Monday, 7 February 2022

دعائے جوشن کبیر کے متعلق تحقیق

 باسمہ تعالیٰ

(تحقیقات سلسلہ نمبر:- 79)

(دعائے جوشن کبیر کے متعلق مکمل تحقیق)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- درج ذیل ایک دعا ہے، اس کی تحقیق مطلوب ہے، کہ کیا اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست ہے؟ چونکہ ایک ویڈیو نظر سے گزرا جس میں اس دعا کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بحوالۂ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کی گئی ہے۔ دعا درج ذیل ہے۔ 

 " اَللّـهُمَّ اِنّي اَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ يا اَللهُ يا رَحْمنُ يا رَحيمُ يا كَريمُ يا مُقيمُ يا عَظيمُ يا قَديمُ يا عَليمُ يا حَليمُ يا حَكيمُ سُبْحانَكَ يا لا اِلـهَ إلاّ اَنْتَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ خَلِّصْنا مِنَ النّارِ يا رَبِّ .

يا سَيِّدَ السّاداتِ يا مُجيبَ الدَّعَواتِ يا رافِعَ الدَّرَجاتِ يا وَلِيَّ الْحَسَناتِ يا غافِرَ الْخَطيئاتِ يا مُعْطِيَ الْمَسْأَلاتِ يا قابِلَ التَّوْباتِ يا سامِعَ الاَْصْواتِ يا عالِمَ الْخَفِيّاتِ يا دافِعَ الْبَلِيّاتِ " .

ونص آخره :

" يا حَليماً لا يَعْجَلُ يا جَواداً لا يَبْخَلُ يا صادِقاً لا يُخْلِفُ يا وَهّاباً لا يَمَلُّ يا قاهِراً لا يُغْلَبُ يا عَظيماً لا يُوصَفُ يا عَدْلاً لا يَحيفُ يا غَنِيّاً لا يَفْتَقِرُ يا كَبيراً لا يَصْغُرُ يا حافِظاً لا يَغْفُلُ سُبْحانَكَ يا لا اِلـهَ إلاّ اَنْتَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ خَلِّصْنا مِنَ النّارِ يا رَبِّ " .

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- اوّلاً یہ بات واضح کردوں کہ ان الفاظِ دعا کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے، اور یہ سمجھنا کہ یہ دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، یہ کذب فی الروایۃ کو مستلزم ہے، جس کے متعلق صحیح احادیث مبارکہ میں وعید مروی اور ثابت ہے، لہذا نسبت الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پرہیز کرنا چاہیے، چونکہ تلاش بسیار کے بعد بھی یہ الفاظ کتب احادیث معتمدہ میں نہیں ملے، نہ صحاح میں اور نہ ضعفاء میں، حتیٰ کہ وہ کتب جو موضوعات اور من گھڑت روایات بیان کرنے کے لئے ترتیب دیں گئی ہیں ان میں بھی نہیں ملے، ہاں البتہ کتب اہل تشیع میں اس کو دعائے جوشن کبیر سے موسوم کیا گیا ہے، اور اس روایت کی نسبت بحوالۂ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کتب أہل تشیع غیر معتبر اور من گھڑت روایات کا مجموعہ ہیں، لہذا محض ان کا اعتبار کرنا اور اس روایت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ 

کتب أہل تشیع کے متعلق ہماری درج ذیل لنک سے استفادہ کریں 👇👇👇 

https://mohassantajpuri.blogspot.com/2020/02/blog-post_25.html?m=1


جوشن کبیر کیا ہے؟ تو اس سلسلے میں أہل تشیع درج ذیل حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے میں تشریف فرما تھے، اور آپ پر ایک بھاری بھرکم زرع تھی، تو حضرت جبرائیل علیہ السلام اترے اور فرمایا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام عرض کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس زرع کو اپنے بدن سے اتار دیجئے، اور اس کے بدلے یہ دعا پڑھے، پس وہ آپ کے لئے اور آپ کی امت کے لئے حفظ و امان کا سبب بنے گی، نیز اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ جس شخص کا انتقال ہو اور اس کے کفن پر اس دعا کو لکھ دیا جائے تو اللہ تعالی اس کو عذاب دینے سے شرماتا ہے، اور جو شخص اس دعا کو رمضان کے پہلے دن اچھی نیت کے ساتھ پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو لیلۃ القدر نصیب فرماتے ہیں، اور اس کے لیے ستر ہزار فرشتے پیدا کرتے ہیں، جو اللہ کی تسبیح اور تقدیس بیان کرتے رہتے ہیں،  اور اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کے اجر کو اس دعا کے پڑھنے والے کے حق میں لکھ دیتے ہیں، نیز ان کا فاسد عقیدہ یہ بھی ہے کہ جو شخص اس کو رمضان میں تین مرتبہ پڑھ لے، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دیتے ہیں، اور جنت واجب کر دیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ اس دعا کی برکت سے دو فرشتوں کو وکیل بناتے ہیں جو اس پڑھنے والے کی معاصی سے حفاظت کرتے ہیں، اور وہ پڑھنے والا ہمیشہ پوری زندگی اللہ تعالی کی امان میں رہتا ہے۔

اس حدیث کے آخر میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میرے والد محترم حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس دعا کو یاد کرانے کی وصیت کرتے اور اس کی عظم بیانی کرتے، نیز جب ان کا انتقال ہو رہا تھا تو انہوں نے اپنے کفن پر اس دعا کے لکھنے کا حکم دیا تھا۔

نوٹ:- قال الشيخ الكفعمي: وهو مئة فصل كل فصل عشرة أسماء، وتقول في آخر كل فصل منها: «سُبْحانَكَ يَا لا اِلـهَ إلاّ اَنْتَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ خَلِّصْنا مِنَ النّارِ يَا رَبِّ». وقال أيضاً: ابتدأ كلّ فصل بالبسملة واختمه بقول : «سُبْحانَكَ يَا لا اِلـهَ إلاّ اَنْتَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَآلِهِ خَلِّصْنا مِنَ النّارِ يَا رَبِّ يَا ذَا الْجَلالِ وَالاِْكْرامِ يَا أرْحَمَ الرّاحِمينَ».

اس دعا میں کل سو فقرے ہیں، اور ہر فقرے میں اللہ تعالیٰ کے دس نام مذکور ہے، اور ہر فقرے میں آخر میں یہ دعا ہے: «سُبْحانَكَ يَا لا اِلـهَ إلاّ اَنْتَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ خَلِّصْنا مِنَ النّارِ يَا رَبِّ»۔

نص الحدیث فی کتب الشیعة: عَنِ السّجاد عن أبيه عَنْ جدّه عن النبيّ صلّى الله علَيهِ – ويزعمون أنه " قد هبط به جبريل على النبيّ صلى الله عليه وآله وسلم وهُو في بعْضِ غزواته وَعَلَيْهِ جَوشن – أي : درع - ثقيل ، فقال : يا محمّد ، ربّك يقرئك السّلام ويقوُل لكَ : اخلع هذا الجوشَنْ ، واقرأ هذا الدّعاء ؛ فهو أمان لكَ ، ولأمّتك " .

وزعموا : أنه " مَنْ كتبه على كفنه : استحى الله أن يُعذّبه بالنّار ، ومَنْ دعا به بنيّة خالِصة في أوّل شهر رَمضان : رزقه الله تعالى ليلة القدر ، وَخلق له سَبعين ألف ملك يسبّحون الله ، وَيُقدّسونه ، وَجَعَلَ ثوابهم له ، وَمَن دعا به في شهر رمضان ثلاث مرّات : حرّم الله تعالى جَسده على النّار ، وأوجب له الجَنّة ، ووكّل الله تعالى به مَلَكين يحفظانه مِن المعاصي ، وَكانَ في أمان الله طول حَياته " .

وزعموا في آخر المطاف : " أنه قال الحُسين عليه السلام : أوصاني أبي عليّ بن أبي طالب عليه السلام بحفظ هذا الدّعاء ، وتعظيمه ، وأن أكتبه على كفنه ، وأن أعلّمه أهلي ، وأحثّهم عليه ، وهُو ألف اسْم ، وفيه الاسم الأعظم " .

(نقله الشيخ الكفعمي عن علي بن الحسين ، عن أبيه، عن علي بن ابي طالب عن النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) في كتابه «المصباح» ص 247 الفصل 28، والبلد الأمين ص 346، ونقله عنه العلامة المجلسي، بحار الأنوار: ج 78 ص 331 ، وج 91 ص 387)

خلاصۂ کلام:- سوال مذکور میں ذکر کردہ دعا کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے، چونکہ یہ دعا کتب احادیث معتمدہ میں نہیں ہے، ہاں البتہ کتب اہل تشیع میں مروی ہے، لیکن وہ کتابیں غیر معتبر ہیں لہذا ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

ھذا ما ظهر لي والله أعلم بالصواب وعلمہ اتم واكمل

جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

خادم التدریس:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا شمالی گجرات

07/فروری/2022 بروز پیر