Sunday 19 December 2021

أصول الشاشی میں ذکر کردہ احادیث کا تحقیقی جائزہ حدیث نمبر:01

 باسمہ تعالیٰ      حامداً ومصلیاً ومسلماً

(أصول الشاشی میں ذکر کردہ احادیث کا تحقیقی جائزہ)

حدیث نمبر:- 01

قوله عليه الصلاة والسلام: (أيما امرأة نكحت نفسها بغير إذن وليها فنكاحها باطل باطل باطل)  (أصول الشاشی ص7 مطبوعہ: مکتبۂ المیزان)

حدیثِ بالا کے سلسلے میں دو باتیں قابل غور ہیں۔

(1) "نفسها" کا لفظ تلاش بسیار کے بعد بھی مستند کتب احادیث میں نہیں ملا، ہاں البتہ غیر مستند کتب (مثلاً کتب فقہ، کتب أصول فقہ، نیز البدر المنیر(٧‏/٥٥٣)، غاية المأمول ص80 کلاھما لابن الملقن اور تخريج زاد المعاد لشعیب الارنؤوط (٥‏/٩٢) وغیرہ) میں "نفسھا" کا لفظ مذکور ہے، لکین چونکہ اس میں سند نہیں ہے، نیز اس میں بھی سنن ترمذی سنن أبی داود اور سنن ابن ماجہ وغیرہ کا حوالہ مذکور ہے اور ان کتبِ مستندہ  میں "نفسھا" کا لفظ مذکور نہیں ہے، لہذا اس لفظ کو بغیر تحقیق کے بیان کرنا، اور اس کو روایت بالمعنی کہکر ان کتب مستندہ کے حوالے سے بغیر تحقیق کے ذکر کرنا درست نہیں ہے۔ (روایت بالمعنی کے متعلق مکمّل محقّق اور مدلّل تحقیق و تفصیل ان شاءاللہ نیچے آرہی ہے) خلاصے کے طور پر اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ روایت بالمعنیٰ کے سلسلے میں متقدمین میں اختلاف رہا ہے، جمہور علماء روایت الحدیث بالمعنیٰ کے قائل تھے، اور بعض کے یہاں درست اور صحیح نہیں تھا، لیکن تدوین حدیث کے بعد اب متفقہ طور پر روایت بالمعنیٰ کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ کتب میں احادیث با سند ذکر کر دی گئی ہیں، لہذا ان کتب اور مصنفات کے حوالے سے ہی روایت ذکر کرنی چاہیے، اس میں جان بوجھ کر ردوبدل یا تقدیم و تاخیر یا کسی بھی طرح کی کمی و زیادتی کذب فی الروایۃ کو مستلزم ہوگا۔ کما سیأتی ان شاءاللہ، هذا ما ظهر لي والله اعلم بالصواب،

کتبِ مستندہ کی روایات بالترتیب ملاحظہ فرمائیں 

👇👇👇

1- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ - ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

سنن ابی داؤد رقم الحدیث: 2083

2- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَيُّمَا امْرَأَةٍ نُكِحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ۔۔۔۔۔۔۔۔

سنن ترمذی رقم: 1102

3- حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ۔۔۔۔۔۔۔ 

سنن دارمی رقم: 2230 

4- حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسند احمد رقم: 24372 مسند احمد میں ایک اور جگہ روایت مروی ہے، اس میں بھی "نفسھا" کا لفظ نہیں ہے مسند احمد، رقم: 25326۔

5- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَيُّمَا امْرَأَةٍ لَمْ يُنْكِحْهَا الْوَلِيُّ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ…….

سنن ابن ماجہ رقم: 1879

* اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس لفظ کو، اسی طرح دیگر الفاظ کو - جو کتب احادیث معتمدہ ومستندہ میں مذکور نہیں ہیں - أصول الشاشی ھدایہ اور دیگر کتب فقہ و أصول فقہ میں کیوں کر بیان کیا گیا ہیں؟ حالانکہ یہ الفاظ بعینہ مستند کتب احادیث میں مروی نہیں ہیں، یا  ہیں لکین تقدیم و تاخیر سے کام لیا گیا ہے؟

* تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام کتب اس زمانے میں لکھی گئی ہیں جس زمانے میں آج کی طرح وسائل نہیں تھے، یعنی وہ زمانہ تھا کہ کتب عام طور پر دستیاب نہ تھیں، اور تخریج اتنی آسان نہ تھی، مصنفین اپنی یاداشت سے بسااوقات الفاظِ حدیث کو لکھتے تھے، اس لیے ان سے الفاظ حدیث بیان کرنے میں تسامحات ہوئے ہیں، ہم سے وہ غلطیاں نہ ہو اسی لیے یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس کی مقبولیت اور افادیت اور استفادیت کے لئے آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ ( أصول الشاشی، حسامی ھدایہ اور جلالین وغیرہ کی احادیث کا تحقیقی جائزہ پیش کیا جائے گا، (ان شاءاللہ) جو حضرات بالترتیب ان احادیث کی تحقیق و تخریج کے طالب ہوں وہ اس واٹس ایپ نمبر پر رابطہ کریں، واٹس ایپ نمبر:- 9428359610

نیز ہمارے لیے تخریج و تحقیق بہت ہی آسان ہے، چونکہ آج کے زمانے میں کتبِ احادیث میسر ہیں، آج کے زمانے میں کسی بھی حدیث کی تحقیق و تخریج کرنی ہو تو ہر آدمی بآسانی کرسکتا ہے، کوئی مشکل امر نہیں ہے، چونکہ اکثر کتابیں مطبوع ہوکر منظر عام پر آگئی ہیں، اور اکثر جگہوں پر وہ کتابیں میسر ہوجایا کرتی ہیں، نیز ان کتابوں کا مبائیل میں بشکل پی ڈی ایف مطالعہ کیا جاسکتا ہے، نظر ثانی کی جاسکتی ہے، اسی طرح تخریجِ حدیث کا کام جدید آلات کے ایجاد ہونے کی وجہ سے آسان ہوگیا ہے، موبائل کے ذریعے تخریج کے لئے مختلف ایپس اور گوگل کی مدد لی جاسکتی ہے، اور کمپوٹر سے تخریج کے لئے مختلف پروگرام سے تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔

لہذا اب ہم أصول الشاشی وھدایہ پڑھنے اور پڑھانے والے حضرات کے لئے ضروری ہے کہ جب اس طرح کی احادیث دوران درس و مطالعہ آئیں تو ضرور ہمیں تحقیق کرلینی چاہئے، کہ کیا یہ الفاظ، حدیث میں وارد ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ملے تو پھر یہ دیکھ لیں کہ کیا ان الفاظ کے ذکر کرنے میں مصنفین نے تقدیم و تاخیر سے کام تو نہیں لیا؟ اور اگر وقت درکار نہ ہو تو اس فن کے ماہرین واصحاب تخریج و تحقیق سے رجوع سے ضرور کام لینا چاہیے۔ والله الموفق والمعين.

نوٹ:- مشکوٰۃ المصابیح کے ایک نسخے میں "نفسھا" کا لفظ وارد ہے، کما قاله الملا علي القاري رحمة الله عليه في المرقاة،(270/6) لکین چونکہ مشکوٰۃ شریف میں بھی مسند احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ اور سنن دارمی کا حوالہ مذکور ہے، اور ان کتب میں "نفسھا" کا لفظ مروی نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، لہذا اس کا ذکر نہ کرنا درست معلوم ہوتا ہے، چونکہ مشکوٰۃ شریف کتب غیر اصلیہ میں سے ہے، اور اس کا حکم یہ ہے کہ ان میں کوئی روایت ہو تو اس کو کتب اصلیہ کی طرف مراجعت کرکے ہی نقل کرنا چاہیے۔ کتب اصلیہ و غیر اصلیہ وغیرہ کی تعریف مع احکام درج ذیل ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

مصادرِ حدیث کی تین قسمیں ہیں: (1) کتب اصلیہ (2) کتب شبہ اصلیہ (3) کتب غیر اصلیہ۔

کتب اصلیہ: وہ کتابیں ہیں جن کے مؤلفین نے احادیث اپنی سند سے ذکر کی ہیں۔ مثلاً صحاح ستہ، مؤطین، مسند احمد، سنن دارمی، سنن دارقطنی، تاریخ بغداد، الأم للشافعی اور تفسیر ابن أبی حاتم وغیرہ کتب، جن کے مؤلفین نے احادیث اپنی سند سے ذکر کی ہیں۔

کتب شبہ اصلیہ: وہ کتابیں ہیں جن کے مؤلفین نے احادیث اپنی سند سے ذکر نہیں کی ہیں، بلکہ کتب اصلیہ میں جو روایات جن اسانید سے مروی تھیں ان احادیث کو انہیں اسانید کے ساتھ ذکر کردیا۔ جیسے تفسیر ابن کثیر، تحفۃ الاشراف، نصب الرایۃ اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی اکثر تصانیف۔

کتب غیر اصلیہ: وہ کتابیں ہیں جن کے مؤلفین نے کتب اصلیہ کی احادیث مبارکہ کو بدون سند ذکر کردیا ہوں۔ جیسے ریاض الصالحین للنووی، مشکوٰۃ شریف  للخطیب التبریزی اور الدر المنثور للسیوطی وغیرہ کتب۔ 

کتب شبہ اصلیہ اور کتب غیر اصلیہ سے احادیث نقل کرنے کا حکم یہ ہے کہ ان کتب سے احادیث نقل کرنے کے بجائے جن کتب اصلیہ کا حوالہ ان میں ذکر کیا گیا ہے ان کی طرف مراجعت کرکے احادیث مبارکہ کو نقل کرنا چاہیے۔ مثلاً کوئی روایت مشکوٰۃ شریف میں بحوالۂ ترمذی شریف کے ذکر کی گئی ہے تو مشکوٰۃ سے نقل کرنے کے بجائے اس کو ترمذی شریف کی طرف مراجعت کرکے نقل کرنا چاہیے، یعنی اس میں جو الفاظ جس طرح سے مروی ہیں اسی طرح نقل کرنے چاہیے، کمی زیادتی نیز تقدیم و تاخیر سے کام لینا ایک مذموم امر ہے، 

(ہم علم حدیث کیسے پڑھیں؟ بزیادۃ واختصار مولانا ادریس صاحب گودھرا گونیا ص67) 

زیر بحث حدیث میں بھی اگر وہی معاملہ کریں تو "نفسھا"  کا لفظ ذکر کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ ھذا

(2)  "فنکاحھا باطل" کے بعد "باطل باطل" کا لفظ (بشکل مفرد) مستند کتب احادیث میں تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملا، صرف کتب فقہ و أصول فقہ میں مذکور ہے، نیز اسی طرح ( فنکاحھا باطل باطل باطل)  السیل الجرار للشوکانی ج3 ص21 میں بھی مذکور ہے، لکین چونکہ ان تمام کتب میں سند نہیں ہے، لہذا ان الفاظ کو ان کتب کے حوالے سے بغیر مراجعت و تحقیق کے ذکر کرنا، نیز ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اور ثابت سمجھنا، اور عدم ثبوت کے علم کے بعد بھی ان ہی کو بیان کرنا درست معلوم نہیں ہوتا، چونکہ حدیث پاک میں ہے: نضر الله امرأ سمع منا شيئا فبلّغه كما سمع، فرب مبلغ أوعى من سامع» سنن الترمذیؒ 2657 

ترجمہ:- اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے کوئی چیز سنی پس اس کو پہنچائی جیسی اس نے سنی، یعنی بے کم وکاست پہنچائی، کیونکہ بعض پہنچائے ہوئے سننے والوں سے زیادہ یاد کرنے والے ہوتے ہیں۔ (مبلَّغ: اسم مفعول، کذا فی تحفۃ الألمعی) تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کمی زیادتی یا تقدیر و تاخیر سے کام لینا حدیث کے منافی ہے، جیسے کہ اکثر علما نے اس کی وضاحت کی ہیں: (فبلغه كما سمعه ) أي من غير زيادة ونقصان۔۔۔۔ (تحفۃ الأحوذی) لہذا وہی الفاظ نقل کرنے چاہیے جو کتب احادیث میں موجود ہیں۔

 ہاں البتہ "فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل" (بشکل مرکب) احادیث مبارکہ میں مروی ہے، جیسے کہ ترمذی وغیرہ کی روایات ہم نے اوپر دیکھی، کہ ان میں پورا جملہ مکرر تھا جیسے: (فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل) ہاں لکین امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں " فنکاحھا باطل" اول کے بعد "ثلاث مرات" یا "ثلاثا"  کا لفظ ذکر کیا ہیں، ملاحظہ فرمائیں: أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔۔۔۔۔۔ سنن ابی داؤد/ ثلاثا۔۔۔۔۔ مسند احمد۔

 اب سوال یہ ہے کہ خالص "باطل، باطل" کا لفظ مکرر مان کر اس کو "ثلاث مرات" کا مصداق قرار دے، یا "فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل"  پورا جملہ مکرر مانے؟ جیسا کہ دیگر روایات میں ہے؟ 

 تو اس کا جواب یہ ہے کہ پورا جملہ ہی مکرر ماننا درست معلوم ہوتا ہے، چونکہ وہ سند جو أبو داؤد شریف اور مسند احمد میں ہے یعنی: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ۔۔۔۔۔ اسی سند کے ساتھ صاحب سنن ترمذی و سنن دارمی وغیرہ بھی روایت لائے ہیں اور ان میں پورا جملہ مکرر ہے، لہذا "ثلاث مرات" کا مصداق یہ ماننا ہوگا کہ پورا جملہ مکرر ہے، نہ کہ صرف "باطل" مفرد۔ 

نوٹ:- اگر الفاظِ حدیث یاد نہ ہو تو اس وقت محدّث کے لئے یا حدیث پیش کرنے والے کسی بھی شخص کے لیے ضروری ہے کہ کتب احادیث مستندہ سے رجوع کرلیں، اور ان ہی کتب سے الفاظ حدیث نقل کریں، اور اگر اس طرح کا موقع نہ ہو کہ رجوع کر سکے تو حدیث کے الفاظ ذکر کرنے کے بعد "أو کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" یا " أو نحوہ" یا "أو شبھه" یا اس جیسے الفاظ ذکر کر دیں، جس سے یہ احساس ہوکہ یہاں الفاظ میں تبدیلی ہے، تاکہ الفاظ حدیث پیش کرنے میں کذب فی الروایۃ لازم نہ آئے،  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ الفاظ منسوب نہ ہو جائیں جو آپ سے ثابت ہی نہیں ہے، جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس اعرابی کے قصہ میں بیان کیا ہے جس نے مسجد میں پیشاب کردیا تھا، فرمایا:’’پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی کو بلایا اور کہا : ((إن هذہ المساجد لاتصلح لشيء من هذا البول ولا القذر، إنما هي لذکر اللّٰہ عزوجل و الصلاۃ وقراءۃ القرآن، أو کما قال صلي اللّٰہُ عليه وسلم ۔)) بیشک یہ مساجد پیشاب اور گندگی میں سے کسی چیز کے لیے مناسب نہیں ہیں ‘ بیشک مساجد اللہ کے ذکر، نماز اور قرآن کی تلاوت کے لیے ہیں، یا ایسا کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ 

صحیح مسلم رقم الحدیث:- 285، کتاب الطہارۃ، باب وجوب غسل البول وغیرہ من النجاسات إذا جعلت في المسجد) 

اسی طرح معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، انہوں نے ان جانے میں نماز میں بات کردی تھی -جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو ان سے کہا : (( إن هذہ الصلاۃ لا یصلح فیها شيء من کلام الناس، إنما ھو التسبیح و التکبیر، وقراءۃ القرآن، أو کما قال صلي اللّٰہُ عليه وسلم ۔ )) 

 بیشک ان نمازوں میں لوگوں کے کلام میں کچھ بھی جائز نہیں ہے ۔ بیشک (ان نمازوں ) میں تسبیح اور تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے، یا اس کے مانند آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 537، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحریم الکلام في الصلاۃ ونسخ ما کان إباحته) هذا وينبغي للراوي بالمعنى أن يقول بعد روايته الحديث: "أو كما قال" أو "نحوه" أو "شبهه".

(تيسير مصطلح الحديث لمحمود الطحان ص212)

 مذکورہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ پورے الفاظِ حدیث اس طرح سے ہونگیں، ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

قوله عليه الصلاة والسلام: "ايما امرأة نكحت بغير اذن وليها/ مواليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل فنكاحها باطل"۔ 

روایت بالمعنی کے متعلق مکمل تحقیق:

اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کتب فقہ اور کتب اصول فقہ کی احادیث میں تقدیم و تاخیر یا کمی و زیادتی یا اس طرح سے جو چیزیں وجود میں آئی ہیں آیا اسے روایت بالمعنی کہا جائیں یا نہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا اس طرح کرنا جائز ہے، یا ناجائز؟ تو اس سلسلے میں ہم اولاً روایت بالمعنی کی تعریف سمجھیں گے، ثانیاً اس کے جواز اور عدم جواز کے متعلق تحقیق ملاحظہ فرمائیں گے۔ ان شاءاللہ

اوّلاً روایت بالمعنی کی تعریف ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

تعريفها: "هي أن يؤدي الراوي الحديث بألفاظ من عنده، كلا أو بعضا، مع المحافظة على المعنى بحيث لا يزيد فيه شيئا ولا ينقص منه شيئا، ولا يحرف ولا يبدل ولا يغير"

(الوسیط فی علوم ومصطلح الحدیث: ابو شھبۃ، محمد محمد، د،ط دار الفکرالعربی ص:40)

2- "الرواية بالمعنى هي أن يعمد الواوي إلي سياق متن الحديث فيتصرف فيه تصرفا كليا، أو جزئيا"

(رواية الحديث بالمعنى وأثرها في المرويات والحكم على الرواة، رسالة ماجستير، جامعة الجزائر، الخروبة، ص: 44) 

خلاصۂ عبارت:- "روایت بالمعنی وہ حدیث ہے جسے راوی مروی عنہ کے الفاظ سے ہٹ کر روایت کرے۔"

اس تعریف سے معلوم ہوگیا کہ ان کتب میں جو روایات مذکور ہیں اور ان میں جو الفاظ میں کمی و زیادتی یا اسی طرح تقدیر و تاخیر سے جو کام لیا گیا ہے وہ روایت بالمعنی کے طور پر ہی ہے۔ لکین کیا یہ طریقۂ کار جائز اور درست ہے؟ تو اس سلسلے میں درج ذیل تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇

ثانیاً روایت بالمعنی کا حکم ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

روایت بالمعنیٰ کے حکم کے تعلق سے علماء کرام کے دو گروہ ہیں: 

1- ایک گروہ تو اس کو ناجائز قراردیتا ہے، اس گروہ میں علامہ ابن سیرین، نافع، ثعلب، ابو بکر الرازی، قاسم بن محمد، عبد اللہ بن طاؤوس، ابو معمر الازدی، اور رجاء بن حیوۃ رحمھم اللہ شامل ہیں، جب کہ حضرت عمر بن خطاب اور عبد ابن عمر رضی اللہ عنھما سے بھی یہی مروی ہے، ومثل هذا التشدُّد مروي عن بعض الصَّحابة؛ كابن عمر، كان "إذا سمِع الحديثَ لم يزِد فيه ولم ينقُص منه، ولم يُجاوزه ولم يقصُر عنه"

(الكفاية في علم الرواية ص 171)

اور طیبی نے الخلاصۃ فی أصول الحدیث میں شرح السنۃ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ امام مالک اور ابن عیینہ کا بھی یہی قول ہے، قال القُرطبيُّ: وهو الصَّحيحُ من مذهب مالكٍ، حتى إنَّ بعض مَن ذهب لهذا شدَّد فيه أكثرَ التَّشديد، فلم يُجز تقديمَ كلمةٍ على كلمةٍ، وحرفٍ على آخر………….

 (فتح المغيث بشرح ألفية الحديث"؛ للسخاوي، ج3 ص 140)

وهؤلاء مع منعهم رِواية الحديث عن النبيِّ صلى الله عليه وسلم بالمعنى، فقد أجازوا الروايةَ بالمعنى عن غيره، وهو مرويٌّ عن مالك بن أنسٍ، يقولُ: "ما كان من حديث رسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم، فلا تَعْدُ اللَّفظ، وما كان عن غيره فأصبتَ المعنى، فلا بأس"

(الكفاية في علم الرواية ص 188)

 ان حضرات کی دلیل: 

(1) ایک تو وہ حدیث: نضَّر الله امرأً سمِع منَّا حديثًا، فحفِظه حتَّى يُبلِّغه غيرَه، فرُبَّ حامل فقهٍ إلى مَن هو أفقه منه، ورُبَّ حامل فقهٍ ليس بفقيه. 

(سنن الترمذی رقم الحدیث: 2656)

(۲) اور دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ حضرات کہتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ کمالات فصاحت وبلاغت سے اور جوامع الکلم سے متصف تھے ،اور بلاشبہ دوسرے شخص کے الفاظ آپ کے معانی کوکامل طور پر ادا نہیں کرسکتے۔

(3) تیسری دلیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دعا سنا رہے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے "نبیک" کی جگہ "رسولک" پڑھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً توجہ دلائی کہ " نبیک" کا لفظ ہے۔ حدیث بخاری شریف میں ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

عن البراء بن عازبٍ، قال: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلمَّا بلغتُ: اللهمَّ آمنتُ بكتابك الَّذي أنزلت، قُلتُ: ورسولك، قال: ((لا، ونبيِّك الَّذي أرسلتَ))

أخرجه البخاري، كتاب الوضوء، باب فضل من بات على الوضوء، (ج 1، ص 58)، رقم الحدیث:247)

2- دوسرا گروہ جمہور علماء کا ہے، جو جوا ز کے قائل ہیں، جن میں خصوصاً واثلہ بن الاسقع، حسن بصری، عطاء بن ابی رباح، مجاہد، عامر الشعبی، ابراہیم النخعی، جعفر الصادق، عمرو بن دینار، زھری، سفیان ثوری، وکیع بن الجراح، حماد بن زید، یحیی بن سعید القطان، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنھم وغیرھم شامل ہیں، لیکن وہ روایت بالمعنی کرنے والے شخص کے لیے سخت شرائط عائد کرتے ہیں، اور حدیث کے سلسلہ میں کسی بھی تساہل کے روادار نہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ الفاظ کا حفظ کرنا ممکن نہیں ہے، اور اصل مقصود احکام کا استنباط ہے، جو معنی سے حاصل ہوجائیگا، صحابہ ؓ نے ایک ہی واقعہ کو کئی الفاظ میں نقل کیا ہے، اورواقعہ بھی یہی ہے، دیگر دلائل کے لیے کتب أصول الحدیث کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ 

بہر کیف! روایت بالمعنی کرنے والے کے لئے درج ذیل شرائط کو مد نظر رکھنا ضروری اور امر لابدی ہے، اس کے بغیر روایت بالمعنی کی گنجائش نہیں ہے۔ شرائط ملاحظہ فرمائیں 👇

(1) راوی عربی زبان کے اسرار ورموز سے بخوبی واقف ہو۔

(2) شریعت کے غایات ومقاصدکوجانتا ہو۔

(3) جس حدیث کی روایت بالمعنی کرنا چاہتا ہے وہ جوامع الکلم کے قبیل سے نہ ہو۔

(4) وہ حدیث ایسی نہ ہو کہ اس کے الفاظ عبادت شمار ہوتے ہوں جیسے ادعیہ ماثورہ اور کلمات اذان وغیرہ پرمشتمل احادیث۔

(5) راوی جس حدیث کی روایت بالمعنی کا خواہاں ہے، اس کے الفاظ اسے یاد نہ ہوں، مگر معنی(ومراد) اسے یاد ہو، اگر اسے الفاظ حدیث بھی یاد ہوں تو اس صورت میں اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے الفاظ کو بدلے،  إلا یہ کہ لوگوں کو سمجھانا مقصود ہو۔

(الالماع بزیادۃ، باب تحری الروایۃ والمجئی:ص ۱۷۸، دارالتراث، المکتبۃ العتیقۃ، القاھرۃ، الطبعۃ الاولی)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : »

یعنی “متن حدیث کے اَلفاظ میں عمدا ً تبدیلی کرنا یا اختصار کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایک ہم معنی لفظ کو دوسرے ہم معنی لفظ سے بدلنا جائز ہے۔ ہاں یہ کام اسی کے لئے جائز ہوسکتا ہے جو الفاظ کے معانی و مطالب سے بخوبی واقف اور باخبر ہو۔” (شرح نخبة الفکر) (تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو شرح مسلم مقدمہ امام نووی / فتح المغیث شرح الحدیث العراقی، صفحہ ۵۷۶)

جواز اور عدم جواز کا اختلاف بالا یہ تو کتب احادیث مبارکہ کی تدوین سے پہلے کا ہے، چونکہ اس وقت الفاظ حدیث کو یاد رکھنا ایک اہم امر تھا،جب الفاظ یاد نہ ہوں تو سہولت کے طور پرروایت بالمعنی کی اجازت تھی، لہذا جمہور علماء نے ضرورت کی وجہ سے اس کی اجازت کچھ شرائط کے ساتھ دے رکھی تھی، لکین جب کتب و مصنفات میں احادیث مدوّن اور جمع کردی گئی اور جو جو روایات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اور ثابت ہیں ان کو ایک خاص قسم کی ترتیب سے جمع کردیا گیا لہذا اب روایت بالمعنی کی گنجائش اور احتیاج جاتا رہا، لہذا اب ہمارے لیے روایت بالمعنی کی گنجائش نہیں ہیں، اب احادیث کا اخذ وتحمل اورا ن کی نقل وروایت انہی الفاظ میں ضروری ٹھہری جوحضوراکرمﷺ سے سنے گئے ہوں، نیز جو روایات ہم بیان کرنا چاہیں یا کسی جگہ لکھنا چاہیں تو ان کتب مدونہ میں رجوع کرسکتے ہیں، لہذا علمائے متأخرین نے باتفاق رائ روایت بالمعنی کو کذب فی الروایۃ کا مستلزم قرار دیا ہیں، ایک معتبر ادارے کی ویب سائٹ پر لکھا ہوا ہے: (1) وخلاف العلماء في مَسألة الرواية بالمعنى، فيما قبل عصر التدوين، أمَّا بعد تدوين الحديث وكتابتِه في المصنَّفات، فلا خِلاف بين العلماء في عدم تجويزه.

(2) نیز اس بات کوامام ابوعمروعثمان بن عبد الرحمن المعروف بابنِ الصلاح (۶۴۲ھ) نے اپنے مقدمہ میں روایت بالمعنی کے بارے میں علماء کے اختلاف کوذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: قال ابن الصلاح: "ثُم إنَّ هذا الخلاف لا نراه جاريًا - ولا أجراه النَّاسُ فيما نعلمُ - فيما تضمَّنَته بُطون الكُتب، فليس لأحدٍ أن يُغيِّر لفظَ شيءٍ من كتابٍ مُصنَّفٍ، ويُثبت بدله فيه لفظًا آخر بمعناه؛ فإنَّ الرِّواية بالمعنى رخَّص فيها مَن رخَّص؛ لما كان عليهم في ضبط الألفاظ والجُمود عليها من الحرج والنَّصَب، وذلك غيرُ موجودٍ فيما اشتملَت عليه بطونُ الأوراق والكُتب، ولأنَّه إن ملك تغيير اللَّفظ، فليس يملكُ تغيير تصنيف غيره، والله أعلم"

(معرفة أنواع علوم الحديث لابن الصلاح المعروف ب مقدمۂ ابن الصلاح ص214، ومثله في تقريب النواوي)

ترجمہ:- یہ اختلاف ان احادیث کے بارے میں باقی نہیں جوکتبِ حدیث میں جمع کرلی گئی ہیں، اب کسی شخص کویہ حق نہیں پہونچتا کہ ان کتب میں محفوظ احادیث کے الفاظ کوتبدیل کرکے ان کی جگہ دوسرے ہم معنی الفاظ رکھ دے، جن لوگوں نے روایت بالمعنی کی اجازت دی تھی، وہ اس وقت کی بات تھی جب الفاظ کے ضبط کرنے اور ان پراصرار کرنے میں تکلیف کا سامنا تھا، اب کتب حدیث میں جواحادیث موجود ہیں ان کے بارے میں یہ دقت نہیں پائی جاتی؛ اگرکسی کے لفظ کوتبدیل کرنے کی اجازت ہو بھی تودوسرے کی تصنیف میں تصرف کا حق نہ ہوگا۔ (أیضا تدریب الراوی للسیوطی: ۲/۱۰۳، مکتبۃ الریاض الحدیثیۃ ، الریاض)

(3) نیز اسی طرح محمود الطحان نے روایت بالمعنی کے اختلاف کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: هذا كله في غير المصنفات، أما الكتب المصنفة فلا يجوز رواية شيء منها بالمعنى، وتغيير الألفاظ التي فيها، وإن كان بمعناها؛ لأن جواز الرواية بالمعنى كان للضرورة إذا غابت عن الراوي كلمة من الكلمات، أما بعد تثبيت الأحاديث في الكتب فليس هناك ضرورة لرواية ما فيها بالمعنى.

(تیسیر مصطلح الحدیث لمحمود الطحان ص212)

ترجمہ:- یہ سب اختلاف غیرمصنفات میں ہے، بہر حال کتب مصنفات میں تو روایت بالمعنیٰ کی ان میں بالکل گنجائش نہیں ہے،  اسی طرح الفاظ کو بدلنا بھی جائز نہیں ہے، اگرچہ روایت بالمعنیٰ کے طور پر ہو، اس لئے کہ روایت بالمعنیٰ کا جواز ایک ضرورت کی وجہ سے تھا، کہ راوی کے سامنے الفاظ حدیث مکتوب نہ تھے، لیکن جب وہ الفاظ حدیث کتب میں ذکر کردیے گئے تو اب وہ ضرورت بھی ختم ہو گئی، لہذا اب روایت بالمعنی کی گنجائش نہیں ہوگی۔ 

اسی طرح کئی علما نے اس کی وضاحت کی ہے، طوالت سے پرہیز کرتے ہوئے ہم یہاں صرف کچھ علما کی عبارات پیش کردیتے ہیں، بالترتیب ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

(4) حتى إذا دونت السنة المطهرة منع من الرواية بالمعنى وتغيير الفظ المدون بلا خلاف۔

(كتابات أعداء الإسلام ومناقشتها لعماد السيد محمد إسماعيل الشربينى، كما قاله ابن الصلاح فی علوم الحديث ص ١٣٦، كما مر آنفا، وانظر: الحديث والمحدثون ص ٢١٨، ٢٢٠، والحديث النبوى للدكتور الصباغ ص ١٣١، وعلوم الحديث للدكتور صبحى الصالح ص٣٢٩، ٣٣٠، والسير الحثيث إلى الاستشهاد بالحديث فى النحو العربى للدكتور محمود فجال ١/٦٢ - ٦٤)

(5) إن هذه المناقشة للرواية بالمعنى كانت قبل عصر التدوين، أما بعد عصر التدوين فقد انتهت الحاجة إليها؛ لأن الرواية قبل التدوين كانت تعتمد على المشافهة بنسبة كبيرة في الأخذ والرد والتلقي والتحمل والأداء بين الرواة من شيوخ وتلاميذ في كل مكان وفي كل زمان، أما بعد تدوين السنة وأصبحت السنة الآن معروفة بمصادرها الصحيحة، وعلى درجات متفاوتة في الصحة وفي غيرها، هذا أمر مقرر عند العلماء، لكن السنة الآن مدونة في بطون الكتب بفضل الله -عز وجل-.

فلا يجوز لأحد أن يروي الآن بالمعنى ما دام يمكن الرجوع إلى المصدر الذي تأخذ منه فلا بد من العودة إليه.

(6) إن هذا الأمر كان قبل عصر التدوين، أما بعد عصر التدوين فقد انتهى الأمر، أو أغلق الباب.

(کلاھما من كتاب الدفاع عن السنة - جامعة المدينة (ماجستير) ص 299-302) 

اسی طرح کئی علمائے محدثین نے اس کی وضاحت کی ہے، لکین طول کلام کے خوف سے بس اسی پر اکتفا کرتا ہوں، ان شاءاللہ دوسری قسطوں میں اس کی اور وضاحت پیش کی جائے گی۔ ان شاءاللہ

اس پوری تحقیق سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ روایت بالمعنی کی اب تدوین حدیث کے بعد گنجائش نہیں ہے، لہذا اب ہمارے لیے ضروری ہے کہ ان کتب فقہ اور اصول فقہ میں جو روایات مذکور ہیں ان کی تحقیق کرلیں کہ کیا ان میں کوئی کمی و زیادتی تو نہیں، تقدیم و تاخیر سے تو کام نہیں لیا گیا؟ اور ان کو اسی طرح نقل کریں جیسے مروی اور کتب مستندہ میں مروی ہیں، جیسے کہ مکمل تحقیق اوپر پیش کی گئی، علاوہ ازیں ہمیں جہاں روایت اور حدیث ملے فوراً کتب احادیث مستندہ سے رجوع کرلیں، اور جس طرح سے الفاظ ان میں مذکور اور مروی ہیں اسی طرح ہم بھی پیش کرنے لکھنے اور نشر کرنے کی کوشش کریں، روایت بالمعنی کہ کر کذب فی الروایۃ کے ملزم نہ ٹھیریں۔ ھذا ما ظهر لي والله اعلم بالصواب وعلمہ اتم 

كتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

استاذ حدیث: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات

رقم الاتصال: 9428359610


0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home