Thursday, 4 September 2025

تعزیتی پیغام بر وفات مولانا نور محمد صاحب ستنگری نوّر اللہ مرقدہ وبرّد مضجعہ

*تعزیتی پیغام بر وفات حسرت آیات بندے کے سسر محترم حضرت مولانا نور محمد صاحب ستنگری نوّر اللہ مرقدہ وبرّد مضجعہ*


*✍️ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*


بسم اللہ الرحمن الرحیم


*سادگی میں جو گزاری اُس نے اپنی عمرِ عزیز*

*بعد مرنے کے بھی وہ دل میں اُجالا چھوڑ گیا*


زندگی اور موت کی حقیقت ایک اٹل اور غیر متبدل قانون ہے۔ ہر ذی روح کے لیے اس فانی دنیا میں قیام ایک مقررہ مدت تک ہے، جس کے بعد لازمی طور پر اپنے خالقِ حقیقی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ اہلِ ایمان کے نزدیک موت فنا نہیں، بلکہ ایک ابدی و جاودانی زندگی کی طرف پیش قدمی ہے، جہاں اصل کامیابی اور دائمی راحت مومن کے مقدر میں لکھی جاتی ہے۔


انہی یقینوں اور ایمانی تصدیقوں کے ساتھ آج ہم نہایت رنج و غم کے عالم میں اس عظیم سانحہ کو بیان کر رہے ہیں کہ *ہمارے سسر محترم، بزرگوار، باوقار اور عاشقِ دین شخصیت حضرت مولانا نور محمد صاحب ستنگری اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے۔* انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔


*کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے*

*جی چاہتا ہے کہ نقش قدم چومتے چلیں*


*ابتدائی احوال و تعلیمی سفر*


*حضرت مرحوم کی ولادت یکم جنوری 1962ء بروز پیر ایک نہایت ہی پرنور، دینی اور علمی فیضان سے معمور خانوادے میں ہوئی۔* یہ خاندانی پس منظر ہی تھا جس نے آپ کی شخصیت کو ایک انوکھا وقار اور گہری روحانیت عطا کی۔ آغازِ زندگی ہی سے آپ کے دل و دماغ میں ایمان، اخلاص اور نیکی کی خوشبو رچ بس گئی، اور گھریلو تربیت نے آپ کی ذات کو سنوار کر متانت، وقار اور دیانت کا نمونہ بنا دیا۔ یہی پرنور ماحول آگے چل کر آپ کے اخلاق و کردار اور دین سے وابستگی کا اصل سرمایہ ثابت ہوا۔


حضرت مرحوم نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں ستنگر کے دینی و علمی ماحول میں حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ عصری تعلیم کی بنیاد بھی اسی بستی میں رکھی۔ اور نویں کلاس مکمل کی، *اس کے بعد مزید علومِ نبویہ کے حصول اور دینی تشنگی کو بجھانے کے لیے آپ نے علاقۂ پالنپور کی مشہور و معروف دینی درسگاہ مدرسہ اسلامیہ دارالعلوم چھاپی میں محنت، جانفشانی اور شوقِ علم کے ساتھ تعلیم میں حصہ لیا۔* مطالعہ کی لگن اور درس کی پابندی نے آپ کی علمی بنیادوں کو مضبوط کیا اور آپ نے عربی پنجم تک کی تعلیم نہایت انہماک سے مکمل کی۔


*اسی جامعہ چھاپی میں آپ نے مختصر المعانی اور شرح تہذیب وغیرہ کتب بندے کے والد ماجد حضرت مولانا محمّد یونس صاحب تاجپوری دامت برکاتہم سے پڑھی، جبکہ ہدایہ وغیرہ جیسے اہم متون حضرت الاستاذ قاری عبد الستار صاحب اسلام پوری دامت برکاتہم سے پڑھے۔*



*آج ہی جامعہ چھاپی کے شیخ الحدیث حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب رسولپوری دامت برکاتہم نے تعزیت کے لیے بندے کو فون فرمایا۔ وہ نہایت حسرت و تأثر کے ساتھ یہ فرما رہے تھے کہ "آپ کے سسر ہم سے تعلیم میں سینئر تھے۔ تعلیم کے زمانے ہی سے وہ نہ صرف نمازوں کے بڑے پابند تھے، بلکہ ذکر و اذکار اور تسبیحات کے بھی عاشق تھے۔ ان کی سادگی اور بے تکلفی اُس وقت سے لے کر وفات تک ان کی شخصیت کا نمایاں وصف رہا۔"*


*وہی دورِ تعلیم میں ڈھل گیا کردار*

*سادہ زندگی بھی، عبادت بھی برقرار*


یقیناً یہی سادگی، اخلاص اور دینداری حضرت مرحوم کا اصل سرمایہ تھا، جو آج بھی ان کے اخلاق و کردار کی روشن یادوں کے طور پر ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔


*اس کے بعد حضرت مرحوم نے جامعہ اشرفیہ راندیر کا رخ فرمایا* اور وہاں کی مایہ ناز علمی و روحانی فضاء میں حدیثِ نبوی کی تکمیل کا شرف حاصل کیا۔ اس موقع پر آپ نے اس دور کے جلیل القدر اکابر علماء و مشائخ سے براہِ راست کسبِ فیض کیا۔


*خصوصاً آپ کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ حضرت مولانا محمد رضا اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جیسے متبحر عالم دین اور عاشقِ سنت استاد سے صحیح بخاری شریف کا درس پڑھا، اسی طرح حضرت مولانا محمد آچھوڈی صاحب رحمہ اللہ سے صحیح مسلم کا درس حاصل کرنے کی توفیق پائی، اور مفتی عبد الغنی صاحب کاوی رحمہ اللہ سے آپ نے مشکوٰۃ المصابیح کی تحصیل فرمائی، اور یہ وہ عظیم استاد تھے جنہوں نے عمرِ عزیز کے چھ دہائیوں سے زائد عرصہ تک اس کتابِ جلیل کی تدریس کی سعادت پائی اور مسلسل نسل در نسل طالبانِ علم کو اس کے انوار و برکات سے فیض یاب کیا۔*

یہی وہ عظیم نسبت ہے جس نے آپ کی علمی بنیادوں کو مزید جِلا بخشی، اور آپ کے دل و دماغ کو حدیثِ رسول ﷺ کی محبت اور اس کی روشنی سے معمور کر دیا۔


یہ نسبت اور یہ روحانی فیضان آپ کے اخلاق و کردار میں رچ بس گئے، اور یہی سرمایۂ حدیث آپ کے مزاج و اطوار کی سادگی، عاجزی، اور خلوص میں مزید نکھار کا ذریعہ بن گیا۔ گویا حضرت مرحوم نے اپنی علمی و دینی زندگی کو نہ صرف علم و فضل سے آراستہ کیا، بلکہ اس کو روحانیت، سادگی اور تواضع کے حسین رنگوں میں بھی ڈھال لیا۔


*یوں آپ نے سنہ 1987ء میں جامعہ اشرفیہ راندیر سے باقاعدہ فراغت حاصل کی، اور یہ سال آپ کی زندگی میں ایک نئے باب، ایک روشن عہد اور علمی خدمات کے درخشاں سفر کی ابتداء ثابت ہوا۔*


*مشائخ کے قدموں میں جو بیٹھا ادب کے ساتھ*

*ملی اسے حیات میں عرفان کی سوغات*


*تدریسی خدمات*


*فراغت کے بعد جلد ہی آپ نے درس و تدریس کے میدان میں قدم رکھا اور اپنی پوری زندگی کو اسی خدمتِ جلیلہ کے لیے وقف فرما دیا۔ آپ کی تدریسی زندگی مختلف علمی مراکز سے وابستہ رہی۔ ابتدا کچھ بھوج میں مکتب کی تدریس سے ہوئی، اس کے بعد سنجیواڈا میں آپ کی محنت جاری رہی۔ پھر دِوا اور ننداسن کے مکاتب میں بھی آپ نے بچوں کو قرآن و دینیات کی تعلیم دی اور ان کے دلوں میں ایمان و محبتِ دین کے چراغ روشن کیے۔*


*جامعہ وڈالی میں آپ کی تدریسی زندگی کا تابناک باب*


*بالآخر آپ کی زندگی کا سب سے روشن اور تابناک باب جامعہ اسلامیہ امداد العلوم وڈالی میں رقم ہوا،* جہاں آپ نے پینتیس برس سے زائد عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں۔ آخری سانس تک آپ نے درس و تدریس کے فرائض نہایت حسن و خوبی کے ساتھ ادا کیے اور ایک عظیم علمی و روحانی ورثہ چھوڑا، جو تاقیامت آپ کے اخلاص اور للہیت کی یاد دلاتا رہے گا۔


*آپ کی سیرت و کردار میں تدریس کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت کا حسین امتزاج نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ ہمیشہ صفِ اوّل کے پابند رہے، قرآن کریم کی تلاوت سے اپنے دل کو سکون بخشتے اور تہجد کی خلوتوں میں ربّ کے حضور گریہ و زاری کرتے۔ ذکرِ الٰہی آپ کے دل کو منور اور بندگی کی لذت آپ کی روح کو معمور رکھتی تھی۔*


*جامعہ وڈالی کے فضلاء اور بندہ خود اس بات کے گواہ ہیں کہ حضرت مرحوم ہمیشہ امام کے پیچھے صفِ اوّل میں کھڑے ہوتے، گویا صفِ اوّل آپ کے قدموں کی پہچان بن چکی تھی۔*


*آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف حسنِ اخلاق اور محبت و شفقت تھا۔ آپ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو قول یا عمل سے تکلیف نہیں پہنچائی۔ آپ ہمیشہ نرمی، خوش اخلاقی اور محبت سے پیش آتے۔ ہر شخص آپ کی مجلس سے خوش اور مطمئن ہو کر نکلتا۔*


*سادگی اور قناعت آپ کی زندگی کا خاصہ تھا۔ آپ کے لباس و وضع قطع میں سادگی جھلکتی تھی۔ کبھی اچھے کپڑوں، جوتوں یا زیبائش کی طرف توجہ نہ دی۔ غربت اور تنگ دستی کے دنوں میں بھی آپ کے چہرے پر شکوے کے بجائے ہمیشہ شکر گزاری اور سکون کی روشنی نظر آتی۔ آپ نے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر ہمیشہ شکر ادا کیا اور قناعت کو اپنا سرمایہ بنایا۔*


*اسی لیے لوگ آپ کو زندگی ہی میں محبت اور شفقت کا پیکر کہتے تھے۔ آپ کی سیرت اس حقیقت کی عملی مثال تھی کہ اصل خوشی دنیاوی آسائشوں میں نہیں بلکہ شکر، صبر، قناعت اور حسنِ اخلاق میں ہے۔*


*طلبہ کے ساتھ آپ کا رویہ سراسر شفقت و محبت پر مبنی تھا۔ آپ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسی جامعہ میں گزارا، اور آج بھی وہاں کے اساتذہ اس بات کے گواہ ہیں کہ مرحوم نے کبھی کسی کو اپنی زبان یا عمل سے رنجیدہ نہیں کیا۔ طلبہ کو ہمیشہ محبتوں سے نوازتے اور ان کی تربیت کا خاص اہتمام فرماتے۔*


*آپ کی زاہدانہ اور سنت پر مبنی زندگی کی جھلک آپ کی جامعہ میں رہائش گاہ میں بھی صاف طور پر نظر آتی تھی۔ آپ نے ہمیشہ ایک نہایت سادہ اور مختصر کمرے میں قیام فرمایا، جہاں محض ایک معمولی سی چارپائی، نماز کے لیے مختص جگہ اور غسل کی بنیادی سی سہولت موجود تھی۔*


*یہ وہی مقام تھا جہاں ایک خوش بخت خواب دیکھنے والے نے عالمِ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملاحظہ کیا کہ آپ اسی جگہ پر موطأ امام مالک کا درس فرما رہے ہیں۔ گویا یہ منظر اس بات کی واضح دلیل تھا کہ اس مقام سے اتباعِ سنت کی روح زندہ تھی اور اس کے انوار پورے ماحول کو منور کر رہے تھے۔*


اسی بے تکلّف اور پرہیزگار ماحول میں آپ نے اپنی زندگی بسر فرمائی۔ نہ آسائشوں کی خواہش کی، نہ سہولتوں کے نہ ہونے پر کبھی شکوہ کیا۔ جامعہ کا سادہ کھانا ہی آپ کا معمول تھا، چاہے جیسا بھی ہو، آپ نے ہمیشہ شکر کے ساتھ تناول فرمایا اور کبھی زبان پر شکایت نہ لائے۔ آپ کے نزدیک یہی طرزِ زندگی دراصل عبادت اور سنتِ نبوی ﷺ کی حقیقی پیروی تھی۔


یوں آپ کی زندگی تعلیم، عبادت، زہد اور للہیت کا حسین امتزاج تھی، جس کا ہر پہلو آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔


*وڈالی میں تدریسی ذمہ داریوں کے ابتدائی دو سالوں کے بعد آپ نے ایک عظیم روحانی سفر اختیار کیا۔ آپ نے رخصت لے کر دعوت و تبلیغ کی راہ میں قدم رکھا اور ایک سال کی جماعت میں اللہ کے دین کی محنت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ یہ قربانی اور یہ سفر آپ کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جس نے آپ کو صرف ایک مدرس و معلم ہی نہیں بلکہ ایک سچے داعی اور مصلح کی صورت میں بھی نمایاں کیا۔ گویا آپ کی زندگی کا ہر لمحہ تعلیم، تربیت اور تبلیغ کے حسین امتزاج کا مظہر رہا۔* جامعہ کی مصروفیات کے باوجود آپ گشت کے دنوں میں پابندی سے شریک ہوتے، اور اللہ کے راستے میں چلہ اور چار ماہ کے اسفار بھی مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے رہے۔ یہ توازن کہ ایک طرف درس و تدریس کی محنت اور دوسری طرف دعوت و اصلاح کی لگن، آپ کی شخصیت کو ہمہ جہت اور بے مثال بناتا ہے۔




*چندہ میں جاں فشانی، بے مثال احتیاط اور فضول خرچی سے کامل اجتناب*


جامعہ وڈالی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آپ نے بمبئی میں طویل عرصہ تک چندہ کی خدمت انجام دی۔ یہ کام بظاہر نہایت کٹھن، صبر آزما اور مشقت بھرا تھا، لیکن آپ نے اسے بھی عبادت کا حصہ سمجھ کر نہایت اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔ سفر کی مشقت، گرمی و سردی کی شدت اور بڑے شہروں کے ہجوم و ہنگامے بھی آپ کو کبھی مایوس نہ کرسکے۔


چندہ کے سلسلے میں آپ کی احتیاط اور دیانت مثالی تھی۔ جہاں تک ممکن ہوتا، آپ پیدل چل کر چندہ کرتے اور فضول خرچی یا سہولت پسندی سے یکسر اجتناب فرماتے۔ ٹیکسی یا غیر ضروری اخراجات سے ہمیشہ گریز کرتے۔ ہمارے ہی ادارے کے ایک معزز استاذِ حدیث، حضرت مولانا بلال صاحب نولپوری حفظہ اللہ، جو کچھ برسوں سے مولانا مرحوم کے ساتھ جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا کا چندہ کرتے ہیں، وہ آپ کی اس غیر معمولی احتیاط اور جاں فشانی کے عینی شاہد ہیں۔


*آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ جہاں دیگر اساتذہ چندہ کے دوران گیسٹ ہاؤس میں قیام کرتے ہیں، وہاں آپ ہمیشہ مسجد ہی میں قیام فرماتے۔ حضرت مولانا اسماعیل صاحب مجادری رحمہ اللہ کے تعلقات کی بنا پر اندھیری کی ایک مسجد میں آپ کے قیام کا مستقل انتظام رہتا، اور آپ نے ہمیشہ اسی پر اکتفا کیا، تاکہ ادارے کے وسائل کا غیر ضروری خرچ نہ ہو۔*


یوں آپ کی شب و روز کی محنت، جاں نثاری اور بے مثال احتیاط ہی کے نتیجے میں جامعہ وڈالی کے لیے مالی وسائل فراہم ہوتے رہے۔ یہ خدمت دراصل آپ کے اخلاص، للہیت اور دین سے غیر معمولی وابستگی کا روشن باب ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔


*بیماری و وصیت*


انہیں تدریسی خدمات کے دوران تقریباً آج سے ایک یا سوا ماہ قبل آپ کو کمر میں تکلیف محسوس ہوئی۔ جمعرات کے دن آپ گھر تشریف لائے۔ اگلے دن بروز جمعہ بندہ خود آپ کو ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ معائنے (ایکس رے) کے بعد ڈاکٹر نے کمر کی نس کے دبنے اور خشک ہونے کی تشخیص کی، اور کچھ دوائیاں دی، آپ ایک ہفتے تک وہ دوائیں لیتے رہے لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا بلکہ مزید تکالیف (چھاتی میں درد، تیز بخار اور سر درد وغیرہ) لاحق ہوئیں۔


اس کے بعد آپ کے دوسرے نمبر کے صاحبزادے مولوی حمزہ سلمہ اور دیگر اہلِ خانہ آپ کو ہمت نگر کے ایک ہسپتال لے گئے جہاں آپ کو داخل کیا گیا اور چند روز ادویہ دی گئیں، لیکن وہاں بھی خاص افاقہ نہ ہوا۔ پھر خاندان کے مشورے سے فیصلہ ہوا کہ آپ کو احمد آباد کے بڑے ہسپتال لے جایا جائے۔ وہاں خون کے اہم ٹیسٹ ہوئے جن میں *خون کے کینسر* کی تشخیص ہوئی، وہ بھی نہایت شدید درجے کی۔


ابتدا میں یہ حقیقت آپ سے چھپائی گئی، مگر جب آپ کو علم ہوا کہ آپ ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہیں تو آپ نے نہایت جرات اور تسلیم و رضا کے ساتھ فرمایا:


*"اللہ تعالیٰ ہی بیماری دینے والا اور شفا بخشنے والا ہے۔ میری یہ بیماری بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں اپنے رب کے فیصلے پر راضی ہوں۔"*


گھر تشریف لانے کے بعد آپ نے اپنی اہلیہ، بچوں اور بچیوں کو صبر کی تلقین کی اور بڑے وثوق کے ساتھ فرمایا:


*"اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آگیا ہے تو میں تیار ہوں۔"*


اس کے بعد احمد آباد کے ہسپتال میں کینسر کے علاج کے طور پر آپ کی کیمو تھیراپی شروع ہوئی۔ چونکہ بیماری بہت بڑھ چکی تھی اس لیے علاج نہایت دشوار اور تکلیف دہ ثابت ہوا۔ پہلی کیمو تھیراپی کے بعد آپ کو شدید تکالیف ہوئیں، سر میں انفیکشن پیدا ہوگیا، بولنے پر اثر پڑا اور آنکھوں میں بھی گہری کمزوری آگئی یہاں تک کہ ایک آنکھ بند ہوگئی۔ اس موقع پر آپ کو دوبارہ ہمت نگر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر نے کچھ ادویہ اور ورزش تجویز کی۔


*جب دوسری کیمو تھیراپی کا وقت (27/اگست /2025 بروز بدھ) آیا تو عین اسی دن آپ فجر سے قبل تہجد کے لیے بیدار ہوئے، وضو فرمایا اور اپنے بیٹے مولوی حمزہ سلمہ کو قریب بلا کر نہایت اہم وصایا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا:*


*"بیٹا! میرا جانے کا کوئی ٹھکانہ نہیں، میں کب چلا جاؤں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تم چاروں بھائی ہمیشہ نماز کی پابندی کرتے رہنا، وقت کی قدر کرنا اور دعوت و تبلیغ کے کام سے جڑے رہنا تاکہ گھر کا دینی ماحول قائم رہے۔"*


*“اپنی تینوں بہنوں کا ہر وقت خیال رکھنا اور اپنی والدہ ماجدہ کی ہمیشہ خدمت کرتے رہنا۔ کبھی اپنے قول و فعل سے انہیں تکلیف نہ دینا۔”*

*“اپنی زندگی کو سادگی اور دیانت کے ساتھ گزارنا۔ ایسا کوئی عمل نہ کرنا جس سے میرا نام یا میری ذات پر حرف آئے۔”*


*“الحمدللہ! میری زندگی میں کوئی نماز قضا نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی روزہ باقی ہے۔ لیکن آج سے میری نمازوں کو شمار کرتے رہنا۔ اگر میری وفات کے بعد کوئی نماز رہ جائے تو اس کا فدیہ ادا کر دینا۔"*


یہ وصایا آپ کے تقویٰ، دور اندیشی اور دین داری کی مکمل جھلک پیش کرتی ہیں۔



اسی دن آپ کو احمد آباد لے جایا گیا جہاں انفیکشن کے باعث دماغ کے ماہر ڈاکٹر کو دکھایا گیا۔ اس دن بندے کے بڑے بہنوئی مولوی ابراہیم حفظہ اللہ جو احمد آباد میں پڑھاتے ہیں، عیادت کے لیے مولانا مرحوم کے پاس تشریف لائے۔ آپ نے فوراً انہیں پہچان لیا اور فرمایا:

*"مولوی حسان کو بلاؤ، مجھے وڈالی لے چلیں، تاکہ میں جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ سے ملاقات کروں، ان سے معافی مانگوں، اگر کسی پر سختی کی ہو تو انہیں راضی کر لوں۔" اور یہ بات کافی بار دہراتے رہیں۔*


*ہمارے بہنوئی نے بتایا کہ اس سخت بیماری اور کربناک کیفیت میں بھی جب ظہر کا وقت ہوا تو آپ نے تیمم کیا اور اشارے سے نماز ادا کی۔ اس کے بعد مولانا ابراہیم سلمہ سے نیک باتیں کرتے رہے۔*


رپورٹس کے بعد آپ کو آئی سی یو میں داخل کر دیا گیا، رفتہ رفتہ بیماری بڑھتی گئی۔ پہلے ایک آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی، پھر دوسری آنکھ بھی بند ہوگئی، دونوں کان سن ہو گئے اور زبان کی قوتِ گویا بھی ختم ہوگئی۔

جب مجھے علم ہوا کہ حضرت مولانا کی طبیعت کافی ناساز ہے اور ائی سی یو میں ڈاکٹر نے داخل کرنے کا کہا ہے تو میں اسلام پورہ سے جمعرات کے دن احمد آباد پہنچا۔ آئی سی یو کے دنوں میں بندہ بھی آپ کے صاحبزادوں کے ساتھ مولانا کی خدمت کے لیے اللہ کے فضل وکرم سے حاضر رہا۔ جمعہ کی رات کو میں نے مولوی حمزہ سلمہ سے کہا کہ والدِ ماجد کے کان میں کلمے کی تلقین کرتے رہنا۔ *چنانچہ جمعہ کی صبح کو مولوی حمزہ سلمہ نے مجھے بتایا کہ میں رات کو تقریبا ڈھائی بجے آئی سی یو میں گیا اور کان میں تین مرتبہ کلمہ پڑھا اور اللہ اکبر کہا۔ کچھ لمحے کے لیے انہیں ہوش آیا اور انہوں نے بلند آواز سے تین مرتبہ کلمہ اور اللہ اکبر پڑھا۔ پھر وہی بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔*


*مگر بیماری بڑھتی گئی، ہوش آنا جانا شروع ہوگیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ انفیکشن بڑھ رہا ہے، علاج سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو رہا۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ کو گھر لے جایا جائے تاکہ اہلِ خانہ خدمت کرسکیں۔*

*چنانچہ جمعہ کے دن نماز کے بعد آپ کو گھر لایا گیا۔ اس وقت آپ کی آنکھیں بند تھیں، کان بھی سن ہوچکے تھے اور زبان کی حرکت ختم ہوگئی تھی،* اسی کیفیت میں وہ حدیث قدسی یاد آتی ہے جو صحیح بخاری، کتاب المرضى، حدیث نمبر: 5653 میں وارد ہے:عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:

قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: "إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِي بِحَبِيبَتَيْهِ، فَصَبَرَ، عَوَّضْتُهُ مِنْهُمَا الْجَنَّةَ" يُرِيدُ عَيْنَيْهِ.


یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"جب میں اپنے بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں (یعنی آنکھوں) سے آزماتا ہوں اور وہ صبر کرتا ہے تو میں ان کے بدلے اسے جنت عطا کرتا ہوں۔"


ائمہ کرام نے اس پر شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آنکھوں کی بینائی کے جانے پر صبر کرنا، شہادت کی موت کے اجر تک پہنچا دیتا ہے۔ امام نوویؒ نے فرمایا: "اس میں صبر کرنے والے کو أجر الشهادة (شہادت کا اجر) ملتا ہے۔"

یوں یہ حدیث قدسی گویا حضرت مولانا مرحوم کی حیاتِ آخری میں اپنی عملی تفسیر کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔


*بعد ازاں بروز جمعہ آپ کو گھر لایا گیا، جہاں جمیع اہلِ خانہ، مولانا مرحوم کے بھائیوں، بیٹوں اور بھتیجوں نے خدمت و تیمارداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ خصوصاً حضرت مرحوم کے شفیق بھائی ڈاکٹر سکندر ہر دم ساتھ رہے؛ اپنی مصروفیات کو ترک کر کے دن رات آپ کی دیکھ بھال، ڈاکٹروں سے رجوع اور علاج معالجے کے ہر مرحلے میں پیش پیش رہے۔*


ناک میں ڈالی گئی نالی کے ذریعے آپ کو زمزم شریف اور مائع غذائیں دی جاتیں، اور اہلِ خانہ ہمہ وقت محبت، شفقت اور ایثار کے ساتھ خدمت میں لگے رہتے۔ یہ مناظر اس بات کی روشن دلیل تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرحوم کو ایسے اہل و عیال عطا فرمائے جو وفا، خدمت اور قربانی میں اپنی مثال آپ ہیں۔


مگر اب وہ وقت قریب آچکا تھا جس کا ہر ذی روح منتظر ہے۔


*بالآخر 07/ربیع الأول/1447ھ مطابق 31/اگست/2025ء بروز اتوار عصر کی نماز سے کچھ قبل، چار بج کر بیس منٹ پر آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی اور آپ نے اپنے مولائے حقیقی کو لبیک کہا۔ آپ نے ہمیشہ ہمیش کی عافیت والی ابدی زندگی کو اختیار کر لیا۔* انا لله و انا اليه راجعون۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے، اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

اللہ انہیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے اور قبر کو نور اور سکون سے بھر دے۔

اللہ پس ماندگان کو صبرِ جمیل اور اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین 


*مولانا مرحوم کا خانوادہ*


حضرت مولانا نور محمد صاحب ستنگریؒ اپنے پیچھے ایک نہایت باعزت، باوقار اور دین دار خانوادہ چھوڑ گئے ہیں۔ آپ کے پانچ بھائی ہیں، اور کوئی بہن نہیں۔ ان میں سے دو آپ سے بڑے اور تین چھوٹے ہیں۔


بڑے بھائیوں میں سب سے پہلے *یونس بھائی* ہیں، جو اپنی سادگی، ملنساری اور حسنِ اخلاق میں گویا اپنے مرحوم بھائی ہی کا عکس ہیں۔ ان کی طبیعت میں بھی وہی متانت اور سادہ کردار جھلکتا ہے جو حضرت مرحوم کا خاصہ رہا۔


دوسرے نمبر پر *حاجی محمد حنیف بھائی* ہیں، جو نہ صرف نماز اور تسبیحات کے بڑے پابند ہیں بلکہ صفِ اوّل میں کھڑے ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ گشت اور تبلیغ میں بھی پیش پیش رہتے ہیں اور اپنی اولاد کی اصلاح و تربیت کی فکر ہر وقت دل میں رکھتے ہیں۔


تیسرے نمبر پر *اسحاق بھائی* ہیں، جو حضرت مرحوم کے پڑوسی بھی تھے۔ بھائی کی غیر موجودگی میں آپ کے بیٹوں اور بیٹیوں کی نگرانی کرنا، ان کا ہر وقت خیال رکھنا اور پاسداری کرنا ان کا معمول رہا۔ ان کی زندگی میں بھی سادگی اور تبلیغ کا ذوق نمایاں ہے۔


چوتھے نمبر پر *مولانا سلیمان صاحب* ہیں، جو حضرت مرحوم سے تعلیم میں دو سال پیچھے تھے اور انہی کی طرح جامعہ اشرفیہ راندیر سے فارغ ہوئے۔ آپ کو بھی حضرت مولانا محمد رضا اجمیریؒ سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ نہایت عمدہ اخلاق اور نیک مزاج کے حامل ہیں۔


پانچویں اور سب سے چھوٹے بھائی *حافظ عمر فاروق* ہیں، جو قرآن کریم کے حافظ اور بڑے خوش اخلاق انسان ہیں۔ ان کی طبیعت میں نرمی، شرافت اور خاندانی وقار صاف جھلکتا ہے۔


یہ پورا خانوادہ اپنی صفات اور خوبیوں کے اعتبار سے گاؤں میں نمایاں ہے۔ ان سب میں مہمان نوازی اور ضیافت کی ایک لازوال صفت مشترک ہے۔ کبھی بھی اپنے گاؤں کے اساتذہ یا مکاتب کے معلمین کو دعوت سے محروم نہیں کیا۔ ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ ان کی خاطر داری کی۔ گویا کہ یہ خاندان حسنِ اخلاق، دین داری اور مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ ہے۔



*اولاد و اہلِ خانہ*


حضرت مرحوم نے اپنے پیچھے چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں چھوڑیں۔


بڑے بیٹے *مولوی حذیفہ سلمہ اور دوسرے نمبر پر مولوی حمزہ سلمہ* ہیں، دونوں ہی حافظِ قرآن ہیں اور تراویح میں قرآن سنانا ان کا معمول ہے۔


*تیسرے بیٹے عبدان بھائی اور چوتھے بیٹے مولوی اسامہ سلمہ ہیں،* یہ دونوں حضرات بھی نہایت نیک طبیعت اور حسن و اخلاق کے حامل ہیں۔

تین بیٹیاں بھی آپ کی یادگار ہیں: رابعہ، ذکیہ اور یسیرہ۔ یہ سبھی اپنی شرم و حیا اور دین داری میں والد کی تربیت کا مظہر ہیں۔


*اہلیہ محترمہ کا ذکر بھی نہایت اہم ہے۔ حضرت مرحوم کی زوجہ محترمہ ہمارے ہی گاؤں تاجپوری سے تعلق رکھتی ہیں۔ نیک سیرت، خوش مزاج، ہمیشہ پردہ اور نماز کی پابند خاتون ہیں۔ آپ کی دادی اپنے وقت کی نہایت صالح اور دیندار عورتوں میں شمار ہوتی تھیں، اور انہی کے اثرات آپ کی ذات میں بھی نمایاں ہیں۔ غربت و تنگ دستی کے دنوں میں بھی شوہر کا پورا ساتھ دیا، ان کے ساتھ دین کی خدمت میں شریک رہیں اور بیٹوں اور بیٹیوں کی بہترین تربیت فرمائی۔ دراصل ایک اچھی بیوی ہی شوہر کے گھر اور نظام کو سنبھالنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے، اور حضرت مرحوم کی اہلیہ نے یہ کردار بحسن و خوبی ادا کیا۔*

یوں یہ خانوادہ حضرت مرحوم کی سادہ مزاجی، دینداری اور حسنِ اخلاق کی جیتی جاگتی تصویر ہے، جو ان کے لیے صدقۂ جاریہ اور باعثِ فخر و شرف ہے۔


اللہ تعالیٰ ان سب کو اور ہمیں بھی مولانا کی طرح سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، نمازوں کا پابند بنائے اور حسن اخلاق کا پیکر بنائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین 


*بقلم: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری* 


*خادم التدریس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا، سابرکانٹھا شمالی گجرات۔*


رقم الاتصال: 9428359610

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home