قراءت متواترہ اور قراءت شاذہ کے متعلق تحقیق
تحقیقات سلسلہ نمبر22
باسمہ الرزاق
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال۔ "عن أنس رضي الله عنه قال: قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم"لقد جاءكم رسول من أنفسكم" بفتح الفاء، وقال أنا أنفسكم نسبا وصهرا وحسبا، ليس في آبائي من لدن آدم سفاح، كلنا نكاح" اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "لقد جاءكم رسول من أنفسكم" میں انفسکم کے فاء پر فتحہ پڑھا، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور اگر کوئی شخص اس کو نماز میں تلاوت کرلے تو کیا نماز فاسد ہو جائے گی؟ یا فاسد نہیں ہوگی؟ مدلل ومحقق جواب مطلوب ہے؟
فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔۔
سائل: طلحہ کبڑا
متعلم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا گجرات الھند
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جواب۔ مذکور سوال کے سلسلے میں پانچ باتوں کا جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(١) انفسکم کے فاء پر فتحہ اور ضمہ کی قراءت کس کس کے نزدیک ہے۔
(٢) بالا سوال میں جو روایت مذکور ہے اس کی تحقیق و تخریج۔
(٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتحہ پڑھنا یہ کونسی قراءت ہے؟ سبعہ،عشرہ یا شاذہ۔
(٤) نماز میں قرأت سبعہ،عشرہ اور شاذہ کی تلاوت کا حکم۔
(٥) "انفُسكم" بضم الفاء کے بجاۓ "انفَسكم" بفتح الفاء پڑھنے کی وجہ کیا؟ یعنی معنی کا فرق۔
تفصیل الجواب (١) انفسکم کے فاء پر فتحہ اور ضمہ کی قراءت کس کس کے نزدیک ہے۔
اس سلسلے میں جمہور نے "انفسکم" میں ضمہ پڑھا ہیں، اور حضرت ابنِ عباس رض اور ابو العالیہ وغیرہ نے فتحہ پڑھا ہیں، چنانچہ ابن جوزی نے اپنی تفسیر زاد المسیر میں لکھا ہے
قَوْلُهُ تَعالى: ﴿لَقَدْ جاءَكم رَسُولٌ مِن أنْفُسِكُمْ﴾ قَرَأ الجُمْهُورُ بِضَمِّ الفاءِ. وقَرَأ ابْنُ عَبّاسٍ، وأبُو العالِيَةِ، والضَّحّاكُ، وابْنُ مُحَيْصِنٍ، ومَحْبُوبٌ عَنْ أبِي عَمْرٍو: بِفَتْحِها.
اور روح المعانی میں علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں
وقَرَأ ابْنُ عَبّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعالى عَنْهُما وابْنُ مُحَيْصِنٍ والزُّهْرِيُّ (أنْفَسِكُمْ) أفْعَلُ تَفْضِيلٍ مِنَ النَّفاسَةِ والمُرادُ الشَّرَفُ فَهو صَلّى اللَّهُ تَعالى عَلَيْهِ وسَلَّمَ مِن أشْرَفِ العَرَبِ۔
اور ابن عطیۃ اپنی تفسیر (المحرر الوجیز) میں اسی آیت کے تحت لکھتے
قَرَأ عَبْدُ اللهِ بْنُ قُسَيْطٍ المَكِّيُّ: "مِن أنْفَسِكُمْ" بِفَتْحِ الفاءِ مِنَ النَفاسَةِ، ورُوِيَتْ عَنِ النَبِيِّ ﷺ وعن فاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ عنها، وذَكَرَ أبُو عَمْرٍو أنَّ ابْنَ عَبّاسٍ رَضِيَ اللهُ عنهُما رَواها عَنِ النَبِيِّ ﷺ.
تفصیل الجواب (٢) بالا سوال میں جو روایت مذکور ہے اس کی تحقیق و تخریج۔
حدیث:- "عن أنس رضي الله عنه قال: قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم"لقد جاءكم رسول من أنفسكم" بفتح الفاء، وقال أنا أنفسكم نسبا وصهرا وحسبا، ليس في آبائي من لدن آدم سفاح، كلنا نكاح" (رواه ابن مَردُويه)
ترجمہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا "لقد جاءكم رسول من أنفسكم" میں فاء کے فتحہ کے ساتھ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں باعتبارِ حسب ونسب تم میں افضل اور بہتر ہوں، میرے آباء و اجداد میں حضرت آدم سے لے کر اب تک کہیں زنا نہیں، سب نکاح ہے۔
* اس حدیث کو علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الدر المنثور میں ابن مردویہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے، لکین الفاظ میں کچھ فرق ہے،
وأخْرَجَ ابْنُ مَرْدُويَهْ عَنْ أنَسٍ قالَ: «قَرَأ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ﴿لَقَدْ جاءَكم رَسُولٌ مِن أنْفُسِكُمْ﴾ فَقالَ عَلِيُّ بْنُ أبِي طالِبٍ: يا رَسُولَ اللَّهِ ما مَعْنى: ”أنْفَسِكُمْ“ فَقالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: أنا أنْفَسُكم نَسَبًا وصِهْرًا وحَسَبًا لَيْسَ فِيَّ ولا في آبائِي مِن لَدُنْ آدَمَ سِفاحٌ كُلُّنا نِكاحٌ»
(الدر المنثور للسيوطي ج 3 ص 294)
حكم الحديث: اس کے سلسلے میں ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (النشر فی القراءت العشر) میں قراءت کے چھ انواع بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ( أن أنواع القراءات ستة الأول المتواتر……... الثاني المشهور……... النوع الثالث الصحيح وهو ما صح سنده وخالف الرسم أو العربية, أو لم يشتهر الاشتهار المذكور, و هذا النوع لا يقرأ به ولا يجب اعتقاده من ذلك ما أخرجه الحاكم من طريق عاصم الجحدري عن أبي بكرة أن النبي قرأ: (متكئين على رفارف خضر وعبقري حسان)
ومنه قراءة (لقد جاءكم رسول من أنفسكم) بفتح الفاء. الرابع الشاذ……..الخامس الموضوع………) ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ کی اس تیسری قسم سے معلوم ہو گیا کہ یہ قرأت صحیح ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
تفصیل الجواب(٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتحہ پڑھنا، کیا یہ قرأت سبعہ،عشرہ یا شاذہ میں سے ہے؟
مذکور سوال میں حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "أنفسكم" میں فتحہ پڑھا ہے، لکین اس قراءت کا تعلق قراءت متواترہ سے نہیں ہے، بلکہ قراءت شاذہ سے ہے، جیسے کہ اس کی وضاحت علامہ سمرقندی (متوفی ٣٧٣ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر بحر العلوم میں اس آیت کے تحت کی ہے،
قرأ بعضهم مِنْ أَنْفُسِكُمْ بنصب الفاء يعني: من أشرفكم وأعزكم، وهي قراءة شاذة.
(بحر العلوم للسمرقندي)
ترجمہ۔ وهي قراءة شاذة یہ قراءت شاذہ میں سے ہے۔
ارو اسی طرح علامہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے
﴿لقد جَاءَكُم رَسُول من أَنفسكُم﴾ قرىء فِي الشاذ: من أَنفَسكُم، وَيُقَال: إِن هَذِه الْقِرَاءَة قِرَاءَة فاطمه - رَضِي الله عَنْهَا - قَالَ يَعْقُوب الْحَضْرَمِيّ: طلبت هَذَا الْحَرْف خمسين سنة فَلم أجد لَهُ رَاوِيا. وَمعنى هَذَا: أشرفكم وأفضلكم.وَالْقِرَاءَة الْمَعْرُوفَة: ﴿من أَنفُسكُم﴾
(تفسیر القرآن للسمعانی)
تفصیل الجواب (٤) نماز میں قرأت سبعہ،عشرہ اور شاذہ کی تلاوت کا حکم۔
علماء نے عموماً قراء ت کی دو مشہور قسمیں ذکر کی ہیں: (۱) قراء اتِ متواترہ (۲) قراء اتِ شاذہ
قراء اتِ متواترہ سے مراد وہ صحیح اور مقبول قراء ات مراد لی جاتی ہیں جو نبی کریم ﷺ سے بطریق ِتواتر مروی ہوں اور عربی قواعد ورسم عثمانی کے موافق ہوں۔ صرف انہی کی تلاوت جائز ہے۔ موجودہ قرآن انہی پر مشتمل ہے۔
قراء اتِ شاذہ سے مراد ضعیف سند والی قراء ات ہیں یا پھر وہ قراء ات جو عربی قواعد اور رسم عثمانی کے موافق نہ ہوں۔(شاذہ کی مختلف اقسام ہیں، قراء سے رجوع کیا جاسکتا ہے)
اب نماز میں قرأت کے تعلق سے یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ جن قراءات کا تعلق متواترہ سے ہیں ان کو نماز میں اور خارج نماز میں تلاوت کرنا درست اور صحیح ہے، اور جن کا تعلق قرآءت شاذہ سے ہیں ان کی تلاوت نہ تو نماز میں درست ہے اور نہ خارج نماز میں، چنانچہ البدور الزاھرۃ میں ہے
وعلى هذا، فكل قراءة وراء العشر لا يحكم بقرآنيته، بل قراءة شاذة، لا تجوز القراءة بها لا في الصلاة ولا خارجها، قال الشيخ محي الدين النووي: لا تجوز القراءة في الصلاة ولا في غيرها بالقراءات الشاذة وليست قرآنا، لان القران لا يثبت الا بالتواتر،واما الشاذة فليست متواترة…….(البدور الزاهرة ص 407)
ترجمہ۔ اس پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہر وہ قراءت جو عشرہ کے علاوہ ہے وہ قرآن نہیں ہے، بل کہ وہ قرآءت شاذہ میں سے ہیں، اور قرآءت شاذہ کی تلاوت نہ تو نماز میں جائز ہے اور نہ خارج نماز میں، علامہ محی الدین النووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: قراءت شاذہ کی تلاوت نہ تو نماز میں درست ہے اور نہ غیر نماز میں، اس لیے کہ وہ قرآن نہیں، اس لئے کہ قرآن صرف تواتر سے ثابت ہے،اور شاذہ یہ متواتر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہٰذا سب علمائے اُمت کا اتفاق ہے کہ قراء ت شاذہ قرآن نہیں۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ:’’ اس بات پراجماع ہے کہ قراء ات شاذہ کی تلاوت اورانہیں مصحف میں لکھنا جائز نہیں۔‘‘ (المحلی:۴؍۲۵۵)
علامہ ابن عبد البررحمہ اللہ :’’ قراء ت شاذہ نماز میں پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے۔‘‘ (التمہید :۸؍۲۹۳) وغیرہ اقوال کتبِ قراءت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ثانیاً یہ بات جاننا ضروری ہے کہ قراءت سبعہ بالاجماع متواتر ہیں، لکین قراءات ثلاثہ (ماسوی السبعۃ) میں علماء کا اختلاف منقول ہیں، لکین صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ وہ بھی سبعہ کی طرح متواتر ہیں۔ چنانچہ جمع الجوامع کی شرح منع الموانع میں قاضی القضاۃ امام سبکی کہتے ہیں: عشرہ کے علاوہ باقی تمام قرأتیں شاذہ ہیں،ابو جعفر یعقوب خلف رحمۃ اللہ علیہ کا تین قراءتوں کا شاذ کہنا حد سے گراہوا قول ہے۔۔۔۔
مکمل تفصیل کے لیے البدور الزاھرۃ ص 407،النشر 38,39 اور عنایات رحمانی ج 1 ص55 کا مطالعہ کیا جاسکتاہے)
تفصیل الجواب (٥) "انفُسكم" بضم الفاء کے بجاۓ "انفَسكم" بفتح الفاء پڑھنے کی وجہ کیا؟ یعنی معنی کا فرق۔
اس سلسلے میں انوار التنزیل قاضی بیضاوی کی عبارت پیش کرتاہوں فقط،
﴿لَقَدْ جاءَكم رَسُولٌ مِن أنْفُسِكُمْ﴾ مِن جِنْسِكم عَرَبِيٌّ مِثْلُكم. وقُرِئَ « مِن أنْفَسِكم» أيْ مِن أشْرَفِكم.
خلاصۂ کلام۔۔ "انفسکم" میں فاء کا ضمہ قراءت متواترہ میں سے ہے،جس کی تلاوت درست اور صحیح ہے، اور فاء کا فتحہ قراءت شاذہ میں سے ہے،اور جس روایت سے یہ ثابت ہے گرچہ صحیح ہے لیکن متواتر نہ ہو نے کی وجہ شاذ ہے، جس کی تلاوت درست اور صحیح نہیں ہے نہ تو نماز میں اور نہ خارج نماز میں۔ واللہ اعلم بالصواب
كتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند
مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات
رابطہ نمبر۔ 9428359610
3/اپریل 2020 بروز جمعہ
13 Comments:
Mashaallah
ما شاء الله
جيد تمام
بھائی بہت خوب
اللہ تعالی قبول کریں
ماشاء اللہ
👍👍👍
اللہ یعطیک العافیۃ فی الدنیا و الآخرۃ
جید جدا
Mashaallah
👌👌👌👍👍👍
آپ کی محنتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
ماشاء اللہ بہت عمدہ تحریر ہے
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ترقیات سے نوازے آمین ثم آمین یا رب العالمین
ماشاء الله
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home