Thursday, 13 January 2022

غیر حدیثی کتب میں مذکور احادیث کا تحقیقی جائزہ) حدیث نمبر:04 وقد جاء في الخبر "لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان"

 باسمہ تعالیٰ    حامداً ومصلياً 

(غیر حدیثی کتب میں مذکور احادیث کا تحقیقی جائزہ)

حدیث نمبر:04 وقد جاء في الخبر "لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان"

(اصول الشاشی ص 09، مکتبۂ المیزان)

اس حدیث کے سلسلہ میں تین باتیں قابل ذکر ہیں۔

(١) یہ حدیث کتنے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے؟ 

(٢) ان حضرات صحابہ سے مروی احادیث مبارکہ کے الفاظ میں فرق اور ان کی وضاحت۔

(٣) بعینہ یہی الفاظ جو کتاب اصول الشاشی میں مذکور ہیں اس کے متعلق تحقیق و تخریج۔

تفصیل الجواب نمبر (1) یہ حدیث کتنے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے؟ 

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت مفرّقا پانچ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ کما اشار الیه الترمذی رحمه اللہ فی جامعه.

(١) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (٢) حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا (٣) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  (٤) حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ (٥) اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما۔

تفصیل الجواب نمبر(2) ان حضراتِ صحابہ سے مروی احادیث مبارکہ کے الفاظ میں فرق اور ان کی وضاحت۔

تو اس سلسلے میں جان لینا چاہیے کہ مختلف احادیث مبارکہ میں مختلف سندوں کے ساتھ اس نوع کے مختلف الفاظ منقول اور مروی ہیں، ترتیب وار ان الفاظ کو ملاحظہ فرمائیں 👇 

(01) "لا تحرم المصة ولا المصتان" فقط یہی الفاظ حضرت ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے دو طرق سے مروی ہیں، ان احادیث میں "الاملاجۃ ولا الاملاجتان" کے الفاظ نہیں ہیں 👇

1- بطریق ابن أبی ملیکۃ عن عائشة رضی اللہ عنھا ملاحظہ فرمائیں: حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ ".

ترجمہ: حضرت ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "بچے کا ایک مرتبہ دودھ پینا اور دو مرتبہ دودھ پینا یہ حرمت رضاعت کو ثابت نہیں کرتا"۔

(رواہ ابو داود في كتاب النكاح باب هل يحرم ما دون خمس رضعات؟ رقم:2063، والإمام أحمد في مسنده مسند عائشة ج06 ص96/95 رقم: 24644، والترمذي في كتاب الرضاع باب ما جاء لا تحرم المصة ولا المصتان ج02 ص308 رقم: 1160، ورواه مسلم والنسائى واحمد بن حنبل في غير ما ذكرنا قبل، وابن ماجة والدارمي عنها من الطريق المذكور بلفظ: "لا تحرم المصة والمصتان")

 2- بطریق عروہ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ملاحظہ فرمائیں: حدثنا عثمان، قال: حدثنا يونس، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا تحرم المصة، ولا المصتان "۔

(رواہ أحمد فی مسندہ ج43 ص206، رقم: 26099، ورواہ الدار قطنی فى سننه ج5 ص309 رقم: 4368 بلفظ: نا إبراهيم بن حماد , نا زيد بن أخزم , نا عبد الصمد , نا أبي , نا حسين المعلم , عن مكحول , عن عروة , عن عائشة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "لا تحرم المصة ولا المصتان ولكن ما فتق الأمعاء")

(02) نیز یہی الفاظ "لا تحرم المصة والمصتان" حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنھما کے حوالے سے بھی مروی ہیں، ملاحظہ فرمائیں: أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ ".

(رواه النسائي في سننه رقم: 3309 في كتاب النكاح، القدر الذي يحرِّم من الرَّضاعة، والإمام أحمد في مسنده مسند عبد الله بن الزبير رقم: 16110، وكذا في رقم: 16121 عن وكيع قال حدثنا هشام الخ….) 

اب سوال یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ تو ملاحظہ فرمائیں: وأخرج البيهقي: ص ٤٥٤ - ج ٧، قال الربيع: فقلت للشافعي رضي الله عنه: أسمع ابن الزبير من النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: نعم، وحفظ عنه، وكان يوم توفي النبي صلى الله عليه وسلم ابن تسع سنين، قال البيهقي: هو كما قال الشافعي، إلا أن ابن الزبير رضي الله عنه أخذ هذا الحديث عن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم.

یعنی حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا بھی ہے، اور احادیث مبارکہ کو محفوظ بھی کیا ہے، اور جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوری تھی اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نو سال کے تھے، لیکن مذکور حدیث حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے۔ 

اقول: بالا حدیث میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے جو روایت مروی ہے ممکن ہے کہ حضرت عبد اللہ نے اس میں ارسال کیا ہو، یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نام حذف کردیا ہو، لیکن چونکہ باتفاق علماء صحابہ کے مراسیل مقبول ہیں اس لیے آگے کوئی کلام نہیں۔ 

(03) حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا کی روایت میں "لا تحرم الإملاجة ولا الإملاجتان" والے الفاظ یا "المصۃ ولا المصتان" والے الفاظ مروی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ دونوں الفاظ ایک ساتھ جس طرح کتاب اصول الشاشی میں مذکور ہیں وارد ہوں، ملاحظہ فرمائیں: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كُلُّهُمْ، عَنِ الْمُعْتَمِرِ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى ، أَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ ، قَالَتْ : دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَهُوَ فِي بَيْتِي - فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي كَانَتْ لِي امْرَأَةٌ، فَتَزَوَّجْتُ عَلَيْهَا أُخْرَى، فَزَعَمَتِ امْرَأَتِي الْأُولَى، أَنَّهَا أَرْضَعَتِ امْرَأَتِي الْحُدْثَى رَضْعَةً أَوْ رَضْعَتَيْنِ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تُحَرِّمُ الْإِمْلَاجَةُ ، وَالْإِمْلَاجَتَانِ ". قَالَ عَمْرٌو فِي رِوَايَتِهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ.

ترجمہ: ام فضل رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بدوی صحابی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے، ان بدوی صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا نبی اللہ! میری ایک عورت تھی اور میں نے دوسری سے نکاح کیا سو پہلی نے کہا کہ میں نے اس دوسری کو ایک بار یا دو بار دودھ چوسایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ایک بار یا دو بار دودھ چوسانے سے حرمت نہیں ہوتی۔

(رواه مسلم في كتاب الرضاع، بَابٌ  فِي المصة والمصتان، رقم: 1451 ( 18 )، وكذا في رقم: 1451 ( 22 ) بلفظ: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا تُحَرِّمُ الْإِمْلَاجَةُ ، وَالْإِمْلَاجَتَانِ " وكذا رواه النسائي في سننه في كتاب النكاح، باب القدر الذي يحرم من الرضاعة ج06 ص 101، بلفظ: "لا تحرم الإملاجة ولا الإملاجتان". وقال قتادة: المصة والمصتان، وكذا في سنن ابن ماجه كتاب النكاح باب "لا تحرم المصة ولا المصتان، ج01 ص 624، رقم: 1941، من طريق قتادة وعبد الله بن الحارث عن أم الفضل، حدثته أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "لا تحرم الرضعة ولا الرضعتان أو المصة والمصتان"، اسی طرح ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا کی روایت مختلف کتب احادیث میں مروی ہیں، نیز مسلم شریف میں ایک اور روایت ہے جس میں فرق الفاظ ہے، فلیراجھا۔)

(04) نیز حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی "المصۃ ولا المصتان" اور "الاملاجۃ ولا الاملاجتان" والے الفاظ مفرّقا مروی ہیں۔

01-  بطریق حجاج بن حجاج ملاحظہ فرمائیں: نا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز, نا عثمان بن أبي شيبة, نا جرير ح ونا أبو عثمان سعيد بن محمد بن أحمد الكرخي نا يوسف بن موسى, نا جرير, عن محمد بن إسحاق, عن إبراهيم بن عقبة, قال: كان عروة بن الزبير يحدث, عن الحجاج بن الحجاج, عن أبي هريرة, أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تحرم من الرضاعة المصة ولا المصتان۔۔۔۔۔۔۔۔

(سنن دارقطنی ج05 ص305 رقم الحدیث: 4360)

بس اس میں "المصۃ ولا المصتان" سے پہلے لفظ "من الرضاعة" کی زیادتی ہے۔

02- بطریق سلیمان بن داود الھاشمی ملاحظہ فرمائیں: حدثنا محمد بن مخلد, نا العباس بن محمد الدوري, ح وحدثنا عثمان بن أحمد الدقاق, نا الحسن بن سلام السواق, قالا: نا سليمان بن داود الهاشمي, نا عبد الوهاب الثقفي, نا أيوب, عن ابن أبي مليكة, عن أبي هريرة, عن النبي صلى الله عليه وسلم.

 وأيوب عن ابن أبي مليكة, عن ابن الزبير, عن عائشة, عن النبي صلى الله عليه وسلم - قال أحدهما: - "لا تحرم المصة والمصتان" - وقال الآخر: - "لا تحرم الإملاجة والإملاجتان"

(سنن دار قطنی ج05 ص303 رقم الحدیث: 4357/4356)

أخبرنا أبو بكر أحمد بن الحسن القاضي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالا: نا أبو العباس محمد بن يعقوب، نا العباس بن محمد الدوري، نا سليمان بن داود الهاشمي، نا عبد الوهاب الثقفي، عن أيوب، عن ابن أبي مليكة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم۔

 وأيوب، عن ابن أبي مليكة، عن ابن الزبير، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " أحدهما: "لا تحرم المصة ولا المصتان"، وقال الآخر: "لا تحرم الإملاجة والإملاجتان".

(السنن الكبرى للبيهقي ط العلمية ج7 ص749، رقم الحدیث:15626)

(05) حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے بطریق محمد بن دینار الطاحی البصری وہی الفاظ مروی ہے جو کتاب اصول الشاشی اور ہدایہ وغیرہ میں مذکور ہے، یعنی "لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان" صحیح ابن حبان وغیرہ میں وہ روایت موجود ہے، ملاحظہ فرمائیں: أخبرنا عبد الله بن أحمد بن موسى بعسكر مكرم، حدثنا أحمد بن عبدة الضبي، حدثنا محمد بن دينار الطاحي، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، عن الزبير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تحرم المصة ولا المصتان، ولا الإملاجة ولا الإملاجتان".

(صحيح ابن حبان، رقم الحدیث: ٤٢٢٦)

حدثنا محمد بن علي الوراق البغدادي، نا مسلم بن إبراهيم، نا محمد بن دينار، نا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، عن أبيه الزبير، سمع النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم يقول: «لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان»

(المسند للشاشي الهيثم بن كليب، ج1 ص105 رقم الحدیث: 46)

حدثنا أحمد بن عبدة، قال: أنا محمد بن دينار، قال ثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان» ⦗١٨٣⦘. وهذا الحديث قد روي عن ابن الزبير من وجوه ولا نعلم أحدا رواه عن ابن الزبير، عن الزبير، إلا محمد بن دينار، عن هشام۔

(مسند البزار، ج03 ص182 رقم: 967)

(حديث الزبير: فرواه النسائي في الكبرى ٣/ ٢٩٩ والترمذي في علله الكبير ص ١٦٧ والطحاوى في المشكل ١١/ ٤٨٤، وأبو يعلى ١/ ٣٢٩، والطبراني في الكبير ١/ ٨٤، والعقيلى في الضعفاء ٤/ ٦٤، والدارقطني في العلل ٤/ ٢٢٥، والبيهقي ٧/ ٤٥٤: من طريق محمد بن دينار قال: حدثنا هشام بن عروة عن أبيه عن ابن الزبير عن الزبير عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان")

تفصیل الجواب نمبر (٣) بعینہ یہی الفاظ جو کتاب اصول الشاشی میں مذکور ہیں اس کے متعلق تحقیق و تخریج۔

جیسا کہ اوپر ہم نے ذکر کیا کہ صحیح ابن حبان وغیرہ میں وہی الفاظ جو کتاب اصول الشاشی میں ہیں، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کے علاوہ باقی چار حضرات صحابہ و صحابیات _ (١) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (٢) حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا (٣) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (٤) اور حضرت عبداللہ بن زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ _ سے مفرّقا (خالص لا تحرم المصۃ ولا المصتان یا خالص لا تحرم الاملاجۃ ولا الاملاجتان) مروی ہیں (کما مر آنفا) 

بہر کیف! اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ روایت جو حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کیا وہ قابل للاحتجاج ہے؟ تو اس سلسلے میں عاجز کی رای یہ ہے کہ چونکہ وہ الفاظ مسلم شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام الفضل رضی اللہ عنھما سے مروی ہیں اگرچہ مفرّقا مروی ہیں، درجۂ حسنیت کو پہنچ جاتے ہیں، لہذا یہ روایت بھی قابل قبول اور قابل للاحتجاج ہے، پھر اس پر ایک سوال ہوتاہے کہ اس روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے محمد بن دینار الطاحی کی وجہ سے غیر محفوظ اور دار قطنی اور عقیلی رحمہما اللہ نے اس کو محمد بن دینار الطاحی البصری کا وہم کیوں کر قرار دیا ہے؟ 

تو اس کا جواب یہ ہے کہ غیر محفوظ اور وھم کا ہونا الفاظ حدیث میں نہیں؛ بلکہ اس روایت کے حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے ثابت اور مروی ہونے میں ہے، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَزَادَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ الْبَصْرِيُّ : عَنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَالصَّحِيحُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ حَدِيثُ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا، فَقَالَ : الصَّحِيحُ عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ دِينَارٍ وَزَادَ فِيهِ عَنِ الزُّبَيْرِ. وَإِنَّمَا هُوَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّبَيْرِ.

یعنی یہ روایت جس کو محمد بن دینار الطاحی البصری روایت کرتے ہیں اور روایت کرنے میں منفرد ہے، یہ روایت غیر محفوظ ہے، اور صحیح روایت وہ ہے جس کو ابن أبی ملیکۃ کے طریق سے حضرت عبداللہ بن زبیر نے حضرت ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت کیا ہے، جس کو ہم نے اوپر ذکر کیا، نیز امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ سے اس سلسلے میں سوال دریافت کیا تو آپ نے جواباً عرض کیا: کہ اس روایت میں (عن الزبیر) کی زیادتی ہے، یعنی یہ روایت چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت کرتے ہیں لہذا حضرت ابن زبیر کا اسی روایت کو اپنے والد سے روایت کرنے کا کیا مفہوم۔ تو ماننا ہوگا کہ(عن الزبیر) کی زیادتی ہے۔ 

نیز علامہ عقیلی رحمہ اللہ نے اس کو محمد بن دینار الطاحی البصری کا وہم قرار دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: محمد بن دينار الطاحي بصري في حديثه وهم. حدثنا محمد بن أحمد، حدثنا معاوية بن صالح قال: سمعت يحيى بن معين، يقول: محمد بن دينار الطاحي بصري ضعيف ومن حديثه ما حدثناه محمد بن إسماعيل، وعلي بن عبد العزيز، قالا: حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا محمد بن دينار الطاحي، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن ابن الزبير، عن الزبير، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان»

(كتاب الضعفاء الكبير للعقيلي ج04 ص63، رقم: 1616)

نیز دار قطنی رحمہ اللہ نے بھی اس کو وہم قرار دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: قال الدارقطني: "تفرد به محمد بن دينار الطاحى عن هشام بن عروة عن أبيه عن ابن الزبير عن الزبير ووهم فيه". اهـ.

(كتاب نزهة الألباب في قول الترمذي «وفي الباب»

للوائلي حسن بن محمد ج04 ص1847)

تو ان حضرات کا راوی محمد بن دینار الطاحی البصری کا وہم قرار دینا بھی الفاظ حدیث کے سلسلہ میں نہیں ہے، بلکہ اس کے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہونے کے سلسلے میں ہے، لیکن ان کے اس وہم اور غیر محفوظ ہونے کے قول کی علامہ زیلعی اور علامہ عینی رحمھما اللہ نے تردید کی ہے، چنانچہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے نصب الرایۃ میں لکھا ہے کہ یہ روایت جس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اسی طرح حضرت عبداللہ بن زبیر اور ان کے والد محترم رضی اللہ عنھما سے بھی مروی ہے، عین ممکن ہے کہ اس روایت حضرت ابن زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بذات خود سنا ہو، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا سماع ثابت ہے، (کما مر) اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس روایت کو ابن زبیر نے حضرت ماں عائشہ اور ان کے والد سے بھی سنا ہو، اور چونکہ اس طرح کا امر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں پایا جاتا ہے لہذا کہنا ہوگا کہ حضرت ابن زبیر نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سنا ہے، اور اپنی خالہ اور والد سے بھی سنا ہے، تو کبھی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے ذکرکرتے ہے، اور کبھی ماں عائشہ صدیقہ اور اپنے والد کے حوالے سے روایت کرتے ہیں، فلا اعتراض علیہ، نصب الرایہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں: أخرجه ابن حبان في "صحيحه" حديثا واحدا من رواية محمد بن دينار ثنا هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تحرم المصة والمصتان، ولا الإملاجة والإملاجتان"، انتهى. رواه في النوع الحادي والثلاثين، من القسم الثالث، وروى صدره من حديث ابن الزبير، ثم قال: ولا يستنكر سماع ابن الزبير لهذا من النبي صلى الله عليه وسلم، وقد سمعه من أبيه وخالته، لأنه مرة روى ما سمع، ومرة روى عنهما، قال: وهذا شيء مستفاض في الصحابة، انتهى.

(نصب الراية للزیلعی ج3 ص217/218)

نیز علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی ایک شاندار تحقیق اپنی مایا ناز کتاب العنایۃ میں لکھی ہے، جس سے علامہ زیلعی کی بات کی تصدیق ہوجاتی ہے، ملاحظہ فرمائیں: وروى ابن حبان في " صحيحه " حديثا واحدا نحو رواية المصنف من رواية محمد بن دينار، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، عن أبيه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «لا تحرم المصة ولا المصتان، ولا الإملاجة ولا الإملاجتان.» وقال الأترازي: قوله: «ولا الإملاجة ولا الإملاجتان» ، هذا من تتمة الحديث على ما ذكره صاحب " الهداية " ولكن ليس هو بمثبت في الأخرى، فركب الحديث، ولهذا لم يثبته الترمذي في جامعه، وأبو داود في سننه على ما روينا: «لا تحرم المصة ولا المصتان، ولا الإملاجة ولا الإملاجتان» انتهى

قلت: عدم اطلاعه في كتب الحديث، وقصر باعه في هذا الفن، ألجأه إلى هذا الكلام، وكيف يقول: وليس هذا بمثبت في الأصول من كتب الحديث، وقد رواه مسلم كما ذكرنا مفردا ومشتملا، ورواه ابن حبان، كما رواه المصنف، وعدم إثبات الترمذي، وأبي داود هذا لا يستلزم نفي أن يكون هذا من الأحاديث المثبتة.

(البناية شرح الهداية للعيني ج05 ص257)

نیز علامہ شعیب الارنؤوط رحمہ اللہ نے تخریج صحیح ابن حبان میں ابن عدی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ راوی محمد بن دینار الطاحی حسن الحدیث ہے، نیز وہ راوی عامۃً روایت بیان کرنے میں منفرد ہوتے ہے، اور یہ روایت بھی ایسی ہی ہے کہ اس میں راوی منفرد ہے اور باقی رجال سند ثقہ ہیں، عبارت ملاحظہ فرمائیں: (فيه) محمد بن دينار الطاحي، قال ابن عدي: حسن الحديث، وعامة حديثه ينفرد به، قلت: وهذا الحديث مما انفرد به، وباقي رجاله ثقات.

راوی محمد بن دینار الطاحی کے متعلق بعض حضرات محدثین نے تضعیف کی ہے، اور بعض نے توثیق کی ہے، چنانچہ یحیی بن معین سے دونوں وجہیں ثابت ہے، بعض نے ان سے نقل کیا ہے: "لا بأس بہ" اور بعض نے "ضعیف" نقل کیا ہے، لیکن اکثر نے ان کی توثیق کی ہے، اس سلسلے میں حسین سلیم اسد الدارانی نے ھامش موارد الظمآن الی زوائد صحیح ابن حبان میں ایک محول تحقیق نقل کی ہے، ملاحظہ فرمائیں: محمد بن دينار الطاحي ترجمه البخاري في الكبير ١/ ٧٧ ولم يورد فيه جرحا ولا تعديلا، وأورد ابن أبي حاتم في "الجرح والتعديل" ٧/ ٢٥٠ عن يحيى بن معين وقد سئل عن الطاحي قوله: "ليس به بأس".

وقال: "سألت أبي عن محمد بن دينار الطاحي. فقال: لا بأس به".

وقال أيضا: "سئل أبو زرعة عن محمد بن دينار بن صندل، قال: صدوق".

وقال العقيلي في الضعفاء الكبير ٣/ ٦٣: "في حديثه وهم" ثم أورد عن يحيى بن معين أنه قال: "محمد بن دينار الطاحي بصري ضعيف". وقال أبو داود: "تغير قبل أن يموت، وكان ضعيف القول في القدر". وقال النسائي: "ليس به بأس". وقال مرة: "ضعيف". وقال الدارقطني: "ضعيف متروك".

وقال العجلي في "تاريخ الثقات" ص: (٤٠٣): "بصري، لا بأس به".

وقال ابن شاهين في "تاريخ أسماء الثقات" ص (٢١٠) برقم (١٢٦٥): "قال يحيى: محمد بن دينار الطاحي ضعيف وقال مرة أخرى: محمد بن دينار الطاحي ثقة، ليس به بأس ... ".

وقال أيضا ص (٢١٦) برقم (١٣١٥): "ومحمد بن دينار ثقة". ووثقه ابن حبان، وقال أبو الحسين بن المظفر: "لا بأس به". وقال الذهبي في كاشفه: "حسنوا أمره".

وقال ابن عدي في كامله ٦/ ٢٢٠٥: "ولمحمد بن دينار غير ما ذكرت، وهو مع هذا كله حسن الحديث ... "، فمثله لا بد أن يكون حسن الحديث والله أعلم، وباقي رجاله ثقات. والحديث في الإحسان ٦/ ٢١٤ برقم (٤٢١٢).

وأخرجه أبو يعلى ٢/ ٤٦ - ٤٧ برقم (٦٨٨) من طريق سعيد بن أبي الربيع السمان، حدثنا محمد بن دينار الطاحي، بهذا الإسناد، وهناك خرجناه.

ونضيف هنا: أخرجه النسائي في النكاح- في الكبرى ذكره المزي في "تحفة الأشراف" ٣/ ١٨١ برقم (٣٦٣١) - من طريق عبيد الله بن فضالة بن إبراهيم النسائي.

وأخرجه الطبراني في الكبير ١/ ١٢٤ برقم (٢٤٨) من طريق علي بن عبد العزيز، كلاهما حدثنا مسلم بن إبراهيم، عن محمد بن دينار، بهذا الإسناد.

ومن طريق النسائي السابقة أخرجه ابن حزم في "المحلى" ١٠/ ١٣.

وأخرجه الطبراني في الكبير ١/ ١٢٤ برقم (٢٤٨) من طريق محمد بن عبد الله الحضرمي، حدثنا روح بن عبد المؤمن المقرئ، حدثنا محمد بن دينار، به.

وذكره الهيثمي في "مجمع الزوائد" ٤/ ٢٦١ باب: في الرضاع وقال: "رواه أبو يعلى، والطبراني، وفيه محمد بن دينار الطاحي وئقة أبو زرعة، وأبو حاتم، وابن حبان، وقد ضعف، وبقية رجاله ثقات".

وقال الترمذي بعد الكلام الذي نقلناه عنه في تعليقنا على الحديث السابق ٤/ ١١٩: "وروى محمد بن دينار، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، عن الزبير، عن النبي عليه الصلاة والسلام، وزاد فيه محمد بن دينار البصري: (عن الزبير، عن النبي) وهو غير محفوظ، والصحيح عند أهل الحديث حديث ابن أبي مليكة، عن عبد الله بن الزبير، عن عائشة.

قال أبو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح. وسألت محمدا- يعني البخاري- عن هذا، فقال: الصحيح عن ابن الزبير، عن عائشة، وحديث محمد بن دينار- وزاد فيه: (عن الزبير)، و (نما هو هشام بن عروة، عن أبيه، عن الزبير.

والعمل على هذا عند بعض أهل العلم من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - وغيرهم"

وقال الحافظ ابن حجر في "فتح الباري" ٩/ ١٤٧:" وحديث المصتان -كذا على الحكاية- جاء أيضا من طرق صحيحه، لكن قال بعضهم: إنه مضطرب لأنه اختلف فيه: هل هو عن عائشة، أو عن الزبير، أو عن ابن الزبير، أو عن أم الفضل؟ لكن لم يقدح الاضطراب عند مسلم فأخرجه من حديث أم الفضل زوج العباس ... ".

وقال الحافظ ابن حبان: "لست أنكر أن يكون ابن الزبير سمع هذا الخبر عن النبي - صلى الله عليه وسلم - فمرة أدى ما سمع، وأخرى روى عنها. وهذا شيء مستفيض في الصحابة، قد يسمع أحدهم الشيء ثم يسمعه بعد عن من هو أجل منه عنده خطرا وأعظم لديه قدرا عن النبي-صلى الله عليه وسلم-فمرة يؤدي ما سمع، وتارة يروي عن ذلك الأجل، ولا تكون روايته عن من فوقه، وذلك الشيء يدل على بطلان سماع ذلك الشيء.

وهذا كخبر ابن عمر في سؤال جبريل في الإيمان والإسلام: سمعه من النبي- صلى الله عليه وسلم- ثم سمعه من أبيه فأدى مرة ما شاهد، وأخرى عن عمر ما سمعه منه لعظم قدره عنده". وانظر تلخيص الحبير ٤/ ٥، ونيل الأوطار ٧/ ١١٤، وجاصع الأصول ١١/ ٤٧٩ - ٤٨٠.

ھامش موارد الظمآن الی زوائد صحیح ابن حبان لحسین سلیم اسد الدارانی ج04 ص175)

خلاصۂ کلام:- "لا تحرم المصۃ ولا المصتان" یہ ایک الگ روایت ہے، جو حضرت ماں عائشہ صدیقہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، اور "لا تحرم الاملاجۃ ولا الاملاجتان" ایک مستقل الگ روایت ہے جو ام الفضل رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اور دونوں روایات قابل قبول ہیں، قابل للاحتجاج ہیں، لیکن "لا تحرم المصۃ ولا المصتان ولا الاملاجۃ ولا الاملاجتان" یہ پوری روایت صحیح ابن حبان وغیرہ میں حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے بطریق محمد بن دینار الطاحی البصری کے مروی ہے، اور اس محمد بن دینار الطاحی منفرد ہے، لیکن چونکہ ان کو ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تقریب میں "صدوق سیئ الحفظ" لکھا ہے، نیز بعض حضرات محدثین نے ان کی توثیق کی ہے جیسا کہ اوپر گزرا، نیز اس کو حضرت ماں عائشہ اور حضرت ام الفضل رضی اللہ عنھما کی روایات سے تائید حاصل ہے لہذا یہ روایت بھی مقبول ہے، درجۂ حسنیت کو پہنچی ہوئی ہے۔

نیز "الرضعۃ ولا الرضعتان" والے الفاظ دار قطنی رحمہ اللہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی ذکر کیے ہیں، ملاحظہ فرمائیں: نا محمد بن أحمد بن إبراهيم الكاتب , نا محمد بن سنان , نا عبيد الله بن تمام , نا حنظلة , نا سالم بن عبد الله , عن ابن عمر , عن زيد بن ثابت , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تحرم الرضعة ولا الرضعتان.

(سنن دار قطنی، کتاب الرضاع، ج05 ص305 رقم:4359)

هذا ما ظهر لي والله أعلم بالصواب وعلمہ اتم واكمل

کوئی چیز قابل اصلاح ہوتو ضرور درج ذیل نمبر پر رابطہ فرماکر متنبہ فرمائیں۔

كتبه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

استاذ حدیث: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا شمالی گجرات

رقم الاتصال:- 9428359610

14/ جنوری/2022 شب جمعہ

No comments:

Post a Comment