلعی کی بات کی تصدیق ہوجاتی ہے، ملاحظہ فرمائیں: وروى ابن حبان في " صحيحه " حديثا واحدا نحو رواية المصنف من رواية محمد بن دينار، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، عن أبيه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «لا تحرم المصة ولا المصتان، ولا الإملاجة ولا الإملاجتان.» وقال الأترازي: قوله: «ولا الإملاجة ولا الإملاجتان» ، هذا من تتمة الحديث على ما ذكره صاحب " الهداية " ولكن ليس هو بمثبت في الأخرى، فركب الحديث، ولهذا لم يثبته الترمذي في جامعه، وأبو داود في سننه على ما روينا: «لا تحرم المصة ولا المصتان، ولا الإملاجة ولا الإملاجتان» انتهى

قلت: عدم اطلاعه في كتب الحديث، وقصر باعه في هذا الفن، ألجأه إلى هذا الكلام، وكيف يقول: وليس هذا بمثبت في الأصول من كتب الحديث، وقد رواه مسلم كما ذكرنا مفردا ومشتملا، ورواه ابن حبان، كما رواه المصنف، وعدم إثبات الترمذي، وأبي داود هذا لا يستلزم نفي أن يكون هذا من الأحاديث المثبتة.

(البناية شرح الهداية للعيني ج05 ص257)

نیز علامہ شعیب الارنؤوط رحمہ اللہ نے تخریج صحیح ابن حبان میں ابن عدی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ راوی محمد بن دینار الطاحی حسن الحدیث ہے، نیز وہ راوی عامۃً روایت بیان کرنے میں منفرد ہوتے ہے، اور یہ روایت بھی ایسی ہی ہے کہ اس میں راوی منفرد ہے اور باقی رجال سند ثقہ ہیں، عبارت ملاحظہ فرمائیں: (فيه) محمد بن دينار الطاحي، قال ابن عدي: حسن الحديث، وعامة حديثه ينفرد به، قلت: وهذا الحديث مما انفرد به، وباقي رجاله ثقات.

راوی محمد بن دینار الطاحی کے متعلق بعض حضرات محدثین نے تضعیف کی ہے، اور بعض نے توثیق کی ہے، چنانچہ یحیی بن معین سے دونوں وجہیں ثابت ہے، بعض نے ان سے نقل کیا ہے: "لا بأس بہ" اور بعض نے "ضعیف" نقل کیا ہے، لیکن اکثر نے ان کی توثیق کی ہے، اس سلسلے میں حسین سلیم اسد الدارانی نے ھامش موارد الظمآن الی زوائد صحیح ابن حبان میں ایک محول تحقیق نقل کی ہے، ملاحظہ فرمائیں: محمد بن دينار الطاحي ترجمه البخاري في الكبير ١/ ٧٧ ولم يورد فيه جرحا ولا تعديلا، وأورد ابن أبي حاتم في "الجرح والتعديل" ٧/ ٢٥٠ عن يحيى بن معين وقد سئل عن الطاحي قوله: "ليس به بأس".

وقال: "سألت أبي عن محمد بن دينار الطاحي. فقال: لا بأس به".

وقال أيضا: "سئل أبو زرعة عن محمد بن دينار بن صندل، قال: صدوق".

وقال العقيلي في الضعفاء الكبير ٣/ ٦٣: "في حديثه وهم" ثم أورد عن يحيى بن معين أنه قال: "محمد بن دينار الطاحي بصري ضعيف". وقال أبو داود: "تغير قبل أن يموت، وكان ضعيف القول في القدر". وقال النسائي: "ليس به بأس". وقال مرة: "ضعيف". وقال الدارقطني: "ضعيف متروك".

وقال العجلي في "تاريخ الثقات" ص: (٤٠٣): "بصري، لا بأس به".

وقال ابن شاهين في "تاريخ أسماء الثقات" ص (٢١٠) برقم (١٢٦٥): "قال يحيى: محمد بن دينار الطاحي ضعيف وقال مرة أخرى: محمد بن دينار الطاحي ثقة، ليس به بأس ... ".

وقال أيضا ص (٢١٦) برقم (١٣١٥): "ومحمد بن دينار ثقة". ووثقه ابن حبان، وقال أبو الحسين بن المظفر: "لا بأس به". وقال الذهبي في كاشفه: "حسنوا أمره".

وقال ابن عدي في كامله ٦/ ٢٢٠٥: "ولمحمد بن دينار غير ما ذكرت، وهو مع هذا كله حسن الحديث ... "، فمثله لا بد أن يكون حسن الحديث والله أعلم، وباقي رجاله ثقات. والحديث في الإحسان ٦/ ٢١٤ برقم (٤٢١٢).

وأخرجه أبو يعلى ٢/ ٤٦ - ٤٧ برقم (٦٨٨) من طريق سعيد بن أبي الربيع السمان، حدثنا محمد بن دينار الطاحي، بهذا الإسناد، وهناك خرجناه.

ونضيف هنا: أخرجه النسائي في النكاح- في الكبرى ذكره المزي في "تحفة الأشراف" ٣/ ١٨١ برقم (٣٦٣١) - من طريق عبيد الله بن فضالة بن إبراهيم النسائي.

وأخرجه الطبراني في الكبير ١/ ١٢٤ برقم (٢٤٨) من طريق علي بن عبد العزيز، كلاهما حدثنا مسلم بن إبراهيم، عن محمد بن دينار، بهذا الإسناد.

ومن طريق النسائي السابقة أخرجه ابن حزم في "المحلى" ١٠/ ١٣.

وأخرجه الطبراني في الكبير ١/ ١٢٤ برقم (٢٤٨) من طريق محمد بن عبد الله الحضرمي، حدثنا روح بن عبد المؤمن المقرئ، حدثنا محمد بن دينار، به.

وذكره الهيثمي في "مجمع الزوائد" ٤/ ٢٦١ باب: في الرضاع وقال: "رواه أبو يعلى، والطبراني، وفيه محمد بن دينار الطاحي وئقة أبو زرعة، وأبو حاتم، وابن حبان، وقد ضعف، وبقية رجاله ثقات".

وقال الترمذي بعد الكلام الذي نقلناه عنه في تعليقنا على الحديث السابق ٤/ ١١٩: "وروى محمد بن دينار، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، عن الزبير، عن النبي عليه الصلاة والسلام، وزاد فيه محمد بن دينار البصري: (عن الزبير، عن النبي) وهو غير محفوظ، والصحيح عند أهل الحديث حديث ابن أبي مليكة، عن عبد الله بن الزبير، عن عائشة.

قال أبو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح. وسألت محمدا- يعني البخاري- عن هذا، فقال: الصحيح عن ابن الزبير، عن عائشة، وحديث محمد بن دينار- وزاد فيه: (عن الزبير)، و (نما هو هشام بن عروة، عن أبيه، عن الزبير.

والعمل على هذا عند بعض أهل العلم من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - وغيرهم"

وقال الحافظ ابن حجر في "فتح الباري" ٩/ ١٤٧:" وحديث المصتان -كذا على الحكاية- جاء أيضا من طرق صحيحه، لكن قال بعضهم: إنه مضطرب لأنه اختلف فيه: هل هو عن عائشة، أو عن الزبير، أو عن ابن الزبير، أو عن أم الفضل؟ لكن لم يقدح الاضطراب عند مسلم فأخرجه من حديث أم الفضل زوج العباس ... ".

وقال الحافظ ابن حبان: "لست أنكر أن يكون ابن الزبير سمع هذا الخبر عن النبي - صلى الله عليه وسلم - فمرة أدى ما سمع، وأخرى روى عنها. وهذا شيء مستفيض في الصحابة، قد يسمع أحدهم الشيء ثم يسمعه بعد عن من هو أجل منه عنده خطرا وأعظم لديه قدرا عن النبي-صلى الله عليه وسلم-فمرة يؤدي ما سمع، وتارة يروي عن ذلك الأجل، ولا تكون روايته عن من فوقه، وذلك الشيء يدل على بطلان سماع ذلك الشيء.

وهذا كخبر ابن عمر في سؤال جبريل في الإيمان والإسلام: سمعه من النبي- صلى الله عليه وسلم- ثم سمعه من أبيه فأدى مرة ما شاهد، وأخرى عن عمر ما سمعه منه لعظم قدره عنده". وانظر تلخيص الحبير ٤/ ٥، ونيل الأوطار ٧/ ١١٤، وجاصع الأصول ١١/ ٤٧٩ - ٤٨٠.

ھامش موارد الظمآن الی زوائد صحیح ابن حبان لحسین سلیم اسد الدارانی ج04 ص175)

خلاصۂ کلام:- "لا تحرم المصۃ ولا المصتان" یہ ایک الگ روایت ہے، جو حضرت ماں عائشہ صدیقہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، اور "لا تحرم الاملاجۃ ولا الاملاجتان" ایک مستقل الگ روایت ہے جو ام الفضل رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اور دونوں روایات قابل قبول ہیں، قابل للاحتجاج ہیں، لیکن "لا تحرم المصۃ ولا المصتان ولا الاملاجۃ ولا الاملاجتان" یہ پوری روایت صحیح ابن حبان وغیرہ میں حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے بطریق محمد بن دینار الطاحی البصری کے مروی ہے، اور اس محمد بن دینار الطاحی منفرد ہے، لیکن چونکہ ان کو ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تقریب میں "صدوق سیئ الحفظ" لکھا ہے، نیز بعض حضرات محدثین نے ان کی توثیق کی ہے جیسا کہ اوپر گزرا، نیز اس کو حضرت ماں عائشہ اور حضرت ام الفضل رضی اللہ عنھما کی روایات سے تائید حاصل ہے لہذا یہ روایت بھی مقبول ہے، درجۂ حسنیت کو پہنچی ہوئی ہے۔

نیز "الرضعۃ ولا الرضعتان" والے الفاظ دار قطنی رحمہ اللہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی ذکر کیے ہیں، ملاحظہ فرمائیں: نا محمد بن أحمد بن إبراهيم الكاتب , نا محمد بن سنان , نا عبيد الله بن تمام , نا حنظلة , نا سالم بن عبد الله , عن ابن عمر , عن زيد بن ثابت , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تحرم الرضعة ولا الرضعتان.

(سنن دار قطنی، کتاب الرضاع، ج05 ص305 رقم:4359)

هذا ما ظهر لي والله أعلم بالصواب وعلمہ اتم واكمل

کوئی چیز قابل اصلاح ہوتو ضرور درج ذیل نمبر پر رابطہ فرماکر متنبہ فرمائیں۔

كتبه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

استاذ حدیث: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا شمالی گجرات

رقم الاتصال:- 9428359610

14/ جنوری/2022 شب جمعہ

Sunday, 9 January 2022

("ظُنّوا بالمؤمنین خیرا" حدیث کی تحقیق و تخریج)

 باسمہ تعالیٰ

(تحقیقات سلسلہ نمبر:- 78)

("ظُنّوا بالمؤمنین خیرا" حدیث کی تحقیق و تخریج)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال: ایک روایت عوام و خواص میں بہت ہی زیادہ مشہور ہے، وہ یہ ہے: "ظُنّوا بالمؤمنین خیرا" تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ حدیث کتب احادیث مبارکہ میں موجود ہے؟ چونکہ میں نے بعینہ ان ہی الفاظِ حدیث کو بہت تلاش کیا لیکن کتب احادیث مبارکہ میں نہیں پایا، ہاں البتہ شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "بد گمانی اور اس کا علاج" میں صفحہ نمبر05 پر یہ الفاظ مذکور ہے، اور اس میں "قال عليه الصلاة والسلام" لکھا ہے، اور اس کے نیچے حاشیہ میں ان دو کتب کا حوالہ مذکور ہے،(الدرالمنثور:674/10، دارھجر، مصر/ المعجم الکبیرللطبرانی:497/16۔) تو اس کا بھی جواب مطلوب ہے کہ کیا ان کتب میں یہ الفاظ مروی اور ثابت ہیں؟

بینوا توجروا۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- "ظنوا بالمؤمنین خیرا" (مؤمنین کے بارے میں اچھا (نیک) گمان ہونا چاہئے) ہمیں بھی تلاش بسیار کے بعد بھی یہ روایت کتب احادیث میں نہیں ملی، ہاں البتہ اس کا معنی قرآن مجید اور دیگر احادیث مبارکہ میں ثابت ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇

(01) [لَّوۡلَآ إِذۡ سَمِعۡتُمُوهُ ظَنَّ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ وَٱلۡمُؤۡمِنَٰتُ بِأَنفُسِهِمۡ خَيۡرٗا وَقَالُواْ هَٰذَآ إِفۡكٞ مُّبِينٞ] النور:12

ترجمہ:- جس وقت تم لوگوں نے یہ بات سنی تھی تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں بھی اپنے بارے میں نیگ گمان رکھتے، اور یہ کہ دیتے کہ یہ کھلم کھلا جھوٹ ہے۔ 

(02) [يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱجۡتَنِبُواْ كَثِيرٗا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعۡضَ ٱلظَّنِّ إِثۡمٞۖ وَ لَا تَجَسَّسُواْ وَلَا يَغۡتَب بَّعۡضُكُم بَعۡضًاۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمۡ أَن يَأۡكُلَ لَحۡمَ أَخِيهِ مَيۡتٗا فَكَرِهۡتُمُوهُۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ تَوَّابٞ رَّحِيمٞ] الحجرات:12

ترجمہ:- اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو، بیشک بعض بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں اور کسی کے عیوب کی ڈھونڈ ٹٹول نہ کرو، اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم خود نفرت کرتے ہو، اور تم سب اللہ تعالیٰ سے ڈرو، بے شک اللہ تعالٰی بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔

(03) عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((إيَّاكم والظنَّ؛ فإن الظن أكذب الحديث...))؛ متفق عليه

ترجمہ:- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بدگمانی سے بچتے رہو، بدگمانی اکثر، تحقیق کے بعد جھوٹی ثابت ہوتی ہے"۔

لہذا معلوم ہوا کہ یہ الفاظ بعینہ کتب احادیث میں موجود نہیں ہے، البتہ معنی ثابت ہے، تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ ایک مشہور مقولہ ہے، حدیث نہیں ہے۔

اور جہاں تک تعلق ہے الدر المنثور للسیوطی اور المعجم الکبیر للطبرانی کا تو اس میں بھی یہ روایت بعینہ ان ہی الفاظ کے ساتھ مروی نہیں ہے، ان دونوں کتب کا حوالہ جو مذکور ہے وہاں بھی وہ روایت نہیں ملی، اور دیگر جگہوں پر بھی نہیں؛ (جس کو بھی یہ روایت ملے ہمیں بتادیں) بلکہ جس حدیث کا ذکر وہاں ملا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید میں "الطيبات للطیبین" جو آیت ہے تو اس کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ الطیبین سے مراد وہ مرد اور عورتیں ہیں جو مؤمن مرد اور عورتوں کے ساتھ حسن ظن (اچھا گمان) رکھتے ہیں، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں امر اور حکم نہیں دیا گیا ہے؛ بلکہ الطیبون کی تفسیر کرتے ہوئے خبر دی گئ ہے۔ 

لہذا یہ کہنا کہ وہ روایت (ظنوا بالمؤمنین خیرا) المعجم الکبیر للطبرانی اور الدر المنثور للسیوطی میں ہے، صحیح اور درست نہیں ہے۔ 

 ان دونوں جگہوں پر یہ الفاظ مروی ہیں، ملاحظہ فرمائیں 👇

(1) حدثنا عمرو بن أبي الطاهر بن السرح، ثنا يحيى بن بكير، ثنا ابن لهيعة، عن عطاء بن دينار، عن سعيد بن جبير: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثم قال: " {والطيبات} [النور: ٢٦] ، يعني: الحسن من الكلام، {للطيبين} [النور: ٢٦] من الرجال والنساء الذين ظَنُّوا بالمؤمنين والمؤمنات خيرا………

(المعجم الکبیر للطبرانی ج23 ص256)

(2) (والطيبات) يعني الحسن من الكلام {للطيبين} من الرجال والنساء يعني الذين ظَنوا بالمؤمنين والمؤمنات خيرا.

الدر المنثور للسیوطی ج10 ص690)

لہذا اس تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ ان دونوں میں بھی وہی الفاظ بعینہ مروی نہیں ہیں، ہاں البتہ معنی ثابت ہے۔ جیسے کہ اوپر ذکر کیا گیا۔

ھذا ما ظهر لي والله أعلم بالصواب وعلمہ اتم واكمل

جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

استاذ: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا

رقم الاتصال: 9428359610