شب جمعہ اور پندرہویں شعبان کو روحوں کا اپنی قبروں سے نکل کر اپنے گھروں کو آنا، اس کے متعلق تحقیق
باسمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
*ٹیلیگرام لینک:-
*https://t.me/Tahqeqat*
سوال:- درج ذیل روایت ہے، اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے۔ کیا یہ حدیث قابل عمل ہے؟
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
جب عید کا دن ہوتا ہے نیز دسویں کا دن، ماہ رجب المرجب کا پہلا جمعہ، شعبان کی پندرہویں رات اور جمعہ کی رات ہوتی ہے تو ارواح اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اپنے گھروں کے دروازوں کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں، اور کہنے لگتی ہیں: اس رات میں ہم پر رحم فرمائیں صدقے سے، اگرچہ روٹی کے ایک ٹکڑے سے، اس لیے کہ ہم ابھی اس کے محتاج ہیں، پس اگر وہ کسی چیز کو نہیں پاتیں تو حسرت کے ساتھ لوٹ جاتی ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
*الجواب بعون الملک الوھاب:-* یہ روایت تلاش بسیار کے بعد بھی معتمد کتب احادیث مبارکہ میں نہیں ملی، نہ صحاح میں اور نہ ضعفاء میں، حتیٰ کہ موضوعات میں بھی نہیں ملی، لہذا جب تک یہ صحیح یا ضعیف سند کے ساتھ نہیں مل جاتی تب تک اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا یا اس کو قابل عمل سمجھنا درست اور صحیح نہیں ہے۔
ہاں البتہ یہ روایت بغیر سند کے *دقائق الأخبار فی وصف الجنۃ والنار للإمام عبدالرحیم بن احمد القاضي* میں ہے، لکین وہ کتاب معتبر نہیں ہے، چونکہ اس میں سب روایات قابل غور اور بے سند نقل کردی گئی ہیں، الحمد للہ کتاب کو دیکھنے کا موقع میسر ہوا اس میں سب روایات بے سند اور قابل غور ہیں، موضوع اور من گھڑت روایات ہیں، لہذا سوال میں مذکور روایت کو نشر کرنے اور قابل للاعتبار سمجھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، نیز اس میں کچھ الفاظ بھی اس طرح سے ہیں جن سے ان کا حدیث میں ہونا محال اور مشکل معلوم ہوتا ہے، جیسے کہ اس میں جو اوقات ذکر کیے گئے ہیں وہ یوم اور لیل ( رات ودن) دونوں ہیں پھر جب ارواح کا قول منقول ہے وہاں لکھا ہے: *ویقولون ترحموا علينا في الليلة* تو اس میں صرف رات کا ذکر ہے، نیز اور بھی کچھ چیزیں قابل ذکر ہیں، لہذا ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ثابت نہیں ہوسکتیں، لہذا ان کی نسبت نہ کرنا اور اجتناب کرنا لازمی اور ضروری ہے۔
*اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇*
*عن ابن عباس إذا کان یوم العید ویوم العشر ویوم جمعۃ الأولی من شھر رجب ولیلۃ النصف من شعبان ولیلۃ الجمعۃ یخرج الأموات من قبورھم ويقفون على أبواب بيوتهم ویقولون ترحموا علينا في الليلة بصدقة ولوبلقمة من خبز فإنا محتاجون إليها فإن لم يجدوا شيئا يرجعون بالحسرۃ.*
*دقائق الأخبار في وصف الجنة والنار پر تبصرہ:*
اسلام ویب، فتوی نمبر:45458 پر"دقائق الأخبار" سے متعلق سوال کے جواب میں لکھا گیا کہ
"دقائق الأخبار في وصف الجنة والنار" میں قصص اور آخرت سے متعلق خبریں یعنی: بعثت، حساب اور جنت کی صفات اور نعمتیں اور جہنم کے اوصاف اور عذاب کا تذکرہ ہے اور بلاشک و شبہ اس کتاب میں ذکر کردہ بہت سی حکایات اور قصص کسی معتبر شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہے، کیونکہ یہ باتیں ان امور غیبیہ میں سے ہیں، جن میں رائے کو کوئی دخل نہیں ہے، لہذا جو بات صحیح یا حسن ہوگی، وہی قابل قبول ہوگی۔
ایک اور سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ اس کتاب کی نسبت بہت سے مولفین کی طرف کی گئی ہے، بعض نے اس کو امام سیوطی کی طرف منسوب کیا اور بعض نے اس کو امام غزالی کی طرف اور بعض نے امام عبدالرحیم بن احمد قاضی کی طرف نسبت کی ہے، اور اکثریت نے اس کی نسبت آخر الذکر کی طرف کی ہے۔
*کتب فتاوی میں اس کے بارے میں درج ذیل تفصیل ملتی ہے:*
*آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:*
کیا روحوں کا دنیا میں آنا ثابت ہے؟
س… کیا روحیں دنیا میں آتی ہیں یا عالمِ برزخ میں ہی قیام کرتی ہیں؟ اکثر ایسی شہادتیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روحیں اپنے اعزہ کے پاس آتی ہیں، شبِ برأت میں بھی روحوں کی آمد کے بارے میں سنا ہے۔ آپ اس مسئلے کی ضرور وضاحت کیجیے، مرنے کے بعد سوم، دسواں اور چہلم کی شرعی حیثیت کی وضاحت بھی بذریعہ اخبار کردیجیے؛ تاکہ عوام الناس کا بھلا ہو۔
ج… دنیا میں روحوں کے آنے کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں اور نہ اس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث ہی وارد ہے۔ سوئم، دسواں اور چہلم خودساختہ رسمیں ہیں، ان کی مکمل تفصیل آپ کو میری کتاب “اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم” میں ملے گی۔
*امداد الفتاویٰ جدید میں ہے:*
*’’روحوں کا شب جمعہ میں گھر آنے کی بات کہاں تک صحیح ہے؟*
سوال(۷۵۳):قدیم۱/۷۶۸-فتاویٰ رشیدیہ حصہ دویم ص:۹۸پرایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ مردوں کی روحیں شب جمعہ میں گھر نہیں آتیں یہ روایت غلط ہے اور اس کے خلاف نورالصدور ص۱۶۸پر بروایت ابوہریرہؓ بایں فرماتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ شبِ جمعہ کو مؤمنوں کی روحیں اپنے اپنے مکانوں کے مقابل کھڑی ہو کر پکارتی ہیں کہ ہم کو کچھ دو اور ہر روح ہزار مردوں اورعورتوں کو پکارتی ہے، روایت
کیا اس حدیث کو شیخ ابن الحسن بن علی نے اپنی کتاب میں۔ اب عرض یہ ہے کہ صحیح معاملہ شرعاً کیا ہے؟
الجواب : اول تو اس کی سند قابلِ تحقیق ہے۔ دوسرے برتقدیرِ ثبوت مقید ہے اذن کے ساتھ اورحکم نفی دعویٰ عموم کے تقدیرپر ہے پس دونوں میں تعارض نہیں‘‘ ۔(۱)
۲۶/جمادی الاولیٰ۱۳۵۳ھ(النور ص:۹ماہ جمادی الثانی۱۳۵۴ھ)
*امداد الفتاویٰ جدیدکے حاشیہ میں ہے:*
’’ یہ مسئلہ بہت زیادہ قابل توجہ ہے، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ نے امداد المفتیین ترتیب جدید مکتبہ دار الاشاعت کراچی ص:۱۲۱تا۱۲۴؍ میں عمر وبکر کے معارضاتی سوال کے جواب میں کافی لمبا جواب تحریر فرمایا ہے، وہ تمام روایات بھی اس میں ہیں جن میں اس بات کو ثابت کیا جاتا ہے کہ مردوں کی روحیں شبِ جمعہ، یومِ عاشوراء، یومِ عید وغیرہ میں اپنے گھر آکر سوالات کرتی ہیں ۔
اور فتاوی دارالعلوم جدید ۵؍۴۵۹؍ میں اس کی تردید ہے اور حضرت مولانا عبد الحیؒ کی بات کی تائید ہے، فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل۱؍۶۰۶، میرٹھ۳؍۳۵۶؍ میں سائل نے سوال کیا کہ امداد المفتیین میں بکر نے جو حدیثیں اس کے ثبوت میں پیش کی ہیں وہ صحیح ہیں یانہیں؟ تو حضرت الاستاد مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ نے جواب دیا: وہ روایات اس پایہ کی نہیں کہ اس سے کسی ضروری مسئلہ کا اثبات کیاجا سکے، آگے حضرت اپنی طرف سے جواب میں یہ الفاظ لکھتے ہیں : میت کے انتقال کے بعد اپنے گھروالوں اور متعلقین سے کچھ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور وہ متعلقین سے امیدوار رہتی ہیں، ہوتا یہ ہے کہ وہ امید اور تعلق ہی لوگوں کوتمثل ہو کر ظاہر ہوجاتے ہیں، مثلاً یہ کہ روح دروازہ پر کھڑی ہے کھانا مانگتی ہے اور ضروریات طلب کرتی ہے، یہ حقیقت نہیں ہوتی؛ بلکہ تمثل ہوتا ہے؛ کیوں کہ ارواح کو اس عالم میں دنیاوی ضرورت کی نہ تو حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ چیزیں ان کے لیے وہاں مفید ہوسکتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ایصالِ ثواب کے طور پر جو چیزیں میت کی روح کو بخشی جاتی ہیں وہ بھی اس کو اصلی صورت میں نہیں ؛ بلکہ اخروی نعمتوں کی صورت میں متشکل ہوکر پیش ہوتی ہے ‘‘۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ ڈابھیل۱؍۶۰۷، میرٹھ۳؍۳۵۷)
حضرت تھانویؒ اشرف الجواب میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ اگر تنعم میں مردہ ہے تو اسے یہاں آکر لیتے پھرنے کی ضرورت کیاہے؟ اور اگر معذب ہے تو فرشتگانِ عذاب کیوں کر چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو لپٹا پھرے، اشرف الجواب مکتبۃ دار الکتاب دیوبند ۲؍۱۵۶، ‘‘.
’’جواب:۳۰؍ اس سے معلوم ہوا کہ حضرتؒ اس کی تردید فرماتے ہیں ، فتاوی رشیدیہ میں حضرت گنگوہیؒ نے تین جواب لکھے ہیں، تینوں میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ مردوں کی روحوں کے گھر پر آنے کی روایتیں واہیہ ہیں، اس پر عقیدہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ قدیم زکریا بکڈپو۲۴۸؍‘‘.
اس جواب پر حضرت مولانا سید احمد دہلویؒ مدرس دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتویؒ اور مولانا احمد ہزارویؒ، مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ، مولانا عبد ﷲ انصاریؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، مولانا ابو الکلامؒ، محمد اسحاق فرخ آبادیؒ وغیرہم کے دستخط ثبت ہیں ۔
دوسرے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’’شبِ جمعہ اپنے گٰھر نہیں آتیں، روایت غلط ہے‘‘. فتاوی رشیدیہ دارالکتاب دیوبند ص:۲۴۹۔
شبیر احمد قاسمی عفا ﷲ عنہ‘‘.
*فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:*
’’مؤمنین کی روحوں کا شبِ جمعہ اپنے گھرآنا
سوال:ارواح مؤمنین ہر جمعہ کی شب کو اپنے اہل و عیال میں آتی ہیں یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس طرح کا عقیدہ رکھنا درست ہے یا نہیں؟
جواب:ارواحِ مؤمنین کا شبِ جمعہ وغیرہ کو اپنے گھر آنا کہیں ثابت نہیں ہوا، یہ روایات واہیہ ہیں۔ اس پر عقیدہ کرنا ہرگز نہیں چاہیے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ کتبہ الراجی رحمۃ ربہ رشید احمد گنگوہی‘‘۔
الاجوبۃ صحیحۃ ابوالخیرات سید احمد عفی عنہ،مدرسن دوم مدر عالیہ دیو بند
الاجوبۃ صحیحۃ محمد یعقوب النا نوتوی عفی عنہ،مدرسہ اول مدرسہ عالیہ دیو بند
الاجوبۃ صحیحۃ،احمد ہزاروی عفی عنہ
الاجوبۃ کلہا صحیحۃ، عزیز الرحمن الدیوبندی کان اللہ لہ (وتوکل علی العزیز الرحمن)
الاجوبۃ صحیحۃ۔ الاجوبۃ صحیحۃ محمد محمود عفی عنہ ۔ الٰہی عاقبت محمود گردان۔ الاجوبۃ کلہا صحیحۃ ابوالمکارم
عبداللہ انصاری عفی عنہ۔ مدرس مدر عالیہ دیو بند۔ محمد اسحاق فرخ آبادی عفی عنہ۔
وفیہ ایضا:
*’’مردہ کی روح کا شبِ جمعہ گھر آنا*
سوال:بعض علماء کہتے ہیں کہ مردہ کی روح اپنے مکان پر شبِ جمعہ کو آتی ہے اور طالبِ خیرات و ثواب ہوتی ہے اور نگاہوں سے پوشیدہ ہوتی ہے یہ امر صحیح ہے یا غلط؟
جواب:یہ روایات صحیح نہیں. فقط واللہ تعالیٰ اعلم‘‘۔
’’شبِ جمعہ مردوں کی روحوں کا اپنے مکانوں میں آنا
سوال:شبِ جمعہ مردوں کی روحیں اپنے گھر آتی ہیں یا نہیں، جیسا کہ بعض کتب میں لکھا ہے؟
جواب:مردوں کی روحیں شبِ جمعہ میں اپنے اپنے گھر نہیں آتیں، روایت غلط ہے‘‘۔
*نظام الفتاویٰ میں ہے:*
’’سوال:قرآن مجید کی متعدد آیات ومن ورائہم برزخ الیٰ یوم یبعثون اور انہم الیہا لایرجعون وغیرہ سے ثابت ہوتاہے کہ کسی فردِ بشر کی روح بھی عالمِ وجود سے انتقال کرلینے کے بعد لوٹ کر واپس نہیں آسکتی ہے، فتاویٰ بزازیہ کی عبارت (من قال ارواح المشائخ حاضرۃ ، یکفر) سے یہی واضح ہوتاہے کہ روحیں ہرگز ہرگز نہیں آتی ہیں، اندر یں صورت معراج کی شب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا بیت المقدس میں (مسجدِ اقصیٰ) عام پیغمبروں کی ارواح کی کرنے کی کیا کیفیت ہے جب کہ کوئی روح بمطابق عقیدہ اہل سنت والجماعت دنیا میں واپس نہیں آسکتی ہے ان روحوں کے آنے کا کیا مطلب ہے؟ جواب دیں۔
الجواب وباللہ التوفیق
جواب: شب معراج میں عالمِ مثال میں بھی امامتِ انبیاء کے مسئلہ کا محتمل ہے اور روح مع الجسد بھی باذنہ تعالیٰ محتمل ہے، علماء کے اقوال دونوں ہیں، روح المعانی وروح البیان۔ نیز ارواح کا لوٹ کر دنیا کی طرف آنا باختیارہ ممنوع ہے نہ کہ بحکمِ تعالیٰ۔ تیسرے روح جب اس عالمِ ناسوت سے منتقل ہوگئی اورجسدِ عنصری سے آزاد ہوگئی تو اب یہ عناصر باذنہ اس کے تصرف میں حاصل نہیں اور نہ ان کو ان عالمِ عنصری اوراس کے احکام پرقیاس من کل الوجوہ کرنا صحیح ہوگا، بلکہ اس کا ضابطہ اور قاعدہ یہ ہوگا کہ وہ حکمتِ علمِ خداوندی پر محمول ہوگا جن جن صورتوں میں ثبوت ہوگا ان ان صورتوں میں تسلیم ہوگا جن جن صورتوں میں انکار ہوگا ممنوع کہیں گے، اور جن جن مواقع میں سکوت ہوگا ہم بھی سکوت کریں گے، اس تقریر سے تمام جزئیاتِ نصوصیہ منطبق ہوجائیں گے۔ بزازیہ کے جملے کا محمل اسی عالمِ عنصری کے بارے میں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ : الاحقر محمد نظام الدین غفرلہٗ‘‘
الجواب صحیح : سید احمد علی سعیدمفتی
نائب مفتی ۲۴؍۲؍۱۳۸۷ھ۔
*رقمه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*
سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند
*استاذ حدیث: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات*
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home