Sunday, 27 September 2020

کیا لات اور عزی نے کعبہ میں زنا کیا تھا؟ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مسخ کردیا

  (تحقیقات سلسلہ نمبر 42)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- درج ذیل ایک واقعہ مذکور ہے، اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ 

"لات اور عزی پہلے انسان تھے، لیکن انہوں نے حرم شریف میں زنا کیا اس وجہ سے اللہ تعالی نے ان کو پتھر بنا دیا" کیا یہ واقعہ درست ہے؟

اس کی مکمل تحقیق مطلوب ہے؟

فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- سوالِ مذکور میں جو بات ذکر کی گئی ہے وہ  لات اور عزی(دو بت کے نام ہیں، جن کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہیں)  کے متعلق نہیں،بلکہ یہ بات مفسرین نے اساف اور نائلہ( یہ بھی دو بت کے نام ہیں)  کے متعلق ذکر کی ہیں۔ 

اساف اور نائلہ کے متعلق حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں 👇 اس کے بعد ان شاءاللہ لات اور عزی کے متعلق اقوام مفسرین ذکر کیے جائینگے۔

 (1) قال اسمعیل بن عمر بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ في تفسیره 1/336,335 

 (مطبوعہ: دار الكتاب العربي بيروت)

 قَالَ الشَّعْبِيُّ: كَانَ إِسَافٌ عَلَى الصَّفَا، وَكَانَتْ نَائِلَةُ عَلَى الْمَرْوَةِ، وَكَانُوا يَسْتَلِمُونَهُمَا فَتَحَرَّجُوا بَعْدَ الْإِسْلَامِ مِنَ الطَّوَافِ بَيْنَهُمَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ. قُلْتُ: وَذَكَرَ ابْنُ إِسْحَاقَ فِي كِتَابِ السِّيرَةِ أَنَّ إِسَافًا وَنَائِلَةَ كَانَا بَشَرَيْنِ، فَزَنَيَا دَاخِلَ الْكَعْبَةِ فَمُسِخَا حَجَرَيْنِ فَنَصَبَتْهُمَا قُريش تُجَاهَ الْكَعْبَةِ لِيَعْتَبِرَ بِهِمَا النَّاسُ، فَلَمَّا طَالَ عَهْدُهُمَا عُبِدَا، ثُمَّ حُوِّلَا إِلَى الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَنُصِبَا هُنَالِكَ، فَكَانَ مَنْ طَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ يَسْتَلِمُهُمَا۔ 

ترجمہ:-امام شعبی فرماتے ہیں: کہ اساف نامی بت صفا پہاڑی پر تھا اور نائلہ نامی بت مروہ پہاڑی پر تھا،اور لوگ ان دونوں کا استلام کرتے تھے، مگر آمد اسلام کے بعد ان دونوں کے درمیان سعی کو حرج محسوس کرنے لگے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ میرا یہ کہنا ہے کہ ابن اسحاق نے اپنی کتاب سیرۃ النبی میں ذکر کیا ہے کہ اساف اور نائلہ دونوں انسان تھے لیکن انہوں نے  کعبہ میں زنا کیا تھا، لہذا ان کو پتھر بنا دیا گیا، چنانچہ قریش نے لوگوں کی عبرت کے لئے کعبہ کے قریب ان دونوں کو نصب کر دیا،پھر جب زمانہ لمبا ہوا تو ان دونوں کی عبادت کی جانے لگی،پھر ان دونوں کو صفا ، مروہ پہاڑی کی جانب منتقل کر دیا گیا، اور وہاں ان دونوں کو نصب کر دیا گیا پھر جو شخص بھی صفا ، مروہ کے درمیان سعی کرتا وہ ان دونوں کا استلام کرتا۔

(2) قال الآلوسي البغدادي في تفسيره روح المعاني تحت هذه الآية"ان الصفا والمروة من الخ" 

عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعالى عَنْهُ - أنَّهُ كانَ عَلى الصَّفا صَنَمٌ عَلى صُورَةِ رَجُلٍ يُقالُ لَهُ إسافٌ، وعَلى المَرْوَةِ صَنَمٌ عَلى صُورَةِ امْرَأةٍ تُدْعى نائِلَةُ، زَعَمَ أهْلُ الكِتابِ أنَّهُما زَنَيا في الكَعْبَةِ، فَمَسَخَهُما اللَّهُ - تَعالى - حَجَرَيْنِ، فَوُضِعا عَلى الصَّفا والمَرْوَةِ لِيُعْتَبَرَ بِهِما، فَلَمّا طالَتِ المُدَّةُ عُبِدا مِن دُونِ اللَّهِ - تَعالى - فَكانَ أهْلُ الجاهِلِيَّةِ إذا طافُوا بَيْنَهُما مَسَحُوا الوَثَنَيْنِ، فَلَمّا جاءَ الإسْلامُ وكُسِّرَتِ الأصْنامُ كَرِهَ المُسْلِمُونَ الطَّوافَ بَيْنَهُما لِأجْلِ الصَّنَمَيْنِ۔۔۔۔۔۔ 

ترجمہ:- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ صفا پہاڑی پر ایک بت مرد کی شکل میں تھا جسے اساف کہا جاتا تھا، اور مروہ پر ایک بت عورت کی شکل میں تھا جسے نائلہ کہا جاتا تھا،اہل کتاب کا یہ گمان ہے کہ ان دونوں نے داخل کعبہ زنا کیا تھا، جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کو پتھر بنا دیا پھر انہیں صفا ، مروہ پہاڑی پر بطور عبرت کے رکھ دیا گیا پھر جب زمانہ نے طول پکڑا تو ان دونوں کی عبادت کی جانے لگی ، اہل جاہلیت جب صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے تو ان دونوں کو چھوتے،پھر جب اسلام کی آمد ہوئی اور بتوں کو پاش پاش کر دیا گیا تو مسلمانوں نے صفا،مروہ کے درمیان سعی کو ان دونوں بتوں کی وجہ سے ناپسند کیا۔۔۔۔۔

(3) قال القرطبي في الجامع تحت هذه الآية: وَزَعَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَنَّهُمَا زَنَيَا في الكعبة فمسخهما الله حجرين فَوَضَعَهُمَا عَلَى الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِيُعْتَبَرَ بِهِمَا، فَلَمَّا طَالَتِ الْمُدَّةُ عُبِدَا مِنْ دُونِ اللَّهِ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.

 (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی) 

(4)قال ابن كثير في كتابه السيرة النبوية: ثم بغت جرهم بمكة، وأكثرت فيها الفساد، وألحدوا بالمسجد الحرام، حتى ذكر أن رجلا منهم يقال له إساف بن بغى وامرأة يقال لها نائلة بنت وائل اجتمعا في الكعبة، فكان منه إليها الفاحشة، فمسخهما الله حجرين، فنصبهما الناس قريبا من البيت ليعتبروا بهما، فلما طال المطال بعد ذلك بمدد عبدا من دون الله في زمن خزاعة .... قال ابن إسحاق : واتخذوا إسافا ونائلة، على موضع زمزم ينحرون عندهما، ثم ذكر أنهما كانا رجلا وامرأة فوقع عليها في الكعبة، فمسخهما الله حجرين. ثم قال: حدثني عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن عمرة أنها قالت : سمعت عائشة تقول : مازلنا نسمع أن إسافا ونائلة كانا رجلا وامرأة من جرهم أحدثا في الكعبة فمسخهما الله عز وجل حجرين. اهـ


(5) نیز علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ مجمع الزوائد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ایک روایت نقل کرتے ہے:

عن عائشةَ قالت: ما زلنا نسمَعُ: إسافٌ ونائلةُ- رجلٌ وامرأةٌ مِن جُرْهُمٍ- زنَيا في الكعبةِ فمُسِخا حَجَرينِ. (ج٣ ص ٢٩٩) رواه البزار في مسنده. 

ترجمہ:-  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ہم لوگوں سے بار بار یہ سنتے رہے کہ اساف اور نائلہ قبیلۂ جرھم کے مرد و زن نے کعبہ میں زنا کیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں پتھر بنا دیا گیا۔

 فيه أحمد بن عبد الجبار العطاردي وهو ضعيف

فعائشة رضي الله عنها لم تسند الخبر للنبي صلى الله عليه وسلم، بل قالت مازلنا نسمع، وهذا يدل على أنها إنما أضافته لما شاع عند الناس، وأنه خبر شائع عند الناس من أخبار أهل الجاهلية. 

روح المعانی وغیرہ کتابوں میں لکھا ہے: زعم أهل الكتاب الخ  کہ یہ اہل کتاب کا گمان ہےالخ  لہذا معلوم ہوا کہ یہ روایت اسرائیلیات کی قبیل سے ہے۔  

اب سوال یہ ہے کہ اس واقعے کو بیان کرنا اور نشر کرنا درست ہے یا نہیں؟ لہذا اس سلسلے میں درج ذیل اسرائیلی روایات کے متعلق تحریر ملاحظہ فرمائیں 👇

اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے رقم فرمایا کہ:


“اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض براہِ راست بائبل یا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف ومشہور تھیں”۔ (علوم القرآن: ۳۴۵)

اسرائیلیات کا حکم:

اس سلسلہ میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ: 

(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔

 (۲) دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔

(۳) تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “لا تصدقوھا ولاتکذبوھا”۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔ (علوم القرآن:۳۶۴)

مفتی صاحب کی بالا تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری بحث جس واقعہ سے ہے وہ اسی تیسری قسم سے ہے، بایں طور کہ نہ تو یہ قرآن و احادیث کے متنافی ہے، اور نہ ہی قرآن و احادیث میں اس کا ثبوت ہے،لہذا ہم بھی اس روایت کی نہ تصدیق کرینگے اور نہ ہی تکذیب کرینگے۔

*اب لات اور عزی کے متعلق اقوال مفسرین ملاحظہ فرمائیں 👇

 پس واضح رہے کہ لات کے متعلق کتابوں میں صرف اتنا ملتا ہے کہ عرب میں ایک آدمی تھا جو خود کے ستو کو حاجیوں کے ستو کے ساتھ ملایا کرتا تھا پھر جب اس کی موت ہوئی تو عمرو بن لحی نے لوگوں سے کہا کہ یہ مرا نہیں ہے، بلکہ چٹان میں چلا گیا ہے، تو لوگ اس چٹان کی عبادت کرنے لگے اور اس پر گھر وغیرہ بنانے لگے،بعض کا کہنا ہے کہ اس کی قبر کو لوگوں نے بت بنا لیا تھا اور اسے عامر بن ظریب نامی کوئی دشمن خیال  کرتے تھے۔ 

حوالہ جات

(1) صحيح البخاري | كِتَابُ التَّفْسِيرِ.  |  سُورَةُ وَالنَّجْمِ.  | بَابٌ : أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى

رقم الحديث: (4859) حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، في قوله {  ٱللَّـٰتَ وَٱلۡعُزَّىٰ} كان اللات رَجُلًا يَلُتُّ سَوِيقَ الْحَاجِّ.

ترجمہ:- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: کہ لات ایسا شخص تھا جو حاجی کے ستو کو گولتا تھا۔ 

(2) قال ابن كثير في تفسيره:  قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَكَانَتِ اللَّاتُ لِثَقِيفٍ بِالطَّائِفِ، وَكَانَ سَدَنتها وَحُجَّابُهَا بَنَى مُعَتّب، قلت وقد بعث اليها رسول الله صلى الله عليه وسلم المغيرة بن شعبة و ابا سفيان صخر بن حرب فهدماها و جعلها مكانها مسجد الطائف.

ترجمہ:- ابن اسحاق فرماتے ہیں: کہ لات طائف میں آباد قبیلۂ ثقیف کا بت تھا ،اور اس کے رکھوالے اور دربان بنی معتب تھے،(اس کے بعد ابن کثیر فرماتے ہیں)میں یہ کہتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ اور ابو سفیان صخر بن حرب کو اس بستی کی جانب بھیجا وہ دونوں نے اسے منہدم کر دیا اور اس کی جگہ مسجد طائف بنا دی. 

(3) علامہ آلوسی بغدادی رحمة اللہ علیہ اپنی شہرۂ آفاق تفسیر روح المعانی میں افرأيت اللات والعزى و مناة الثالثة الأخري کے تحت تحریر فرماتے ہیں:

وأخْرَجَ ابْنُ أبِي حاتِمٍ وابْنَ مَرْدُوَيْهِ عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ أنَّهُ كانَ يَلِتُّ السَّوِيقَ عَلى الحَجَرِ فَلا يَشْرَبُ مِنهُ أحَدٌ إلّا سَمِنَ فَعَبَدُوهُ، وأخْرَجَ الفاكِهِيُّ عَنْهُ أنَّهُ لَمّا ماتَ قالَ لَهم عَمْرُو بْنُ لِحْيٍ: إنَّهُ لَمْ يَمُتْ ولَكِنَّهُ دَخَلَ الصَّخْرَةَ فَعَبَدُوها وبَنَوْا عَلَيْها بَيَّتا، وأخْرَجَ ابْنُ المُنْذِرِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ أنَّهُ قالَ: كانَ رَجُلُ مِن ثَقِيفٍ يَلِتُّ السَّوِيقَ بِالزَّيْتِ فَلَمّا تُوُفِّيَ جَعَلُوا قَبَرَهُ وثَنًا، وزَعَمَ النّاسُ أنَّهُ عامِرُ بْنُ الظَّرِبِ أحَدُ عُدْوانِ. 

* اور عزی کے متعلق کتابوں میں یہ ملتا ہے کہ وہ ایک مؤنث بت تھا

حوالہ جات 👇

(1) علامہ قاضی ثناء اللہ عثمانی مجددی پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تفسیر مظہری میں رقم طراز ہیں:  11/101 

(مطبوعہ: دار الاشاعت اردو بازار کراچی)

'مجاہد کا بیان ہے کہ عزی غطفان کی آبادی میں ایک درخت تھا۔ بنی غطفان اس کو پوجتے تھے۔

ابن اسحاق نے کہا عزی نخلہ میں ایک کوٹھڑی (کمرہ، مکان) تھی۔ اس کے مجاور دربان بنی شیبان تھے اور بنی شیبان بنی ہاشم کے حلیف (معاہد)تھے۔ قریش

اور تمام بنی کنانہ کا یہ سب سے بڑا بت تھا'عمرو بن لحی نے بنی کنانہ اور قریش سے کہ دیا تھا کہ تمہارا رب سردی کے موسم میں طائف میں لات کے پاس اور موسم گرما میں عزی کے پاس رہتا ہے اس لئے لوگ ان دونوں کی تعظیم کرتے تھے اور ہر ایک کے لئے ایک حجرہ بنادیا تھا اور جس طرح کعبہ کو قربانی کا جانور بھیجتے تھے اسی طرح ان دونوں بتوں کو بھی قربانی کے جانور بھیجتے تھے(جن کو وہاں بھینٹ چڑھایا جاتا تھا)

(2) علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں درج ذیل روایت نقل کی ہے: 14/55

(مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت،لبنان)

وأخْرَجَ النَّسائِيُّ، وابْنُ مَرْدُويَهْ، عَنْ أبِي الطُّفَيْلِ قالَ: «لَمّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ بَعَثَ خالِدَ بْنَ الوَلِيدِ إلى نَخْلَةَ، وكانَ بِها العُزّى، فَأتاها خالِدٌ، وكانَتْ عَلى ثَلاثِ سَمُراتٍ، فَقَطَعَ السَّمُراتِ، وهَدَمَ البَيْتَ الَّذِي كانَ عَلَيْها، ثُمَّ أتى النَّبِيَّ ﷺ فَأخْبَرَهُ فَقالَ: «ارْجِعْ فَإنَّكَ لَمْ تَصْنَعْ شَيْئًا» فَرَجَعَ خالِدٌ، فَلَمّا أبْصَرَتْهُ السَّدَنَةُ، وهم حَجَبَتُها، أمْعَنُوا في الجَبَلِ وهم يَقُولُونَ: يا عُزّى يا عُزّى، فَأتاها خالِدٌ فَإذا امْرَأةٌ عُرْيانَةٌ ناشِرَةٌ شَعَرَها، تَحْفِنُ التُّرابَ عَلى رَأْسِها، فَعَمَّمَها بِالسَّيْفِ حَتّى قَتَلَها، ثُمَّ رَجَعَ إلى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ – فَأخْبَرَهُ، فَقالَ: «تِلْكَ العُزّى»» .

ترجمہ:- حضرت ابو طفیل سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو بطن نخلہ کی جانب بھیجا اور وہاں عزی نامی بت تھا،حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہ اس درخت کے پاس گئے اور کیکر کے درختوں  (جھاڑیوں) کو کاٹ دیا اور عزی کو (یہاں مراد وہ حجرہ ہے جسے تعظیما عزی کے ارد گرد بنا رکھا تھا)ڈھا دیا،پھر واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا دوبارہ جاؤ۔تم نے کچھ کیا ہی نہیں، حضرت خالد دوبارہ گیے اور برابر چوکنے رہے جب مجاوروں نے خالد کو دیکھا تو پہاڑوں پر پھیل گئے، اور کہنے لگے 'عزی،عزی'کہ یکایک حضرت خالد کے سامنے ایک کالی بھجنگ،برہنہ،برہنہ،بکھرے ہوئے سر اور منہ پر خاک اڑاتی ہوئی عورت برآمد ہوئی ،پھر حضرت خالد نے اس کی جانب تلوار پھیلائی اور لمحات میں اس کے ٹکڑے کر دیے اور پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر اطلاع دی تو آپ نے فرمایا۔۔ہاں!وہ عزی تھی۔

(3) اسی روایت کو ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ تغیر الفاظ کے ساتھ افرأيتم اللات والعزى کے تحت اس طرح بیان فرمایا ہے:

وَقَالَ النَّسَائِيُّ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْل، حَدَّثَنَا الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْع، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ بَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى نَخْلَةَ، وَكَانَتْ بِهَا الْعُزَّى، فَأَتَاهَا خَالِدٌ وَكَانَتْ عَلَى ثَلَاثِ سَمُرات، فَقَطَعَ السَّمُرات، وَهَدَمَ الْبَيْتَ الَّذِي كَانَ عَلَيْهَا. ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ: "ارْجِعْ فَإِنَّكَ لَمْ تَصْنَعْ شَيْئًا". فَرَجَعَ خَالِدٌ، فَلَمَّا أَبْصَرَتْهُ السَّدَنة -وَهُمْ حَجَبتها-أَمْعَنُوا فِي الحِيَل وَهُمْ يَقُولُونَ: "يَا عُزَّى، يَا عُزَّى". فَأَتَاهَا خَالِدٌ فَإِذَا امْرَأَةٌ عُرْيَانَةٌ نَاشِرَةٌ شَعْرَهَا تَحْفِنُ التُّرَابَ عَلَى رَأْسِهَا، فَغَمَسَهَا بِالسَّيْفِ حَتَّى قَتَلَهَا، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: "تِلْكَ الْعُزَّى۔

کچھ الفاظ میں تغیر ہے،معنی یکساں ہے لہذا اس کے ترجمہ کی کوئی حاجت نہیں ۔

خلاصۂ کلام:- سوال جو بات ذکر کی گئی ہے کہ لات اور عزی نے کعبہ میں زنا کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مسخ کردیا یہ بات لات اور عزی کے متعلق نہیں ہے، بلکہ اساف اور نائلہ کے متعلق ہے، اور وہ بھی اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے،لہذا اس بات کو لات اور عزی کے متعلق نشر کرنے اور بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

فقط والسلام

و اللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم۔

✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

28/ستمبر/2020ء بروز پیر

Friday, 25 September 2020

لقمة في بطن جائع خير من بناء ألف جامع

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 41)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- میں نے دیکھا کہ بہت سے احباب کے اسٹیٹس اور ڈی پی پر یہ لکھا ملا  "لقمة في بطن جائع خير من بناء ألف جامع" 

آیا یہ حدیث ہے یا نہیں۔۔۔مکمل تحقیق مطلوب ہے؟

فقط والسلام 

سائل:- حافظ اسامہ بن مولانا سلیم صاحب نولپوری

متعلم:- جامعہ تحفیظ القران اسلامپورہ

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوہاب:- سوال میں مذکور الفاظ کے متعلق کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے، لہذا اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔ 

1 *چنانچہ علامہ اسمعیل العجلونی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کشف الخفاء میں جلد ۲ میں صفحہ۔۱٦۹ (مکتبۃ العلم الحدیث کا نسخہ)پر ۲۰٥٥ نمبر اس مقولہ کو ذکر فرمایا ہے۔

لقمة في بطن الجائع أفضل من عمارة ألف جامع

ترجمہ۔ایک بھوکے کو لقمہ دینا ہزار جامع مساجد کی تعمیر سے افضل ہے۔ 

اس کے بعد علامہ عجلونی تحریر فرماتے ہیں: "الظاهر أنه ليس بحديث " کہ یہ حدیث نہیں ہے۔

2 *نیز علامہ محمد بن درویش بن محمد الحوت الشافعی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب اسنی المطالب میں(دار الکتب العلمیہ،بیروت،لبنان کے نسخہ میں)صفحہ ٢٢٨ پر اس مقولہ کو ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

١١٤٨  لقمة في بطن جائع خير من بناء جامع 

  اسے ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں: لیس بحدیث یہ حدیث نہیں ہے۔

3 *نیز اس کو محمد بن بشیر ظافر الاظہری نے اپنی کتاب "تحذير المسلمين من الأحاديث الموضوعة على سيد المرسلين"میں (دار ابن كثير،بيروت کے نسخہ میں)صفحہ۔١٥١ پر کچھ اس طرح ذکر کیا ہے: 

٢٧٩ (لقمة في بطن جائع خير من بناء جامع)ليس بحديث۔ یہ حدیث نہیں ہے۔

خلاصۂ کلام:- یہ کسی کا مقولہ ہے واللہ اعلم ،حدیث نہیں ہے، لہذا اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

فقط والسلام

و اللہ اعلم بالصواب

جمعه ورتبه:- ⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

25/ستمبر/2020ء بروز جمعہ

Thursday, 17 September 2020

شب جمعہ کا درود شریف اور اس کی فضیلت وحکم

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 40)

(شب جمعہ کا درود اور اس کی فضیلت)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- درج ذیل ایک درود شریف ہے ۔ اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ 

عن عبدالله بن عباس قال: من قال ليلةَ الجمعةِ عشرَ مِرارٍ: يا دائمَ الفضلِ على البريَّةِ، يا باسطَ اليدَيْن بالعطيَّةِ، يا صاحبَ المواهبِ السَّنيَّةِ، صلِّ على محمَّدٍ خيرِ الورى بالسجيَّةِ، واغفِرْ لنا ذا العُلى في هذه العشيَّةِ، كتب اللهُ عزَّ وجلَّ له مائةَ ألفِ ألفِ حسنةٍ، ومحا عنه مائةَ ألفِ ألفِ سيِّئةٍ، ورفع له مائةَ ألفِ ألفِ درجةٍ، فإذا كان يومُ القيامةِ زاحم إبراهيمَ الخليلَ في قُبَّتِه۔

فضیلت۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ جو شخص مذکورہ درود کو شب جمعہ میں دس مرتبہ پڑھے گا اللہ رب العزت اس کے دس کروڑ گناہ معاف فرمائیں گے، دس کروڑ نیکیاں عطا فرمائیں گے اور دس کروڑ درجے بلند فرمائیں گے۔ 

(القول البدیع فی الصلوۃ علی الحبیب الشفیع صلی اللہ علیہ وسلم)

اس کی تحقیق مطلوب ہے۔

فقط والسلام

سائل: بلال بن حافظ یاسین اسلامپوری

متعلم: جامعہ تحفیظ القران اسلامپورہ۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوہاب:- اس روایت کو علامہ دیلمی نے اپنی کتاب"الفردوس"  میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا ذکر فرمایا ہے: رقم الحدیث: (5546) عن ابن عباس قال: من قال ليلة الجمعة عشر مرات : يا دائم الفضل على البرية ، يا باسط اليدين بالعطية يا صاحب المواهب السنية ، صل على محمد خير الورى سجية ، واغفر لنا يا ذا العلى في هذه العشية. كتب الله عز وجل مائة ألف ألف حسنة ومحي عنه مائة ألف ألف سيئة ، ورفع له مائة ألف ألف درجة ، فإذا كان يوم القيامة زاحم ابراهيم الخليل في قبته۔

ترجمہ:- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جس شخص نے جمعہ کی رات کو دس مرتبہ اس درود کو پڑھا "يا دائم الفضل على البرية، يا باسط اليدين بالعطية، ياصاحب المواهب السنية، صل على محمد خير البرية بالسجية، واغفر لنا يا ذا العلی في هذه العشية" اللہ تعالی اسے ایک کروڑ نیکی عطا فرماتے ہیں،ایک کروڑ گناہ معاف فرماتے ہیں اور ایک کروڑ درجے بلند فرماتے ہیں اور روز قیامت حضرت ابراہیم علیہ السلام اسے اپنے خیمہ میں جگہ دینگے۔

حکم الحدیث: ایک معتبر ادارہ نے لکھا ہے: لا أصل له: ذكره الديلمي في ((الفردوس)) (5546)، وبيض له ولده، ولم يذكر له سند.

اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے ، امام دیلمی نے اس کو الفردوس میں ذکر فرمایا ہے،امام دیلمی کے صاحبزادہ (جنہوں نے الفردوس کی تخریج کی ہے)نے اس کی سند میں بیاض اختیار کیا ہے اور کوئی سند ذکر نہیں فرمائی۔

یہ روایت موضوع ہے، اور کتاب "الفردوس"  للدیلمی میں موضوع روایات بھی ذکر کی گئی ہیں،لہذا ذیل میں حضرت مفتی عبد الباقی صاحب کی مختصر سی تحریر ذکر کی جاتی ہے،  ملاحظہ فرمائیں 👇

كتاب "الفردوس" للديلمی کی اسنادی حیثیت:

امام دیلمی نے اس کتاب میں صحیح، ضعیف، موضوع ہر طرح کی روایات نقل کردی ہیں، گویا یہ کتاب احادیث کیلئے ایک موسوعہ (انسائیکلوپیڈیا) کی حیثیت رکھتی ہے جس کی ہر طالب علم کو ضرورت ہے، لیکن اس کی روایات مطلقا قابل اعتبار نہیں ہیں، اگرچہ

اس کتاب میں صحیح اور حسن درجے کی روایات بھی موجود ہیں.

اس کتاب کی تصنیف کا سبب:

علامہ دیلمی نے اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھا کہ جب میں نے اپنے زمانے کے لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے احادیث کو چھوڑ دیا،سند کی بحث ہی ختم کردی، ہر طرح کے سچے جھوٹے قصے سنانے شروع کردیئے، من گھڑت واقعات اور روایات بیان کرنی شروع کردیں تو میں نے ایک ایسی کتاب لکھی جس میں مختصرا دس ہزار (10,000) احادیث جمع کیں تاکہ لوگ اس سے استفادہ حاصل کرسکیں.

 ہائے افسوس

أمام دیلمی نے لوگوں کو من گھڑت اور موضوعات سے بچانا چاہا لیکن اپنی کتاب ایسی لکھ ڈالی خود ہی کمزور اور من گھڑت روایات کی پہچان بن گئی۔

 خلاصہ کلام

امام دیلمی (والد، بیٹا) دونوں ہی مضبوط علماء میں سے ہیں، مگر ان کی کتاب میں صحت کا التزام نہیں کیا گیا، لیکن اسکا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ ہر روایت من گھڑت یا موضوع ہے۔

پس اگر وہ روایت مستند کتب میں موجود ہے تو وہ مستند سمجھی جائے گی، اور اگر صرف اسی کتاب میں موجود ہے تو پھر ناقابل اعتبار کہلائی جائے گی، الا یہ کہ تحقیق سے وہ درست ثابت ہوجائے۔انتھی کلام المفتی۔۔۔۔

علامہ دیلمی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادہ کا مسند الفردوس کے نام سے جو نسخہ ہے اس میں اس روایت پر بیاض ہے اور کوئی سند بھی مذکور نہیں ہے۔۔ بالا تحریر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے، اس کی تین وجوہات ہیں

 (١) بغیر سند کے ہے

 (٢) اسی کتاب میں ہے، اور کسی محدث نے اس کو ذکر نہیں کیا ہے

(٣) اس حدیث کو علماء نے موضوع قرار دیا ہیں۔ 

(1)چنانچہ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب القول البدیع ص۔۲۰۰ (دار الریان للتراث کے نسخہ میں)پر اس درود کو ابن عباس کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے اور اسے مکذوب لکھا ہے۔

ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں 👇

ويروي مما لم اقف له علی اصل عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما رفعة من قال ليلة الجمعة عشر مرات يا دائم الفضل على البرية، يا باسط اليدين۔۔۔۔۔۔۔۔ و هذا مكذوب۔ 

ترجمہ:- ایک روایت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا روایت کی جاتی ہے جس کی اصل کے متعلق کوئی علم نہیں ہے (وہ یہ کہ)جس شخص نے جمعہ کی رات کو دس مرتبہ اس درود کو پڑھا

"يا دائم الفضل على البرية، يا باسط اليدين بالعطية، ياصاحب المواهب السنية، صل على محمد خير البرية بالسجية، واغفر لنا يا ذا العلی في هذه العشية" للہ تعالی اسے ایک کروڑ نیکی عطا فرماتے ہیں،ایک کروڑ گناہ معاف فرماتے ہیں اور ایک کروڑ درجے بلند فرماتے ہیں اور روز قیامت حضرت ابراہیم علیہ السلام اسے اپنے خیمہ میں جگہ دینگے۔  یہ روایت جھوٹی ہے۔ 

(2)نیز علامہ ابن حجر ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب الدر المنضود فی الصلوۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود میں صفحہ۔۲۲۷ پر موضوع قرار دیا ہے۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں 👇

ويروى أيضا : من قال ليلة الجمعة عشر مرار : یا دائم الفضل على البرية الخ ۔۔۔۔ وهو مكذوب یہ روایت جھوٹی ہے۔

اس عبارت کے تحت حاشیہ میں لکھا ہے: عزاه الإمام السخاوي في " القول البديع وأص۳۸۳) لأبي موسى المديني۔

نوٹ:- شیخ عباس القمی(جو ایک شیعہ عالم تھے)نے بھی اس روایت کو مفاتح الجنان میں ذکر کیا ہے: 

التاسع : أن يقول عشر مرات : يا دائِمَ الفَضْلِ عَلى البَرِيَّةِ ، يا باسِطَ اليَّدِيْنِ بِالعَطِيَّةِ الخ۔۔۔۔۔ وهذا الذكر الشريف وارد في ليلة عيد الفطر أيضاً.

لیکن چونکہ شیعہ کی کتب موضوع اور من گھڑت ہے لہذا اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہے۔ 

کتب شیعہ کے متعلق معلومات کے لئے ہماری درج ذیل لینک سے استفادہ کریں 👇

https://mohassantajpuri.blogspot.com/2020/02/blog-post_25.html?m=1

ہاں البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ خالص الفاظ درود (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف فضیلت کی نسبت کیے بغیر) پڑھنے کی گنجائش ہے، متعینہ طور پر کسی خاص صیغہ کی پابندی ضروری نہیں ہے،البتہ ماثور و منقول الفاظ باعثِ برکت ضرور ہیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت درست نہیں اس لیے کہ اگر صلاۃوسلام کے صیغے کسی  غیر معروف کتاب یا غیر منقول فضائل کے ساتھ ملے تو بشرطے صحت الفاظ ان کو پڑھنا درست ہوگا،لیکن اس کی فضیلت خاصہ کا اعتقاد رکھنا صحیح نہ ہوگا،جب تک کسی مستند عالم سے ان فضائل سے متعلق روایات کی تحقیق نہ کرائی جائے۔ 

الفاظ درود، ان کی فضیلت اور تاثیر درود و سلام کے متعلق مکمل معلومات کے لئے ہماری درج ذیل لینک سے استفادہ کریں 👇

https://mohassantajpuri.blogspot.com/2020/03/blog-post.html?m=1

خلاصہ کلام:- بالا سوال میں مذکور الفاظ درود تو صحیح ہے، پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، لکین روایت جس میں اس کی فضیلت مذکور ہے موضوع اور من گھڑت ہے،  لہذا اس کے بیان و نشر سے احتراز کرنا چاہیے۔ واللہ الموفق والمعین۔

فقط والسلام

و اللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم۔۔۔۔

✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

17/ستمبر/2020ء بروز جمعرات

Tuesday, 15 September 2020

گالی دینے سے قبر میں بچھو کا پیدا ہونا

 


(تحقیقات سلسلہ نمبر 39) 

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

(گالی دینے سے قبر میں بچھو کا پیدا ہونا) 

سوال:- سوشل میڈیا پر ایک قول علی کرم اللہ وجہہ کافی گردش کررہا ہے 👇

حضرت علی نے فرمایا: 

 تمہارے منہ سے نکلی ہوئی ایک گالی چاھے مذاق میں ھو یا غصے میں تمہاری قبر میں ایک ایسا بچھو پیدا کرتی ھے جسکے ایک بار ڈسنے سے

انسان 70 ہاتھ زمین میں دھنس جاتا ھے۔

اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ کیا یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے؟ 

فقط والسلام

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں یہ قول کتب احادیث میں نہیں ملا، ضعیف اور نہ صحاح میں۔ لہذا اس کی نسبت آپ رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔ 

 اس طرح کے اقوال ( اقوال علی کرم اللہ وجہہ) بکثرت کتب شیعہ میں موجود ہیں، اور اس کی کوئی اصل نہیں، ان کی  سب کتابیں غیر معتبر ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہے،چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ روافض کی روایات کے متعلق علامہ سیوطی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:-

(واما البدعة الكبرى كالرفض الكامل،والغلو فيه والحط عن الشيخين -ابي بكر وعمر رضي الله عنهما- فلا ، ولا كرامة،لا سيما لست استحضر الآن من هذا الضرب رجلا صادقا ، ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والنفاق والتقية دثارهم، فكيف يقبل من هذا حاله)

(مقدمہ فتح الملہم، روایات أہل البدع و الاہواء ص 172)

ترجمہ۔  اور اگر کسی راوی میں بدعت کبریٰ پائی جائے جیسے کوئی غالی رافضی اور شیعہ ہو،اور حضرات شیخین یعنی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو ان کے مقام سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہو، تو ان کی روایات قابل قبول نہیں ،کیوں کہ ابھی تک میں نے اس قبیل کے لوگوں میں کسی کو صادق اور امین نہیں پایا ہے، بلکہ جھوٹ منافقت اور تقیہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، تو ایسے شخص کی بات روایت کیوں قبول کی جا سکتی ہے؟

اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے دور میں فرمایا تھا کہ یہ لوگ یعنی شیعہ حضرات کافر ہیں۔

       ( کتاب الاعتصام للشاطبی ج2)

اس حدیث کے متعلق دار العلوم دیوبند کا فتویٰ  ملاحظہ فرمائیں👇

سوال:کیا گالی بکنے سے قبر کے لیے کوئی جانور پیدا ہو جاتا ہے؟ کوئی گالی بکتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ تمہاری قبر میں بچھو پیدا ہو گیا، کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب نمبر: 154256

01-Sep-2020 : تاریخ اشاعت

بسم الله الرحمن الرحيم

ہر اچھا عمل آخرت میں کسی اچھی شکل میں مجسم ہو کر ظاہر ہوگا، اسی طرح برا عمل کسی بری شکل میں مجسم ہوکر ظاہر ہوگا۔ اس لحاظ سے گالی خواہ قبر کے پاس دی جائے یا دوسری جگہ کوئی شکل آخرت میں بچھو وغیرہ کی اختیار کرلے اور ظاہر ہو بعید نہیں، لیکن متعین طور پر بچھو یا اور کوئی جانور کی شکل میں ظاہر ہونے کی بات کسی حدیث میں نظر سے نہیں گزری، جیسے کہ زکات نہ ادا کرنے والے کے مال کا گنجے سانپ کی شکل میں ظاہر ہونا حدیث میں آیا ہے۔ انتہی

خلاصۂ کلام:- بالا سوال میں جن الفاظ کی نسبت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف کی گئی ہیں وہ ثابت نہیں ہے۔ لہذا اس کے بیان کرنے اور نشر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ الموفق والمعین۔۔۔

 فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب

جمعہ: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات الھند

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر:9428359610

15/ستمبر/2020ء بروز منگل

سورۂ اخلاص کے فضائل کے متعلق تحقیق

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 38)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

(سورۂ اخلاص کے فضائل کے متعلق تحقیق)

سوال :- ایک وڈیو سوشل میڈیا پر کافی دنوں سے وائرل ہورہا ہے، اس میں ایک مولانا درج ذیل باتیں بیان کررہے ہیں‌۔ ان تحقیق مطلوب ہے؟ 

(١)  قرآن مجید میں ایک سورت ہے  سورۃ الاخلاص جس کو تین مرتبہ پڑھنے سے ایک مرتبہ قرآن پاک پڑھنے کا ثواب ملتا ہے 

(٢) جب کفار نے حضورﷺ سے بار بار یہ مطالبہ کیا کہ آپ کے اللہ کا حسب نامہ کیا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃالاخلاص کو نازل فرمایا 

(٣) تنبیہ الغافلین میں ہے کہ جو شخص 300 مرتبہ سورۃالاخلاص کو پڑھے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کو 9 فائدے عطا فرمائے گے 

1⃣ پڑھنے والے کے لیے 300 غضب ( فتنے، آفات، مصائب) 

کے دروازے بند کر دینگے 

2⃣ پڑھنے والے کے لیے 300 رزق کے دروازے کھول دینگے 

3⃣پڑھنے والے کے لیے 300 رحمت کے دروازے کھول دینگے 

4⃣پڑھنے والے کو اپنے علم سے علم اور اپنے صبر سے صبر عطا کرینگے 

5⃣ پڑھنے والے کو 36 مرتبہ قرآن پاک پڑھنے کے بقدر ثواب ملتا ہے 

6⃣ پڑھنے والے کے 50 سال کے گناہ معاف کرینگے 

7⃣ پڑھنے والے کے لیے اللہ سبحانہ وتعالی جنت میں 20 محل بنائینگے اور ہر محل یاقوت و مرجان کا  ہوگا اور ہر محل کے 70 ہزار دروازے ہونگے 

8⃣ پڑھنے والے کو 2000 رکعت نفل نماز پڑھنے کا ثواب عطا کرینگے 

9⃣ پڑھنے والے کے جنازے میں 1 لاکھ 10 ہزار فرشتے شامل ہونگے 

ایک فائدہ زائد ہے 

🔟 جو شخص ہر نماز کے بعد  10 مرتبہ اخلاص کے ساتھ سورۃ الاخلاص پڑھے گا تو اللہ تبارک وتعالی پر اس کی مغفرت واجب ہو جاتی ہے 

یہ چند مختلف باتوں کی مفصل تحقیق مطلوب ہے 

جواب شافی و کافی دے کر عند اللہ ماجور و ممنون ہو۔

فقط والسلام

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:-

(١) موصوف نے جو پہلی روایت بیان کی وہ صحیح ہے، کتب احادیث میں موجود ہے 👇

1 صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ  | بَابٌ : فَضْلُ قِرَاءَةِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

 812 ( 61 ) وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا، عَنْ يَحْيَى ، قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " احْشُدُوا ؛ فَإِنِّي سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ "، فَحَشَدَ مَنْ حَشَدَ، ثُمَّ خَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَ { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ }، ثُمَّ دَخَلَ، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ : إِنِّي أُرَى هَذَا خَبَرٌ جَاءَهُ مِنَ السَّمَاءِ، فَذَاكَ الَّذِي أَدْخَلَهُ، ثُمَّ خَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : " إِنِّي قُلْتُ لَكُمْ : سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ، أَلَا إِنَّهَا تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ".

خلاصۂ ترجمہ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: سب جمع ہوجاؤ تمہیں ایک تہائی قرآن سناؤں گا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور  ﴿ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ﴾  پڑھی اور ارشاد فرمایا یہ سورۃ ایک تہائی (یعنی تیسرا حصہ) قرآن کے برابر ہے۔ (الصحیح لمسلم، صلاۃ المسافرین، فضائل القرآن، رقم : ۸۱۲)

2 مسند أحمد | مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ  | حَدِيثُ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ

27274 حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ - ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ - عَنْ عَمِّهِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ ، أَنَّهَا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ) تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ".

حكم الحديث: حديث صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح

3 سنن الدارمي | وَمِنْ كِتَابِ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ.  | بَابٌ فِي فَضْلِ ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ )

3476 أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ) تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ.

حكم الحديث: إسناده حسن

4 قال رسول الله صلى الله عليه وسلم .........وَ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ تَعْدِلُ ثُلُثَ القُرْآنَ.

( الجامع الصغير للسيوطي ٦٥٤  صحيح)

(٢) اور دوسری بات بتائی وہ بھی صحیح ہے۔ ملاحظہ فرمائیں 👇

1 مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ  |  حَدِيثُ أَبِي الْمُنْذِرِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ  | حَدِيثُ أَبِي الْعَالِيَةِ الرِّيَاحِيِّ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ

 21219 حَدَّثَنَا أَبُو سَعْدٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسَّرٍ الصَّاغَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا مُحَمَّدُ، انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ } { اللَّهُ الصَّمَدُ } { لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ } { وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ }.

حكم الحديث: إسناده ضعيف.

2 سنن الترمذي | أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  | بَابٌ : وَمِنْ سُورَةِ الْإِخْلَاصِ

 3364 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو سَعْدٍ -هُوَ الصَّغَانِيُّ - عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ : أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَالُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ } { اللَّهُ الصَّمَدُ }۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حكم الحديث: حسن

قال الطبري: في كتابه " جامع البيان" ذُكر أن المشركين سألوا رسول الله ﷺ عن نسب ربّ العزّة، فأنزل الله هذه السورة جوابا لهم…..

(٣) اور دوسری روایت جس میں تین سو مرتبہ کی فضیلت بیان کی گئی اس کے متعلق تحقیق 👇

یہ روایت تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملی، اور تنبیہ الغافلین کا حوالہ ( باب فضائل القرآن)  بھی درست نہیں ہے، چونکہ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس میں اس طرح کی کوئی روایت نہیں ہے، 

اس کے متعلق دار العلوم دیوبند کا فتویٰ 👇

سوال:مفتی صاحب میں نے سورہ اخلاص کے فوائد/ فضائل کے متعلق کہیں انٹرنیٹ پر پڑھا ہے کہ جو شخص روزانہ دو سو مرتبہ باوضوسورہ اخلاص پڑہے اسے 9 فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ 1۔ اللہ رب العزت 300 دروازے غضب کے بند کردے مثلاً دشمنی’ قہر، فتنہ وغیرہ۔ 2۔ تین سو دروازے رحمت کے کھول دے گا۔ 3۔ تین سو دروازے رزق کے کھول دے گا’ اللہ تعالیٰ اپنے غیب سے رزق دے گا۔ 4۔ بغیر محنت کے اللہ پاک اپنے علم سے علم دے گا۔ اپنے صبر سے صبر اور اپنی سمجھ سے سمجھ دے گا۔ 5۔ چھیاسٹھ مرتبہ قرآن پاک کے ختم کرنے کاثواب دے گا۔ 6۔ پچاس سال کے گناہ معاف ہوں گے ۔ 7۔ اللہ پاک جنت میں بیس بنگلے دے گا’ یاقوت، مرجان، زمرد کے بنے ہوئے ہوں گے ’ ہر بنگلے کے ستر ہزار دروازے ہوں گے ۔8۔ دو ہزار رکعات نفل پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ 9۔ جب بھی مریں گے تو جنازے میں ایک لاکھ دس ہزار فرشتے شمولیت کریں گے ۔۔ پوچھنا یہ پوچھنا ہے کہ کیا یہ فضائل کسی حدیث مبارکہ سے ثابت ہیں یا کسی بزرگ سے بیان کردہ ہیں آپ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ تفصیلی جواب سے مرحمت فرمائیں بہت شکریہ ۔ میں سورہ اخلاص کو اپنا وظیفہ اور ورد بنانا چاہتا ہوں۔

جواب۔ درمنثور وغیرہ میں سورہٴ اخلاص کی بہت سی فضیلتیں مذکور ہیں؛ لیکن مذکور فی السوال فضائل پر مشتمل کوئی روایت نہیں ملی، جب تک کسی مستند کتاب میں اس طرح کے فضائل کا ذکر نہ ملے محض انٹرنیٹ پر موجود ہونے کی بنا پر ان کا اعتقاد نہ رکھیں؛ باقی سورہٴ اخلاص کو اپنے وظیفے میں شامل کرسکتے ہیں، معتبر روایات میں اس کے دیگر بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں مثلاً ایک روایت میں ہے جو شخص دوسو مرتبہ سورہٴ اخلاص کی تلاوت کرے گا اس کے دوسو سال کے گناہ معاف ہو جائیں گے (شعب الایمان، رقم: ۲۳۱۱۰) ایک روایت میں ہے: جس شخص نے ”قل ھو اللہ أحد“ پڑھا اس نے گویا تہائی قرآن پڑھا، الحدیث (الدر المنثور: ۸/۶۷۴) ۔انتھی

اور فائدے کے طور پر جو دسویں فضیلت بیان کی ہے وہ بھی تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملی، لہٰذا ان کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ ہاں البتہ مسند احمد میں ایک روایت ہے کہ جو شخص دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھیں گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک محل تیار کرتا ہے۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں 👇

مسند أحمد | مُسْنَدُ الْمَكِّيِّينَ.  | حَدِيثُ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ.

15610 حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ : وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ ، حَدَّثَنَا زَبَّانُ بْنُ فَائِدٍ الْحَمْرَاوِيُّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ قَرَأَ ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ) حَتَّى يَخْتِمَهَا عَشْرَ مَرَّاتٍ بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْرًا فِي الْجَنَّةِ ". فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : إِذَنْ نَسْتَكْثِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اللَّهُ أَكْثَرُ وَأَطْيَبُ ".

حكم الحديث: إسناده ضعيف۔

خلاصۂ کلام:- بیان میں تین باتیں اور فائدہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں سے پہلی دو باتیں (ایک مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھنا تیہائی قرآن کے برابر ہے، جب مشرکین نے اللہ تعالیٰ کا نسب پوچھا تو یہ سورت نازل ہوئی) صحیح ہیں، اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں۔ لہٰذا ان کو بیان اور نشر کیا جاسکتا ہیں۔ اور اخیر والی بات اور فائدہ ہمیں تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملی، اور تنبیہ الغافلین کا حوالہ بھی صحیح نہیں ہے۔ لہذا اس کے بیان ونشر سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

⁦✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات الھند

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

15/ستمبر/2020ء بروز منگل