Friday, 2 October 2020

مساجد میں سب سے پہلے روشنی کس نے کی؟

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 43) 

باسمہ تعالی 

(مسجد نبوی میں سب سے پہلے روشنی کس صحابی رضی اللہ عنہ نے کی؟)

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال: سوشل میڈیا پر ہم نے ایک ورق دیکھا جو ایک معتبر ادارے سے شایع ہوا ہے، اس میں یہ بات لکھی ہے کہ ” حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے مسجد میں روشنی کا انتظام کیا اور بڑی بڑی قندیلیں لٹکائیں ،  چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : اللہ تعالی حضرت عمر کی قبر کو ایسے ہی روشن کردے جیسے آپ نے ہماری مسجدوں کو روشن کردیا" ( مؤطا امام مالک) 

جہاں تک ہمارے محدود علم میں یہ بات آئی ہے اور احادیث مبارکہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے وہ یہ کہ : حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے مسجد میں روشنی کی ہے واللہ اعلم

آپ جناب سے گزارش ہے کہ ایسی وضاحت فرمائیں کہ صحیح بات آشکارا ہوجایے۔  

فقط والسلام مع الاکرام  

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعون الملک الوھاب:- بالا سوال میں جو بات حدیث کے طور پر مؤطا امام مالک کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے وہ ہمیں تلاش بسیار کے بعد بھی اس میں نہیں ملی، ( اگر کسی کو ملے تو وہ ہمیں کمینٹ میں ضرور بتائیں، )  

لیکن احادیث مبارکہ اور کتب تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسجد نبوی میں سب سے پہلے روشنی کرنے والے صحابئ رسول حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ ہے، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی بعض مؤرخین نے پہل کے قول کو نقل کیا۔ 

ہم اولا حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کے متعلق اقوال محدثین ومؤرخین ذکر تے ہے، 

ثانیاً حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق، ارو ثالثاً دونوں کے درمیان مطابق ذکر کردیتے ہے۔  

اولا حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق اقوال ملاحظہ فرمائیں 👇

(1) سنن ابن ماجه | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَالْجَمَاعَاتُ.  | بَابٌ : تَطْهِيرُ الْمَسَاجِدِ، وَتَطْيِيبُهَا

760 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ إِيَاسٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ أَسْرَجَ فِي الْمَسَاجِدِ تَمِيمٌ الدَّارِيُّ .

حكم الحديث: ضعيف جدا

ترجمہ:- مساجد میں سب سے پہلے روشنی کرنے والے صحابئ رسول تمیم داری رضی اللہ عنہ ہے۔

(2)  وهو(التميم الداري رضى الله عنه) أول من أسرج في المسجد. 

أسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير: (1 /215- 216)، الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر: (1 /304- 305)، رقم :(833), الطبقات الکبریٰ لابن سعد :( 408/7)

ترجمہ:- تمیم داری رضی اللہ عنہ وہ سب سے پہلے صحابئ رسول ہے جن ہوں نے مسجد میں چراغ جلائیں۔ 

(3) عن يحيى بن عبدالرحمن بن حاطب عن أبي سعيدٍ الخدريِّ قال: أولُّ من أسرجَ في المساجدِ تميمٌ الداريُّ.

(شرح ابن ماجه لعلاء الدين مغلطاي  ٣‏/١٩٧)    (إسناده ضعيف)

(جامع المسانيد والسنن لابن كثير ٨‏/٧٣٨)  (موقوف)

(4)  عن أبي هريرة قال: أولُ مَن أسرج في المسجدِ تميمٌ الداريُّ رواه الطبراني.

(مجمع الزوائد ٩‏/٣٩٥) فيه خالد بن إلياس وهو متروك‌‏.

  (تخريج سير أعلام النبلاء للارنؤوط ٢‏/٤٤٨) باختلاف يسير  في سنده خالد بن إياس متفق على ضعفه

(5) عن أبي هند الداري عن أبي هِندٍ قال: حملَ تميمُ الدّاريُّ معهُ من الشّامِ إلى المدينةِ قناديلَ وزيتًا ومُقطًا، فلمّا انتَهى إلى المدينةِ وافق ذلكَ يومَ الجمُعةِ فأمرَ غلامًا له يقالُ له أبو البرّادِ فقام فشدَّ المُقطَ وهو بضمّ الميمِ وسكونِ القافِ وهو الحَبلُ وعلَّق القناديلَ وصبَّ فيها الماءَ والزَّيتَ وجعل فيها الفَتلَ، فلمّا غرَبتِ الشَّمسُ أسرجَها، فخرَجَ رسولُ اللَّهِ صلّى اللَّهُ عليهِ وآلِهِ وسلَّمَ إلى المسجِدِ فإذا هو يَزهرُ، فقال: مَن فعلَ هذا؟ قالوا تَميمٌ يا رسولَ اللَّهِ، قال: نوَّرتَ الإسلامَ نوَّرَ اللَّهُ عليكَ في الدُّنيا والآخرَةِ، أما إنَّهُ لو كانَت لي ابنَةٌ لزوَّجتُكها، فقال نوفَلُ بن الحَرِثِ بنِ عبدِ المطَّلِبِ: لي ابنَةٌ يا رسولَ اللَّهِ تُسمّى أمَّ المغيرةِ بنتَ نَوفلٍ، فافعَل فيها ما أردتَ، فأنكَحهُ إيّاها على المكانِ. 

 (الإصابة لابن حجر العسقلاني ٤‏/١٨)  إسناده ضعيف. 

خلاصۂ ترجمہ:- (کمی زیادتی کے ساتھ)

 کتاب الصحابة للمدینی میں ابن قتیبہ کے حوالہ سے یہ تفصیل درج ہے: ”ابوہند کہتے ہیں کہ تمیم داری اپنے ساتھ ملک شام سے روغن زیتون اور قندیل اور رسی (یا زنجیر) لے کر چلے جب مدینہ پہنچے تو اتفاق سے شب جمعہ تھی تمیم داری نے اپنے غلام ابوالبراد کو حکم دیا وہ اٹھا رسی باندھی اور قندیل لٹکائی اس میں پانی اور زیتون کا تیل ڈالا پھر بتی لگائی پھر ابوالبراد سے کہا اسے سلگاؤ چنانچہ اس نے سلگایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ روشنی کس نے کیا؟ صحابہ نے کہا تمیم نے یا رسول اللہ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (دعا دی) نَوَّرْتَ الاسلامَ نَوّرک علیک فی الدنیا والآخرة اما انہ لو کانت لی ابنة لَزوّجْتُکَہا“ یعنی تم نے اسلام کو روشن کردیا اللہ تعالیٰ دارین میں تمہیں نور عطا کرے۔ سنو اگر میرے پاس کوئی بیٹی ہوتی تو ضرور تمہارا اس سے نکاح کرادیتا۔ 

ثانیاًحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق اقوال ملاحظہ فرمائیں 👇

(1) عن أبي إسحاق الهمذاني قال: خرجَ عليُّ بنُ أبي طالبٍ في أوَّلِ ليلةٍ من رمضانَ، فسَمعَ القراءةَ من المساجِدِ، ورأى القَناديلَ تزهرُ، فقالَ: نوَّرَ اللَّهُ لعمرَ بنِ الخطّابِ  قبرَهُ كما نوَّرَ مساجدَ اللَّهِ بالقرآنِ۔

(مسند الفاروق لابن کثیر ١‏/١٨٧)

 منقطع بين أبي إسحاق وعلي

  أخرجه ابن أبي الدنيا في «فضائل رمضان»(۳۰)،وابن بطة في «الإبانة الكبرى» (٧٨) باختلاف يسير۔ 

ترجمہ:- ابو اسحاق ھمدانی سے منقول ہے : حضرت علی کرم اللہ وجہہ رمضان کی پہلی رات نکلے تو انہوں نے مسجد سے قراءت کی آواز سنی اور دیکھا کہ چراغ چمک رہی ہیں،  تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابن خطاب کے لیے ان کی قبر کو منور کردے جس طرح انہوں نے اللہ کے گھر کو قرآن پاک کے لیے منور کر دیا۔

(2)  فلما قدم تميم الداري المدينة صحب معه قناديل وحبالا وزيتا وعلق تلك القناديل بسوارى المسجد وأوقدت فقال صلى الله عليه وسلم (نورت مسجدنا نور الله عليك اما والله لو كان لى بنت لأنكحتها هذا) وفى كلام بعضهم أول من جعل فى المسجد المصابيح عمر بن الخطاب ويوافقه قول بعضهم والمستحب من بدع الافعال تعليق القناديل فيها يعنى المساجد وأول من فعل ذلك عمر بن الخطاب فانه لما جمع الناس على ابى بن كعب رضى الله عنه فى صلاة التراويح علق القناديل فلما رأها على كرم الله وجهه تزهر قال نورت مسجدنا نور الله قبرك يا ابن الخطاب ولعل المراد تعليق ذلك بكثرة فلا يخالف ما تقدم عن تميم الداری ( روح البیان تحت هذه الآية إِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ سورة التوبة 18)  

دونوں باتوں میں تطبیق ملاحظہ فرمائیں 👇

وقد ذكروا ان المسجد كان اذا جاء العتمة يوقد فيه بسعف النخل ، فلما قدم تميم الداري المدينة صحب معه قناديلا و حبالا و زيتا، وعلق تلك القناديل بسواري المسجد و اوقدت ، فقال له رسول الله : نورت مسجدنا، نور الله عليك، أما والله لو كان لي ابنة لانكحتكها هاذا، وفى اسد الغابة . عن سراج غلام تميم الداري قال : قدمنا على رسول الله و نحن خمسة غلمان لتميم الداري ، فامرنى ( يعني سيده تميم الداري ) فاسرجت بالمسجد بقنديل فيه زيت، وكانوا لا يسرجون الا بسعف النخل، فقال رسول الله: من اسرج مسجدنا؟ فقال تميم: غلامي هذا، فقال: ما اسمه؟ قال: فتح، فقال رسول الله: بل اسمه سراج، فسمانى رسول الله سراجا، قال الحلبي في سيرته : هذا لا ينافي ان اول من علق القناديل في المسجد عمر بن الخطاب ، لان المراد اول من علقها بكثرة… ( السيرة الحلبية ٢/٨٢)

ترجمہ:- انہوں نے اس بات کو ذکر کیا ہے جب عشا کا وقت ہوتا تو مسجد میں کھجور کے پتے جلانے جاتے اور جب تمیم داری رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو اپنے ساتھ قندیلیں، رسیاں اور تیل لاہے، قندیلوں کو مسجد کے ستون کے ساتھ  لٹکا دیا اور جلایا  تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: آپ نے ہماری مسجد کو منور کیا اللہ آپ کی رہنمائی فرمائیں ( روشنی دکھائے) ، بخدا اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کا نکاح ان سے کر دیتا ۔ 

اسد الغابۃ میں ہے تمیم داری رضی اللہ عنہ کے غلام سراج سے منقول ہے اس نے کہا کہ : ہم اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوے اور ہم تمیم داری کے غلام تھے چنانچہ مجھے میرے آقا ( تمیم داری) نے حکم دیا تو میں نے مسجد میں تیل والی قندیل جلائی اور وہ حضرات سوائے کھجور کے پتوں کہ کچھ نہ جلاتے تھے ، تو اللہ کے رسول ﷺ  نے فرمایا کہ کس نے ہماری مسجد کو روشن کیا؟ حضرت تمیم داری نے کہا : میرے اس غلام نے، آپ نے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا : فتح ہے ،تو آپ ﷺ نے فرمایا بلکہ ان کا نام سراج ہے، پس اللہ کے رسول ﷺ نے میرا نام سراج رکھ دیا ۔ حلبی نے اپنے سیرت میں لکھا ہے کہ : یہ منافی نہیں ہے کہ حضرت عمر نے پہلے قندیل جلائی ہو اس لیے کہ یہاں مراد بکثرت لٹکانا ہے۔

ولعل المراد تعليق ذلك بكثرة فلا يخالف ما تقدم عن تميم الداری ( روح البیان تحت هذه الآية إِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ سورة التوبة 18)

شیخ طلحہ بلال منیار کا اس پر تبصرہ 👇

میرا گمان یہ ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کا ارشاد ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں : نورت مساجدنا اس کا تعلق تراویح کی نماز باجماعت شروع کروانے سے ہے ، قنادیل اور سرج سے مسجد روشن کروانے سے نہیں ہے ۔ والادلہ : جاء فی کتاب الشریعہ للآجری ضمن الروایہ 1212 وھو یتحدث عن ابتداء صلاۃ التراویح فی عھد عمر : وَكَذَا لَمَّا سَنَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قِيَامَ شَهْرِ رَمَضَانَ , وَجَمَعَ النَّاسَ عَلَيْهِ , أَحْيَا بِذَلِكَ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّاهَا الصَّحَابَةُ فِي جَمِيعِ الْبُلْدَانِ , وَصَلَّاهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا أَفَضْتِ الْخِلَافَةُ إِلَيْهِ , صَلَّاهَا وَأَمَرَ بِالصَّلَاةِ , وَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ : نَوَّرَ اللَّهُ قَبْرَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ , كَمَا نَوَّرْتَ مَسَاجِدَنَا وَقَالَ : أَنَا أَشَرْتُ عَلَى عُمَرَ بِذَلِكَ , وَهَذَا رَدٌّ عَلَى الرَّافِضَةِ الَّذِينَ لَا يَرَوْنَ صَلَاتَهَا , خِلَافًا عَلَى عُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَعَلَى جَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ . وورد فیہ مقیدا بقیام شھر رمضان : 1239 - وحدثنا ابن مخلد قال : حدثنا أبو العباس محمد بن عبد الرحمن بن يونس السراج قال : حدثنا عبد الله بن محمد يعني ابن ربيعة قال : حدثنا خالد بن عبد الله الواسطي , عن حصين بن عبد الرحمن , عن أبي عبد الرحمن السلمي قال : أمنا علي بن أبي طالب رضي الله عنه في قيام شهر رمضان قال : ومر ببعض مساجد أهل الكوفة , وهم يصلون القيام فقال : نور الله قبرك يا ابن الخطاب كما نورت مساجدنا. وورد مقیدا بالقرآن کما فی ھذہ الروایہ : وعن أبي إسحاق السبيعي قال خرج علي بن أبي طالب ـ رضي الله عنه ـ في أول ليلة من شهر رمضان والقناديل تزهر وكتاب الله يتلا في المساجد ، فقال : ( نور الله لك يا عمر بن الخطاب في قبرك كما نورت مساجد الله بالقرآن ). أخرجه المروزي في “قيام الليل” كما في مختصره (37) وابن أبي الدنيا في “فضائل رمضان” (30) والأصبهاني في “الترغيب” (1792). ھذا ما اراہ ، واللہ اعلم

⚫خلاصۂ کلام:-  مذکورہ بالا تفصیل سے یہ معلوم ہوگیا کہ روایتیں دونوں چکے متعلق ہے، مگر مؤرخین نے بات لکھی ہے کہ سب سے پہلے قندیل جلانے والے تمیم داری ہی ہے، اور یہ عہد رسول میں ہوا ہے، اور نبی خدا ﷺ نے انکو دعا بھی دی ہے، اور جب دور گزرتا گیا اور عہد عمر شروع ہوا اور مصلین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد کی توسیع ہوئی اب حضرت عمر نے بڑے پیمانے پر قنادیل چراغ لٹکائیں، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دعا دی، لہذا کوئی تعارض باقی نہ رہا۔

فقط والسلام

 ھذا مما تیسرجمعہ وترتیبہ۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم۔

⁦✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند) 

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

3/اکتوبر/2020ء بروز سنیچر


4 Comments:

At 3 October 2020 at 07:21 , Blogger  أبو أحمد حسان بن سماحة الشيخ محمد يونس التاجفوري الغجراتي الأجوبة المستحكمة في سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة said...

میرا گمان یہ ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کا ارشاد ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں : نورت مساجدنا

اس کا تعلق تراویح کی نماز باجماعت شروع کروانے سے ہے ، قنادیل اور سرج سے مسجد روشن کروانے سے نہیں ہے ۔

والادلہ :

جاء فی کتاب الشریعہ للآجری ضمن الروایہ 1212 وھو یتحدث عن ابتداء صلاۃ التراویح فی عھد عمر :

وَكَذَا لَمَّا سَنَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قِيَامَ شَهْرِ رَمَضَانَ , وَجَمَعَ النَّاسَ عَلَيْهِ , أَحْيَا بِذَلِكَ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّاهَا الصَّحَابَةُ فِي جَمِيعِ الْبُلْدَانِ , وَصَلَّاهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا أَفَضْتِ الْخِلَافَةُ إِلَيْهِ , صَلَّاهَا وَأَمَرَ بِالصَّلَاةِ , وَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ : نَوَّرَ اللَّهُ قَبْرَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ , كَمَا نَوَّرْتَ مَسَاجِدَنَا وَقَالَ : أَنَا أَشَرْتُ عَلَى عُمَرَ بِذَلِكَ , وَهَذَا رَدٌّ عَلَى الرَّافِضَةِ الَّذِينَ لَا يَرَوْنَ صَلَاتَهَا , خِلَافًا عَلَى عُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَعَلَى جَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ .

وورد فیہ مقیدا بقیام شھر رمضان :
1239 - وحدثنا ابن مخلد قال : حدثنا أبو العباس محمد بن عبد الرحمن بن يونس السراج قال : حدثنا عبد الله بن محمد يعني ابن ربيعة قال : حدثنا خالد بن عبد الله الواسطي , عن حصين بن عبد الرحمن , عن أبي عبد الرحمن السلمي قال : أمنا علي بن أبي طالب رضي الله عنه في قيام شهر رمضان قال : ومر ببعض مساجد أهل الكوفة , وهم يصلون القيام فقال : نور الله قبرك يا ابن الخطاب كما نورت مساجدنا.

وورد مقیدا بالقرآن کما فی ھذہ الروایہ :
وعن أبي إسحاق السبيعي قال خرج علي بن أبي طالب ـ رضي الله عنه ـ في أول ليلة من شهر رمضان والقناديل تزهر وكتاب الله يتلا في المساجد ، فقال : ( نور الله لك يا عمر بن الخطاب في قبرك كما نورت مساجد الله بالقرآن ).
أخرجه المروزي في “قيام الليل” كما في مختصره (37) وابن أبي الدنيا في “فضائل رمضان” (30) والأصبهاني في “الترغيب” (1792).


ھذا ما اراہ ، واللہ اعلم
شیخ طلحہ بلال منیار

 
At 8 November 2020 at 06:04 , Blogger Unknown said...

ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ جید جدا جدا

 
At 27 October 2022 at 22:15 , Blogger Indiananewsportal said...

بہت اچھا

 
At 28 June 2024 at 03:16 , Blogger رضوان الله النعماني said...

جید جدا۔ماشاء اللہ، تقبل اللہ منکم

 

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home