کورونا وائرس کے متعلق پیشین گوئی
تحقیقات سلسلہ نمبر 23
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(آج کل سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کے متعلق گردش کرنے والی پیشینگوئی کی تحقیق)
سوال۔ آج کل خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایک پیشینگوئی گردش کررہی ہے، جس کی نسبت ابراہیم بن سالوقیہ کی طرف ان کی کتاب کتاب اخبار الزمان صفحہ نمبر 365 کے حوالے سے کی گئی ہے، کیا یہ پیشینگوئی درست اور صحیح ہے؟ وہ پیشینگوئی یہ ہے 👇
جب دو عدد (20.20) برابر ہو جائیں گے، زمانے میں مرض پھیل جائے گا، حج کرنا روک دیا جائے گا،شور و غل برپا ہوگا، ٹڈیاں ہلاک کریں گی، لوگ لاچار ہو جائیں گے، روم کا بادشاہ اس پھیلے ہوئے مرض سے ہلاک ہو جائے گا، بھائی اپنے بھائی سے خوفزدہ ہوگا، اور گھمنڈ میں یہودیوں کی طرح ڈینگے ماریں گے، بازاروں میں مندی ہوگی، گناہوں کا زور ہوگا، جڑوں کو ہلانے والے خوف کا مارچ کے مہینے میں عروج ہوگا، ایک تہائی لوگ مرجائیں گے، اور چھوٹے بچے ذہنی اعتبار سے جوان ہوجائیں گے۔
* اس کتاب اور مصنفِ کتاب کے متعلق بھی تحقیق پیش کریں؟
فقط والسلام مع الاحترام
سائل: مولوی مجاہد ایلولوی گجراتی
فاضل: جامعہ امین القرآن پانپور گجرات
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جواب۔ مذکور سوال کے سلسلے میں تین باتوں کا جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔(١) مذکور پیشینگوئی کا غلط ہونا، اور اس کی وجوہات۔(٢) کتاب اخبار الزمان کے مصنف کے متعلق۔(٣) کتاب "اخبار الزمان" کے متعلق۔
تفصیل الجواب (١) مذکور پیشینگوئی کا غلط ہونا، اور اس کی وجوہات۔
اولاً یہ بات جان لینی چاہیے کہ مذکور سوال میں جو پیشینگوئی ذکر کی گئی ہے وہ بالکل غلط ہے، درست اور صحیح نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کی اردو اور عربی عبارات کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو خراب کیا جارہاہے، اللہ تعالیٰ پوری امتِ مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین
اس کی عربی عبارت یہ ہے 👇
حتى اذا تساوى الرقمان (20=20)وتفشى مرض الزمان،منع الحجيج،واختفى الضجيج،واجتاح الجراد،وتعب العباد،ومات ملك الروم من مرضه الزؤوم،وخاف الأخ من أخيه،وصرتم كما اليهود في التيه،وكسدت الأسواق،وارتفعت الأثمان،فارتقبوا شهر مارس زلزال يهد الأساس،يموت ثلث الناس،ويشيب الطفل منه الرأس۔
(غلط ہونے کی وجوہات)
(١) کتاب اخبار الزمان کا جو صفحہ سوال مذکور میں دیا گیا ہے (صفحہ نمبر 365) اصل بات تو یہ ہے کہ اس کتاب میں اتنے صفحات ہے ہی نہیں، وہ کتاب فقط 278 ہی صفحات پر مشتمل ہے، واللہ اعلم کہاں سے اس طرح کے واہیات کو پھیلایا جارہا ہے۔
(٢) اس کتاب " اخبار الزمان" کی جس مصنف (ابراہیم بن سالوقیہ) کی طرف نسبت کی گئی ہے، وہ نسبت بھی غلط ہے، وہ کتاب مؤرخ کبیر أبو الحسن علي بن الحسين بن علي المسعودي کی ہے، ابراہیم بن سالوقیہ کی طرف اس کی نسبت کرنا صحیح اور درست نہیں ہے، ابراہیم بن سالوقیہ نامی کوئی مؤرخ نہیں گزرے) وهو لا يعلم الغيب
(٣) (حتى اذا تساوى الرقمان (20۔20،جب دو عدد (20.20) برابر ہو جائیں گے) اس پوری کتاب میں کسی جگہ پر 20.20 کا ذکر نہیں ہے، حتی کہ مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس کتاب میں کسی بھی عدد کا ذکر نہیں ہے(في كل كتابه لم يكتب الرقم 20 ولا اي رقم اخر) واللہ اعلم بالصواب۔ ( جن حضرات کو وہ کتاب مطلوب ہو وہ ہمارے واٹساپ نمبر 9428359610 پر رابطہ کریں)
(٤) (فارتقبوا شهر مارس زلزال يهد الأساس، جڑوں کو ہلانے والے خوف کا مارچ کے مہینے میں عروج ہوگا) اور اس کو آج جو کورونا وائرس پھیلا ہے اس پر تطبیق دی جاتی ہے، تو اس سلسلے میں حقیقی بات یہ ہے کہ جس صدی( قرن رابع /4) میں یہ کتاب لکھی گئی اس وقت یہ شمسی تاریخ (مارچ)کا شمارہ تھا ہی نہیں، بلکہ بعد میں وجود میں آیا (ولم يكن النظام الغريغوري الذي تعمل به كل الدول الآن موجوداً في زمان أبو الحسن المسعودي الذي توفي عام 957ء، فهذا النظام اعتُمد في عهد البابا غريغوريوس الثالث عشر، وسُمي بالتقويم الغريغوري عام 1582ء. وتجدر الإشارة أيضاً أنّ تسمية الشهور بالأسماء اللاتينية "يناير، فبراير، مارس، ..." لم تكن معتمدةً في حينه) معلوم ہوا کہ مارچ کے مہینے کا ذکر بھی بے بنیاد اور بے اصل ہے، ( هذا غير صحيح ، العرب قديما لايعرفون شهر مارس،الله أعلم بالغيب ولا علم لنا الا ماعلمنا ربنا من القرآن والسنة) اور اس کے غلط ہونے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ وائرس مارچ کے مہینے میں نہیں بلکہ تقریباً 2019 کے دسمبر مہینے میں وجود میں آیا۔ واللہ اعلم بالصواب
تفصیل الجواب (٢) کتاب اخبار الزمان کے مصنف کے متعلق۔
ہم پہلے آپ کو بتا چکے کہ یہ کتاب " اخبار الزمان" ابراہیم بن سالوقیہ کی نہیں ہے، بلکہ ابو الحسن علی بن حسین بن علی المسعودی ( متوفیٰ 346ھ) کی ہے، اور ابراہیم بن سالوقیہ کی کوئی کتاب ہمے تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملی، حتیٰ کہ ابراہیم بن سالوقیہ نامی کوئی مؤرخ بھی ہمارے مطالعہ سے نہیں گزرے۔ واللہ اعلم۔ اخبار الزمان کے مصنف کا نام علی بن حسین بن علی ہے، کنیت ابو الحسین، لقب المسعودی اور قطب الدین ہے، اعتقادا معتزلی تھے، مسلکا شافعی تھے، صحابئ رسول عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے خاندان سے تعلق تھا، سن 283 ھ اور896م بغداد۔عراق میں آپ کی پیدائش ہوئی،وفات سن 346 هـ957 م قاھرہ میں ہوئی، اور مختلف کتابیں لکھیں مثلاً
"مروج الذهب" "معادن الجوهر في تحف الأشراف" "الملوك وأهل الديارات" "أخبار
الزمان اور "سر الحياة" وغیرہ
یہ مذکور اقتباس تو اخبار الزمان مقدمہ کا ہے،جو عبداللہ الصاوی کا ہے، لکین وہ غلط ہے، صحیح اور درست نہیں ہے، تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ مصنف شیعی ہے، اور مقدمہ میں ان کا شافعی لکھنا بھی غلط ہے، کچھ شیعی مصنفین نے شافعی ۔مالکی وغیرہ القاب اختیار کرکے شہرت پائ ہے ۔تحفہ اثنا عشریہ میں ذکر ہے۔ مکائدِ شیعہ کتاب ص 57.58میں مرقوم ہے (اگر کسی شیعہ دوست کومسعودی مؤرخ کے تشیع میں شبہ ہو تو وہ تھڑی سی تکلیف فرماکر اپنی کتاب تنقيح المقال في أحوال الرجال للشيخ عبد الله المامقاني ج 2 ص283 کے تحت علی بن حسین المسعودی ملاحظہ فرمادیں، اس کو تسلی ہوجائے گی، نیز شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب "تحفۃ الاحباب" ص 227 پر ( تحت علی بن حسین المسعودی) کے حق میں درج کیا ہے کہ " مسعودی، امامیہ کے بڑے بزرگوں میں سے ہے،اور بعض علماء پر یہ بات مشتبہ ہوگئی ہے کہ انہوں نے مسعودی کو سنی علماء میں سے شمار کردیا"
واللہ اعلم بالصواب
الزمان اور "سر الحياة" وغیرہ
یہ مذکور اقتباس تو اخبار الزمان مقدمہ کا ہے،جو عبداللہ الصاوی کا ہے، لکین وہ غلط ہے، صحیح اور درست نہیں ہے، تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ مصنف شیعی ہے، اور مقدمہ میں ان کا شافعی لکھنا بھی غلط ہے، کچھ شیعی مصنفین نے شافعی ۔مالکی وغیرہ القاب اختیار کرکے شہرت پائ ہے ۔تحفہ اثنا عشریہ میں ذکر ہے۔ مکائدِ شیعہ کتاب ص 57.58میں مرقوم ہے (اگر کسی شیعہ دوست کومسعودی مؤرخ کے تشیع میں شبہ ہو تو وہ تھڑی سی تکلیف فرماکر اپنی کتاب تنقيح المقال في أحوال الرجال للشيخ عبد الله المامقاني ج 2 ص283 کے تحت علی بن حسین المسعودی ملاحظہ فرمادیں، اس کو تسلی ہوجائے گی، نیز شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب "تحفۃ الاحباب" ص 227 پر ( تحت علی بن حسین المسعودی) کے حق میں درج کیا ہے کہ " مسعودی، امامیہ کے بڑے بزرگوں میں سے ہے،اور بعض علماء پر یہ بات مشتبہ ہوگئی ہے کہ انہوں نے مسعودی کو سنی علماء میں سے شمار کردیا"
اس کتاب کے مصنف علی بن حسین المسعودی أہل تشیع (شیعہ) میں سے تھے، مکمل تحقیق کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں
( رجال نجاشی ص 178 ایران، تنقیح المقال فی احوال الرجال ج 2 ص282، الکنی والالقاب ج3ص 185، اعیان الشیعہ ج1ص 160، سیر اعلام النبلاء ج 15ص 185، تحفۂ اثنا عشریہ ص91، معجم المطبوعات العربیہ ج 2 ص1744) ۔واللہ اعلم بالصواب
تفصیل الجواب (٣) کتاب "اخبار الزمان" کے متعلق۔
کتاب اخبار الزمان کے حوالے سے مذکور سوال میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں وہ سب غلط اس وجہ سے بھی ہیں کہ اس میں ماضی کی تاریخ مذکور ہے ( ذكر الأمم المخلوقات قبل آدم عليه السلام سے لیکر ذكر ملوك مصر بعد الطوفان کا ذکر ہے) اس سے بھی معلوم ہوگیا کہ اس میں مستقل کی کسی بھی چیز اور تاریخ کا ذکر نہیں ہے، (وفي الختام فإن هذا الكتاب يتحدث عن اخبار الزمن الماضي وليس المستقبل)
واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل
فقط والسلام
كتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند
مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا گجرات الھند
رابطہ نمبر: 9428359610
05/اپریل 2020 م بروز اتوار مطابق 10 شعبان المعظم 1441ھ
62 Comments:
ماشاء اللہ ترق الله في غلمك
Mashaallah
Ahsanta
تحریر بہت ہی پسند آئی
پسندیدہ
👌👌👌👌
Good
Very nice
Mashallah bahut hi sunder khub
اللہ یعطیک العافیۃ فی الدنیا والآخرۃ
مولانا، ماشاء اللہ بہت خوب
کافی دنوں سے یہ سوشل میڈیا پر گردش عمل تھا آپ محترم نے اچھا کام کردیا
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
میں نے کم از کم سو لوگوں کو یہ ارسال کیا ہے
اللہ تعالیٰ محترم کی تحریر قبول فرمائیں آمین ثم آمین یا رب العالمین
Good 👍👌 good
اللہ تعالیٰ آپ محترم کو ترقیات سے نوازے آمین
شاندار
تحقیق پسند آئی
تحریر پسند آئی
سرس
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
وضاحت اچھی کی ہے
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
ماشاء اللہ جید جدا جدا
ان الباطل کان زھوقا
سرس 👍👍👍
Good 👍
جمیل جدا جدا
ماشاء اللہ بہت خوب جناب آپ کی تحریر
مااحسن التحقیق
احسِن بالتحقیق
اللہ تعالیٰ آپ تمام احباب کی جائز تمناؤں کو اپنے غیب سے پورا فرمائیں آمین
اللہ تعالیٰ ترقیات سے نوازے آمین
لک المن والشکر
ماشاء اللہ بہت خوب جناب
سرس
Very nice
Tahkik buht pasendaai
શાનદાર
اللہ تعالیٰ قبول کریں
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین ثم آمین یا رب العالمین
شاندار تحقیق
جزاکم اللہ خیرا بھائی
اللہ یعطیک العافیۃ فی جمیع الاحوال
اللہ تعالیٰ آپ کی محنتوں کو قبول فرماکر دارین میں بہترین بدلہ نصیب فرمائے آمین
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین ثم آمین یا رب العالمین
اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو یہ تحقیق و تفصیل پوری دنیا میں پھیلجائے گی
اخبار الزمان عربی میں ہے یا اردو میں؟
ماشاء اللہ بہت شاندار تحریر
શાનદાર
અલ્લાહ કબુલ કરી દારેયન મેં બદલા ટે
شاندار تحقیق ہے'
واہ رے واہ کوئی مقابلہ نہیں
مااجمل ھذا
آپ کی محنتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں آمین
مجھے آپ کی تحریر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی
ماشاء اللہ
Mashaallah
Good
لا مثل لك ولا مثال لك
لا مثل لك ولا مثال لك
لا مثل لك ولا مثال لك
Mashallah
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین
ماشاء الله
ماشاء اللہ
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ
بہت سے لوگوں نے آپ کی تحریر سے استفادہ کیا ہے۔۔۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا و احسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home