Tuesday, 28 December 2021

غیر حدیثی کتب میں مذکور احادیث کا تحقیقی جائزہ, حدیث نمبر:-03

 باسمہ تعالیٰ    حامداً ومصلياً 

(غیر حدیثی کتب میں مذکور احادیث کا تحقیقی جائزباسمہ تعالیٰ    حامداً ومصلياً 

(غیر حدیثی کتب میں مذکور احادیث کا تحقیقی جائزہ)

حدیث نمبر:03

وجاء في الخبر أنه عليه السلام سئل عن متروك التسمية عامدا فقال: "كلوه، فإن تسمية الله تعالىٰ في قلب كل امرأ مسلم" 

(اصول الشافعی ص08 مکتبۂ المیزان)

بعینہ یہی الفاظ کتب احادیث مبارکہ میں نہیں ہیں، جیسا کہ حضرت شیخ یونس صاحب جون پوری رحمۃ اللہ علیہ نے الیواقیت الغالیۃ میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: " قلت: لم أجد هذا الحديث"

(الیواقیت الغالیۃ ج03 ص483)

نیز ہمیں متروک التسمیۃ عامداً کے سلسلے میں بھی کوئی روایت تلاش بسیار کے بعد نہیں ملی، کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذبیحہ پر جان بوجھ کر بسملہ نہ پڑھنے کے متعلق سوال دریافت کیا گیا ہو اور آپ نے اس کے جواب میں کوئی ارشاد نقل فرمایا ہو، نہ محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول عامداً کے سلسلے میں ملا، کما قالہ صاحب ھامشٍ لأصول الشاشی۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم

 اصول الشاشی کے ایک نسخے میں سوال بالا میں مذکور روایت کے تحت حاشیہ میں لکھا ملا: " أخرجه عبد الرزاق ما في معناه في المصنَّف، باب التسمية عند الذبح، ج٤، ص٤٧٩/٤٨٠"، یعنی اس کے ہم معنیٰ روایت مصنف عبدالرزاق میں مروی ہے، لہذا راقم الحروف نے مصنف عبد الرزاق، کتاب المناسک، باب التسمیۃ عند الذبح کی طرف رجوع کیا، تو اس باب میں تقریباً گیارہ روایات مروی پائی، لکین وہ سب روایات ناسی کے سلسلے میں ہیں، نیز وہ سب روایات موقافاً یا مقطوعاً مروی ہیں، سوائے ایک روایت کے کہ وہ مرفوعاً اور مرسلاً مروی ہے، اور اس میں بھی متروک التسمیۃ عامداً کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے، روایت نیچے حاشیے میں ملاحظہ فرمائیں(1) عامداً کے سلسلے میں کوئی روایت اس میں نہیں ملی، لہذا مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے سوال بالا میں مذکور روایت کو ذکر کرنا مناسب نہیں، مصنف عبدالرزاق کی وہ روایت جس کا حوالہ حاشیے میں مذکور ہے ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

عبد الرزاق، عن الثوري، عن يزيد بن أبي زياد، عن عطاء، عن ابن عباس أنه سئل عن الرجل يذبح فينسى أن يسمي، قال: لا بأس، سموا عليه وكلوه.

(مصنف عبد الرزاق، ج04 ص479/480، رقم الحدیث:8541، كتاب المناسك، باب التسمیۃ عند الذبح)

ترجمہ:- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال دریافت کیا گیا جو قربانی کرے اور بسملہ پڑھنا بھول جائے، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لا بأس! کوئی حرج نہیں، اس پر جب یاد آیا ہے اللہ تعالیٰ کا نام لو اور کھاؤ۔

ہاں البتہ مذبوح جانور پر بھولے سے بسملہ نہ پڑھنے کے سلسلے میں مختلف کتب احادیث میں مرفوعاً وموقوفاً روایات موجود ہیں، جن میں متروک التسمیۃ ناسیا کے حلال اور کھائے جانے کے متعلق احادیث مروی ہیں، ترتیب وار روایات ملاحظہ فرمائیں 👇👇

1- اس روایت کو محمد بن یزید کے طریق سے امام دارقطنی اور امام بیھقی رحمھما اللہ نے ذکر کیا ہیں، اور اس کے مرفوع اور اور موقوف ہونے میں شدید اختلاف بھی کتب میں مذکور ہیں، روایت مع الحکم ملاحظہ فرمائیں: محمد بن يزيد، ثنا معقل بن عبيد الله، عن عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " المسلم يكفيه اسمه، فإن نسي أن يسمي حين يذبح فليذكر اسم الله وليأكله ". كذا رواه مرفوعا، ورواه غيره عن عمرو بن دينار، عن جابر بن زيد، عن عين وهو عكرمة، عن ابن عباس موقوفا.

(السنن الکبری للبیھقی، ج09 ص401، كتاب الصيد والذبائح، باب من ترك التسمية وهو ممن تحل ذبيحته، رقم: 18890) اسی طرح طبرانی نے المعجم الأوسط (٤٧٦٩)، اور ابن عدي نے الكامل في الضعفاء (٦/٣٨٤) میں باختلاف یسیر اس کو نقل کیا ھیں۔


 اس حدیث کا حکم علامہ عینی رحمہ اللہ کی قلم سے ملاحظہ فرمائیں: قال ابن القطان في كتابه: ليس في هذا الإسناد من يتكلم فيه غير محمد بن يزيد بن سنان وكان صدوقا صالحا لكنه شديد الغفلة.

وقال غيره: معقل بن عبيد الله وإن كان من رجال مسلم، لكنه أخطأ في رفع هذا الحديث وقد رواه سعيد بن منصور وعبد الله بن الزبير الحميدي عن سفيان عن عيينة عن عمرو، عن أبي الشعثاء، عن عكرمة، عن ابن عباس، قوله: ذكر البيهقي وغيره فزادا في إسناده أبا الشعثاء، عن عكرمة، عن ابن عباس ووقفاه.

وقال ابن الجوزي - رحمه الله - في التحقيق معقل هذا مجهول، وتعقبه صاحب " التنقيح " فقال: بل هو مشهور، وهو ابن عبيد الله الجزري أخرج له مسلم في " صحيحه ".

واختلف قول ابن معين فيه فمرة وثقه ومرة ضعفه. وقد ذكره ابن الجوزي في " الضعفاء " فقال: معقل بن عبيد الله الجزري يروي عن عمرو بن دينار، قال يحيى: ضعيف، لم يزد على هذا، ومحمد بن يزيد بن سنان الحريري هو ابن أبي فروة الرهاوي. قال أبو داود: ليس بشيء.

وقال النسائي: ليس بالقوي، وقال الدارقطني: ضعيف، وذكره ابن حبان في الثقات، والصحيح أن هذا الحديث موقوف على ابن عباس - رضي الله عنهما هكذا رواه ابن سفيان عن عمرو بن دينار عن جابر بن زيد عن عكرمة عن ابن عباس، انتهى كلامه.

(البناية شرح الهداية للعینی، ج11 ص538)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ روایت صحیح قول کے مطابق موقوف ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، اسی طرح ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بھی اس کی اچھی وضاحت کی ہے، اور اس کے مرفوع ہونے کومعقل بن عبيد الله کا وہم اور غلطی قرار دی ہے، ملاحظہ فرمائیں: وهذا الحديث رفعه خطأ ، أخطأ فيه معقل بن عبيد الله الجزيري، فإنه وإن كان من رجال مسلم إلا أن سعيد بن منصور ، وعبد الله بن الزبير الحميدي روياه عن سفيان بن عيينة ، عن عمرو ، عن أبي الشعثاء ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، من قوله . فزادا في إسناده " أبا الشعثاء " ، ووقفا والله تعالى أعلم . وهذا أصح ، نص عليه البيهقي وغيره من الحفاظ ۔ 

(تفسیر ابن کثیر ج06 ص150)

2- عبد الرزاق، عن ابن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن أبي الشعثاء، قال: حدثنا عين يعني عكرمة، عن ابن عباس قال: إن في المسلم اسم الله، فإن ذبح ونسي اسم الله، فليأكل، وإن ذبح المجوسي، وذكر اسم الله فلا تأكله۔

(مصنف عبد الرزاق، ج4  ص481، رقم الحدیث: 8548، كتاب المناسك، باب التسمیۃ عند الذبح)

اس روایت کی سند ایسی ہے کہ اس میں صحیحین کے رجال ہیں، بس یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر موقوف ہے۔ کما فی اعلاء السنن۔

3-  امام دارقطنی رحمہ اللہ مروان بن سالم کے طریق سے ایک روایت لائے ہیں: عن مروان بن سالم , عن الأوزاعي , عن يحيى بن أبي كثير , عن أبي سلمة , عن أبي هريرة , قال: سأل رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: يا رسول الله أرأيت الرجل منا يذبح وينسى أن يسمي الله؟ , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اسم الله على كل مسلم». وقال ابن قانع: «اسم الله على فم كل مسلم» وقال الدار قطنی: مروان بن سالم ضعيف۔ 

(سنن دار قطنی ج05 ص533، رقم: 4803)

اس روایت کو اگرچہ محدثین نے مروان بن سالم کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کی امام ابو داود کی ایک مرسل روایت سے اس کی تائید ہوجاتی ہے، کما فی اعلاء السنن، روایت درج ذیل ہے 👇 

4- حدثنا مسدد قال حدثنا عبد الله بن داود عن ثور بن يزيد عن الصلت قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: «ذبيحة المسلم حلال، ذكر اسم الله تعالى أو لم يذكر، إن ذكر لم يذكر إلا اسم الله»

(مراسيل سنن أبي داود، (باب) في الضحايا والذبائح، ص197)

اور بھی اس سلسلے میں احادیث مروی ہیں، اور ان کی تحقیق پیش کی گئی ہیں، طول کلام کے خوف سے ہم ان ہی احادیث پر اکتفا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین

خلاصۂ کلام:- سوال بالا میں ذکر کردہ روایت کتب احادیث میں نہیں ہے، اور نہ تو متروک التسمیہ عامداً کے سلسلے میں کوئی روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لہذا اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، ہاں البتہ ناسیاً کے سلسلے میں کتب احادیث میں کثیر روایات مروی ہیں، اگرچہ ان میں محدثین کا کلام ہے، لیکن تعدد طرق کی بنا پر وہ حسن درجے تک پہنچ جاتی ہیں، لہذا وہ قابل احتجاج ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واكمل

------------------------------------------------

------------------------------------------------

(1) وہ روایت یہ ہے: عبد الرزاق، عن معمر، عن هشام بن عروة، عن أبيه قال: كان قوم أسلموا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقدموا المدينة بلحم يبيعونه فأنِفَت أنفس أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم منه، وقالوا: لعله لم يذكر اسم الله، فسألوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "فسموا أنتم وكلوا".

(مصنف عبد الرزاق، ج4  ص480، رقم الحدیث: 8542، كتاب المناسك، باب التسمیۃ عند الذبح)

 وأخرجه أبو داود في سننه عن هشام بن عروة عن أبيه مرسلا وموصولا بلفظ: أَنَّهُمْ قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ قَوْمًا حَدِيثُو عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ يَأْتُونَ بِلُحْمَانٍ، لَا نَدْرِي أَذَكَرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا أَمْ لَمْ يَذْكُرُوا، أَفَنَأْكُلُ مِنْهَا ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " سَمُّوا اللَّهَ وَكُلُوا ".

(سنن أبي داود، كتاب الضَّحايا، باب أَكل اللحم لا يدرى أَذُكِرَ اسم اللَّه عليه أَم لا، رقم: 2829، ص 391)

كتبه ورتبه:- ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

استاذ حدیث:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھاہ)

حدیث نمبر:03

وجاء في الخبر أنه عليه السلام سئل عن متروك التسمية عامدا فقال: "كلوه، فإن تسمية الله تعالىٰ في قلب كل امرأ مسلم" 

(اصول الشافعی ص08 مکتبۂ المیزان)

بعینہ یہی الفاظ کتب احادیث مبارکہ میں نہیں ہیں، جیسا کہ حضرت شیخ یونس صاحب جون پوری رحمۃ اللہ علیہ نے الیواقیت الغالیۃ میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: " قلت: لم أجد هذا الحديث"

(الیواقیت الغالیۃ ج03 ص483)

نیز ہمیں متروک التسمیۃ عامداً کے سلسلے میں بھی کوئی روایت تلاش بسیار کے بعد نہیں ملی، کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذبیحہ پر جان بوجھ کر بسملہ نہ پڑھنے کے متعلق سوال دریافت کیا گیا ہو اور آپ نے اس کے جواب میں کوئی ارشاد نقل فرمایا ہو، نہ محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول عامداً کے سلسلے میں ملا، کما قالہ صاحب ھامشٍ لأصول الشاشی۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم

 اصول الشاشی کے ایک نسخے میں سوال بالا میں مذکور روایت کے تحت حاشیہ میں لکھا ملا: " أخرجه عبد الرزاق ما في معناه في المصنَّف، باب التسمية عند الذبح، ج٤، ص٤٧٩/٤٨٠"، یعنی اس کے ہم معنیٰ روایت مصنف عبدالرزاق میں مروی ہے، لہذا راقم الحروف نے مصنف عبد الرزاق، کتاب المناسک، باب التسمیۃ عند الذبح کی طرف رجوع کیا، تو اس باب میں تقریباً گیارہ روایات مروی پائی، لکین وہ سب روایات ناسی کے سلسلے میں ہیں، نیز وہ سب روایات موقافاً یا مقطوعاً مروی ہیں، سوائے ایک روایت کے کہ وہ مرفوعاً اور مرسلاً مروی ہے، اور اس میں بھی متروک التسمیۃ عامداً کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے، روایت نیچے حاشیے میں ملاحظہ فرمائیں(1) عامداً کے سلسلے میں کوئی روایت اس میں نہیں ملی، لہذا مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے سوال بالا میں مذکور روایت کو ذکر کرنا مناسب نہیں، مصنف عبدالرزاق کی وہ روایت جس کا حوالہ حاشیے میں مذکور ہے ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

عبد الرزاق، عن الثوري، عن يزيد بن أبي زياد، عن عطاء، عن ابن عباس أنه سئل عن الرجل يذبح فينسى أن يسمي، قال: لا بأس، سموا عليه وكلوه.

(مصنف عبد الرزاق، ج04 ص479/480، رقم الحدیث:8541، كتاب المناسك، باب التسمیۃ عند الذبح)

ترجمہ:- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال دریافت کیا گیا جو قربانی کرے اور بسملہ پڑھنا بھول جائے، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لا بأس! کوئی حرج نہیں، اس پر جب یاد آیا ہے اللہ تعالیٰ کا نام لو اور کھاؤ۔

ہاں البتہ مذبوح جانور پر بھولے سے بسملہ نہ پڑھنے کے سلسلے میں مختلف کتب احادیث میں مرفوعاً وموقوفاً روایات موجود ہیں، جن میں متروک التسمیۃ ناسیا کے حلال اور کھائے جانے کے متعلق احادیث مروی ہیں، ترتیب وار روایات ملاحظہ فرمائیں 👇👇

1- اس روایت کو محمد بن یزید کے طریق سے امام دارقطنی اور امام بیھقی رحمھما اللہ نے ذکر کیا ہیں، اور اس کے مرفوع اور اور موقوف ہونے میں شدید اختلاف بھی کتب میں مذکور ہیں، روایت مع الحکم ملاحظہ فرمائیں: محمد بن يزيد، ثنا معقل بن عبيد الله، عن عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " المسلم يكفيه اسمه، فإن نسي أن يسمي حين يذبح فليذكر اسم الله وليأكله ". كذا رواه مرفوعا، ورواه غيره عن عمرو بن دينار، عن جابر بن زيد، عن عين وهو عكرمة، عن ابن عباس موقوفا.

(السنن الکبری للبیھقی، ج09 ص401، كتاب الصيد والذبائح، باب من ترك التسمية وهو ممن تحل ذبيحته، رقم: 18890) اسی طرح طبرانی نے المعجم الأوسط (٤٧٦٩)، اور ابن عدي نے الكامل في الضعفاء (٦/٣٨٤) میں باختلاف یسیر اس کو نقل کیا ھیں۔


 اس حدیث کا حکم علامہ عینی رحمہ اللہ کی قلم سے ملاحظہ فرمائیں: قال ابن القطان في كتابه: ليس في هذا الإسناد من يتكلم فيه غير محمد بن يزيد بن سنان وكان صدوقا صالحا لكنه شديد الغفلة.

وقال غيره: معقل بن عبيد الله وإن كان من رجال مسلم، لكنه أخطأ في رفع هذا الحديث وقد رواه سعيد بن منصور وعبد الله بن الزبير الحميدي عن سفيان عن عيينة عن عمرو، عن أبي الشعثاء، عن عكرمة، عن ابن عباس، قوله: ذكر البيهقي وغيره فزادا في إسناده أبا الشعثاء، عن عكرمة، عن ابن عباس ووقفاه.

وقال ابن الجوزي - رحمه الله - في التحقيق معقل هذا مجهول، وتعقبه صاحب " التنقيح " فقال: بل هو مشهور، وهو ابن عبيد الله الجزري أخرج له مسلم في " صحيحه ".

واختلف قول ابن معين فيه فمرة وثقه ومرة ضعفه. وقد ذكره ابن الجوزي في " الضعفاء " فقال: معقل بن عبيد الله الجزري يروي عن عمرو بن دينار، قال يحيى: ضعيف، لم يزد على هذا، ومحمد بن يزيد بن سنان الحريري هو ابن أبي فروة الرهاوي. قال أبو داود: ليس بشيء.

وقال النسائي: ليس بالقوي، وقال الدارقطني: ضعيف، وذكره ابن حبان في الثقات، والصحيح أن هذا الحديث موقوف على ابن عباس - رضي الله عنهما هكذا رواه ابن سفيان عن عمرو بن دينار عن جابر بن زيد عن عكرمة عن ابن عباس، انتهى كلامه.

(البناية شرح الهداية للعینی، ج11 ص538)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ روایت صحیح قول کے مطابق موقوف ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، اسی طرح ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بھی اس کی اچھی وضاحت کی ہے، اور اس کے مرفوع ہونے کومعقل بن عبيد الله کا وہم اور غلطی قرار دی ہے، ملاحظہ فرمائیں: وهذا الحديث رفعه خطأ ، أخطأ فيه معقل بن عبيد الله الجزيري، فإنه وإن كان من رجال مسلم إلا أن سعيد بن منصور ، وعبد الله بن الزبير الحميدي روياه عن سفيان بن عيينة ، عن عمرو ، عن أبي الشعثاء ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، من قوله . فزادا في إسناده " أبا الشعثاء " ، ووقفا والله تعالى أعلم . وهذا أصح ، نص عليه البيهقي وغيره من الحفاظ ۔ 

(تفسیر ابن کثیر ج06 ص150)

2- عبد الرزاق، عن ابن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن أبي الشعثاء، قال: حدثنا عين يعني عكرمة، عن ابن عباس قال: إن في المسلم اسم الله، فإن ذبح ونسي اسم الله، فليأكل، وإن ذبح المجوسي، وذكر اسم الله فلا تأكله۔

(مصنف عبد الرزاق، ج4  ص481، رقم الحدیث: 8548، كتاب المناسك، باب التسمیۃ عند الذبح)

اس روایت کی سند ایسی ہے کہ اس میں صحیحین کے رجال ہیں، بس یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر موقوف ہے۔ کما فی اعلاء السنن۔

3-  امام دارقطنی رحمہ اللہ مروان بن سالم کے طریق سے ایک روایت لائے ہیں: عن مروان بن سالم , عن الأوزاعي , عن يحيى بن أبي كثير , عن أبي سلمة , عن أبي هريرة , قال: سأل رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: يا رسول الله أرأيت الرجل منا يذبح وينسى أن يسمي الله؟ , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اسم الله على كل مسلم». وقال ابن قانع: «اسم الله على فم كل مسلم» وقال الدار قطنی: مروان بن سالم ضعيف۔ 

(سنن دار قطنی ج05 ص533، رقم: 4803)

اس روایت کو اگرچہ محدثین نے مروان بن سالم کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کی امام ابو داود کی ایک مرسل روایت سے اس کی تائید ہوجاتی ہے، کما فی اعلاء السنن، روایت درج ذیل ہے 👇 

4- حدثنا مسدد قال حدثنا عبد الله بن داود عن ثور بن يزيد عن الصلت قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: «ذبيحة المسلم حلال، ذكر اسم الله تعالى أو لم يذكر، إن ذكر لم يذكر إلا اسم الله»

(مراسيل سنن أبي داود، (باب) في الضحايا والذبائح، ص197)

اور بھی اس سلسلے میں احادیث مروی ہیں، اور ان کی تحقیق پیش کی گئی ہیں، طول کلام کے خوف سے ہم ان ہی احادیث پر اکتفا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین

خلاصۂ کلام:- سوال بالا میں ذکر کردہ روایت کتب احادیث میں نہیں ہے، اور نہ تو متروک التسمیہ عامداً کے سلسلے میں کوئی روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لہذا اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، ہاں البتہ ناسیاً کے سلسلے میں کتب احادیث میں کثیر روایات مروی ہیں، اگرچہ ان میں محدثین کا کلام ہے، لیکن تعدد طرق کی بنا پر وہ حسن درجے تک پہنچ جاتی ہیں، لہذا وہ قابل احتجاج ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واكمل

------------------------------------------------

------------------------------------------------

(1) وہ روایت یہ ہے: عبد الرزاق، عن معمر، عن هشام بن عروة، عن أبيه قال: كان قوم أسلموا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقدموا المدينة بلحم يبيعونه فأنِفَت أنفس أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم منه، وقالوا: لعله لم يذكر اسم الله، فسألوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "فسموا أنتم وكلوا".

(مصنف عبد الرزاق، ج4  ص480، رقم الحدیث: 8542، كتاب المناسك، باب التسمیۃ عند الذبح)

 وأخرجه أبو داود في سننه عن هشام بن عروة عن أبيه مرسلا وموصولا بلفظ: أَنَّهُمْ قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ قَوْمًا حَدِيثُو عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ يَأْتُونَ بِلُحْمَانٍ، لَا نَدْرِي أَذَكَرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا أَمْ لَمْ يَذْكُرُوا، أَفَنَأْكُلُ مِنْهَا ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " سَمُّوا اللَّهَ وَكُلُوا ".

(سنن أبي داود، كتاب الضَّحايا، باب أَكل اللحم لا يدرى أَذُكِرَ اسم اللَّه عليه أَم لا، رقم: 2829، ص 391)

كتبه ورتبه:- ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

استاذ حدیث:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home