Thursday, 26 March 2020

حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے والد کے نام کی تحقیق

تحقیقات سلسلہ نمبر 20
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا یا تارح؟ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں جواب مطلوب ہے؟
فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔۔۔
سائل: صدام جھالاواڈ (راجستھان)
متعلم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات 
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جواب۔ مذکور سوال کے سلسلے میں تین باتوں کا جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(١) "حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارح تھا" اس کے قائلین کون؟ اور ان کے دلائل؟
(٢) "حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا" اس کے قائلین کون؟اور ان کے دلائل؟
(٣) ان دو اقوام میں کا راجح قول کیا ہے؟ اور مخالفین کے دلائل کا جواب؟
تفصیل الجواب (١)  "حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارح تھا" اس کے قائلین کون؟ اور ان کے دلائل؟
أہل انساب،مؤرخین اور أہل کتاب ( یہود ونصاریٰ) کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارح ( بالحاء المهملة) یا تارخ (بالخاء المعجمة) تھا، اور جو قرآن مجید میں آزر کا نام مذکور ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا ہے، چنانچہ امام زجاج لکھتے ہیں: " لا خلاف بين النسابين في أن اسم أبي إبراهيم تارح " 
 (معاني القرآن واعرابه 2/265)
ترجمہ۔ أہل انساب کے مابین اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارح تھا۔
اور ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں رقم طراز ہے
" جمهور أهل النسب - منهم ابن عباس - على أن اسم أبيه تارح ، وأهل الكتاب يقولون تارخ "
(البداية والنهاية 1/163 )
ترجمہ۔ جمہور أہل انساب -جن میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی ہے- کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارح تھا،اور أہل کتاب کہتے ہیں: تارخ تھا۔
’’انسائیکلو پیڈیا آف اسلام‘‘ کا ایک مقالہ نگار لفظِ ’’آزر‘‘ کے تحت میں لکھتا ہے: ’’قرآن میں ابراہیم ؑ کے باپ کا نام ’’آزر‘‘ آیا ہے، مگر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درست نہیں، کیونکہ ابراہیم ؑکے باپ کا نام آزر سوائے قرآن کے اور کہیں نہیں پایا جاتا، اس کے برعکس تارح یا تارخ خود مسلمان مفسرین ومورخین کی روایات میں بھی موجود ہے۔ اسی لیے علماء اسلام قرآن اور تورات کے بیان میں موافقت پیدا کرنے کے لیے ایسی ایسی کمزور تاویلات کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں۔‘‘
اور اسی طرح مشہور امامِ تفسیر حضرت مجاہدؒ کہتے ہیں: ’’آزر لم یکن بأبیہ ولکنہٗ اسمُ صنم۔‘‘
ترجمہ۔ ’’آزر ابراہیم ؑکے باپ نہ تھے، بلکہ یہ بت کا نام ہے۔‘‘
حضرت سدّیؒ فرماتے ہیں: ’’اسم أبیہ التارح واسم الصنم آزر‘‘ 
۔ ترجمہ:’’ابراہیم ؑکے باپ کا نام تارح تھا اور بت کا آزر۔‘‘ وغیرہ مفسرین کے اقوال
اور ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تورات نے تارح یا تارخ بتایا ہے۔
تفصیل الجواب (٢) "حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا آزر تھا" اس کے قائلین کون؟اور ان کے دلائل؟
اکثر علماء کی رائ یہ ہے کہ جو آزر قرآن مجید میں ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ہی ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا یا کوئی اور نہیں ہے۔
( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ )
(سورۃ الأنعام پارہ7 آیت 74)
(١) جامع البیان میں ابن جریر طبری (متوفی 310) اس آیت کے تحت ایک روایت بیان کرتے ہیں
حدثني محمد بن الحسين،قال: ثنا أحمد بن المفضل،قال:حدثنا اسماط،عن السدي (وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ) قال: إسم أبيه آزر.
ترجمہ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں ( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ) اس آیت میں آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ہے۔
(جامع البیان ج5 ص282)
(٢) علاؤ الدین علی بن ابراہیم المعروف بالخازن (متوفی 741) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں
والصحيح أن آزر إسم لأبي إبراهيم لأن الله تعالى سماه به. (تفسیر خازن ج2 ص 28)
ترجمہ۔ درست بات یہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا،اسی لئے اللہ نے اسی نام سے قرآن مجید میں ان کو موسوم کیا ہے۔
(٣) محمد بن یوسف الشہیر بابی حیان اندلسی (متوفی745) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں
والظاهر أن آزر إسم أبيه،قاله إبن عباس والحسن والسدي وابن إسحاق وغيرهم.
البحر المحيط للاندلسي ج 4 ص168)
ترجمہ۔ ظاہریہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا، یہی ابن عباس امامِ حسن حضرت سدی اور ابن اسحاق وغیرہم کا موقف ہے۔
(٤) فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں
ظاهر هذه الآية يدل على إسم والد إبراهيم هو آزر
( التفسير الكبير للرازي ج ,13 ص 37)
ترجمہ۔ اس آیت کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا۔
(٥) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح بخاری میں ایک روایت لائے ہیں
حدثنا إسماعيل بن عبد الله،قال: أخبرني أخي عبد الحميد،عن إبن أبي ذئب،عن سعيد المقبوري،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِي صلى الله عليه وسلم قَالَ : ( يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ ، فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ : أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لاَ تَعْصِنِي ؟ فَيَقُولُ أَبُوهُ : فَالْيَوْمَ لاَ أَعْصِيكَ . فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ : يَا رَبِّ ، إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لاَ تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ ، فَأَي خِزْىٍ أَخْزَى مِنْ أَبِي الأَبْعَدِ ؟! فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى : إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ ، ثُمَّ يُقَالُ : يَا إِبْرَاهِيمُ مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ ؟ فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِذِيخٍ مُلْتَطِخٍ ، فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ )
( صحيح البخاري رقم الحدیث:3350 کتاب الأنبياء ،شرح السنة :15/119 ، النسائي الكبرى :11375 ، کتاب التفسير )
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملاقات قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ہوگی ، آزر کا چہرہ پراگندہ اور سیاہ ہوگا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ان سے مخاطب ہوکر فرمائیں گے ، کیا ہم نے آپ سے یہ [بار بار]نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کریں ؟ ان کا باپ بولے گا آج میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا ، لہذا ابراہیم علیہ السلام بارگاہ الہی میں دعا گو ہوں گے ، اے میرے رب آپ نے مجھے وعدہ دیا تھا کہ قیامت کے دن مجھے رسوا نہ کریں گے ، مگر اس سے زیادہ رسوائی اور کیا ہوگی کہ میرا بدنصیب باپ [تیری رحمت سے دور ہے ] جواب میں اللہ تعالی فرمائے گا کہ میں نے کافروں پر جنت کو حرام کردیا ہے ، پھر کہا جائے گا : اے ابراہیم اپنے قدموں کے نیچے دیکھو کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام دیکھیں گے کہ ایک بجو گندگی میں لتھڑا ہوا پڑا ہے ، تب فرشتے ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں اس کو پھینک دیں گے ۔

وجاء في " فتاوى اللجنة الدائمة " (4/216-217) 
" آزر هو أبو إبراهيم ، لقوله تعالى : ( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً )، وهذا نص قطعي صريح لا يحتاج إلى اجتهاد ، ورجح ذلك الإمام ابن جرير وابن كثير " انتهى.
ترجمہ۔ فتاویٰ الجنۃ الدائمۃ میں مذکور ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا قرآن کی آیت کی وجہ سے ( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ) اور یہی صریح اور قطعی دلیل ہے  جو کسی اجتہاد کی محتاج نہیں ہے، اور اسی کو ابن جریر طبری اور ابن کثیر نے راجح قرار دیا ہیں۔
تفصیل الجواب (٣)  ان دو اقوام میں کا راجح قول کیا ہے؟ اور مخالفین کے دلائل کا جواب؟
مذکورہ تمام دلائل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا جس کو قرآن نے صراحۃ ذکر کیا ہے، تارح یا تارخ آپ کے والد کا نام نہیں تھا، اور اسی قول کو علماء نے راجح قرار دیا ہیں چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی آزر کے متعلق مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ہمارے نزدیک یہ تمام تکلفات باردہ ہیں؛ اس لیے کہ قرآن عزیز نے جب صراحت کے ساتھ آزر کو اب ابراہیم (ابراہیم علیہ السلام کا باپ) کہا ہے تو پھر علمائے انساب اور بائبل کے تخمینی قیاسات سے متاثر ہوکر قرآن عزیز کی یقینی تعبیر کو مجاز کہنے یا اس سے بھی آگے بڑھ کر خواہ مخواہ قرآن عزیز میں نحوی مقدرات ماننے پر کونسی شرعی اور حقیقی ضرورت مجبور کرتی ہے الخ پس بلا شبہ تاریخ کا تارخ (جو سب کے نزدیک بلا شبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ہے) آزر ہی ہے اور علم اسمی ہے(قصص القرآن، ۱: ۱۲۰، ۱۲۱)۔
پس صحیح یہ ہے کہ قرآن میں جس کو آزر کہا گیا ہے، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ہی ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا یا کوئی اور نہیں ہیں۔ اور یہ دعوی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء میں کوئی کافر نہیں گذرا، دلائل کی روشنی میں محل نظر ہے واللہ اعلم بالصواب (تفصیل کے لیے قسطلانی کی مواہب اور زرقانی کی شر ح مواہب ١: ۳۲۶- ۳۵۲، مطبوعہ: دار الکتب العلمیة بیروت ملاحظہ کی جائے )۔ اطناب کی وجہ سے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
مکمل تحقیق کے لیے ہمارے اس واٹساپ نمبر پر رابطہ کریں۔
9428359610
فقط والسلام
جمعه ورتبه:ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ
27/مارچ 2020 بروز جمعہ

18 comments:

  1. ما شاء اللہ
    آپ کا اطناب بھی ایجاز ہے
    اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین

    ReplyDelete
  2. ما شاء اللہ تعالیٰ
    اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین

    ReplyDelete
  3. مولانا بہت اچھا ہے
    اللہ تعالیٰ قبول کریں

    ReplyDelete
  4. پسندیدہ تحقیق ہے

    ReplyDelete
  5. اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین

    ReplyDelete
  6. ماشاء اللہ
    اللہ تعالی دارین میں بہترین بدلہ دے

    ReplyDelete
  7. بہت شاندار کارکردگی

    ReplyDelete
  8. اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین

    ReplyDelete
  9. اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین ثم آمین

    ReplyDelete
  10. تحقیق پسند آئی

    ReplyDelete
  11. آپ کی محنتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین

    ReplyDelete