اشراط ساعۃ کے متعلق دو حدیثوں کی تحقیق و تخریج
(تحقیقات سلسلہ نمبر46)
باسمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(دو احادیث کی تخریج و تحقیق)
سوال:- مندرجہ ذیل دو احادیث ہیں، ان کی تخریج و تحقیق مطلوب ہے؟
(١) 518 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ الزَّاهِدُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ التَّغْلِبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْأَعْنَاقِيُّ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي رَمَضَانَ صَوْتٌ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ أَوْ فِي وَسَطِهِ أَوْ فِي آخِرِهِ؟ قَالَ: «لَا، بَلْ فِي النِّصْفِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ لَيْلَةُ جُمُعَةٍ يَكُونُ صَوْتٌ مِنَ السَّمَاءِ يُصْعَقُ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا يَتِيهُ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيَعْمَى سَبْعُونَ أَلْفًا وَيُصَمُّ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيُخْرَسُ فِيهِ سَبْعُونَ أَلْفًا وَيَنْفَتِقُ فِيهِ سَبْعُونَ أَلْفَ عَذْرَاءَ» قَالُوا: فَمَنِ السَّالِمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَنْ لَزِمَ بَيْتَهُ وَتَعَوَّذَ بِالسُّجُودِ وَجَهَرَ بِالتَّكْبِيرِ» قَالَ: «وَمَعَهُ صَوْتٌ آخَرُ فَالصُّوتُ - الْأَوَّلُ صَوْتُ جِبْرِيلَ، وَالصَّوْتُ الثَّانِي صَوْتُ الشَّيْطَانِ، فَالصُّوتُ فِي رَمَضَانَ، وَالْمَعْمَعَةُ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَيُغَارُ عَلَى الْحَاجِّ فِي ذِي الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَأَمَّا الْمُحَرَّمُ أَوَّلُهُ بَلَاءٌ وَآخِرُهُ فَرَجٌ عَلَى أُمَّتِي، رَاحِلَةٌ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ يَنْجُو عَلَيْهَا الْمُؤْمِنُ خَيْرٌ مِنْ دَسْكَرَةٍ تَغُلُّ مِائَةَ أَلْفٍ»
[أبو عمرو الداني، السنن الواردة في الفتن للداني، ٩٦٩/٥]
(٢) «إِذَا كَانَتْ صَيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهُ يَكُونُ مَعْمَعَةٌ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِيِ الْقَعْدَةِ، وَتُسْفَكُ الدِّمَاءُ فِي ذِيِ الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَمَا الْمُحَرَّمُ» ، يَقُولُهَا ثَلَاثًا، «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ، يُقْتَلُ النَّاسُ فِيهَا هَرْجًا هَرْجًا» قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الصَّيْحَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هَدَّةٌ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ لَيْلَةَ جُمُعَةٍ، فَتَكُونُ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ، وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ، وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهِنَّ، فِي لَيْلَةِ جُمُعَةٍ، فِي سَنَةٍ كَثِيرَةِ الزَّلَازِلِ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْفَجْرَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَادْخُلُوا بُيُوتَكُمْ، وَاغْلِقُوا أَبْوَابَكُمْ، وَسُدُّوا كُوَاكُمْ، وَدِثِّرُوا أَنْفُسَكُمْ، وَسُدُّوا آذَانَكُمْ، فَإِذَا حَسَسْتُمْ بِالصَّيْحَةِ فَخِرُّوا لِلَّهِ سُجَّدًا، وَقُولُوا: سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، رَبُّنَا الْقُدُّوسُ، فَإِنَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ نَجَا، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ هَلَكَ "
[نعيم بن حماد المروزي، الفتن لنعيم بن حماد، ٢٢٨/١]
ان دو احادیث کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟
فقط والسلام مع الاحترام
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:- اولا ان دو احادیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں 👇
حدیث نمبر (١) ابن دیلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان المبارک میں ایک آواز ہوگی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا: یا رسول اللہ وہ آواز رمضان کے شروع میں ہوگی یا درمیان میں یا آخر میں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ رمضان کے نصف میں، جب نصف رمضان جمعہ کی رات ہوگی تو آسمان سے ایک آواز ہوگی، جس سے ستّر ہزار لوگ گونگے،ستّر ہزار لوگ بھٹک جائینگے ،ستّر ہزار لوگ بہرے ہو جائینگے اور ستّر ہزار لوگوں کی گویائی سلب ہو جائیگی اور ستّر ہزار کنواری لڑکیوں کے پردہ بکارت زائل ہو جائیں گے۔۔
صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ پھر صحیح سالم کون رہیگا؟؟آپ نے فرمایا کہ جو اپنے گھر کو لازم پکڑے گا اور سجدوں میں اپنے رب سے پناہ طلب کریگا اور باواز بلند تکبیر کہیگا
آپ نے فرمایا کہ ساتھ میں ایک اور آواز ہوگی ۔۔
پہلی آواز حضرت جبرئیل کی ہوگی
دوسری آواز شیطان کی ہوگی
پس وہ آواز تو رمضان میں ہوگی اور جنگ و جدال(شور و ہنگامہ) شوّال میں ہوگا اور ذی قعدہ میں قبائل میں تفریق ہوگی اور ذی الحجہ اور محرم میں حاجیوں پر دھاوا بول دیا جائے گا اور جہاں تک محرم کے اوائل کا تعلق ہے تو اُن ایّام میں مصیبتیں آ پڑیں گی اور محرم کے اواخر میں میری امت کے لیے فراوانی ہوگی اس وقت کی ایک معمولی سواری جس پر بیٹھ کر ایک مومن نجات حاصل کریگا اور بہتر ہوگی اس ہموار زمین سے جس میں ایک ہزار سال تک وہ بھٹکتا رہے ۔۔
[أبو عمرو الداني، السنن الواردة في الفتن للداني، ٩٦٩/٥]
حدیث نمبر (٢) جب رمضان میں ایک چیخ ہوگی تو شوّال میں شور و غوغا ہوگا اور ذی قعدہ میں قبائل کے ما بین تفرقہ بازی ہوگی اور ذی الحجہ اور محرم میں خون کی ندیاں بھے گی اور محرم کیا ہے آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا
دوری ہو دوری ہو جس میں لوگوں کے بے دریغ قتل کیا جائے گا ۔
راوی فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ چیخ کیا ہوگی؟؟ نصف رمضان جمعہ کی رات میں ایک زوردار آواز ہوگی وہ آواز سوئے ہوئے کو بیدار کر دیگی اور کھڑے ہوئے کو بیٹھنے پر مجبور کر دیگی اور آزاد عورتوں کو انکی کوٹھریوں سے نکال دیگی جس سال کثرت سے زلزلے ہونگے اس سال شب جمعہ میں پس جب آپ جمعہ کے دن فجر کی نماز ادا کر لو تو اپنے گھروں میں داخل ہو جانا اور دروازے بند کر دینا اور آنکھیں بند کر لینا اور کمبل اوڑھ لینا اور کان بند کر لینا پھر جب تمہیں ایک چیخ کا احساس ہو تو اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جانا اور تم کہتے رہنا کہ پاک ہے وہ ذات جو قدوس ہے پاک ہے وہ ذات جو قدوس ہے ہمارا رب پاک ہے اسلئے کہ حقیقت یہ ہے کہ جس نے ایسا کیا اس نے نجات پائی اور جو ایسا نہیں کریگا وہ ہلاک ہو جائیگا۔۔۔
[نعيم بن حماد المروزي، الفتن لنعيم بن حماد، ٢٢٨/١]
ثانیاً ان دو احادیث کی تحقیق و تخریج ملاحظہ فرمائیں 👇
(1) مجمع الزوائد للهيثمي (٧/٣١٣) وقال: فيه عبد الوهاب بن الضحاك وهو متروك، أخرجه ابن أبي عاصم في «الآحاد والمثاني» (٢٦٨٢) باختلاف يسير،
والطبراني (١٨/٣٣٢) (٨٥٣)،
والداني في «السنن الواردة في الفتن» (٥١٨)،
جامع المسانيد والسنن لابن كثير (٨٧٦٢) فيه غرابة ونكارة.
الجورقاني (ت ٥٤٤)، الأباطيل والمناكير للجورقاني ( ٢/١٠٥) منكر.
موضوعات ابن الجوزي لابن الجوزي ( ٣/٤٦٢) لا يصح.
ثم قال الشيخ الألباني رحمه الله - : موضوع ، أخرجه الطبراني في "المعجم الكبير" (18/332/853) ، ومن طريقه ابن الجوزي في "الموضوعات ، (3/ 191) من طريق عبد الوهاب بن الضحاك : ثنا إسماعيل بن عياش ، عن الأوزاعي ، عن عبدة بن أبي لبابة ، عن فيروز الديلمي ...مرفوعاً . وقال ابن الجوزي : "هذا حديث لا يصح ، قال العقيلي : عبد الوهاب ليس بشيء . وقال ابن حبان : كان يسرق الحديث ؛ لا يحل الاحتجاج به . وقال الدارقطني : منكر الحديث . وأما إسماعيل : فضعيف . وعبدة لم ير فيروزاً ، وفيروز لم ير رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " انتهى باختصار.
" السلسلة الضعيفة " (رقم/6178، 6179)
(2) أن هذا الحديث مُنكرٌ لا تصحُّ نسبته إلى سيِّدنا رسول الله ﷺ، وحَكَمَ عليه بعض العلماء بالوضع والكذب كالإمام العقيليّ، والإمام ابن الجوزيّ، والإمام ابن القيم، والإمام الذهبيّ رحمهم الله، وغيرهم.
خلاصۂ کلام:- پہلی روایت انتہائی ضعیف ہے، اور دوسری روایت موضوع اور من گھڑت۔ لہذا بیان،اور نشر واشاعت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ کوئی قابل اصلاح چیز ہو تو کمینٹ بوکس میں ضرور لکھیں۔۔۔۔
فقط والسلام
واللہ اعلم بالصواب
✍️ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات ( الھند)
مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات۔
10/ اکتوبر 2020ء بروز سنیچر
3 Comments:
اگر قابل اصلاح چیز ہو تو کمینٹ بوکس میں ضرور متنبہ فرمائیں۔۔۔
ماشاءاللہ
اشراط ساعۃ کے متعلق کوئی اور تحقیق؟
ارسال کریں؟ مہربانی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجزاکم اللہ تعالیٰ
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home