Thursday 10 September 2020

من تعلم لغۃ قوم امن مکرھم کی تحقیق

 ( تحقیقات سلسلہ نمبر 36)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

سوال:- حضرت ! پہلی بار ایک حدیث نظر سے گزری "  من تعلم لغۃ قوم امن شرھم" 

تو اس حدیث کے بارے میں جاننا ہے کیا یہ حدیث ہے یا کسی کا کلام ہے ؟

اور اگر اس پر کلام ہے تو کیا کسی زبان کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے بطور ترغیب بیان کرسکتے ہیں ؟

  حماد ایوب کاکوسی

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- اس حدیث کو علامہ وادعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الفتاوى الحديثية میں موضوع اور من گھڑت کہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں 👇

" مَن تعلمَ لغةَ قومٍ أمِنَ مكرَهم" 

ترجمہ:- جو شخص کسی قوم کی ذبان سیکھ لیگا تو ان کے مکر و فریب اور شر سے محفوظ رہے گا۔ 

الفتاوى الحديثية للوادعی ٢‏/٣٦٢   ليس له أصل

 الفتاوى الحديثية ١‏/٥٨    بحث عنه الباحثون فلم يجدوا له أصلا وإن كان معناه صحيحا۔ 

اسی طرح ابن باز رحمہ اللہ  اور اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء نے یہی حکم لگایا ہے۔ چنانچہ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں 👇

ليس له أصل، هذا من كلام بعض الناس ما هو من كلام النبي ﷺ من كلام بعض العلماء. نعم. انتھی

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں 👇

وأما حديث: من تعلم لغة قوم أمن مكرهم، فلم نجده فيما اطلعنا عليه من كتب أهل الحديث، ولعله قول بعض السلف، ومعناه صحيح۔۔۔۔۔۔

ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوع کہا ہے۔ 

لہٰذا مذکورہ الفاظ کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ بعض سلف سے منقول ہو، چونکہ معنی صحیح اور درست ہے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہود کی ذبان سیکھنے کا حکم دیا تھا۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں 👇

2715 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِيهِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ لَهُ كَلِمَاتٍ مِنْ كِتَابِ يَهُودَ، قَالَ : " إِنِّي وَاللَّهِ مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابِي ". قَالَ : فَمَا مَرَّ بِي نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى تَعَلَّمْتُهُ لَهُ، قَالَ : فَلَمَّا تَعَلَّمْتُهُ كَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَى يَهُودَ كَتَبْتُ إِلَيْهِمْ، وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ قَرَأْتُ لَهُ كِتَابَهُمْ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، رَوَاهُ الْأَعْمَشُ عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ السُّرْيَانِيَّةَ.

حكم الحديث: حسن صحيح۔

(سنن الترمذي | أَبْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ وَالْآدَابِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي تَعْلِيمِ السُّرْيَانِيَّةِ)

 خلاصۂ کلام:- بالا سوال میں مذکور الفاظ حدیث نہیں ہیں' موضوع اور من گھڑت ہے، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے، ہاں ذبان کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے ترغیباً ذکر کرنا بغیر نسبت کیے ہوئے درست اور صحیح ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

فقط والسلام

⁦✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر:- 9428359610

10/ ستمبر/2020ء بروز جمعرات

No comments:

Post a Comment