(کھجوریں گھر میں رکھنے کے متعلق تحقیق)
باسمہ تعالی
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
(کھجور کو گھر میں رکھنے کے متعلق تحقیق)
سوال۔ بنی کھجوریں گھر میں رکھنے کے متعلق اگر کوئی حدیث ہے تو باحوالہ ارسال کریں؟ اور اس کی کیا حقیقت ہے؟ مکمل اور مدلل جواب دے کر عنداللہ ماجور ہو۔
سائل: مولانا اسلم کبڑا بناسکانٹھا
مدرس: جامعہ گولا طالع پورہ بناسکانٹھا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب۔ اولا یہ بات جان لینی چاہیے کہ بنی، یہ صحیح لفظ نہیں ہے،بلکہ برنی ہے۔ ( باء اور نون کے درمیان راء کے ساتھ)
ثانیاً برنی کھجور کو گھر میں رکھنے کے متعلق احادیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، البتہ مطلق کھجور کو گھر میں رکھنے کی فضیلت احادیث میں آئی ہے ، اور ان میں کوئی خاص کھجور کا ذکر نہیں ہے، چنانچہ مسلم شریف میں روایت ہے،
عن عائشة أم المؤمنين قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا عائِشَةُ، بَيْتٌ لا تَمْرَ فيه جِياعٌ أهْلُهُ، يا عائِشَةُ، بَيْتٌ لا تَمْرَ فيه جِياعٌ أهْلُهُ، أوْ جاعَ أهْلُهُ قالَها مَرَّتَيْنِ، أوْ ثَلاثًا
(صحیح مسلم رقم الحدیث 2046)
ترجمہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اےعائشہ وہ گھر جس میں کھجور نہیں ہوتی وہ گھر والے بھوکے ہیں،اور آپ نے یہ دو یا تین مرتبہ فرمایا۔
اور ابوداؤد شریف میں ہے:- عن عائشة أم المؤمنين قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بَيْتٌ لا تَمْرَ فيه جِياعٌ أهْلُهُ۔ (رواه ابو داود الرقم الحديث 3831) وابو داود سكت عنه وكل ما سكت عنه فهو صالح .
اور انہی الفاظ کے ساتھ صحیح ابن حبان میں ہے (صحیح ابن حبان رقم الحدیث 5206)
اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی الفاظ کے ساتھ اپنی معجم میں ذکر کی ہے( المعجم الاوسط للطبرانی ج 8ص83)
اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور اس کو علامہ ناصر الدین البانی نے صحیح قرار دیا ہے( صحیح ابن ماجہ رقم الحدیث 2704)
اسی طرح دیگر محدثین نے اپنی کتب میں اس کو ذکر کیا ہے
اور اس طرح کی ایک روایت مسلم شریف میں ہے:-عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يجوع أهل بيت عندهم التمر (رواه مسلم )
ترجمہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ گھر والے بھوکے نہیں رہتے جن کے پاس کھجور ہو۔
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مطلق کھجور کو گھر میں رکھنے کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، کوئی خاص کھجور کا ذکر نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ نظام خانہ داری میں یہ بات شامل ہے کہ گھر میں کوئی معمولی چیز جو بازار میں سستی ملتی ہو ہونی چاہیے،جیسے مدینہ میں کھجوریں اور ہمارے دیار میں گاجریں اور نمکین وغیرہ تاکہ اگر نا وقت کسی کو بھوک لگے اور گھر میں کھانا ہو تو ٹھیک ہے، ورنہ گھر میں اس موجود چیز سے ضرورت پوری کرلی جائے گی، اور اگر لوگ اس بات کا اہتمام نہیں کریں گے تو کسی بھی وقت بھوک ان کو ستائے گی، اس کی نظیر لاون ہے، سرکہ اچار وغیرہ کچھ نہ کچھ گھر میں ہونا چاہیے تاکہ بوقت ضرورت اسے کام چلایا جا سکے۔
(رحمۃ اللہ الواسعۃ ج 5ص484)
تالثاً برنی کھجور کی فضیلت بھی احادیث میں آئی ہے ،جس کی تخریج مع الحکم ذیل میں مذکور ہے:-
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خير تمراتكم البرني يخرج الداء ولا داء فيه "
رواه الهيثمي في مجمع الزوائد. حكم الحديث ضعيف. لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی کتاب صحیح الجامع میں حسن قرار دیا ہے۔
ترجمہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری کھجوروں میں سب سے بہتر کھجور برنی ہے ،جو بیماری کو ختم کرتی ہے، اور اس میں کوئی بیماری نہیں ہے۔۔ اسی طرح برنی کھجور کے سلسلے میں ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے:-
وعن أنس بن مالك رضي الله عنه أن وفد عبد القيس من أهل هجر قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فبينما هم قعود عنده إذ أقبل عليهم فقال لهم تمرة تدعونها كذا وتمرة تدعونها كذا حتى عد ألوان تمراتهم أجمع فقال له رجل من القوم بأبي أنت وأمي يا رسول الله لو كنت ولدت في جوف هجر ما كنت بأعلم منك الساعة أشهد إنك رسول الله فقال : " إن أرضكم رفعت لي منذ قعدتم إلي فنظرت من أدناها إلى أقصاها فخير تمراتكم البرني يذهب الداء ولا داء فيه " )أخرجه الحاكم في المستدرك رقم ( 7450 – 4751 ) 4/ص226) وقال : هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ،
والعقيلي في الضعفاء من حديث أنس بن مالك رقم ( 1208 ) 3 / 206 ،
والبيهقي في شعب الإيمان من حديث بريدة رقم ( 5876 ) 5 / 86 ،
والطبراني في الأوسط من حديث أنس بن مالك رقم ( 6092 ) 6 / 165، ومن حديث أبي سعيد رقم ( 7406 ) 7 / 274 ،
والبخاري في التاريخ الكبير من حديث بريدة رقم ( 335 ) 5 / 112، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني من حديث مزيدة رقم ( 1690 ) 3 / 314 ،
وأخرجه أحمد من حديث شهاب بن عباد بلفظ : أتسمون هذا البرني قلنا نعم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " أما أنه خير تمركم وأنفعه لكم " . مسند أحمد رقم ( 15597 ) 3 / 432، ورقم ( 17865 ) 4 / 206 ،
وأبو يعلى من حديثه رقم ( 6850 ) 12 / 245 ،
وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد 8 / 178 وقال : رواه أحمد ورجاله ثقات ، وفي مجمع الزوائد 5 / 40 وقال : عن حديث أنس بن مالك رواه الطبراني في الأوسط وفيه عبيد بن وافد القيسي وهو ضعيف ، وعن حديث أبي سعيد الخدري رواه الطبراني في الأوسط وفيه سعيد بن سويد وهو ضعيف ،
وصححه الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة رقم ( 1844 ) 4 / 459 ، وحسنه في صحيح الجامع رقم ( 3303 ) .
اس حدیث کو بعض محدثین نے ضعیف اور بعض نے منکر قرار دیا ہیں، جن میں حافظ ذہبی اور ابن جوزی وغیرہ ہیں ، البتہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحة میں کثرت طرق کی وجہ سے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، اور راقم محمد حسان کی ناقص رائے بھی علامہ البانی کے قول کی تائید کرتی ہے، اس لیے کہ بعض حضرات ضعیف روایات کو کثرت طرق کی وجہ سے صحیح قرار دیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل۔
فقط والسلام
✍️ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا
واٹساپ نمبر۔ 9428359610
27 / فروری 2020 بروز جمعرات
16 Comments:
Mashallah
MASHA ALLAH
اللہ تعالیٰ آپ محترم سے دین کا خوب کام لے۔آمین
Nice
Nice
ماشاء اللہ
بہت خوب
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں
Allah kabul kare amin
Mashaallah
تحقیق اچھی ہے
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے
تو ہمیں گھر میں ناشتہ رکھنا چاہیے
Mashaallah
👍👍👍👍👍👍
سرس
Good 👍👌 good 👍👌 good 👍
آپ کی محنتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
اللہ تعالیٰ آپ کی تمام تر دینی کاوشوں کو قبول فرمائے اور ذخیرہ آخرت بنائے آمین
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home