Tuesday 11 August 2020

اویس قرنی رحمہ اللہ کا بروز قیامت شفاعت کرنا اور مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ ورعاہ کا بیان

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 27) 

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

( اویس قرنی رحمہ اللہ کا بروز قیامت شفاعت کرنا اور مولانا طارق جمیل صاحب زید مجدہم کا بیان) 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- ایک حدیثِ مبارکہ جو سوشل میڈیا پر بہت گردش کر رہی ہے لیکن اسکی سند مجھے نہیں مل سکی ازراہِ کرم اسکی تخریج کردیجیئے؟


"آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب لوگ جنت میں جا رہے ہوں گے تو حضرت اویس قرنی بھی چلیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کے باقیوں کو جانے دو اور اویس کو روک لو اس وقت حضرت اویس قرنی ؓ پریشان ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ اے خدا آپ نے مجھے دروازے پرکیوں روک لیا؟ تو اللہ تعالی ٰ فرمائیں گے کہ پیچھے دیکھو جب پیچھے دیکھیں گے توپیچھے کروڑوں اربوں کے تعداد میں جہنمی کھڑے ہوں گے، تو اس وقت خدا فرمائیں گے کہ اویس تیری ایک نیکی نے مجھے بہت خوش کیا ہے’’ ماں کی خدمت‘‘تو انگلی کا اشارہ کرجدھرجدھرتیری انگلی پھرتی جائے گی میں تیرے طفیل ان کوجنت میں داخل کرتا جاوں گا۔

سائل: مولوی صامت اسلام پوری گجرات

مدرس: جامعۃ العلوم گڑھا گجرات

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الوہاب:- اس واقعے کو  مولانا طارق جمیل صاحب زید مجدہم نے اپنے ایک بیان میں ذکر کیا ہے۔ اس کو اس لینک سے دیکھا جاسکتا ہے ۔

https://www.dailymotion.com/video/x4hk1x8


لیکن تحقیق یہی ہے کہ یہ واقعہ کسی مستند کتاب میں مذکور نہیں ہے۔  مولانا ( دامت برکاتہم العالیہ)   بھی شاید بلاسند بیان کررہے ہیں ۔

ہاں ۔اویس قرنی کی بابت کچھ روایات اس قسم کی ہیں جن کا حکم بھی دیکھتے جائیں ۔

ولعل من أعظم ما روي في مناقبه (أويس القرني)  الأحاديث الواردة في شفاعة رجل من أمة محمد صلى الله عليه وسلم لأناس كثيرين ، وقد جاءت من روايات كثيرة ، أصحها حديث عبد الله بن أبي الجدعاء مرفوعا: ( ليدخُلَنَّ الجنة بشفاعة رجل من أمتي أكثر من بني تميم ) رواه الترمذي (رقم/2438) وقال حسن صحيح . وصححه الألباني .

ترجمہ۔ عین ممکن ہے کہ اویس قرنی رحمہ اللہ کے فضائل  کے متعلق سب سے عظیم حدیث وہ ہو جس میں امت محمدیہ  میں سے ایک شخص کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کیلئے شفاعت کرنے کا   ذکر ہے، اور اس بات کا تذکرہ متعدد روایات میں ہے، ان میں سے صحیح ترین روایت  عبد اللہ بن ابی جدعاء کی مرفوع روایت ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (میری امت کے لوگوں میں سے ایک شخص ایسا بھی ہوگا  جس کی شفاعت کے ذریعے بنی تمیم سے بھی زیادہ  لوگ جنت میں داخل ہونگے) ترمذی: (2438) نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث "حسن صحیح" ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔


فقد صح عن الحسن البصري أن هذا الشافع هو أويس القرني۔

ترجمہ۔ اور اس شفاعت کرنے والے اس شخص کے بارے میں حسن بصری رحمہ اللہ سے صحیح ثابت ہے کہ حدیث میں شافع سے مراد اویس قرنی ہی ہے،

 اس سلسلے میں تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذي کی عبادت ملاحظہ فرمائیں 👇

( بشفاعة رجل من أمتي أكثر من بني تميم ) وهي قبيلة كبيرة وقال القاري : فقيل الرجل هو عثمان بن عفان رضي الله عنه ، وقيل أويس القرني۔۔۔

ترجمہ۔ ملا علی قاری رحمہ نے اس حدیث کے لفظ رجل کی تفسیر میں کہا کہ وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہے' اور ایک قول یہ ہے کہ وہ اویس قرنی رحمہ اللہ ہے۔ 


 وورد ذلك في أحاديث أخرى مرفوعة لكنها ضعيفة۔ اس بات کا ذکر دیگر مرفوع احادیث میں بھی ہوا ہے، لیکن وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں۔  ترتیب وار ملاحظہ فرمائیں 👇

(١) [عن أبي هريرة:] يدخلُ الجنةَ بشفاعةِ رجلٍ من أمتي أكثرُ من مضرَ وتميمٍ. قيل: من هو يا رسولَ اللهِ؟ قال: أُويسٌ القَرَنيُّ

ميزان الاعتدال للذھبی  ٢‏/٤٤٥    [فيه] عبد الله بن صالح الجهني له مناكير۔ 

سير أعلام النبلاء للذھبی ٤‏/٣٣  •  منكر تفرد به الأعين ، وهو: ثقة۔ 

ترجمہ۔  میری امت کے لوگوں میں سے ایک شخص کی شفاعت کے ذریعے مضر اور بنی تمیم سے بھی زیادہ  لوگ جنت میں داخل ہونگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ وہ شخص کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا: وہ اویس قرنی ہے۔ 


(٢)[عن عطاء الخراساني:] قيلَ لِأُوَيْسٍ: أما حَجَجتَ؟ فسَكَتَ، فأعطَوْه نَفَقةً وراحِلةً، فحَجَّ، أبو بَكرٍ الأعْيَنُ: حدَّثَنا أبو صالِحٍ، حدَّثَنا اللَّيثُ، عنِ المَقبُريِّ: عن أبي هُرَيرةَ، مَرفوعًا: يَدخُلُ الجَنَّةَ بشفاعةِ رَجُلٍ مِن أُمَّتي أكثَرُ مِن مُضَرَ وتَميمٍ. قيلَ: مَن هو يا رَسولَ اللهِ؟ قال: أُوَيْسٌ القَرَنيُّ.

شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج سير أعلام النبلاء ٤‏/٣٣  •  [فيه] علة الحديث شيخ الاعين أبو صالح واسمه عبد الله بن صالح وهو ضعيف لكثرة غلطه.

(٣) 34065 يدخل الجنة بشفاعة رجل من أمتي يقال له أويس فئام (1) من الناس (ابن عساكر من طريق عبد الرحمن بن يزيد بن أسلم عن أبيه عن جده).

ترجمہ۔ میری امت کے ایک شخص کی شفاعت کی وجہ سے لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت جنت میں داخل ہوگی۔ 

(٤) وروى البيهقي من حديث أبي بكر بن عياض عن هشام ، عن الحسن ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يدخل بشفاعة رجل من أمتي الجنة أكثر من ربيعة ومضر " . قال هشام : أخبرني حوشب ، عن الحسن أنه أويس القرني . قال أبو بكر بن عياش : قلت لرجل من قومه : أويس بأي شيء بلغ هذا ؟ قال : فضل الله يؤتيه من يشاء .

(٥) وروى العسقلاني في «لسان الميزان» أيضًا عن أبي صالح عن الليث عن المقبري عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:«ليشفعن رجل من أمتي في أكثر من مضر» قال أبو بكر: يا رسول الله إن تميمًا من مضر، قال: «ليشفعن رجل من أمتي لأكثر من تميم ومضر، وإنه أويس القرني».

اور مولانا طارق جمیل صاحب زید مجدہم نے اور آپ محترم نے سوال میں جس واقعہ کا ذکر کیا ہے اس کو بھی ہم مختصراً بیان کردیتے ہے 👇

ورويت في فضله أحاديث أخرى ضعيفة ، منها حديث طويل جاء فيه : ( ليصلين معكم غدا رجل من أهل الجنة ...ذاك أويس القرني ) ...إلى آخر الحديث ، وفيه حوار مطول بينه وبين عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب .


اس میں یہ الفاظ بھی مذکور ہیں

۔۔۔۔۔۔ألا وإنَّه إذا كان يومُ القيامةِ قيل للعبادِ : ادخلوا الجنَّةَ ، ويُقالُ لأويسٍ : قفْ فاشفعْ . فيشفعُ اللهُ عزَّ وجلَّ في مثلِ عددِ ربيعةَ ومُضَرَ۔۔۔۔۔۔

ترجمہ۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو بندوں سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہوجاؤ، اور اویس قرنی سے کہا جائے گا: ٹھیرجاؤ! اور شفاعت کروں، تو اللہ تعالیٰ ان شفاعت کی وجہ سے ربیعہ و مضر کے مثل افراد کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ 

رواه أبو نعيم في " حلية الأولياء " (2/81) وأشار إلى ضعفه .سير أعلام النبلاء ٤‏/٢٧    هذا سياق منكر لعله موضوع، وقال الشيخ الألباني في " السلسلة الضعيفة " (رقم/6276) : منكر جدا۔

خلاصۂ کلام:- سوال مذکور میں جو روایت اویس قرنی رحمہ اللہ کی شفاعت کے متعلق ذکر کی گئی ہے وہ ضعیف ہے، اور جتنی روایات ان کی شفاعت کے متعلق ذکر کی گئی ہیں ان پر بھی محدثین نے سخت کلام کیا ہیں، لکین اس کے بیان کرنے اور نشر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا تعلق ایک واقعہ سے ہے، اور واقعات کے متعلق علماء نے نرم پہلو اختیار کیا ہیں۔ مکمل تحقیق باحوالہ درج ذیل ہے 👇


👈 کوئی بات اگر حدیث نہ ہو اور وہ شرعی نقطہ نظر سے کسی نص سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کیا جاسکتا ھے, حکایات میں سند کی تفتیش جبکہ اس میں کوئی الزام یا خرابی نہ ہو بے جا غلو ھے, حکمت کی باتیں جہاں بہی ملیں ان کو لے لو, محدثین نے خود حکایات کے باب میں سند کے متعلق نرم پہلو اختیار کیا ھے۔

کیونکہ سند کی اہمیت خاص طور پر وہاں ھے جہاں امر شرعی بیان کیا جارہا ہو۔سند مل جائے تو عمدہ بات ھے ورنہ چشم پوشی کی جائے۔

1⃣ قال الصغانی: اذا علم ان حدیثا متروک او موضوع, فلیروہ ولکن لا یقول علیہ: قال رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم۔

ترجمہ: اگر کسی روایت کے متعلق معلوم ہو کہ وہ متروک یا منگھڑت ھے لیکن وہ نص شرعی سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کرنا درست ہوگا۔

( تذکرة الموضوعات/صفحة: 8. مؤلف: الادیب الفاضل اللبیب العلامہ محمد طاہر پٹنی الہندی رح.

 مطبع: ادارہ الطباعة المنيرية.مصر )

2⃣ واما اخبار الصالحین وحکایات الزاھدین والمتعبدین ومواعظ البلغاء وحکم الادباء, فالاسانید زینة لها.وليست شرطا لتاديتها(نوادر الحدیث شیخ یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ)

واللہ اعلم بالصواب

فقط والسلام

⁦✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجراتی الھند

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا گجرات

رابطہ نمبر: 0919428359610

12/اگست/2020 بروز بدھ

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home