Friday, 16 October 2020

لمبا قیام موت کی تکالیف کو ہٹادیتا ہے

 


( تحقیقات سلسلہ نمبر49) 

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 سوال:- ایک حدیث جو مسند الفردوس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے اس  کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟

حدیث:- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں لمبا قیام کرنا موت کی تکالیف کو ہٹادیتا ہے۔ (مسند الفردوس)

فقط والسلام

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- اولاً سوال بالا میں مذکور حدیث کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇

عن أبی ہریرۃ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:   "طولُ القنوتِ في الصَّلاةِ يخفِّفُ سَكَراتِ الموتِ" 

ثانیاً اس کی تحقیق و تخریج ملاحظہ فرمائیں 👇

رقم الحديث: 199 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، ثنا الْفَتْحُ بْنُ إِدْرِيسَ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ الْيَمَامِيُّ ، ثنا الْقَاسِمُ بْنُ الْيَسَعِ الْمَدِينِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " طُولُ الْقُنُوتِ فِي الصَّلاةِ ، يُخَفِّفُ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ۔

  تخریج 👇

أخرجه أبو نعيم في «تاريخ أصبهان» (١/١٢٤) والديلمي في المسند رقم الحديث: 1954 (212)

( كما في كنز العمال، 435/07 رقم الحديث: 19658)

   تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇

1(محمد بن جعفر) لم أقف على ترجمته.

2(الفتح بن إدريس بن نصر الكاتب) ذكره أبو الشيخ، وأبو نعيم، والذهبي، ولم يذكروا فيه جرحا ولا تعديلا، مات سنة أربع عشرة وثلاثمائة. انظر: طبقات المحدثين (۲۳/٤)، تاريخ أصبهان (۲/ ۱٢٥، رقم ۱۲٨٤)، تاريخ الإسلام (٤۸۱/۲۳)

3( أحمد بن محمد بن عمر) أبو سهل الحنفي اليامي: كذبه أبو حاتم وأبن صاعد، وقال ابن حبان: (يروى عن عبد الرزاق وعمر بن يونس، وغيرهما أشياء مقلوبة؛

لا يعجبنا الاحتجاج بخبره إذا انفرده) وقال ابن عدي: تحدث بأحاديث مناكير عن الثقات، وحدث بنسخ عن الثقات بعجائب... ذكرت اليمامي هذا لعبيد الكشوري فقال هو فينا کالواقدي فيكم»، وقال أبو الشيخ: «له أحاديث منكرات». وقال الدار طيني: «ضعیف»، وقال - مرة -: «متروكه . وقال الخطيب: كان غير ثقة». وقال الذهبي: متروك. مات سنة ستين ومائتين. انظر: الجرح والتعديل، (۷۱/۲، رقم ۱۳۰)، «المجروحين (١٤٣/۱)، «الكامل (۱۷۸/۱)، طبقات المحدثين، (۲/ ۳۷۷)، تاریخ بغداد»، (5/ 65، رقم ۲۶۳۸) وغيرهم….. 

4(عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ الْيَمَامِيُّ) لم أعرفه

5( الْقَاسِمُ بْنُ الْيَسَعِ الْمَدِينِيُّ) لم أعرفه

6( أبيه يعنى اليسع المديني) لم أعرفه. 

 7(سعيد المقبري)  بن أبي سعيد (كيسان) المقبري، تقدم في الحديث (۹)، ثقة تغير قبل موته بأربع سنين، وروايته عن عائشة وأم سلمة مرسلة.

وهذا حديث ضعيف جدا أو موضوع؛ في سنده أحمد بن محمد بن عمراليمامي، وهو منكر الحديث، وكذبه أبو حاتم وغيره؛ وفي السند رواة لم أعرفهم.

وقد ضعف الحديث الشيخ الألباني في "الضعيفة»، (۳۰۲/۸، ح ۳۸۳۹)، فقال: «أورده أبو نعيم في ترجمة أحمد هذا -وهو أبو سهل اليمامي -؛ ولم يذكر

فيه جرحا ولا تعديلا. و الثلاثة فوقه؛ لم أعرفهم». وقد تقدم أقوال النقاد في أبي سهل المذكور، وتبين أنه منكر الحديث، وكذبه أبو حاتم وغيره….. 

فالصواب أن الحديث ضعيف جدا، أو موضوع. والله تعالى أعلم

(الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس لابن حجر، تحقیق، ابو بکر احمد جالو ص 601 ج 5) 

خلاصہ کلام:-  یہ روایت یا تو ضعیف ہے یا موضوع. چونکہ اکثر رواۃ مجہول الحال ہیں' اور ایک راوی أحمد بن محمد بن عمر متروک ہے۔ لہذا اس حدیث کو بیان اور نشر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ فقط والسلام

و اللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم

⁦✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات الھند

مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات

17/اکتوبر 2020ء بروز سنیچر




Tuesday, 13 October 2020

( حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مچھلی کھانے کی خواہش پر ایک واقعے کی تحقیق)

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 48)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

( حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مچھلی کھانے کی خواہش پر ایک واقعے کی تحقیق) 

سوال:- مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے؟

واقعہ۔۔ *👈 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی ،ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔

یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔

پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ آٹھ میل جانا اور آٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟ 

چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔۔۔ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔

غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے، تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟

ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔

غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔

غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا.. 

عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ؟؟

وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہیں حضرت عمر فاروق دیکھ نا لیں

غلام کہتا ہے کے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں ۔۔

پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔۔ (جب ہماری خواہشات ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کر کے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)

فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔

گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔ 

مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہےاور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔

کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر فاروق اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا،

اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔

اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔۔

حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے 

"اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہے

اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں، 

کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں ،

میں تو دعائیں مانگتا ہوں 

اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔۔

میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا ۔

اے اللہ میں جانور تھا، 

بےزبان تھا 

16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے 

تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟"

یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ (یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں) غلام رونے لگا حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینے کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔“

کیا یہ واقعہ درست اور صحیح ہے؟

فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب باسمہ تعالیٰ۔۔  ابن ابی الدنیا نے جوع میں اور علامہ طبری نے الریاض النضرۃ میں اور دیگر علماء نے قدرے فرق کے ساتھ اس واقعہ کو ذکر کیا ہیں: ملاحظہ فرمائیں 👇 :

٢٩٠ - حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبّادِ بْنِ مُوسى، قالَ: أخْبَرَنا زَيْدُ بْنُ -[١٧٤]- الحُبابِ، قالَ: أخْبَرَنِي أبُو كَعْبٍ، بَيّاعُ الحَرِيرِ، قالَ: أخْبَرَنا أنَسُ بْنُ سِيرِينَ، أنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، اشْتَهى سَمَكًا طَرِيًّا، فَأُتِيَ بِهِ عَلى رَأْسِ أمْيالٍ مِنَ المَدِينَةِ قَدْ شُوِيَ لَهُ، وجُعِلَ لَهُ خُبْزٌ رِقاقٌ، فَأُتِيَ بِهِ عِنْدَ إفْطارِهِ عَلى خِوانٍ، فَجَعَلَ يَنْظُرُ فِيهِ، فَقالَ: " اذْهَبُوا بِهِ إلى يَتامى بَنِي فُلانٍ، فَقالَتْ لَهُ صاحَبَتُهُ: خُذْ مِنهُ شَهْوَتَكَ، ثُمَّ نَذْهَبُ بِهِ إلى يَتامى بَنِي فُلانٍ، قالَ: «اذْهَبُوا بِهِ إلى يَتامى بَنِي فُلانٍ، فَإنَّهُ إذا أخَذُوا مِنهُ شَهْوَتَهُمْ، فَقَدْ أخَذْتُ مِنهُ شَهْوَتِي»، فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ، فَكُلُّ ذَلِكَ يَقُولُها مِثْلَ ذَلِكَ

[الجوع لابن أبي الدنيا ١/‏١٧٣]

[الرياض النضرة في مناقب العشرة ٢/‏٣٦٦]


٣١٢١٥- عن أسلم قال قال عمر: لقد خطر على قلبى شهوة السمك الطرى، فرحل يرفأ راحلته وسار أربعا مقبلا ومدبرا واشترى مكتلا، فجاء به وعمد إلى الراحلة فغسلها فأتى عمر، فقال: انطلق حتى أنظر إلى الراحلة، فنظر وقال: نسيت أن تغسل هذا العرق الذى تحت أذنها، عذبت بهيمة فى شهوة عمر، لا والله لا يذوق عمر مكتلك (ابن عساكر) [كنز العمال ٣٥٩٧١]

أخرجه ابن عساكر (٤٤/٣٠١).

[جامع الأحاديث ٢٨/‏٣١٦]


٤٤٣ - حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ قالَ: وأُخْبِرْتُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وهْبٍ قثنا ابْنُ زَيْدِ بْنِ أسْلَمَ، عَنْ أبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، يَعْنِي أسْلَمَ، قالَ: قالَ عُمَرُ بْنُ الخَطّابِ يَوْمًا: لَقَدْ خَطَرَ عَلى قَلْبِي شَهْوَةُ الطَّرِيِّ مِن حِيتانٍ، قالَ: فَيَخْرُجُ يَرْفَأُ فَرَحَلَ راحِلَةً لَهُ، فَسارَ لَيْلَتَيْنِ مُدْبِرًا ولَيْلَتَيْنِ مُقْبِلًا، واشْتَرى مِكْتَلًا فَجاءَ. قالَ: ويَعْمِدُ يَرْفا إلى الرّاحِلَةِ فَغَسَلَها، فَقالَ عُمَرُ: انْطَلِقْ حَتّى أنْظُرَ إلى الرّاحِلَةِ، فَنَظَرَ عُمَرُ ثُمَّ قالَ: نَسِيتَ أنْ تَغْسِلَ هَذا العَرَقَ الَّذِي تَحْتَ أُذُنِها، عَذَّبْتَ بَهِيمَةً مِنَ البَهائِمِ فِي شَهْوَةِ عُمَرَ، لا واللَّهِ لا يَذُوقُهُ عُمَرُ، عَلَيْكَ بِمِكْتَلِكَ.

[فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل ١/‏٣١٩]

لہذا بیان کرنے کی گنجائش ہے۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب


⁦✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات

11/اگست/2020ء بروز منگل


Friday, 9 October 2020

داعی کے ایک بول پر ایک سال کی عبادت کا ثواب

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 47)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:-مولانا! آج کل تبلیغی جماعت میں ایک حدیث گردش کرتی ہے،  اور *مقصد زندگی* نام کی ایک کتاب (جو تقریباً جماعت کے ساتھیوں کے پاس ہوتی ہے) میں بھی مصنفِ کتاب نے اس کو  *کیمیاۓ سعادت* کے حوالے سے صرف اردو ترجمہ نقل کیا ہے۔

لیکن بسیار جستجو کے باوجود بندہ اسکی تحقیق و تخریج نہ کر سکا اور نہ اصل مرجع تک پہنچ سکا حتی کہ  *کیمیاۓ سعادت* میں بھی یہ حدیث نہیں ملی

حدیث ہے *حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے پوچھا کہ اللہ ! آپ داعی کو جنت میں کیا دیں گے ؟ تو فرمایا موسیٰ میں داعی کو اس کے ایک ایک بول پر ایک سال کی عبادت کا ثواب دوںگا۔۔

☝☝یہ حدیث کے الفاظ ہیں 

صرف سوشیل میڈیا پر ایک جگہ مجھے عربی عبارت بغیر حوالہ کے ملی تھی لیکن کہاں ملی تھی یہ میں یاد نہیں رکھ سکا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی میں روایت کے ماخذ تک نہ پہنچ سکا 

وہ الفاظ ہیں *سئل موسى عن ربه،ما أجر الداعى عندك ؟ قال سبحانه وتعالى:بكل كلمة عبادة سنة*

 آپ سے مؤدبانہ التماس ہے دیگر تحقیقات کی طرح اس حدیث کی تخریج و تحقیق اور درجہ بندی پر آپ کی نگاہ ہوجائے

فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔

سائل: محمد بن وصی اللہ بادرگڑھی پالنپوری

فاضل۔۔۔جامعہ امین القرآن پانپور

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ                   الجواب بعون الملک الوھاب:- مذکورہ روایت کو حجۃ الاسلام علامہ غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے "مکاشفۃالقلوب" ( ص ٤٢)میں اس طرح ذکر کیا ہے: 

     "قال موسى يارب: ما جزاء من دعا  أخاه وأمره بالمعروف ونهاہ عن المنكر؟ قال:اکتبه له بكل كلمة عبادة سنة، واستحى أن اعذبه عذبه بناري  ترجمہ۔  موسی علیہ السلام نے کہا:اے رب! اس شخص کی کیا جزاء ہوگی جو اپنے بھائی کو بھلائی کی طرف بلائے اور برائی سے روکے، اللہ تعالی نے فرمایا: میں اس کے ہر لفظ کے بدلے ایک سال کے عبادت لکھ دوں گا، اور مجھے اس بات سے حیاء آتی ہے کہ اسے اپنی آگ سے عذاب دوں۔

           ♦️روایت کا حکم ♦️

            مذکورہ روایت مرفوعاً( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول) سند کے ساتھ ہمیں کہیں نہیں مل سکی، چنانچہ اس روایت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتساب سے بیان کرنا درست نہیں ہے، البتہ بظاہر اسرائیلی روایات ہونے کی بنا پر اسے اسرائیلی روایت کہہ کر بیان کیا جا سکتا ہے۔

مکاشفۃ القلوب کے متعلق 👇👇👇

امام غزالی کی یہ کتاب تزکیہ نفس کے مضامین پر مشتمل ہیں، اور عمدہ کتاب ہے؛ لیکن چونکہ امام غزالی رحمہ اللہ اپنی کتب میں رطب و یابس جمع کر لیتے ہیں جیسے احیاء علوم الدین کا معاملہ ہے، اور انہوں نے خود اپنے بارے میں لکھا ہے " فی النحو والحدیث بضاعۃ مزجاۃ " کہ نحو و حدیث میں میرے پاس سرمایہ کم ہے، لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔

خلاصہ کلام کہ یہ کتاب قابل مطالعہ ہے لیکن اگر کوئی ایسی روایت آ جائے جس کے سلسلے میں تذبذب ہو تو اس کی تحقیق کر لینی چاہئے ۔

     مذکورہ روایت کے مضمون پر مشتمل ایک طویل روایت حافظ ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ نے "حلیۃ الاولیاء"( ج ٦ ص ٤١ حديث رقم 7927 )میں ذکر کی ہے وہ روایت بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا منقول ہے، البتہ اسرائیلی روایات ہے، جسے اسرائیلی روایات کہہ کر بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حدثنا ابو بكر احمد بن السندي ثنا الحسن بن علویة القطان، حدثنا اسماعیل بن عیسی العطار، ثنا اسحاق بن بشر القرشی أبو حذیفة ،عن سعید، عن قتادۃ، عن کعب قال: قال موسی علیہ السلام حین ناجاہ ربه تعالیٰ……....قال: الھی! فما جزاء من دعا نفسا کافرة الی الاسلام؟قال:یاموسی! أجعل له حکماً یوم القیامة فی الشفاعۃ، قال: الھی! فما جزاء من دعا نفسا مؤمنة الی طاعتک ونھاھا عن معصیتک، قال:یا موسی! ھو یوم القیامة فی زمرةالمرسلین..."

   ترجمہ: موسی علیہ السلام نے کہا: جب کہ وہ اپنے رب سے مناجات میں مصروف تھے ... اے رب! اس شخص کی کیا جزاء ہوگی جو کسی کافر شخص کو اسلام کی طرف بلائے؟ فرمایا: اے موسیٰ میں اسے روز قیامت شفاعت کا اہل بنا دوں گا ، کہاں: اے رب! اس شخص کی کیا جزاء ہوگی جو کسی مؤمن کو آپ کی اطاعت کی طرف بلائے اور آپکے معصیت سے روکے؟ فرمایا: اے موسیٰ! قیامت کے دن وہ مرسلین کی جماعت میں  سےہوگا...."۔

نقله مع زيادة: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا گجرات

12/مارچ 2020ء بروز جمعرات

اشراط ساعۃ کے متعلق دو حدیثوں کی تحقیق و تخریج

 (تحقیقات سلسلہ نمبر46)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

(دو احادیث کی تخریج و تحقیق)

سوال:-   مندرجہ ذیل دو احادیث ہیں، ان  کی تخریج و تحقیق مطلوب ہے؟

(١)  518 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ الزَّاهِدُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ التَّغْلِبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْأَعْنَاقِيُّ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ صَوْتٌ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ أَوْ فِي وَسَطِهِ أَوْ فِي آخِرِهِ؟ قَالَ: «لَا، بَلْ فِي النِّصْفِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ لَيْلَةُ جُمُعَةٍ يَكُونُ صَوْتٌ مِنَ السَّمَاءِ يُصْعَقُ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا يَتِيهُ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيَعْمَى سَبْعُونَ أَلْفًا وَيُصَمُّ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيُخْرَسُ فِيهِ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيَنْفَتِقُ فِيهِ سَبْعُونَ أَلْفَ عَذْرَاءَ» قَالُوا: فَمَنِ السَّالِمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَنْ لَزِمَ بَيْتَهُ وَتَعَوَّذَ بِالسُّجُودِ وَجَهَرَ بِالتَّكْبِيرِ» قَالَ: «وَمَعَهُ صَوْتٌ آخَرُ فَالصُّوتُ - الْأَوَّلُ صَوْتُ جِبْرِيلَ، وَالصَّوْتُ الثَّانِي صَوْتُ الشَّيْطَانِ، فَالصُّوتُ فِي رَمَضَانَ، وَالْمَعْمَعَةُ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَيُغَارُ عَلَى الْحَاجِّ فِي ذِي الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَأَمَّا الْمُحَرَّمُ أَوَّلُهُ بَلَاءٌ وَآخِرُهُ فَرَجٌ عَلَى أُمَّتِي، رَاحِلَةٌ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ يَنْجُو عَلَيْهَا الْمُؤْمِنُ خَيْرٌ مِنْ دَسْكَرَةٍ تَغُلُّ مِائَةَ أَلْفٍ»

[أبو عمرو الداني، السنن الواردة في الفتن للداني، ٩٦٩/٥]

(٢)   «إِذَا كَانَتْ صَيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهُ يَكُونُ مَعْمَعَةٌ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِيِ الْقَعْدَةِ، وَتُسْفَكُ الدِّمَاءُ فِي ذِيِ الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَمَا الْمُحَرَّمُ» ، يَقُولُهَا ثَلَاثًا، «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ، يُقْتَلُ النَّاسُ فِيهَا هَرْجًا هَرْجًا» قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الصَّيْحَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هَدَّةٌ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ لَيْلَةَ جُمُعَةٍ، فَتَكُونُ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ، وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ، وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهِنَّ، فِي لَيْلَةِ جُمُعَةٍ، فِي سَنَةٍ كَثِيرَةِ الزَّلَازِلِ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْفَجْرَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَادْخُلُوا بُيُوتَكُمْ، وَاغْلِقُوا أَبْوَابَكُمْ، وَسُدُّوا كُوَاكُمْ، وَدِثِّرُوا أَنْفُسَكُمْ، وَسُدُّوا آذَانَكُمْ، فَإِذَا حَسَسْتُمْ بِالصَّيْحَةِ فَخِرُّوا لِلَّهِ سُجَّدًا، وَقُولُوا: سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، رَبُّنَا الْقُدُّوسُ، فَإِنَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ نَجَا، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ هَلَكَ "

[نعيم بن حماد المروزي، الفتن لنعيم بن حماد، ٢٢٨/١] 

ان دو احادیث کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ 

فقط والسلام مع الاحترام

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- اولا ان دو احادیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں 👇

حدیث نمبر (١) ابن دیلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان المبارک میں ایک آواز ہوگی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا: یا رسول اللہ وہ آواز رمضان کے شروع میں ہوگی یا درمیان میں یا آخر میں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ رمضان کے نصف میں، جب نصف رمضان جمعہ کی رات ہوگی تو آسمان سے ایک آواز ہوگی، جس سے ستّر ہزار لوگ گونگے،ستّر ہزار لوگ بھٹک جائینگے ،ستّر ہزار لوگ بہرے ہو جائینگے اور ستّر ہزار لوگوں کی گویائی سلب ہو  جائیگی  اور ستّر ہزار کنواری لڑکیوں کے پردہ بکارت زائل ہو جائیں گے۔۔

صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ پھر صحیح سالم کون رہیگا؟؟آپ نے فرمایا کہ جو اپنے گھر کو لازم پکڑے گا اور سجدوں میں اپنے رب سے پناہ طلب کریگا  اور باواز بلند تکبیر کہیگا

آپ نے فرمایا کہ ساتھ میں ایک اور آواز ہوگی ۔۔

پہلی آواز حضرت جبرئیل کی ہوگی

دوسری آواز شیطان کی ہوگی

پس وہ آواز تو رمضان میں ہوگی اور جنگ و جدال(شور و ہنگامہ) شوّال میں ہوگا اور ذی قعدہ میں قبائل میں تفریق ہوگی اور ذی الحجہ اور محرم میں حاجیوں پر دھاوا بول دیا جائے گا اور جہاں تک محرم کے اوائل کا تعلق ہے تو اُن ایّام میں مصیبتیں آ پڑیں گی اور محرم کے اواخر میں میری امت کے لیے فراوانی ہوگی اس وقت کی ایک معمولی سواری جس پر بیٹھ کر ایک مومن نجات حاصل کریگا اور بہتر ہوگی اس ہموار زمین سے جس میں ایک ہزار سال تک وہ بھٹکتا رہے ۔۔

[أبو عمرو الداني، السنن الواردة في الفتن للداني، ٩٦٩/٥]

حدیث نمبر (٢) جب رمضان میں ایک چیخ ہوگی تو شوّال میں شور و غوغا ہوگا اور ذی قعدہ میں قبائل کے ما بین تفرقہ بازی ہوگی اور ذی الحجہ اور محرم میں خون کی ندیاں بھے گی اور محرم کیا ہے آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا

دوری ہو دوری ہو  جس میں لوگوں کے بے دریغ قتل کیا جائے گا ۔

راوی فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ چیخ کیا ہوگی؟؟ نصف رمضان جمعہ کی رات میں ایک زوردار آواز ہوگی وہ آواز سوئے ہوئے کو بیدار کر دیگی اور کھڑے ہوئے کو بیٹھنے پر مجبور کر دیگی اور آزاد عورتوں کو انکی کوٹھریوں سے نکال دیگی جس سال کثرت سے زلزلے ہونگے اس سال شب جمعہ میں پس جب آپ جمعہ کے دن فجر کی نماز ادا کر لو تو اپنے گھروں میں داخل ہو جانا اور دروازے بند کر دینا اور آنکھیں بند کر لینا اور کمبل اوڑھ لینا اور کان بند کر لینا پھر جب تمہیں ایک چیخ کا احساس ہو تو اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جانا اور تم کہتے رہنا  کہ پاک ہے وہ ذات جو قدوس ہے پاک ہے وہ ذات جو قدوس ہے ہمارا رب پاک ہے اسلئے کہ حقیقت یہ ہے کہ جس نے ایسا کیا اس نے نجات پائی اور جو ایسا نہیں کریگا وہ ہلاک ہو جائیگا۔۔۔

[نعيم بن حماد المروزي، الفتن لنعيم بن حماد، ٢٢٨/١]

ثانیاً  ان دو احادیث کی تحقیق و تخریج ملاحظہ فرمائیں 👇

 (1) مجمع الزوائد للهيثمي (٧‏/٣١٣) وقال:  فيه عبد الوهاب بن الضحاك وهو متروك‏‏،   أخرجه ابن أبي عاصم في «الآحاد والمثاني» (٢٦٨٢) باختلاف يسير،

 والطبراني (١٨/٣٣٢) (٨٥٣)، 

والداني في «السنن الواردة في الفتن» (٥١٨)،

 جامع المسانيد والسنن لابن كثير (٨٧٦٢) فيه غرابة ونكارة. 

الجورقاني (ت ٥٤٤)، الأباطيل والمناكير للجورقاني ( ٢‏/١٠٥) منكر.

موضوعات ابن الجوزي لابن الجوزي ( ٣‏/٤٦٢) لا يصح.

ثم قال الشيخ الألباني رحمه الله - : موضوع ، أخرجه الطبراني في "المعجم الكبير" (18/332/853) ، ومن طريقه ابن الجوزي في "الموضوعات ، (3/ 191) من طريق عبد الوهاب بن الضحاك : ثنا إسماعيل بن عياش ، عن الأوزاعي ، عن عبدة بن أبي لبابة ، عن فيروز الديلمي ...مرفوعاً . وقال ابن الجوزي : "هذا حديث لا يصح ، قال العقيلي : عبد الوهاب ليس بشيء . وقال ابن حبان : كان يسرق الحديث ؛ لا يحل الاحتجاج به . وقال الدارقطني : منكر الحديث . وأما إسماعيل : فضعيف . وعبدة لم ير فيروزاً ، وفيروز لم ير رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " انتهى باختصار.

" السلسلة الضعيفة " (رقم/6178، 6179) 

(2) أن هذا الحديث مُنكرٌ لا تصحُّ نسبته إلى سيِّدنا رسول الله ﷺ، وحَكَمَ عليه بعض العلماء بالوضع والكذب كالإمام العقيليّ، والإمام ابن الجوزيّ، والإمام ابن القيم، والإمام الذهبيّ رحمهم الله، وغيرهم.

خلاصۂ کلام:- پہلی روایت انتہائی ضعیف ہے، اور دوسری روایت موضوع اور من گھڑت۔ لہذا بیان،اور نشر واشاعت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ کوئی قابل اصلاح چیز ہو تو کمینٹ بوکس میں ضرور لکھیں۔۔۔۔

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب

⁦✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات ( الھند) 

مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات۔

10/ اکتوبر 2020ء بروز سنیچر

Thursday, 8 October 2020

مصنف عبدالرزاق کی ایک حدیث کی تحقیق

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 45)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- درج ذیل حدیث کی متناً وسنداً تحقیق مطلوب ہے؟

"عبد الرزاق: عن الثوري، عن أبي الزبير، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال :ترك الصلاة شرك"

ترجمہ:- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کا چھوڑنا شرک ہے۔

اس حدیث کی متناً و سنداً تحقیق مطلوب ہے؟

فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- *اولاً حدیث بالا کی متناً تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇

(1)رقم الحدیث:  ۷۶۸۳ - حدثنا محمد بن موسی : نا الحسين بن العباس الإصطخري : نا الكرماني ابن عمرو : نا مَندل بن علي : انا ليث بن أبي سليم : عن عطاء عن جابر ، قال : قال رسول الله عليه وسلم بين العبد و بين الكفر ترك الصلاة و بین العبد وبين الشرك ترك الصلاۃ۔ 

(المعجم الأوسط للطبراني ج.٧ ص.٣٤٥)

 (مطبوعہ: دار الحرمین بالقاهرة)

وقال: لم يروى هذا الحديث عن ليث عن عطاء الا مندل بن علي، تفرد به الكرماني بن عمرو۔

(2) رقم الحدیث: ٥٦٨  عن أنس بن مالك، بين العبدِ والكفرِ أو الشركِ تركُ الصلاةِ، فإذا ترك الصلاةَ فقد كفر۔

(صحيح الترغيب والترهيب للألباني ص.٣٦٧ ح.٥٦٨)

(مطبوعہ: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع.رياض)

(3) رقم الحدیث:  ٢٤٦ - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ  كِلَاهُمَا، عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ يَحْيَى : أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرًا  يَقُولُ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصلاة۔

(صحيح مسلم ج.١ ص.٢٩٠)

(مطبوعہ:مكتبة البشري ،كراتشي،باكستان)

 (4) رقم الحدیث: ٢٤٧ - حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ  ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ  يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ :  "بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ ".

(صحيح مسلم ج.١ ص.٢٩١)

(مطبوعہ: مكتبة البشري،كراتشي،باكستان)

(5) رقم الحدیث: ٤١٢٦ - حدثنا علي قال نا ابو كريب،قال نا مصعب بن المقدام قال نا سعيد ابن بشير عن قتادة عن سليمان بن يسار،عن جابر بن عبد الله ، قال : قال رسول الله : ما بين الرجل و الشرك والكفر إلا ترك الصلاة۔

(المعجم الأوسط للطبراني ج.٤ ص.٢٥٥) 

(مطبوعہ:دار الحرمين بالقاهرة)

(6) رقم الحدیث: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، حَدَّثَنَاوَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ  قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ ".

(سنن أبي داود ج.٢ ص.٢٩٨)

(مطبوعہ: مکتبۂ رحمانیہ ، لاہور ، پاکستان)

(7) رقم الحدیث:  ٢٦١٨ ۔ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ،وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ  أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ  أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :  " بَيْنَ الْكُفْرِ وَالْإِيمَانِ تَرْكُ الصَّلَاةِ 

(8) رقم الحدیث: ٢٦١٩ حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَقَالَ : " بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ - أَوِ الْكُفْرِ - تَرْكُ الصَّلَاةِ ". هَذَا حَدِيثٌ  حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ.

(سنن الترمذي ج. ٢ ص.٢٤٦)

(مطبوعہ: الطاف اینڈ سنز،کراچی،پاکستان)

(9) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَامُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْأَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ  قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :  " لَيْسَ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ إِلَّا تَرْكُ الصَّلَاةِ۔

(سنن النسائي ج.١ ص.٨١) 

(مطبوعہ:قدیمی کتب خانہ مقابل آرام گاہ،کراچی،پاکستان)

(10) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْأَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ

(سنن أبن ماجه ج.١ ص.٧٥)

(مطبوعہ:قدیمی کتب خانہ مقابل آرام گاہ ، کراچی ، پاکستان)

(11) رقم الحدیث:  ١٥٠٤٢ - حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَاأَبُو إِسْحَاقَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ  أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ - أَو الشِّرْكِ - تَرْكُ الصَّلَاةِ ".

حكم الحديث: إسناده قوي على شرط مسلم

(مسند الإمام أحمد بن حنبل ص.١٠٤٦) 

(مطبوعہ: بیت الأفكار الدولية.رياض)

* ثانیاً سوال مذکور کی حدیث کی سنداً تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇

* سائل کا کہنا ہے:امام عبدالرزاق۔۔۔۔ سفیان ثوری۔۔۔ ابو زبیر المکی ۔۔۔۔سب مدلس ہیں اور عنعنہ ھے،  ساری سند ھی میں تدلیس ۔۔۔۔۔۔ چار راوی اور تین مدلس۔ تو روایت کا درجہ کیا ہوگا؟ 

جواب:- عبد الرزاق تھذیب التھذیب کے مطابق سفیان سے نقل کرتے ہیں 

اسی طرح سفیان ابو الزبیر سے 

سفیان اگرچہ مدلس ہیں لیکن ان کی تدلیس قابل تحمل ہے

ابو الزبیر کا شمار بھی حضرت جابر کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ تفصیلی جواب 👇

& سند میں تین راوی ہیں۔

عبد الرزاق،سفیان ثوری،ابو زبیر

ان میں سے عبد الرزاق کا سماع سفیان ثوری سے ثابت ہے۔

(1)  قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللہ فی تھذیب التھذیب:(عبدالرزاق بن همام بن نافع الحميري) روی عن:......والسفيانین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(تهذيب التهذيب ج.٢ ص.٥٧٢)

(مطبوعہ: مؤسسة الرسالة)

👆اسے ملاحظہ فرمائیں اس میں عبد الرزاق کے شیوخ کے اسماء گرامی ہیں جن میں سے ایک سفیان بھی ہے اس سے مراد وہی سفیان ثوری  ہے۔ 

 اور سفیان ثوری کا مراد ہونا بھی ابن حجر رحمہ اللہ کا سفیان ثوری کے تعارف میں مذکور ایک عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔روى عنه: خلق لا يحصون منهم۔۔۔۔۔۔۔۔وابو زبیر۔۔۔۔۔۔۔

(تهذيب التهذيب ج.٢ ص.٥٦،٥٧)

(مطبوعہ:مؤسسة الرسالة)

👆اس عبارت کو ملاحظہ فرمائیں اس میں سفیان ثوری کے تلامذہ کے اسماء گرامی ہیں ان میں سے ایک عبد الرزاق ہے لہذا معلوم ہوا کہ عبد الرزاق کا سماع سفیان سے ثابت ہے۔

 (2)  سفیان ثوری رحمہ اللہ کا سماع ابو الزبیر رحمہ اللہ سے ثابت ہے۔

قال الحافظ: روی عن :۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأبي الزبير۔۔۔۔۔۔۔۔ ح

(تهذيب التهذيب ج.٢ص.٥٦)

(مطبوعہ: مؤسسة الرسالة)

اس میں ایک نام ابو زبیر کا ہے لہذا سفیان کا ابو زبیر سے سماع ثابت ہے۔

*اب یہ دیکھیں کہ سفیان کس درجہ کے راوی ہے تو واضح رہے کہ بعضوں نے انکو مدلسین وغیرہ میں شمار کیا ہے لیکن ان اقوال کا کوئی اعتبار نہیں۔

قال العلامة الذھبی: سفيان بن سعيد الحجة الثبت، متفق عليه، مع انه كان يدلس عن الضعفاء، ولكن له نقد وذوق، ولا عبرة لقول من قال: كان يدلس ويكتب عن الكذابين.

(ميزان الإعتدال في نقد الرجال ج.٢ ص.١٦٠)

(مطبوعہ: دار الرسالة العالمية،دمشق،الحجاز)

(3) ابو زبیر کا سماع حضرت جابر سے ثابت ہے۔

قال العلامة الذهبی: روايته عن عائشة وابن عباس في الكتب إلا البخاري، وروايته عن ابن عمر في مسلم،وروايته عن عبد بن عمرو السهمي في كتاب ابن ماجه، وأكثر عن جابر وطائفة.

(ميزان الإعتدال في نقد الرجال ج.٤ ص.٢٦٦)

(مطبوعہ:دار الرسالة العالمية ، دمشق ، الحجاز)

لہذا ان کا سماع بھی حضرت جابر سے ثابت ہے۔

خلاصۂ کلام:- حدیث بالا میں اگرچہ سفیان ثوری رحمہ اللہ مدلس ہے لکین ان کی تدلیس قابل تحمل ہے،( کما مرّ) اور عنعنہ بھی ہے لکین چونکہ تمام رواۃ کا ایک دوسرے سے سماع ثابت ہے، لہذا کوئی حرج نہیں۔ 

فقط والسلام

و اللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم

جمعه و رتبه:ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

09/ اکتوبر 2020ء بروز جمعہ

Tuesday, 6 October 2020

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا جانتے تھے؟

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 44)

(هل كتب النبي صلى الله عليه وسلم الكتابة بعد نزول الوحي)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

◾سوال:- بخاری شریف کی حدیث میں ہے

*و قد کتب النبی ﷺ "من محمد رسول اللہ الی ھرقل عظیم الروم..."  البخاری ۵:۱*

نیز دوسری جگہ ہے 

*و قد کتب النبی ﷺ فی صلح الحدیبیۃ" ھذا ما قاضی علیہ محمد ﷺ۔۔۔ "  البخاری ص ۳۷۲*

*(الفوز الکبیر ص ۸۸)*

ان جیسی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سے کتابت کرنا یعنی لکھنا ثابت ہے، جبکہ یہ بات مشہور ہے کہ آپ ﷺ تو امی تھے تو سوال یہ ہے کہ پھر آپ ﷺ نے لکھا کیسے؟ 

برائے مہربانی تسلی بخش جواب دے کرعند اللہ ممنون و مشکور ہوں 

◾سائل : محمد عادل بھاونگری 

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:-اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے محبوب ﷺ کو اس دار فانی میں امی بنا کر بھیجا ، نہ وہ لکھنا جانتے تھے اور پڑھنا جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے فرقان حمید میں ارشاد فرمایا:

🔹وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذاً لارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ [العنكبوت:48].

ترجمہ:- اور تم اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھےاور نہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ، اگر ایسا ہوتا تو یہ جھوٹے لوگ شک میں پڑتے۔

🔹قال تعالى: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [الجمعة:2].

ترجمہ:- اللہ وہ ذات ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا ، جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں، اور ان کو پاکیزہ بنائیں، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں، جب کہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوے تھے۔

🔹وقال تعالى: لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [آل عمران:164].

ترجمہ:- حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے ، انہیں پاک صاف بنائیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے جب کہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ 

⬛واقعہ صلح حدیبیہ میں کتابت رسول کی تفصیل درج ذیل ہے۔

واقعہ صلح حدیبیہ کی حدیث جس میں کتابت رسول کا ذکر ہے ملاحظہ فرمائیں 👇

 ١- [عن البراء بن عازب:] لَمّا اعْتَمَرَ النبيُّ ﷺ في ذِي القَعْدَةِ، فأبى أهْلُ مَكَّةَ أنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ، حتّى قاضاهُمْ على أنْ يُقِيمَ بها ثَلاثَةَ أيّامٍ، فَلَمّا كَتَبُوا الكِتابَ، كَتَبُوا: هذا ما قاضى عليه مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ، قالوا: لا نُقِرُّ لكَ بهذا، لو نَعْلَمُ أنَّكَ رَسولُ اللَّهِ ما مَنَعْناكَ شيئًا، ولَكِنْ أنْتَ مُحَمَّدُ بنُ عبدِ اللَّهِ، فقالَ أنا رَسولُ اللَّهِ، وأنا مُحَمَّدُ بنُ عبدِ اللَّهِ، ثُمَّ قالَ: لِعَلِيِّ بنِ أبِي طالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عنْه: امْحُ رَسولَ اللَّهِ، قالَ عَلِيٌّ: لا واللَّهِ لا أمْحُوكَ أبَدًا، فأخَذَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ الكِتابَ، وليسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، فَكَتَبَ: هذا ما قاضى عليه مُحَمَّدُ بنُ عبدِ اللَّهِ، لا يُدْخِلُ مَكَّةَ السِّلاحَ إلّا السَّيْفَ في القِرابِ، وأَنْ لا يَخْرُجَ مِن أهْلِها بأَحَدٍ إنْ أرادَ أنْ يَتْبَعَهُ، وأَنْ لا يَمْنَعَ مِن أصْحابِهِ أحَدًا، إنْ أرادَ أنْ يُقِيمَ بها. فَلَمّا دَخَلَها ومَضى الأجَلُ أتَوْا عَلِيًّا، فقالوا: قُلْ لِصاحِبِكَ: اخْرُجْ عَنّا، فقَدْ مَضى الأجَلُ، فَخَرَجَ النبيُّ ﷺ، فَتَبِعَتْهُ ابْنَةُ حَمْزَةَ، تُنادِي يا عَمِّ يا عَمِّ، فَتَناوَلَها عَلِيٌّ فأخَذَ بيَدِها، وقالَ لِفاطِمَةَ عليها السَّلامُ: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ حَمَلَتْها، فاخْتَصَمَ فيها عَلِيٌّ وزَيْدٌ وجَعْفَرٌ، قالَ عَلِيٌّ: أنا أخَذْتُها، وهي بنْتُ عَمِّي، وقالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وخالَتُها تَحْتِي، وقالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أخِي. فَقَضى بها النبيُّ ﷺ لِخالَتِها، وقالَ: الخالَةُ بمَنْزِلَةِ الأُمِّ وقالَ لِعَلِيٍّ: أنْتَ مِنِّي وأنا مِنْكَ وقالَ لِجَعْفَرٍ: أشْبَهْتَ خَلْقِي وخُلُقِي، وقالَ لِزَيْدٍ: أنْتَ أخُونا ومَوْلانا، وقالَ عَلِيٌّ: ألا تَتَزَوَّجُ بنْتَ حَمْزَةَ؟ قالَ: إنَّها ابْنَةُ أخِي مِنَ الرَّضاعَةِ.( صحیح البخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء رقم الحدیث : 4251)

حدیث بالا میں ہے:  فأخَذَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ الكِتابَ، وليسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، فَكَتَبَ: هذا ما قاضى عليه مُحَمَّدُ بنُ عبد الله

اللہ کے رسول ﷺ نے معاہدے کا کاغذ لیا اور آپ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے، آپ نے لکھا : یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ نے فیصلہ کیا ہے۔

علامہ ابن حجر العسقلانی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کے ماتحت لکھا ہے: » وقد تمسك بظاهر هذه الرواية أبو الوليد الباجي، فادعى أن النبي صلى الله عليه وسلم كتب بيده بعد أن لم يكن يحسن يكتب ، فشنع عليه علماء الأندلس في زمانه ورمواه بالزندقة ، وأن الذي قاله يخالف القرآن حتى قال قائلهم : برئت من شري دنيا بآخرة    وقال إن رسول الله قد كتبا، فجمعهم الأمير فاستظهر الباجي عليهم بما لديه من المعرفة وقال للأمير : هذا لا ينافي القرآن ، بل يؤخذ من مفهوم القرآن لأنه قيد النفي بما قبل ورود القرآن فقال وماكنت تتلو من قبله من كتاب ولا تخطه بيمينك وبعد أن تحققت أمنيته وتقررت بذلك معجزته وأمن الارتياب في ذلك لا مانع من أن يعرف الكتابة بعد ذلك من غيرتعليم فتكون معجزة أخرى . وذكر ابن دحية أن جماعة من العلماء وافقوا الباجي في ذلك ، منهم شيخه أبو ذرالهروي وأبو الفتح النيسابوري وآخرون علماء إفريقية وغيرها۔

(◾فتح الباری ( ج 7 ، ص 575 ت 576 )

 ”طبع علی نفقۃ صاحب السمو الملکی الامیر سلطان بن عبد العزیز آل سعود )

ترجمہ:- س روایت کے ظاہر سے ابو الولید کا استدلال کرتے ہوئے یہ دعوی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے تحریر فرمایا جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح کتابت کرنا نہیں جانتے تھے،

ان کی اس بات پران کے ہم عصر علماء اندلس نے ان کو بڑی تنقیدوں کا نشانہ بنایا اور ان کا شمار زنادقہ میں کر دیا، اور  ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو بھی اس کے علاوہ دوسری بات کہتا ہے وہ آیت قرآنی کے مخالف ہے۔۔حتی کہ ان کی رائے کے قائلین میں سے کسی نے یہ بھی فرمایا ہے: 

برئت من شري دنيا بآخرة   و قال إن رسول الله قد كتبا

(میں دنیا کا سودا آخرت کے بدلہ میں کرنے سے بری ہو گیا،

اور کہا کہ یقینا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا ہے)

چنانچہ امیر نے ان تمام علماء کو جمع کیا تو باجی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معرفت کے ذریعہ تمام پر غالب آ گیے اور انہوں نے امیر سے عرض کیا کہ یہ قرآن کے منافی نہیں،بلکہ مفہوم قرآنی سے ماخوذ ہےاس لیے کہ قرآن مجید نے نفی کی قید کو نزول قرآن سے قبل کے ساتھ مقید کیا ہے چنانچہ قرآن مجید نے کہا۔۔وما كنت تتلوا من قبله من كتاب و لا تخطه بيمينك۔۔۔۔۔۔۔الخ

ترجمہ۔اور تم اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے اور نہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔

لہذا اللہ تعالی کی چاہت پوری ہو جانے کے بعد اور آپ علیہ السلام کا معجزہ(یہ کہ آپ امی ہونے کے باوجود ایسا فصیح و بلیغ کلام قرآن مجید پڑھتے اور لوگوں کو سناتے)ظاہر ہونے کے بعد اس بات سے کوئی چیز مانع نہیں کہ آپ اس کے بعد بغیر کسی کے سکھائے آپ کتابت جانتے ہو اور وہ بھی ایک اور معجزہ ہو جائے۔ابن دحیہ وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ علماء کی ایک جماعت نے باجی رحمت اللہ علیہ سے اس باب میں اتفاق کر لیا تھا جن میں سے شیخ ابوذر ہروی،ابو فتح نیساپوری اور دوسرے بہت سے افریقی علماء کرام ہیں۔۔۔

◾اور آگے لکھتے ہے:

واحتج بعضهم لذلك بما أخرجه ابن أبي شيبةوعمر بن شبة من طريق مجاهد عن عون بن عبدالله قال « ما مات رسول الله صلی الله عليه وسلم حتى كتب وقرأ » قال مجاهد : فذكرته للشعبى فقال صدق قد سمعت من يذكر ذلك 

ترجمہ:- اور بعض حضرات نے اس بات سے دلیل قائم کی ہے جس کی  ابن ابی شیبہ اور عمر بن شبہ نے تخریج کی ہے مجاھد کے طریق سے اور انہوں نے عون بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے تو عون بن عبداللہ نے فرمایا کہ : اللہ کے رسول ﷺ نے وفات نہیں پائی یہاں تک کہ آپ نے لکھا اور پڑھا.  حضرت مجاہد نے فرمایا : میں نے اس بات کا ذکر امام شعبی سے کیا تو انہوں نے کہا کہ درست ہے میں نے اس کو بیان کرنے والوں کو سنا ہے ( حوالہ سابق) 

کتاب المغازی میں علامہ بدر الدین العینی الحنفی علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے: 

قوله: «وليس يحسن يكتب»، أي: والحال أن النبي ع ليس یحسن الكتابة «هذاما قاضی». (فإن قلت) قال الله تعالى[: الرسول النبي الأمي. الأعراف: ۱۰۷] والأمي لا یحسن الكتابة، فكيف كتب؟ (قلت): فيه أجوبة.

 (الأول): أن الأمي من لا يحسن الكتابة ،لا يكتب.

(الثاني: أن الإسناد فيه مجازي، إذ هو الآمر بها. وقال السهيلي: والحق أن قوله: فكتب، أي: أمر عليا  أن يكتب. قلت: هو بعينه الجواب الثاني.

(الثالث: أنه كتب بنفسه خرقة للعادة على سبيل المعجزة۔

◾عمدۃ القاری فی شرح البخاری ( ج16، ص351) مطبوعہ” مکتبہ دار الکتاب العلمیۃ بیروت لبنان“

 خلاصۂ ترجمہ:- اللہ تعالی نے فرمایا : رسول امی ۔ اور امین تو اچھی طرح لکھنا نہیں جانتا تو آپ نے کیسے لکھا؟ 

میں نے کہا اس کی چند وجوہات ہیں 

1:امی وہ نہیں جسے بلکل لکھنا نہ آتا ہو بلکہ امی وہ ہے جسے اچھی طرح لکھنا نہ آتا ہو ( لہذا اللہ کے رسول ﷺ کو لکھنا آتا تھا مگر اچھی طرح نہیں) 

2: اسناد مجازی ہے یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے لکھا نہیں مگر حکم دیا، اور سھیلی نے کہا کہ فکتب کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ لکھے 

3:اللہ کے رسول ﷺ نے بذات خود لکھا ہے خرق عادت کے طور پر بطور معجزہ۔

 علامہ آلوسی علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے:  ورَأيْتُ في بَعْضِ الكُتُبِ، ولا أدْرِي الآنَ أيَّ كِتابٍ هو أنَّهُ صَلّى اللَّهُ تَعالى عَلَيْهِ وسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْرَأُ ما يَكْتُبُ، لَكِنْ إذا نَظَرَ إلى المَكْتُوبِ عَرَفَ ما فِيهِ بِإخْبارِ الحُرُوفِ إيّاهُ عَلَيْهِ الصَّلاةُ والسَّلامُ عَنْ أسْمائِها، فَكُلُّ حَرْفٍ يُخْبِرُهُ عَنْ نَفْسِهِ أنَّهُ حَرْفُ كَذا، وذَلِكَ نَظِيرُ إخْبارِ الذِّراعِ إيّاهُ صَلّى اللَّهُ تَعالى عَلَيْهِ وسَلَّمَ بِأنَّها مَسْمُومَةٌ۔ وأنْتَ تَعْلَمُ أنَّ مِثْلَ هَذا لا يُقْبَلُ بِدُونِ خَبَرٍ صَحِيحٍ، ولَمْ أظْفَرْ بِهِ. 

◾روح المعانی ( ج 11، ص 6) 

مطبوعہ ” مکتبہ دار الکتاب العلمیۃ بیروت لبنان 

ترجمہ:- آلوسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہے کہ : میں نے بعض کتابوں میں پڑھا اور مجھے اس وقت معلوم نہیں کی وہ کونسی کتاب ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ لکھی ہوئی چیزوں کو نہیں پڑھ سکتے تھے ، لیکن جب آپ ﷺ کسی لکھی ہوئی چیز پر نظر ڈالتے تو آپ پہچان لیتے کہ کیا لکھا ہوا ہے، اس وجہ سے کہ ہر حرف آپ ﷺ خبر دیتا کہ وہ کونسا حرف ہے، اس کی مثال : جانور کی پنڈلی کا اس کے مسموم ہونے کی خبر دینے کا واقعہ آپ تو جانتے ہی ہے کہ اس جیسی باتوں کو خبر صحیح کے بغیر قبول نہیں کیا جاسکتا اور اس معاملہ میں مجھے کامیابی نہ ملی۔ 

حافظ ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر القریشی الدمشقی نے سورہٴ عنکبوت کی آیت نمبر 48 وما كنت تتلوا من قبله الاخ……  کے ماتحت یہ بات لکھی ہے:

وهكذا کان، صلوات الله وسلامه عليه دائما ابدا الی یوم القیامۃ،لایحسن  الكتابةولا ویخط  سطرا ولا حرفاً بیدہ،بل كان لہ كتّاب یکتبون بين يديه الوحي والرسائل إلى الأقاليم.

 ومن زعم من متأخری الفقهاء کالقاضي أبي الوليد الباجي ومن تابعه أنه عليه السلام  كتب يوم الحديبية : "هذا ما قاضی علی محمد بن عبد لله"

فانما  حمله على ذلك رواية في صحيح البخاري: "ثم أخد

فكتب": وهو محمولة على الرواية الأخرى: "ثم أمر فكتب"

ولهذا اشتد النکیر بين فقهاء المغرب والمشرق على من قال

بقول الباجي، وتبرؤوا منه، وأنشدوا في ذلک أقوالا وخطبوا به في محافلهم: وإنما أراد الرجل - أعني الباجي، فيما يظهر عنه -كتب ذلک على وجه المعجزة، لا أنه كان يحسن الكتابة، کماقال، عليه الصلاه والسلام  إخبارا عن الدجال : "مكتوب بين عینیہ کافر " وفي رواية : "ك في ر، يقرﺅها كل مؤمن  وما اوردہ بعضهم من الحديث أنه لم يمت، عليه السلام حتى تعلم الكتابة، فضعيف لا أصل له  

◾تفسیر ابن کثیر ( ج 5 ، ص 55 ت 56 )

 مطبوعہ” دار الکتاب العربی بیروت لبنان “

خلاصۂ ترجمہ:-ابن کثیر رحمۃ اللہ لکھتے ہے:  

اللہ کے رسول ﷺ اچھی طرح کتابت کرنا نہیں جانتے تھے اور آپ نے کبھی اپنے ہاتھوں سے نہ کوئی سطر لکھی ہے اور کوئی حرف ، بلکہ آپ کے پاس تو کاتبین موجود تھیں جو وحی اور پیغامات کو لکھتے تھے۔ 

اور متاخرین فقہاء میں سے جیسے قاضی ابو الولید الباجی اور ان کے متبعین  کا عدویٰ ہے کہ آپ ﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر 

”ھذا ما قاضی علیہ محمد بن عبد اللہ “ لکھا ہے 

بلاشبہ انہوں نے  اس بات کو صحیح بخاری کی روایت ” ثم اخذ فکتب “ پر محمول کیا ہے، حالانکہ اس کا حمل ایک دوسری روایت  ” ثم امر فکتب“ پر ہوتا ہے ، اور وجہ سے مشرق و مغرب کے فقہاء کے درمیان کشمکش بڑھ گئی اس بات پر کہ جس نے بھی باجی کے قول طرفداری کی، اور وہ حضرات ان بری ہو گیے اور ان کے متعلق قیل و قال کرنے لگے                                              اور اس کے بارے میں ان کی محفلوں میں تبصرے ہونے لگے ، اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی شخص ”میری مراد باجی علیہ الرحمۃ ہے “ ایسی بات بیان کرنا چاہتا ہے جو اس پر ظاہر ہوئی تو انہوں نے بطور معجزہ کے اس کو لکھا ہے نہ کہ آپ کو اچھی طرح کتابت کرنا آتا ہے جیسا کہ آپ نبی کریم ﷺ نے دجال کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا اور ایک روایت میں ک ف ر لکھا ہوگا اس کو ہر مومن پڑھ سکیگا 

اور بعض حضرات نے ایک حدیث ذکر کی کہ آپ نبی کریم ﷺ نے وفات نہیں پائی یہاں تک کہ آپ نے کتابت سیکھ لی 

یہ روایت ضعیف ہے کوئی اصل نہیں ہے۔

🔹خلاصۂ بحث:- مذکورہ تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ : آپ نبی کریم ﷺ کا امی ہونا یہ بھی معجزہ ہے اور اس سے مبطلین  کا منھ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا اور امی ہونے کے باوجود لکھنا اور پڑھنا یہ بھی ایک الگ معجزہ ہے اور اس سے آخری نبی کی آخری امت کے لیے تعلیم و تعلم کا پیغام بھی ملا ہے۔ 

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب

كتبه: الطالب عدنان من احمدآباد

جمعه وصححه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند) 

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

06/اکتوبر 2020ء بروز منگل