Wednesday, 15 April 2020

دجال کی آنکھ کے متعلق تحقیق


تحقیقات سلسلہ نمبر 25
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(دجال کی داہنی آنکھ یا بائیں آنکھ کانی ہوگی) 
سوال۔  دجال کی داہنی آنکھ کانی ہوگی یا بائیں آنکھ؟ یہ سوال اس لیے ہوتا ہے کہ مسلم شریف میں دونوں طرح کی روایات موجود ہیں۔ دونوں روایتوں میں تطبیق دیں؟ مہربانی ہوگی۔ 
(١) ‌عن ابن عمر رضى الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر الدجال بين ظهرانى الناس فقال: (إن الله ليس بأعور، ألا إن المسيح الدجال أعــــــــــــــــــــــور العيـــــــــــــــــــن اليمنـــــــــــــــــــــى، كأن عينــــــــــــــه عنبـــــــــــــة طافئــــــــــة)، رواه مسلم والبخاري وابو داود والترمذي والحديث صحيح.
(٢)  عن حذيفة بن اليمان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الدَّجّالُ أعْوَرُ العَيْنِ اليُسْرى، جُفالُ الشَّعَرِ، معهُ جَنَّةٌ ونارٌ، فَنارُهُ جَنَّةٌ وجَنَّتُهُ نارٌ. ( رواه مسلم في صحيحه) 
فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب باسمہ سبحانہ وتعالیٰ۔   

مذکور سوال کے سلسلے میں دو باتوں کا جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(١)  مذکور احادیث کی تخریج اور حکم الحدیث۔
(٢)  ان دونوں احادیث کے درمیان تطبیق۔

تفصیل الجواب(١)  مذکور احادیث کی تخریج اور حکم الحدیث۔
اعور العین الیمنی کی احادیث۔ 
(١) عن عبدالله بن عمر قال:  ذَكَرَ النبيُّ ﷺ، يَوْمًا بيْنَ ظَهْرَيِ النّاسِ المَسِيحَ الدَّجّالَ، فَقالَ: إنَّ اللَّهَ ليسَ بأَعْوَرَ، ألا إنَّ المَسِيحَ الدَّجّالَ أعْوَرُ العَيْنِ اليُمْنى، كَأنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طافِيَةٌ……….
( صحيح البخاري رقم الحديث: ٣٤٣٩، صحيح مسلم رقم الحديث:١٦٩، صحيح الجامع للالباني رقم الحديث: ٢٦٣٦ باختلاف يسير، حکم الحدیث: صحیح ) 
ترجمہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان دجال کا ذکر کیا، پس آپ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ کانے نہیں ہے، سنو! یقیناً مسیح دجال کہ اس کی داہنی آنکھ کانی ہوگی، گویا کہ وہ آنکھ ابھرا ہوا انگور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢) عن سعد بن أبي وقاص قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إِنَّهُ لم يكنْ نَبِيٌّ إلّا وقدْ وصفَ الدجالَ لأُمَّتِهِ، ولَأَصِفُهُ صِفَةً لم يصفْها نَبِيٌّ قبْلِي: إِنَّهُ أعورُ العينِ اليُمْنى
(البحر الزخار للبزار ٣/٣١٤ ، لا نعلم روى داود إلا هذا الحديث بغير اختلاف)
ترجمہ۔  سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی نے اپنی امت کو دجال کے متعلق بتایا ہیں، اور میں ایک ایسی چیز بتانے جارہاہوں جو میرے پہلے کسی نبی نے نہیں بتائی: یقیناً وہ اس دجال کی داہنی آنکھ کانی ہوگی۔
(٣) عن عبدالله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بَيْنا أنا نائمٌ رأَيْتُني أطوفُ……….فالتَفَتُّ فإذا رجُلٌ أحمَرُ جسيمٌ جَعْدُ الرَّأسِ أعورُ العَينِ اليُمنى كأنَّ عينَه عِنَبةٌ طافيةٌ قُلْتُ مَن هذا قالوا الدَّجّالُ أقرَبُ النّاسِ به شَبَهًا ابنُ قَطَنٍ.
(المعجم الأوسط للطبراني ٩/٧٤،لم يرو هذا الحديث عن ابن أخي الزهري إلا الدراوردي تفرد به إبراهيم بن حمزة، مسند أحمد ٨/٢٠٩ باختلاف يسير،صحيح البخاري رقم الحديث:٧٠٢٦، ومسلم رقم الحديث:١٧١ باختلاف يسير)
ترجمہ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس درمیان کے میں سویا ہوا تھا، کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں طواف کررہاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں متوجہ ہوا تو اچانک ایک شخص ہے سرخ، موٹا، گھونگھریالوں بال والا، داہنی آنکھ کانی، گویا کہ اس کی آنکھ ابھرا ہوا انگور ہے، میں نے کہا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: دجال ہے' اس سے لوگوں میں مشابہت کے اعتبار سے زیادہ قریب ابن قطن ہے۔ 
اعور العین الیسری کی احادیث

(١) عَنْ حُذَيْفَةَ  قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الدَّجَّالُ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى، جُفَالُ الشَّعَرِ ، مَعَهُ جَنَّةٌ وَنَارٌ، فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ "
(صحيح مسلم رقم الحديث:٢٩٣٤،مسند أحمد | مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ  | حَدِيثُ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رقم:286 ،شعيب الأرنؤوط (متوفی ١٤٣٨ هـ)، تخريج المسند رقم الحدیث: ٢٣٣٦٥, إسناده صحيح على شرط الشيخين،صحيح الجامع للانباني رقم الحديث: ٣٤٠٠، صحيح ابن ماجه للانبانی ٣٣٠٦ باختلاف یسیر حکم الحدیث: صحیح ) 
ترجمہ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کے اس کی بائیں آنکھ کانی ہوگی، گھونگھریالوں بال والا ہوگا، اس کے ساتھ جنت اور آگ ہوگی، حقیقت یہ ہے کہ اس کی آگ جنت ہے، اور اس کی جنت آگ ہے۔ 
(٢) عن سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنَّهُ لم يَكُن نبيٌّ قبلي إلّا قَد حذَّرَ الدَّجّالَ أمَّتَهُ، هوَ أعورُ العينِ اليُسرى بعينِهِ اليُمنى ظَفَرةٌ غليظةٌ بينَ عينيهِ كافرٌ معَهُ واديانِ أحدُهُما جنَّةٌ والآخرُ نارٌ فجنَّتُهُ نارٌ وَنارُهُ جنَّةٌ…………..
(الصحيح المسند للوادعي رقم الحديث: ٤٣٨   حسن، مجمع الزوائد للهيثمي ٧/٣٤٣ باختلاف يسير،    رجاله ثقات وفي بعضهم كلام لا يضر‏‏)
ترجمہ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پہلے ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے، وہ اس کی بائیں آنکھ کانی ہوگی، اس کی داہنی آنکھ پر غلیظ ناخنہ ( پھلی) ہوگی، آنکھوں پر کافر لکھا ہوا ہوگا، اس کے ساتھ جنت اور آگ کی دو وادیاں ہوگی، تو اس کی جنت آگ ہے اور آگ جنت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٣)  عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  إني خاتمُ ألفِ نبيٍّ أو أكثرَ وما بعث اللهُ نبيًّا يُتَّبَعُ إلا وحذَّر أمّتَه منه وإني قد بُيِّن لي فيه ما لم يُبيَّنْ لأحدٍ منهم وإنه أعورُ وإنَّ ربَّكم ليس بأعورَ وعينُه اليمنى عوراءُ جاحظةٌ لا تخفى كأنها نخامةٌ في حائطٍ مُجصَّصٍ وعينُه اليسرى كأنها كوكبٌ دُرٍّيٌّ معه من كل لسانٍ ومعه صورةُ الجنةِ خضراءُ يجري فيها الماءُ وصورةَ النارِ سوداءُ تُدخِّنُ.
( البداية والنهاية لإبن كثير ٢/١٤٠ ،  حكم الحديث: غريب، مجمع الزوائد للهيثمي ٧/٣٤٩    فيه مجالد بن سعيد وضعفه جماعة‏‏) 
ترجمہ۔ ماقبل احادیث کی طرف کچھ فرق کے ساتھ آسان ہے۔ 
اعور العین الیمنی اور اعور العین الیسری اس طرح کی دونوں روایتوں کو علامہ عینی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں صحیح قرار دیا ہے: (كلاهما صحيح، كما قال النووي في شرح مسلم)

تفصیل الجواب (٢) ان دونوں احادیث کے درمیان تطبیق۔
ان دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے قاضی عیاض اپنی کتاب مشارق الانوار میں لکھتے ہیں: وقال عياض في مشارق الانوار: قوله في الدجال: أعور العين اليمنى.وفي حديث آخر: أعور العين اليسرى.
وقد ذكر مسلم الروايتين ووجه الجمع بينهما بأن كل واحدة عوراء من وجه إذا أصل العور العيب لا سيما ما اختص بالعين فإحداهما عوراء حقيقة ذاهبة وهي التي قال فيها ممسوح العين، والأخرى معيبة، وهي التي قال فيها عليها ظفرة وكأنها كوكب وعنبة طافية. هـ.
وَلَكِنْ يُجْمَع بَيْن الْأَحَادِيث وَتُصَحَّح الرِّوَايَات جَمِيعًا بِأَنْ يَكُون الْمَطْمُوسَة وَالْمَمْسُوحَة وَاَلَّتِي لَيْسَتْ بِجَحْرَاءَ وَلَا نَاتِئَة هِيَ الْعَوْرَاء الطَّافِئَة بِالْهَمْزِ وَهِيَ الْعَيْن الْيُمْنَى كَمَا جَاءَ هُنَا ، وَتَكُون الْجَاحِظَة وَاَلَّتِي كَأَنَّهَا كَوْكَب ، وَكَأَنَّهَا نُخَاعَة هِيَ الطَّافِيَة بِغَيْرِ هَمْز ، وَهِيَ الْعَيْن الْيُسْرَى كَمَا جَاءَ فِي الرِّوَايَة الْأُخْرَى وَهَذَا جَمْع بَيْن الْأَحَادِيث وَالرِّوَايَات فِي الطَّافِيَة بِالْهَمْزِ وَبِتَرْكِهِ وَأَعْوَر الْعَيْن الْيُمْنَى وَالْيُسْرَى لِأَنَّ كُلّ وَاحِدَة مِنْهُمَا عَوْرَاء "

النووي على شرح مسلم

أعتراض من القرطبي:

" وَقَالَ الْقُرْطُبِيّ فِي " الْمُفْهِم " : حَاصِل كَلَام الْقَاضِي أَنَّ كُلّ وَاحِدَة مِنْ عَيْنَيْ الدَّجَّال عَوْرَاء إِحْدَاهُمَا بِمَا أَصَابَهَا حَتَّى ذَهَبَ إِدْرَاكهَا وَالْأُخْرَى بِأَصْلِ خَلْقهَا مَعِيبَة ، لَكِنْ يُبْعِد هَذَا التَّأْوِيل أَنَّ كُلّ وَاحِدَة مِنْ عَيْنَيْهِ قَدْ جَاءَ وَصْفهَا فِي الرِّوَايَة بِمِثْلِ مَا وُصِفَتْ بِهِ الْأُخْرَى مِنْ الْعَوَر فَتَأَمَّلْهُ . وَأَجَابَ صَاحِبه الْقُرْطُبِيّ فِي التَّذْكِرَة بِأَنَّ الَّذِي تَأَوَّلَهُ الْقَاضِي صَحِيح ، فَإِنَّ الْمَطْمُوسَة وَهِيَ الَّتِي لَيْسَتْ نَاتِئَة وَلَا جَحْرَاءَ هِيَ الَّتِي فَقَدَتْ الْإِدْرَاك ، وَالْأُخْرَى وُصِفَتْ بِأَنَّ عَلَيْهَا ظَفَرَة غَلِيظَة وَهِيَ جِلْدَة تَغْشَى الْعَيْن وَإِذَا لَمْ تُقْطَع عَمِيَتْ الْعَيْن ، وَعَلَى هَذَا فَالْعَوَر فِيهِمَا لِأَنَّ الظَّفَرَة مَعَ غِلَظهَا تَمْنَع الْإِدْرَاك أَيْضًا ، فَيَكُون الدَّجَّال أَعْمَى أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ  

اسی طرح ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ  فتح الباری شرح صحیح البخاری میں رقم طراز ہے: 
وقال ابن حجر في الفتح: قوله في حديث الباب: أعور العين اليمنى. وقد اتفقا عليه من حديث ابن عمر.
فيكون أرجح وإلى ذلك أشار ابن عبد البر، لكن جمع بينهما القاضي عياض فقال: تصحح الروايتان معا بأن تكون المطموسة والممسوحة هي العوراء الطافئة بالهمز أي التي ذهب ضوؤها وهي العين اليمنى ـ كما في حديث ابن عمر ـ وتكون الجاحظة التي كأنها كوكب وكأنها نخاعة في حائط هي الطافية بلا همز وهي العين اليسرى ـ كما جاء في الرواية الأخرى ـ وعلى هذا، فهو أعور العين اليمنى واليسرى معا، فكل واحدة منهما عوراء أي معيبة، فإن الأعور من كل شيء المعيب، وكلا عيني الدجال معيبة، فإحداهما معيبة بذهاب ضوئها حتى ذهب إدراكها، والأخرى بنتوئها. انتهى
 ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق پسندیدہ ہے۔

راجح یہ ہے کہ اُس کی دونوں ہی آنکھیں خراب ہوں گی ، بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور دائیں آنکھ پر ایک موٹی پھلی ہوگی۔بائیں آنکھ کے بارے میں روایات میں ”طافئۃ “کا لفظ آتا ہے جس کا مطلب ہے” بے نور اور بجھی ہوئی“ اور اِسی کو ”ممسوح العین الیسریٰ بھی کہا گیا ہے ۔اور دائیں آنکھ کے بارے میں ”طافِیہ“ کا لفظ آیا ہے جو ابھری ہوئی اور باہر نکلی ہوئی کو کہا جاتا ہے اور اِسی کو بعض روایات میں باہر نکلے ہوئے انگور سے تشبیہ دی گئی ہے ۔


خلاصۂ تطبیق۔  اس سلسلے میں اتنی بات تو متعین ہے کہ دجال ایک آنکھ سے کانا ہو گا، اسی وجہ سے عوام میں وہ ’’کانے دجال‘‘ کے نام سے ہی مشہور ہے، اسی طرح یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اس کی دوسری آنکھ انگور کے دانے کی طرح پھولی ہوئی ہو گی اور اس کی پلکوں کے پاس گوشت کا اُبھرا ہوا چھوٹا سا ٹکڑا ہو گا، لیکن یہ بات متعین نہیں ہے کہ وہ دائیں آنکھ سے کانا ہو گا یا بائیں آنکھ سے، اسی طرح اس کی پھولی ہوئی آنکھ کون سی ہو گی؟ احادیث کی روشنی میں اسے متعین کرنا خاصا مشکل ہے کیونکہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ بائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اور ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ دائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اسی بنا پر اس کی دوسری آنکھ کی کیفیت بھی متعین کرنا دشوار  ہے، چنانچہ بعض علماء نے دائیں آنکھ والی روایات کو ترجیح دی ہے اور بعض علماء نے بائیں آنکھ والی روایت کو ترجیح دی ہے، اس ناکارہ کا رجحان اسی دوسری رائے کی جانب ہے جس کے مطابق دجال بائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اکثر روایات میں بھی یہی آتا ہے، اس طرح یہ بات خود بخود متعین ہو جاتی ہے کہ اس کی دائیں آنکھ پھولی ہوئی ہو گی، جسے بعض روایات میں انگور کے دانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور بعض روایات میں اسے موٹے ناخنہ سے تعبیر کیا گیا ہے،اُس کی دونوں آنکھیں خراب ہوں گی ، بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور دائیں آنکھ پر ایک موٹی پھلی ہوگی ۔ جیسے 👇

 وَهُوَ أَعْوَرُ عَيْنِهِ الْيُسْرَى، بِعَيْنِهِ الْيُمْنَى ظُفْرَةٌ غَلِيظَةٌ۔(مسند احمد :21929)
أَعْوَر الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ۔(مسلم:169)
 أَلَا وَإِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِئَةٌ۔(مسلم:4/2247)
إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ، عَيْنُهُ طَافِئَةٌ۔(مسلم:2937)
 مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى كَأَنَّهَا عَيْنُ أَبِي يَحْيَى لِشَيْخٍ مِنَ الْأَنْصَارِ۔(مستدرکِ حاکم:1230)

خلاصۂ کلام۔ یہ کہ دجال کی دونوں آنکھیں ہی عیب دار ہوں گی، ایک آنکھ ’’جس کا بایاں ہونا راجح تر ہے‘‘ سے وہ کانا ہو گا اور دوسری آنکھ بھی عیب دار ہی ہو گی ، نیز پہلی حدیث میں ایک اضافی بات یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس کے بال خوب گھنے ہوں گے۔

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل
جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات
16/اپریل/ 2020ء بروز جمعرات

7 Comments:

At 15 April 2020 at 21:38 , Blogger Unknown said...

جزاکم اللہ خیرا

 
At 15 April 2020 at 23:50 , Blogger mosoheltajpuri52shahid said...

Masha Allah

 
At 16 April 2020 at 01:56 , Blogger Mufti asif godharvi said...

ماشاء اللہ بہت خوب مشکوةکے درست میں میرے استاذ محترم حضرت مفتی ابراہیم صاحب آچھودی مدظلہ وطال عمرہ نے قاری طیب صاحب کے حوالے سے بائیں آنکھ ہی کے کانے ہونےکا تذکرہ کرتے ہوئےاسی کو راجح قرار دیا تھا مفتی صاحب نے مشکوةقاری صاحب کے پاس پڑھی ہے

 
At 17 April 2020 at 21:18 , Blogger Unknown said...

MASHAALLAH

 
At 17 April 2020 at 21:18 , Blogger Unknown said...

Good

 
At 25 May 2020 at 00:03 , Blogger حماد said...

السلام علیکم

 
At 25 May 2020 at 00:04 , Blogger حماد said...

ماشاء اللہ

 

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home