باسمہ تعالیٰ حامداً ومصلیاً
(غیر حدیثی کتب میں ذکر کردہ احادیث کا تحقیقی جائزہ)
قول صاحب أصول الشاشي رحمه الله تعالىٰ: "فلا يزاد عليه شرط النية والترتيب والموالاة والتسمية بالخبر"
(اصول الشاشی ص10 مکتبۂ المیزان)
اس میں چار چیزیں ذکر کی گئی ہے، (١) نیت (٢) ترتیب (٣) موالات ( پے درپے ہونا) (٤) اور تسمیہ، ان کے متعلق لف ونشر مرتب کے طور پر احادیث پیش کی جائے گی۔ ان شاءاللہ
(١) نیت کے متعلق وہ حدیث ہے جس کو ائمۂ ستہ نے بطریق یحیی بن سعید الانصاری، عن محمد بن ابراہیم التیمی، عن علقمۃ بن وقاص اللیثی، عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے تخریج کی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إنما الأعمال بالنيات"۔
( أخرجه البخاری فی صحيحه بَاب : كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ رقم:01، ومسلم في صحيحه في كِتَاب الْإِمَارَة، بَاب قَوْله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ " رقم: 1907 ( 155 ) بلفظ: إنما الأعمال بالنية، وأبو داود فی سننه فی كِتَاب الطَّلَاق بَاب فِيمَا عُنِي بِهِ الطَّلَاقُ وَالنِّيات، رقم: 2201، والترمذي في سننه في أَبْوَاب فَضَائِلِ الْجِهَادِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُقَاتِلُ رِيَاءً وَلِلدُّنْيَا، رقم: 1647، بلفظ: إنما الأعمال بالنية، والنسائی فی سننه في كِتَاب الطَّهَارَة، بَاب النِّيَةُ فِي الْوُضُوء، رقم: 75، بلفظ الواحد، وابن ماجة في سننه في كِتَاب الزُّهْد، بَاب النِّيَّة، رقم: 4227، وهكذا أخرجه أحمد والطيالسي والدارقطني والبيهقي وابن جارود وغيرهم، كذا في تخريج الزيلعي 01/382)
اسی طرح یہ روایت صحیح ابن حبان میں تین جگہوں پر ہیں، اور ان تینوں جگہوں میں لفظ "إنما" نہیں ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇
01 أخبرنا علي بن محمد القباني حدثنا عبد الله بن هاشم الطوسي حدثنا يحيى بن سعيد القطان عن يحيى بن سعيد الأنصاري عن محمد بن إبراهيم التيمي عن علقمة بن وقاص عن عمر بن الخطاب رضى الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " الأعمال بالنيات"……….
(صحيح ابن حبان كتاب البر والإحسان، باب الإخلاص وأعمال السر، ج02 ص113، رقم: 388)
02 أخبرنا عمر بن سعيد بن سنان قال حدثنا أبي قال حدثنا عيسى بن يونس عن يحيى بن سعيد الأنصاري عن محمد بن إبراهيم التيمي عن علقمة بن وقاص الليثي عن عمر بن الخطاب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " الأعمال بالنية "..........
(صحيح ابن حبان كتاب البر والإحسان، باب الإخلاص وأعمال السر، ج02 ص115، رقم:389)
03 أخبرنا العباس بن أحمد بن حسان السامي بالبصرة، حدثنا الصلت بن مسعود الجحدري، حدثنا عمر بن علي، حدثنا يحيى بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن علقمة بن وقاص، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الأعمال بالنيات"......
(صحيح ابن حبان ج11 ص210 رقم:4868)
ان تینوں روایات میں لفظ إنما نہیں ہے۔
اسی طرح علامہ بیھقی رحمہ اللہ نے اس روایت کی تخریج اپنی کتاب معرفۃ السنن والآثار میں بغیر لفظ "إنما" کے کی ہے، اور اس کو امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی طرف منسوب کیا ہے، لیکن امام مسلم رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرنے میں تسامح ہوا ہے، چونکہ بخاری شریف میں یہ روایت بغیر "إنما" کے ہے، لیکن مسلم شریف میں یہ روایت ایک ہی جگہ مروی ہے، اور اس میں "إنما" کا ذکر ہے، لہذا اس سلسلے میں امام بیھقی رحمہ اللہ کو تسامح ہوا ہے، جیسا کہ اس کی طرف علامہ زیلعی رحمۃاللہ علیہ نے نصب الرایہ میں اشارہ فرمایا ہے: " وکذالک رواه البيهقي في المعرفة بدون"إنما" وعزاه للبخاري ومسلم، وهو منه تساهل"
(نصب الراية للزيلعي ج1 ص302)
معرفة السنن والآثار کی عبارت ملاحظہ فرمائیں 👇
….."الأعمال بالنيات".....
رواه البخاري في الصحيح عن مسدد، ورواه مسلم، عن أبي الربيع، وعن ابن نمير، عن يزيد بن هارون.
(معرفة السنن والآثار للبيهقي، ج01 ص261)
(2) ترتیب اور موالات کے متعلق درج ذیل حدیث سے فقہائے کرام استدلال کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں 👇
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، عَنْ بَحِيرٍ - هُوَ ابْنُ سَعْدٍ - عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يُصَلِّي وَفِي ظَهْرِ قَدَمِهِ لُمْعَةٌ قَدْرُ الدِّرْهَمِ، لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ وَالصَّلَاةَ.
(سنن أبی داؤد، كِتَاب الطَّهَارَة، بَاب تَفْرِيق الْوُضُوء، رقم: 175)
ترجمہ:- ایک صحابئ رسول رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا، اس کے پاؤں کے اوپری حصہ میں ایک درہم کے برابر حصہ خشک رہ گیا تھا، وہاں پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہے وضو، اور نماز دونوں کے لوٹانے کا حکم دیا۔
اس میں ایک راوی بقیۃ بن الولید ہے، جن کے متعلق ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تقریب میں لکھا ہے: "صدوق کثیر التدلیس عن الضعفاء"
(تقریب التھذیب لابن حجر ص174)
پس ان کے شیخ بحیر ابن سعد ثقہ ہے، قال ابن حجر فی التقریب: "ثقة ثبت" (ص163)
معلوم ہوا کہ روایت قابل للاحتجاج ہے، نیز امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے سماح کی صراحت کی ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنَا بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مسند احمد رقم الحدیث: 15495)
وقد قال الإمام أحمد: "بقية إذا حدَّث عن قوم ليسوا بمعروفين؛ فلا تقبلوه، وإذا حدَّث بقية عن المعروفين - مثل بحير بن سعد وغيره - قُبِل"
(ضعفاء العقيلي (1/ 162)
وقد قال النَّسائي فيه: "إذا قال: "حدَّثنا"، و"أخبرنا"، فهو ثقة، وإذا قال: "عن فلان"، فلا يُؤخذ عنه؛ لأنَّه لا يُدرَى عمَّن أخذه"
((تهذيب الكمال (4/ 198))
ابن اثیر جامع الأصول میں رقم طراز ہے: "وفي سنده بقية بن الوليد، وهو كثير التدليس عن الضعفاء، ولكن رواه أحمد في " المسند "، والحاكم في " المستدرك "، (لیکن مستدرک حاکم میں روایت نہیں ہے، کما سیأتی) وقد صرح فيه عندهما بقية بالتحديث، فزالت شبهة تدليسه، فصح الحديث.
(كتاب جامع الأصول لابن الاثیر ابو السعادات ج07 ص168)
نیز علامہ زیلعی نے بھی اس کی وضاحت کی ہے ملاحظہ فرمائیں 👇
"قال في الإمام: وبقية مدلس إلا أن الحاكم رواه في المستدرك، فقال فيه: حدثنا بحير بن سعد فزالت التهمة، انتهى. ومن طريق أبی داود، رواه البيهقي في السنن، وقال: إنه مرسل، قال في الإمام: عدم ذكر اسم الصحابي لا يجعل الحديث مرسلا، فقد قال الأثرم: سألت أحمد بن حنبل عن هذا الحديث فقال: إسناده جيد، قلت له: إذا قال التابعي: حدثني رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يسمه أيكون الحديث صحيحا؟ قال: نعم انتهى."
(نصب الراية للزيلعي ج1 ص35)
نوٹ:- جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا کہ سنن ابی داود کی اس روایت کو مسند احمد اور مستدرک حاکم سے سماع کی تصریح کی وجہ سے تائید حاصل ہے، لیکن اس میں ایک بات قابلِ نظر ہے، وہ یہ کہ یہ روایت مستدرک علی الصحیحین للحاکم میں موجود نہیں ہے، مسند احمد میں ہے، مستدرک حاکم میں تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں نہیں ملی، اگرچہ زیلعی ابن اثیر اور حضرت شیخ یونس جون پوری رحمۃ اللہ علیھم (الیواقیت الغالیۃ ج3 ص485) وغیرھم نے اس کو لکھا ہے، لیکن یہ روایت مستدرک حاکم میں نہیں ملی، راقم الحروف ابو احمد حسان نے کثرت تتبع کے بعد بھی اس روایت کو مستدرک حاکم میں نہیں پایا، پھر تلاش کرتے ہوئے ایک معتبر ادارے (الألوکہ) کے ویب سائٹ پر حاشیے میں لکھا پایا: "هكذا عزَا غيرُ واحد من المتأخِّرين الحديث إلى المستدرك، قال ابن الملقِّن - بعد أن نقل هذا الكلام لابن دقيق العيد في البدر المنير (2/ 240): وقوله: قلت: في المستدرك... لعلَّه وهم من الناسخ؛ فإن هذا الحديث ليس له ذكرٌ فيه، وإنما صوابه: في المسند؛ يعني: لأحمد بن حنبل؛ فإنه أخرجه كذلك فيه۔" انتھی
نیز شعیب الارنؤوط رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو صحیح لغیرہ قرار دیا ہے، اگرچہ آپ نے بقیۃ بن الولید کو مدلس تدلیس التسویۃ قرار دیا ہے، نیز بقیہ کا مسند احمد میں تصریح بالسماع کرنے کو بھی نا کافی قرار دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇
"صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، بقية -وهو ابن الوليد- يدلس تدليس التسوية، فلا يكفى تصريحه بالسماع من شيخه عند أحمد، بل يجب أن يصرح به في طبقات السند كلها، ثم هو في نفسه ضعيف."
(تحقیق سنن أبی داود لشعیب الارنؤوط ج1 ص127)
لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ راوی بقیہ بن الولید کا تدلیس التسویۃ کرنا نادر اور قلیل ہے، لہذا طریق ثانی یا کسی امام کی صراحت کی وجہ سے اس کے ثبوت کا ہی حکم لگایا جائے گا، جیسا کہ ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت کی ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇
"فإن الأرجح: أن يُنفَى تدليس بقية إذا صرَّح بالتحديث عن شيخه، إلاَّ أن يتبين أنه سوَّى الإسناد بجمع طرقه، أو بنصٍّ من أحد الأئمة في الحديث بعينه۔" قاله أبو حاتم الرازي في العلل (2/ 133 – 154)
اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ بقیہ بن الولید کی جتنی روایات راوی بحیر ابن سعد سے ہیں سب صحیح ہیں، چاہے اس میں تحدیث کی صراحت ہو یا نہ ہو، جیسا کہ اس کی طرف ابن عبد الھادی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇
"ورواية بقية عن بحير صحيحة؛ سواء صرَّح بالتحديث أم لا"
(تعليقة على عِلل ابن أبي حاتم (ص: 157) في التعليق على هذا الحديث، وقال نحوه في تنقيح التحقيق (4/ 658) في التعليق على حديث آخر، وقال فيه: حسنة أو صحيحة)
ابن عبد الھادی کی بات درج ذیل وجوہات کی بنا پر صحیح اور قابل اخذ معلوم ہوتی ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇
01 قول بقيَّة: "أشهد أني سمعته: حديث بحير عن ابن معدان"
(المعرفة والتاريخ، ليعقوب الفسوي 2/ 387)
اس سے معلوم ہوگیا کہ بقیہ بن الولید کا سماع بحیر ابن سعد سے ثابت ہے جس کو بحیر، خالد بن معدان سے روایت کرے، لہذا اس کو روایت کو بھی قابل للاحتجاج مانا جائے گا، اور عدم سماع کی بنا پر ضعیف قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
02 أنَّ شعبة بن الحجاج قال لبقية: "إنِّي لأسمع منكَ أحاديث لو لم أحفظْها عنك لطرت"، وفي لفظ: قال بقيَّة: لَمَّا قرأت على شعبة كتاب بحير بن سعد، قال لي: "يا أبا يحمد، لو لم أسمعْ هذا منك لطرت"، قال بقيَّة: "واستهداني شعبةُ أحاديثَ بحير بن سعد"، وكان شعبة يقول له: "بحِّر لنا، بحِّر لنا"، يعني: حدِّثنا عن بحير بن سعد، وقال له: "تمسَّك بحديث بحير"، ورفع شعبةُ شأنَ حديث بقيَّة عن بحير.
(انظر: تاريخ أبي زرعة الدمشقي (1/ 398 - 399)، الجرح والتعديل (2/ 435 - 436)، الكامل، لابن عدي (2/ 73 - 74)
03 أنَّ لبقية إكثارًا عن بحير واختصاصًا به، وقد تقرَّر أنَّ من قرائن قَبول رواية المدلِّس عن شيخه، ولو لم يصرِّح بسماعه: أن يكون المدلِّس مكثرًا من الرِّواية عن شيخه؛ إذ تكون روايته عن شيخه ذاك محمولةً على الاتِّصال، حتى يتبيَّن في حديثٍ معيَّن أنه دلَّسه عنه۔
((انظر: الاتصال والانقطاع، للشيخ إبراهيم اللاحم (ص: 336 - 340)، وفيه نقل أقوال الأئمة متقدِّميهم ومتأخِّريهم في تقرير ذلك، التدليس، لصالح الجزائري (ص: 155 - 157))
04 وقال الحافظ عبدالحق بن الخراط الإشبيلي: "أحسنُ حديث بقيةَ ما كان عن بحير بن سعد"۔
(الأحكام الوسطى (2/ 27)، (4/ 106)، ووقع في الموضعين تصحيف، تصويبه من بيان الوهم والإيهام، لابن القطَّان (4/ 166)
خلاصۂ کلام:- بقیہ بن الولید اگرچہ راوی مدلس ہے، نیز سنن ابی داود کی روایت معنعن ہے، لیکن مسند احمد میں سماع کی تصریح بلفظ "حدثنا" مروی ہے، فلا اشکال، بعض حضرات نے اس روایت کو تدلیس التسویۃ قرار دیا ہے لیکن چونکہ محدثین کے عبارات ہم نے اوپر ذکر کی کہ بقیہ بن الولید اگر ثقہ سے تدلیس کرے تو روایت قابل قبول ہے، نیز ائمۂ محدثین نے اس روایت کو تعدد طرق کی بنا پر صحیح لغیرہ قرار دیا ہیں، لہذا مذکور روایت قابل للاحتجاج ہے۔ رہا مسئلہ ہمارے نزدیک ترتیب اور موالات وضوء میں شرط اور ضروری ہے؟ تو اس سلسلے میں کتب فقۂ حنفی سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
تنبیہ:- بعض حضرات فقہائے کرام ترتیب اور موالات پر درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں، اور اس کو اپنا مستدل بناتے ہیں، وہ روایت یہ ہے: توضأَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ مُرَتِّبًا وقال: "هذا وضوءٌ لا يقبلُ الله الصلاةَ إلا به"
ترجمہ:- ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترتیب وار وضو فرمایا، پھر ارشاد فرمایا: یہ ایک ایسا وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز کو قبول نہیں کرتا ہے۔
جیسا کہ المغنی میں ابن قدامہ الحنبلی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: وتوضأ (صلى الله عليه وسلم) مرتبا، وقال: "هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به"
(المغني لابن قدامة الحنبلي ت التركي ج01 ص190)
اسی طرح بہت سے مصنفین نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔
لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ روایت ترتیب کے ذکر کے ساتھ موضوع اور من گھڑت ہے، "لا أصل له" جیسا کہ حضرت شیخ یونس جون پور رحمۃ اللہ علیہ نے الیواقیت الغالیۃ (ج3 ص485) میں اس کی وضاحت کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: استدل الفقهاء على وجوب الترتيب بحديث ذكروه وهو أنه صلى الله عليه وسلم توضأ وضوءً، وقال: "هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به" وهذا الحديث لا أصل له، كما أفاد الحافظ ابن حجر في تخريج الرافعي، ونقل عنه الشيخ عبد الحي في العمدة. (الیواقیت الغالیۃ ج3 ص485)
ترجمہ:- چند فقہائے کرام نے وضو میں ترتیب کے وجوب پر ایک ایسی حدیث سے استدلال کیا ہے جس کو انہوں نے ذکر کیا ہے، وہ حدیث یہ ہے: کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا، پھر فرمایا: "کہ یہ ایک ایسا وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالی نماز قبول نہیں فرماتے" یہ حدیث بے اصل ہے، جیسا کہ اس کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے التلخیص الحبیر میں لکھا ہے، اور آپ کے حوالے سے شیخ عبد الحی رحمہ اللہ نے عمدۃ الرعایۃ میں نقل کیا ہے۔
بہر کیف! آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی نسبت ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی التلخیص الحبیر اور شیخ عبد الحی کی عمدۃ الرعایۃ کی طرف کی ہے، لہذا ترتیب وار ان دونوں حضرات کی عبارت ملاحظہ فرمائیں 👇
ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی کتاب التلخیص الحبیر کی عبارت
قوله: روي "أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا يتوضأ أمر الماء على مرفقيه" وقد روي "أنه أدار الماء على مرفقيه" ثم قال: "هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به" الدارقطني والبيهقي من حديث القاسم بن محمد بن عبد الله بن محمد بن عقيل عن جده عن جابر بلفظ يدير الماء على المرفق والقاسم متروك عند أبي حاتم وقال أبو زرعة منكر الحديث وكذا ضعفه أحمد وابن معين وانفرد ابن حبان بذكره في الثقات ولم يلتفت إليه في ذلك وقد صرح بضعف هذا الحديث ابن الجوزي والمنذري وابن الصلاح والنووي وغيرهم۔
(التلخيص الحبير - ط العلمية لابن حجر العسقلاني ج1 ص221)
(وقد ضعف هذا الحديث ابن الجوزي في " التحقيق" "١/٨٧" والنووي في " المجموع " "١/٣٨٥" وابن عبد الهادي في " تنقيح التحقيق" "١/٨٧" وابن دقيق العيد وابن الصلاح كما في "البدر المنير" "٣/٣٥- ٣٦" وابن الملقن في "خلاصة البدر المنير" "١/٢٧" کذا فی ھامش التلخیص للحافظ ج1 ص221)
شیخ عبد الحی رحمہ اللہ کی عمدۃ الرعایۃ کی عبارت
" وما نقلوه في كتبهم أنه توضأ مرتبا وقال: هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به، وقد صرح الحافظ ابن حجر في (تخريج أحاديث الرافعي) وغيره إنه لا أصل له".
(عمدۃ الرعایۃ علی شرح الوقایۃ ج01 ص304)
ترجمہ:- وہ روایت جس کو فقہاء نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترتیب کے ساتھ وضو کیا پھر فرمایا: "کہ یہ ایک ایسا وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز کو قبول نہیں کرتے" ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ حضرات نے صراحت کی ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
اسی طرح اکثر علماء تخریج و تحقیق نے اس کی وضاحت کی ہے، چنانچہ البانی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں: توضأَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ مُرَتِّبًا وقال: "هذا وضوءٌ لا يقبلُ اللهُ الصلاةَ إلا بهِ" لا أعلم له أصلا بذكر الترتيب فيه۔
(إرواء الغليل ص75)
البانی صاحب دوسری جگہ رقم طراز ہیں: " توضأ صلى الله عليه وسلم على الولاء ثم قال: هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به ". فقوله " على الولاء " مما لا أصل له في شيء من الطرق التي ذكرها، ولا فيما زدنا عليه من الطرق الأخرى! ومثله قول الشيخ إبراهيم بن ضويان في " منار السبيل " (١ / ٢٥) " توضأ صلى الله عليه وسلم مرتبا وقال ... "! والحديث مع أنه لم يذكر فيه الترتيب صراحة فلا يؤخذ ذلك من قوله فيه " فغسل وجهه مرة، ويديه مرة ورجليه مرة، وقال هذا.. " لما اشتهر أن الواو لمطلق الجمع فلا تفيد الترتيب، لاسيما والأحاديث الأخرى التي أشرنا إليها لم يذكر فيها أعضاء الوضوء، بل جاءت مختصرة بلفظ " توضأ مرة مرة، ثم قال: هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به ". ومن الواضح، أن الإشارة بـ (هذا) هنا إنما هو إلى الوضوء مرة مرة كما أن الإشارة بذلك في الفقرتين الأخريين إنما هو للوضوء مرتين مرتين والوضوء ثلاثا ثلاثا.
(سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها ج01 ص524)
اسی طرح محقق دبیان صاحب نے اپنی کتاب موسوعۃ احکام الطھارۃ میں لکھا ہے: ما ذكره ابن قدامة، قال: توضأ النبي - صلى الله عليه وسلم - مرتبا، وقال: هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به۔ (((المغني (١/ ٩٣))) وقول ابن قدامة: توضأ مرتبا ليست من نص الحديث، وإنما وصف من ابن قدامة لما وقع منه - صلى الله عليه وسلم -، ولفظ الحديث:توضأ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مرة مرة، وقال: هذا وضوء لا يقبل الله منه الصلاة إلا به، ثم توضأ مرتين مرتين، وقال: وهذا وضوء من يضاعف الله له الأجر مرتين مرتين، ثم توضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: هذا وضوئي ووضوء المرسلين من قبلي. وقد تفرد به المسيب بن واضح، وهو ضعيف. فأراد ابن قدامة رحمه الله أن يستنبط من قوله: «لا يقبل الله الصلاة إلا به» أي بهذا الوضوء على هذه الصفة، ولم يصح الحديث حتى يمكن أن يكون حجة، ولم يذكر لنا في هذا الحديث صفة الوضوء من كونه غسل وجهه، ثم يديه، ثم مسح برأسه، ثم غسل رجليه، ولو صح لكان هناك جواب، وهو أن يقال: إن المراد به قوله: لا يقبل الله الصلاة إلا به أي في عدد الغسلات، فمن نقص عن الغسلة الواحدة فقد نقص عن المقدار الواجب، فالحكم إنما هو موجه إلى العدد، لأنه قال: وتوضأ مرتين مرتين وتوضأ ثلاثا ثلاثا، فلم يقصد من النفي نفي صحة الوضوء مع فقد الترتيب، والله أعلم.
(موسوعة أحكام الطهارة للدبيان ج10 ص578)
نیز علامہ ابو بکر الجصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں لکھا ہے "أن النبي صلى الله عليه وسلم توضأ مرة مرة وقال هذا وضوء من لا يقبل الله له صلاة إلا به" قيل له ليس في هذا الخبر ذكر الترتيب".
(أحكام القرآن للجصاص ج02 ص454)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس روایت کو ترتیب اور موالات میں قابل حجت ماننا درست نہیں ہے، اس لیے کہ علمائے محققین نے اس کو ذکرِ ترتیب موالات کے ساتھ بے أصل قرار دیا ہیں، ہاں البتہ یہ روایت مطلقاً کتب احادیث میں موجود ہے، اگرچہ اس پر بھی علمائے محدثین نے سخت کلام کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇
روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه توضأ مرة مرة، وقال: "هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به" وتوضأ مرتين مرتين، وقال: "هذا وضوء من يضاعف له الأجر مرتين" وتوضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: "هذا وضوئي ووضوء الأنبياء من قبلي فمن زاد عن هذا أو نقص فقد تعدى وظلم" قلت: غريب بجميع هذا اللفظ، وقد رواه عن النبي صلى الله عليه وسلم من الصحابة عبد الله بن عمر. وأبي بن كعب. وزيد بن ثابت. وأبو هريرة، وليس فيه: فمن زاد على هذا أو نقص فقد تعدى وظلم ولكنه مذكور في حديث آخر، سنذكره بعد ذكر هذه الأحاديث. أما حديث عبد الله بن عمر، فله طرق، أمثلها ما رواه الدارقطني (ص30) من حديث المسيب بن واضح، ثنا حفص بن ميسرة عن عبد الله بن دينار عن ابن عمر. قال: توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم مرة مرة، وقال: "هذا وضوء لا يقبل الله صلاة إلا به" ثم توضأ مرتين مرتين، وقال: " هذا وضوء من يضاعف له الأجر مرتين" ثم توضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: "هذا وضوئي ووضوء المرسلين قبلي"، انتهى. ورواه البيهقي (ص80) في سننه وقال هو، والدارقطني (ص30): تفرد به المسيب بن واضح، وهو ضعيف، وقال في المعرفة: المسيب بن واضح غير محتج به، وقد روي هذا الحديث من أوجه كلها ضعيفة، انتهى. وقال عبد الحق في أحكامه: هذا الطريق من أحسن طرق هذا الحديث، ونقل عن ابن أبي حاتم أنه قال: المسيب صدوق لكنه يخطئ كثيرا. طريق آخر رواه ابن ماجه في سننه من حديث عبد الرحيم بن زيد العمي عن أبيه عن معاوية بن قرة عن ابن عمر، قال: توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم واحدة واحدة فقال: "هذا وضوء لا يقبل الله صلاة إلا به". ثم توضأ ثنتين ثنتين، وقال: "هذا وضوء القدر من الوضوء"، وتوضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: "هذا أسبغ الوضوء وضوئي ووضوء خليل الله إبراهيم"، مختصر. ورواه البيهقي في سننه، والطبراني في معجمه، ولفظهما قالا: دعا بماء فتوضأ مرة مرة، وقال: "هذا وضوء لا يقبل الله الصلاة إلا به" ثم دعا بماء فتوضأ مرتين مرتين، وقال: "هذا وضوء من أوتي أجره مرتين" ثم دعا بماء فتوضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: "هذا وضوئي ووضوء الأنبياء قبلي"، انتهى. قال البيهقي: هكذا رواه عبد الرحيم بن زيد العمي عن أبيه، وخالفهما غيرهما، وليسا في الرواية بقويين، انتهى. ………………… مکمل تحقیق کے لیے نصب الرایہ کا مطالعہ کریں۔
(نصب الراية للزيلعي ج1 ص27)
(04) تسمیہ یعنی وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا، اس سلسلے میں یہ روایت بطور استدلال پیش کی جاتی ہے: "لا صلاة لمن لا وضوء له، ولا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه"
اس حدیث کے سلسلے میں حضرت شیخ یونس جون پوری رحمۃ اللہ علیہ نے الیواقیت الغالیۃ میں ایک مختصر لیکن شاندار تحقیق پیش کی ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇
وأما الخير الوارد في التسمية فروي من حديث سعيد بن زيد رضى الله عنه قال قال رسول الله السلام: لا صلوة لمن لا وضوء له ، ولا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه، رواه الترمذی و ابن ماجة، و قال البخاري: وهو أحسن شيء في الباب ، وأعله ابن أبي حاتم و ابن القطان، وفي الباب عن أبي هريرة أخرجه أبو داود وابن ماجه والدارقطني والحاكم وصححه وتعقب، وأبي سعيد الخدري رضى الله عنه أخرجه ابن ماجة والحاكم وصححه ، وقال أحمد: وهو أحسن ما في الباب، وعن سهل بن سعد رواه ابن ماجة بسند ضعيف ، وأبی سیرة رواه الطبراني وطرقها وألفاظها مبسوطة في الزيلعي (۱/۳) ولا يخلو طريق عن مقال، وقد قال أحمد: لا أعلم في التسمية حديثا ثابتا وأرجو أن يجزئه الوضوء لأنه ليس فيه حديث أحكم به.
(الیواقیت الغالیۃ ج3 ص485)
کوئی مفصل تحقیق پڑھنا چاہے تو وہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ کی نصب الرایہ کی طرف رجوع کریں، بہت ہی مفصل اور محقق تحقیق پیش کی گئی ہے۔
فقط والسلام والله أعلم بالصواب وعلمہ اتم واكمل
جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری
سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند
استاذ حدیث: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا
23/جنوری/2022 بروز اتوار
No comments:
Post a Comment