Monday 7 September 2020

کیا انسان کی نجات کے لئے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کافی ہے؟ مکمل تحقیق ملاحظہ فرمائیں

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 35)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

( کیا نجات کے لئے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کافی ہے؟)

سوال:-  اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ګ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ۔ 

(سورۂ بقرۃ آیت 62)

ترجمہ:- جو لوگ (بظاہر) ایمان لائے ہیں اور جو یہودی ہیں یا عیسائی [٨٠] یا صابی (بے دین) ہیں، ان میں سے جو بھی (فی الحقیقت) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور عمل بھی اچھے کرے تو ایسے ہی لوگوں کو اپنے رب کے ہاں سے اجر ملے گا۔ اور ان پر نہ تو کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

 سورۂ بقرۃ کی آیت 62 اور سورۂ مائدہ کی آیت69میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے ساتھ عمل صالح کو اختیار کریں گے ان کی بخشش ہو جائے گی. اس آیت سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی نجات میں ایمان بالرسول کی کوئی حیثیت نہیں.. کیا یہ بات صحیح ہے ..؟

حضرت ! اگر اس سلسلے میں کوئی قابل تسکین جواب ہو تو ذرا مطلع فرمائیں۔۔ 

فقط والسلام

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- اولا آیت شریفہ ارو اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں 👇

( اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ګ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ) 

ترجمہ:- جو لوگ (بظاہر) ایمان لائے ہیں اور جو یہودی ہیں یا عیسائی [٨٠] یا صابی (بے دین) ہیں، ان میں سے جو بھی (فی الحقیقت) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور عمل بھی اچھے کرے تو ایسے ہی لوگوں کو اپنے رب کے ہاں سے اجر ملے گا۔ اور ان پر نہ تو کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ثانیاً باحوالہ جواب ملاحظہ فرمائیں 👇

 یہ آیت جس سیاق و سباق میں آئی ہے اس سے اس کا منشاء بالکل واضح ہے۔ یہاں یہودیوں کی اس غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے کہ یہودی ایک نجات یافتہ گروہ ہیں اس بنا پر کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ قرآن اس کی پر زور تردید کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ اللہ کے ہاں نجات کا دارو مدار کسی خاندان یا گروہ یا فرقہ (Community) سے وابستگی کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس کا دارومدار اوصاف (Virtues) پر ہے۔ جو شخص ایمان و عمل صالح کے اوصاف کا حامل ہوگا وہ آخرت میں نجات پائے گا لیکن جو شخص ان اوصاف سے عاری ہوگا وہ نجات اخروی سے محروم رہے گا۔ خواہ وہ مسلمان گروہ ہی کا فرد کیوں نہ ہو۔

یہاں ایمان اور عمل صالح کی تفصیل بیان کرنا مقصود نہیں ہے کیوں کہ یہ تفصیل قرآن نے دوسرے مقامات پر واضح کردی ہے اور اس کی رو سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد آپ کی نبوت پر اور جو کتاب آپ لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کے بغیر اللہ کے ہاں ایمان معتبر نہیں ہے۔ اسی طرح شریعت محمدیہ کی پیروی عمل صالح کے مفہوم میں شامل ہے۔ اس لیے آیت کا یہ مطلب نکالنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کہ قرآن کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ " اپنے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے خدا اور آخرت کو مانو اور اچھا عمل کرو۔ " مذکورہ آیت سے یہ مطلب نکالنا قرآن میں سراسر تحریف کرنا ہے کیوں کہ اس سورۃ کا مرکزی مضمون ہی قرآن کے کتاب الٰہی ہونے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دینا ہے جس کے بغیر ساری دینداری بے معنی ہوجاتی ہے۔ مزید برآں قرآن نے دوسرے مقامات پر یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کردی ہے کہ اللہ کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے۔

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (آل عمران ١٩) " اللہ کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے۔ "

وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی اْلآ خِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ " جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہوگا تو اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ گھاٹے میں رہے گا۔ " (آل عمران ٨٥)

اس سے پہلے بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور بےاعتدالیوں پر عذاب کا ذکر تھا یہاں ان میں سے جو لوگ نیک تھے ان کے اجر وثواب کا بیان ہے ، یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توریت کو مانتا ہو اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سنت پر عمل کرتا ہو ، پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد ان کی اتباع کرے اور ان کی نبوت کو برحق سمجھے ، اگر وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد بھی توریت اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر قائم رہا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا اور انکی اتباع نہ کی تو وہ بےدین ہوجائیگا ، پھر ان میں سے جو لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پائیں اور نہ تو آپ (علیہ السلام) کی نبوت کو مانیں اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کریں تو وہ بھی بےدین ہیں ، اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو اللہ تعالیٰ کا کلام مانے ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرے ، پھر وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت پر عمل کرے ، اگر اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پایا اور پھر بھی انجیل اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اتباع چھوڑ آپ (علیہ السلام) کی تصدیق اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کی اتباع نہ کی تو وہ ہلاک ہوگا ، مختصر یہ کہ ہر نبی کا تابعدار اور اس کا ماننے والا ، ایماندار اور صالح ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں نجات پانے والا ہے لیکن جب دوسرا نبی آجائے اور وہ اس کا انکار کرے تو کافر ہوجائیگا (ابن کثیر ١٠٣۔ ١)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ ہدایت کا دروازہ سب کے لئے کھلا ہوا ہے ، اس کے لئے کسی قوم اور شخص کی خصوصیت نہیں ، بنی اسرائیل نے بھی ایک زمانے میں اپنے ایمان اور اچھے اعمال کی بدولت دنیا پر فضیلت حاصل کی تھی پھر یہی لوگ بےایمانی اور بدکاری کے سبب ذلیل اور مغضوب ہوگئے۔

طبری لکھتے ہیں :

وقال ابن عباس بما:-

حدثني المثنى قال، حدثنا أبو صالح قال، حدثني معاوية بن صالح، عن ابن أبي طلحة، عن ابن عباس قوله: (إن الذين آمنوا والذين هادوا والنصارى والصابئين) إلى قوله: (ولا هم يحزنون) . فأنزل الله تعالى بعد هذا: (وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ) [آل عمران: 85]

وهذا الخبر يدل على أن ابن عباس كان يرى أن الله جل ثناؤه كان قد وعد من عمل صالحا - من اليهود والنصارى والصابئين - على عمله، في الآخرة الجنة، ثم نسخ ذلك بقوله: (ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه)

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس آیت کے بعد آیت ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین۔ نازل ہوئی، یعنی دین اسلام آجانے کے بعد دیگر تمام ادیان منسوخ ہوگئے۔

اور اس آیت میں یہود و نصاریٰ اور صائبین کے لیے جو اجر بتایا گیا ہے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کے لوگوں کے لیے ہے۔ آپ کے زمانے کے یہود و نصاری اور صابئین میں سے جو لوگ آپ پر ایمان لائے، انہی کو یہ حکم شامل ہوگا، جو لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے ان کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے۔

فإن قال: وما معنى هذا الكلام؟

قيل: إن معناه: إن الذين آمنوا والذين هادوا والنصارى والصابئين، من يؤمن بالله واليوم الآخر، فلهم أجرهم عند ربهم.

فإن قال: وكيف يؤمن المؤمن؟

قيل: ليس المعنى في المؤمن المعنى الذي ظننته، من انتقال من دين إلى دين، كانتقال اليهودي والنصراني إلى الإيمان = وإن كان قد قيل إن الذين عنوا بذلك، من كان من أهل الكتاب على إيمانه بعيسى وبما جاء به، حتى أدرك محمدا ﷺ فآمن به وصدقه، فقيل لأولئك الذين كانوا مؤمنين بعيسى وبما جاء به، إذ أدركوا محمدا ﷺ: آمنوا بمحمد وبما جاء به = ولكن معنى إيمان المؤمن في هذا الموضع، ثباته على إيمانه وتركه تبديله. وأما إيمان اليهود والنصارى والصابئين، فالتصديق بمحمد ﷺ وبما جاء به، فمن يؤمن منهم بمحمد، وبما جاء به واليوم الآخر، ويعمل صالحا، فلم يبدل ولم يغير حتى توفي على ذلك، فله ثواب عمله وأجره عند ربه، كما وصف جل ثناؤه.(الطبري)

وَقَالَ السُّدِّيُّ: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا﴾ الْآيَةَ: نَزَلَتْ فِي أَصْحَابِ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، بَيْنَا هُوَ يُحَدِّثُ النَّبِيَّ ﷺ إذْ ذَكَرَ أَصْحَابَهُ، فَأَخْبَرَهُ خَبَرَهُمْ، فَقَالَ: كَانُوا يَصُومُونَ وَيُصَلُّونَ وَيُؤْمِنُونَ بِكَ، وَيَشْهَدُونَ(٣) أَنَّكَ سَتُبْعَثُ نَبِيًّا، فَلَّمَا فَرَغَ سَلْمَانُ مِنْ ثَنَائِهِ عَلَيْهِمْ، قَالَ لَهُ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ: "يَا سَلْمَانُ، هُمْ مِنْ أَهْلِ النَّارِ". فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى سَلْمَانَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ، فَكَانَ إِيمَانُ الْيَهُودِ: أَنَّهُ مَنْ تَمَسَّكَ بِالتَّوْرَاةِ وَسُنَّةِ مُوسَى، عَلَيْهِ السَّلَامُ؛ حَتَّى جَاءَ عِيسَى. فَلَمَّا جَاءَ عِيسَى كَانَ مَنْ تَمَسَّكَ بِالتَّوْرَاةِ وَأَخَذَ بِسُنَّةِ مُوسَى، فَلَمْ يَدَعْهَا وَلَمْ يَتْبَعْ عِيسَى، كَانَ هَالِكًا. وَإِيمَانُ النَّصَارَى أَنَّ(٤) مَنْ تَمَسَّكَ بِالْإِنْجِيلِ مِنْهُمْ وَشَرَائِعِ عِيسَى كَانَ مُؤْمِنًا مَقْبُولًا مِنْهُ حَتَّى جَاءَ مُحَمَّدٌ ﷺ، فَمَنْ لَمْ يتبعْ مُحَمَّدًا ﷺ مِنْهُمْ ويَدَعْ(٥) مَا كَانَ عَلَيْهِ مِنْ سُنَّةِ عِيسَى وَالْإِنْجِيلِ -كَانَ هَالِكًا.

وَقَالَ ابْنُ أَبِي حاتم: وروي عن سعيد بن جبير نحو هَذَا.

قُلْتُ: وَهَذَا لَا يُنَافِي مَا رَوَى عَليّ بْنُ(٦) أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ﴾ الْآيَةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَ ذَلِكَ: ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ [آل عمران: ٨٥] .

فَإِنَّ هَذَا الَّذِي قَالَهُ [ابْنُ عَبَّاسٍ](٧) إِخْبَارٌ عَنْ أَنَّهُ لَا يَقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ طَرِيقَةً وَلَا عَمَلًا إِلَّا مَا كَانَ مُوَافِقًا لِشَرِيعَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ بَعْدَ أَنْ بَعَثَهُ [اللَّهُ](٨) بِمَا بَعَثَهُ بِهِ، فَأَمَّا قَبْلَ ذَلِكَ فَكُلُّ مَنِ اتَّبَعَ الرَّسُولَ فِي زَمَانِهِ فَهُوَ عَلَى هُدًى وَسَبِيلٍ وَنَجَاةٍ، فَالْيَهُودُ أَتْبَاعُ مُوسَى، عَلَيْهِ السَّلَامُ، الَّذِينَ كَانُوا يَتَحَاكَمُونَ إِلَى التَّوْرَاةِ فِي زَمَانِهِمْ.( ابن كثير) 

تفسیر جلالین میں ہے 👇 اس سے تمام اعتراضات دور ہوجاتے ہیں۔

﴿مَن آمَنَ﴾ مِنهُمْ ﴿بِاللَّهِ واليَوْم الآخِر﴾ فِي زَمَن نَبِيّنا ﴿وعَمِلَ صالِحًا﴾ بِشَرِيعَتِهِ ۔۔۔۔

وأخْرَجَ ابْنُ جَرِيرٍ عَنْ مُجاهِدٍ قالَ: «سَألَ سَلْمانُ الفارِسِيُّ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ أُولَئِكَ النَّصارى، وما رَأى مِن أعْمالِهِمْ، قالَ: لَمْ يَمُوتُوا عَلى الإسْلامِ، قالَ سَلْمانُ: فَأظْلَمَتْ عَلَيَّ الأرْضُ وذَكَرْتُ اجْتِهادَهم. فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ ﴿إنَّ الَّذِينَ آمَنُوا والَّذِينَ هادُوا﴾ فَدَعا سَلْمانُ فَقالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ في أصْحابِكَ. ثُمَّ قالَ: مَن ماتَ عَلى دِينِ عِيسى قَبْلَ أنْ يَسْمَعَ بِي، فَهو عَلى خَيْرٍ، ومَن سَمِعَ بِي ولَمْ يُؤْمِن فَقَدْ هَلَكَ» .

وأخْرَجَ أبُو داوُدَ في ”النّاسِخِ والمَنسُوخِ“، وابْنُ جَرِيرٍ، وابْنُ أبِي حاتِمٍ عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ في قَوْلِهِ: ﴿إنَّ الَّذِينَ آمَنُوا والَّذِينَ هادُوا﴾ الآيَةَ، قالَ: فَأنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَ هَذا ﴿ومَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنهُ وهو في الآخِرَةِ مِنَ الخاسِرِينَ﴾ [آل عمران: ٨٥] [ آلِ عِمْرانَ: ٨٥] (الدر المنثور للسیوطی)

رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ قَوْلَهُ: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا﴾ [الحج: ١٧] الآية. منسوخ بقوله تعالى: ﴿يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلامِ دِيناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ﴾ [آل عمران: ٨٥] الْآيَةَ. وَقَالَ غَيْرُهُ: لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ. وَهِيَ فِيمَنْ ثَبَتَ عَلَى إِيمَانِهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ بِالنَّبِيِّ عَلَيْهِ السلام. ( قرطبی) 

هذا ما ظهر وبدا لي... والله اعلم بالصواب.

⁦✍️⁩ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر:- 9428359610

08/ستمبر/2020ء بروز منگل

2 comments: