Friday 24 December 2021

*((ایما امرأۃ نکحت۔۔۔۔))* *والی روایت پر ایک جامع سوال اور اس کا محقق جواب*

باسمہ تعالیٰ

*((ایما امرأۃ نکحت۔۔۔۔))* *والی روایت پر ایک جامع سوال اور اس کا محقق جواب*

*ٹیلیگرام چینل ↙️*

https://t.me/Tahqeqat

*سوال:-* (١) دو جگہ مجھے *(نفسہا)* کے ساتھ بالسند روایت ملی ہے ، اور دونوں جگہ اس کی نسبت امام شافعی کی طرف کی گئی ہے.

*(١) تفسیر بغوی، اور (٢) الشافی فی شرح مسند الشافعی میں*

لہذا مسند الشافعی کی مختلف روایات سے تحقیق کرلینی چاہئے، کہ روایت میں *(نفسہا)* کا لفظ ہے ؟

(٢) ایک روایت ایسی ملی ہے جس میں "فنکاحھا باطل باطل باطل" کے الفاظ وارد ہیں، اس کی بھی تحقیق ہوجائے تو بہتر ہے، روایت یہ ہے 👇

 مسند أبي داود الطيالسي (3/ 72)

1566 - حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، وَأَيُّمَا امْرَأَةٍ نُكِحَتْ بِغَيْرِ وَلِيٍّ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ بَاطِلٌ بَاطِلٌ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلِيُّ فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ»

*الجواب بعون الملک الوھاب:-* اوّلاً میں سائل محترم کا تہِ دل سے شکرگزار ہوں کہ ان ہوں نے راقم الحروف کی اس تحقیق پر ایک جامع اور انوکھا سوال کیا کہ ہمیں رجوع کرنے اور اس کے جواب تلاش کرنے سے کافی فائدہ ہوا، نیز یہ بھی سمجھ میں آیا کہ حضرات کبار علما ہماری ان تحقیقات کو پڑھ رہے ہیں،  اور اس سلسلے میں ہمیں اپنی قیمتی آراء سے آگاہ فرمارہے ہیں۔

 فجزاھم اللہ خیرا

*ثانیاً  دونوں سوالات کے جوابات لف ونشر مرتب کے طور پر ملاحظہ ہو۔👇👇👇*

(١) راقم الحروف نے اوّلاً سوالِ بالا میں مذکور دونوں کتب سے رجوع کیا کہ کیا ان میں وہ روایت مروی ہے؟ نیز اس میں *نفسھا* کا لفظ بھی منقول ہے؟ 

تو دیکھنے اور رجوع کرنے سے معلوم ہوا کہ حقیقۃً ان میں یہ لفظ منقول ہے، دونوں کتب کی احادیث ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

*أخبرنا عبد الوهاب بن محمد الخطيب أنا عبد العزيز بن أحمد الخلال أنا أبو العباس الأصم أنا الربيع أنا الشافعي أنا سعيد بن سالم عن ابن جريج عن سليمان بن موسى عن ابن شهاب عن عروة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: أيما امرأة نكحت نفسها بغير إذن وليها فنكاحها باطل- ثلاثا-...........*

(تفسیر بغوی تحت آیۃ وَأَنكِحُوا۟ ٱلۡأَیَـٰمَىٰ مِنكُمۡ وَٱلصَّـٰلِحِینَ سورة النور: 32) 

*أخبرنا الشافعي -رضي الله عنه- أخبرنا مسلم وعبد المجيد، عن ابن جريج، عن سليمان بن موسى، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: "أيما امرأة نكحت نفسها بغير إذن وليها، فنكاحها باطل. ثلاثا۔*

(الشافی فی شرح مسند الشافعی ج4 ص336)

آپ ان میں بغور دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ *نفسھا* کا لفظ ہے، لیکن چونکہ ان میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے حوالے سے روایت مذکور ہے -جیسا کہ آپ نے ابھی دیکھا-  لہذا امام شافعی رحمہ اللہ کی مسند الشافعی کی طرف رجوع کیا، اور اس میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ روایت اس میں دو سندوں سے مروی ہے، ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

(1) *أخبرنا سعيد بن سالم، عن ابن جريج، عن سليمان بن موسى، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل، ثلاثا۔۔۔۔۔۔۔*

(2) *أخبرنا مسلم، وعبد المجيد، عن ابن جريج، عن سليمان بن موسى، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل». ثلاثا*

(مسند الشافعی)

اور ان میں *نفسھا* کا لفظ نہیں ہے، چونکہ تفسیر بغوی اور الشافی فی شرح مسند الشافعی دونوں کتابوں میں روایت حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے حوالے سے مذکور ہے، یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کے اساتذہ جس طرح مسند میں ہیں اسی طرح ان دونوں کتب میں بھی ہیں، لیکن امام شافعی رحمہ اللہ نے تو اس لفظ کو ذکر کیا ہی نہیں ہے،  لہذا اطمنان ہوگیا کہ اصل کتاب میں یہ لفظ مروی نہیں ہے، اور حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب کتب اصلیہ میں سے ہے، لہذا کتب شبہ اصلیہ کی روایات کو کتب اصلیہ کی مراجعت سے ہی نقل کیا جائے گا، لہذا اس کو نہ بیان کیا جائے اور نہ روایت بالمعنی کہ کر لکھا جائے۔

 نیز الأم للشافعی کی طرف بھی رجوع کرنے کا موقع ملا، تو اس میں بھی وہ روایت بالسند ملی، لیکن اس میں بھی *نفسھا* کا لفظ نہیں ملا، لہذا معلوم ہوا کہ تفسیر بغوی اور الشافی فی شرح مسند الشافعی میں *نفسھا* کا لفظ زائد ہے۔

لہذا ان کتابوں کے حوالے سے روایت ذکر کرنے کے بجائے اس کتاب *(مسند الشافعی)*  کے حوالے سے ذکر کی جائیں جو مروی عنہ کی کتاب ہے۔

(٢)  جی! اس میں "باطل باطل" بشکل مفرد وارد ہے لیکن اس میں "بغیر اذن ولى" کا لفظ ہے، نہ کہ "ولیھا". 

ھذا ما ظهر لي والله اعلم بالصواب

*✍️ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

استاذ:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا


0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home