Sunday 21 February 2021

(تحقیقات سلسلہ نمبر 58) mo Hassan tajpuri

 (تحقیقات سلسلہ نمبر58)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

(کعبہ کی فضیلت کے سلسلے میں ایک موضوع اور من گھڑت روایت تحقیق) 

سوال:- درج ذیل ایک روایت ہے، اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟

(آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) منقول ہے کہ ''اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ سے وعدہ فرمایا کہ ہر سال چھ لاکھ افراد اس کا حج کریں گے، اگر کم ہوئے تو اللہ تعالی فرشتوں سے ان کی کمی پوری فرمادے گا ۔اور بروز قیامت کعبہ شریف پہلی رات کی دلہن کی طرح اٹھایا جائے گا تو جن لوگوں نے اس کا حج کیاوہ اس کے پردوں کے ساتھ لٹکے ہوں گے اوراس کے گرد چکر لگارہے ہوں گے یہاں تک کہ یہ جنت میں داخل ہوگا تووہ بھی اس کے ساتھ داخل ہو جائیں گے ۔''

تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟

فقط والسلام

سائل:- مفتی ابرار کاکوسی حال مقیم مؤمن نگر(بمبئی)

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- سوال بالا میں جو الفاظ بطور روایت ذکر کیے گئے ہیں، اور جن کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہیں وہ الفاظ حدیث کی کسی بھی کتاب میں موجود نہیں ہیں، ہاں البتہ اس کو امام ابو حامد الغزالی(ت ٥٠٥)  نے احیاء علوم الدین میں بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔

 اولاً اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇

"قال صلى الله عليه وسلم: إن الله قد وعد هذا البيت أن يحجه في كل سنة ستمائة ألف فإن نقصوا أكملهم الله عز و جل من الملائكة وإن الكعبة تحشر كالعروس المزفوفة وكل من حجها يتعلق بأستارها يسعون حولها حتى تدخل الجنة فيدخلون معها" 

(احیاء علوم الدین للغزالی کتاب اسرار الحج الباب الأول فضیلۃ البیت ومکۃ المشرفۃ ج١ ص٢٨٦ مطبوعہ: دار ابن حزم) 

ثانیاً اس کا حکم ملاحظہ فرمائیں 👇

(١) وقال الحافظ العراقي بهامشه: إن الله قد وعد هذا البيت أن يحجه في كل سنة ستمائة ألف…… الحديث لم اجده له أصلاً. اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ 

تنبیہ:- احیاء علوم الدین للغزالی میں اس طرح کی کوئی روایات ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے، جو موضوعات کے قبیل سے ہیں' لہذا اس پر کلی اعتماد کرنا درست نہیں ہے، جب تک کہ علماء کرام سے ان کی تحقیق نہ کرالی جائیں۔ الاحیاء رطب و یابس کا مجموعہ ہے۔ فلیحذر من الانتساب إلى النبي صلى الله عليه وسلم. 

(٢) اسی طرح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو اپنی کتاب الاسرار المرفوعة في الاخبار الموضوعة میں اس کو حافظ عراقی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے۔

(الاسرار المرفوعة في الاخبار الموضوعة لملا علي القاري حرف الهمزة ص ١٤٥ رقم: ٨٨ مطبوعہ: المکتب الاسلامی) 

(٣) واورده أيضا العلامة الشوكاني (١٢٥٠ھ) فی الفوائد المجموعة في الاحاديث الموضوعة : "قال في المختصر: لا أصل له". اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

(الفوائد المجموعة في الاحاديث الموضوعة کتاب الحج ص١٠٧) 

(٤)  وقال السبكي (الابن) (٧٧١ھ) في طبقات الشافعية الكبرى:  لم أجد له إسنادا. میں نے اس کی کوئی سند نہیں پائی۔ 

(طبقات الشافعیۃ ج٦ ص٣٠٠ مطبوعہ: دار احیاء الکتب العربیہ) 

تنبیہ:- امام سبکی رحمہ اللہ نے کتاب بالا ج 6 میں احیاء علوم الدین للغزالی کی مستقل وہ تمام روایات جمع کی ہیں جن کی کوئی سند نہیں ہے، اور اوپر والی روایت بھی اس میں مذکور ہے۔ فليراجع 

خلاصۂ کلام:- سوال بالا میں جو الفاظ بطور روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے وہ من گھڑت روایت ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے، چونکہ تلاش بسیار کے بعد بھی وہ روایت ہمیں کتب احادیث میں نہیں ملی، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔ انتساب سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

جمعہ ورتبہ:- ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات

٢١ فروری بروز اتوار ٢٠٢١ء 

رقم الاتصال: 919428359610+

3 Comments:

At 21 February 2021 at 20:15 , Blogger Unknown said...

بہت مبارک

 
At 21 February 2021 at 21:27 , Blogger Unknown said...

Mashallah bht...khub hazrat

 
At 27 February 2021 at 00:32 , Blogger Unknown said...

اللہ تعالیٰ آپ کو علم نافع سےنواجیں

 

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home