Friday 7 January 2022

حضرت لوط علیہ السلام کی نافرمان بیوی کا پتھر کی شکل میں بُت بن جانا، اور اس کی مکمل تحقیق

 باسمہ تعالیٰ

(تحقیقات سلسلہ نمبر:- 77)

(حضرت لوط علیہ السلام کی نافرمان بیوی کا پتھر کی شکل میں بُت بن جانا، اور اس کی مکمل تحقیق)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

السوال:- سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کثرت سے گردش کررہا ہے، اس میں کچھ چیزیں قوم لوط کے سلسلے میں ذکر کی گئی ہے، اس میں دو چیزیں ایسی ہیں جس کی تفصیلی تحقیق مجھے مطلوب ہے۔ بیّنوا توجروا۔

(١) حضرت لوط علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ آپ مع اپنے اہل و عیال کے اپنی بستی سے رات کے وقت نکل جانا، اور پیچھے مڑکر مت دیکھنا، کما قال الله تعالىٰ: "فَأَسۡرِ بِأَهۡلِكَ بِقِطۡعࣲ مِّنَ ٱلَّیۡلِ وَلَا یَلۡتَفِتۡ مِنكُمۡ أَحَدٌ"  بہر کیف! آپ کے ساتھ آپ کی نافرمان بیوی بھی تھی، تو اس وقت آپ علیہ السلام کی بیوی نے پیچھے مڑکر دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے اس نافرمان بیوی کو بطور عذاب پتھر کا بُت (مجسمہ) بنادیا، اور وہ مجسمہ آج تک ایک پہاڑ پر نظر آرہا ہے، تو پوچھنا یہ ہے کہ اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟

(٢) اس ویڈیو میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کا ایک بیٹا بھی تھا، اس نے بھی پیچھے مڑکر دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ہمیشہ کے لیے پتھر کا ایک مجسمہ بنادیا، کیا یہ بات بھی کتب تفاسیر میں ملتی ہے؟

مفصل اور محقق جواب مطلوب ہے۔

جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- جہاں تک تعلق ہے ثانی الذکر سوال کا تو اس کا ذکر کتب تفاسیر اور کتب تاریخ میں کثرتِ تتبع کے بعد بھی نہیں ملا، ہاں البتہ بعض مؤرخین نے آپ علیہ السلام کے بیٹوں کا ذکر کیا ہے، اور نام بھی درج کیے ہے، "توریت کے مطابق حضرت لوط علیہ السلام کے دو بیٹے تھے (١) عمون (٢) موآئی" بحوالۂ تاریخ ابن خلدون ج٢ ص٧٣، لیکن کہی پر بھی یہ بات نہیں ملی کہ آپ کے ایک بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی وجہ سے ایک مجسمہ بنادیا تھا، نیز اللہ سبحانہ و تقدس اور مفسرین کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام مع اپنے اہل و عیال کے اس عذاب سے نجات پاگیے سوائے ان کی نافرمان بیوی کے کہ وہ ہلاک ہوئی، - کما سیأتی ان شاءاللہ - اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَقَالُوا۟ لَا تَخَفۡ وَلَا تَحۡزَنۡ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهۡلَكَ إِلَّا ٱمۡرَأَتَكَ كَانَتۡ مِنَ ٱلۡغَـٰبِرِینَ)  اور مفسرین سے منقول ہے: "فأهلكهم الله، ونجّى لوطًا وأهله، إلا امرأته." ابن جریر طبری وغیرھم، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ آپ کے بیٹے تھے تو وہ ہلاک نہیں ہوئے، چونکہ "وأھلک" میں وہ بھی داخل ہیں، تو یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے کہ آپ کے ایک بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے ایک مجسمہ بنادیا، چونکہ وہ تو نجات پانے والوں میں سے تھے، لہذا ان کے ایک بیٹے پر عذاب کا اترنا اور اس کا پتھر کا مجسمہ بن جانا قرآن مجید کی صریح آیات اور مفسرین کے کلام کے خلاف ہے، لہذا اس کو بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ والله أعلم بالصواب۔

 اور اول الذکر سوال کا جواب سمجھنے کے لئے اس بات کی وضاحت قابل ذکر ہے کہ کیا حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی آپ کے ساتھ نکلی تھی جس وقت آپ کو شہر سے باہر نکلنے کا حکم ہوا؟ یا وہی نافرمان قوم کے ساتھ شہر میں رہی؟ تو اس سلسلے میں مفسرین کا شدید اختلاف رہا ہے: بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ نکلی تھی اور پھر ہلاک ہوئی، اور بعض کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کے ساتھ نہیں نکلی، اور وہی شہر میں نافرمان لوگوں کے ساتھ رہی، اور ان ہی کے ساتھ ہلاک ہوئی، اور اس اختلاف کی وجہ یہ قرآن مجید کی آیت ہے: "فَأَسۡرِ بِأَهۡلِكَ بِقِطۡعࣲ مِّنَ ٱلَّیۡلِ وَلَا یَلۡتَفِتۡ مِنكُمۡ أَحَدٌ إِلَّا ٱمۡرَأَتَكَ" 

"امرأتک" کے اعراب کی دو وجہ مفسرین نے لکھی ہیں، اور دونوں اعراب (قراءتیں) قراءت متواترہ میں سے ہے، ملاحظہ فرمائیں:

(١) حالت نصبی میں، اس وقت لفظ "أھل" سے مستثنیٰ ہوگا، اور معنی یہ ہوگا: اور آپ اپنے اہل و عیال کو لے کر رات کے وقت نکل جانا، اور ساتھ میں اپنی بیوی کو نہ لینا، کما في جلالين: " وفي قِراءَة بِالنَّصْبِ اسْتِثْناء مِن الأَهْل أيْ فَلا تَسِرْ بِها" نیز ابن جریر طبری رحمہ اللہ وغیرہم نے بھی اس کو لکھا ہے: "وأما قوله: ﴿إلا امرأتك﴾ ، فإن عامَّة القراء من الحجاز والكوفة، وبعض أهل البصرة، قرأوا بالنصب ﴿إلا امْرَأَتَكَ﴾ ، بتأويل: فأسر بأهلك إلا امرأتك، وعلى أن لوطًا أمر أن يسري بأهله سوى زوجته، فإنه نهي أن يسري بها، وأمر بتخليفها مع قومها." کما ںقلہ ابن جریر الطبری فی تفسیرہ، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام جب مع اہل و عیال کے رات کے وقت نکلیں تو آپ کے ساتھ آپ کی بیوی نہیں تھی، اور جب آپ نکل چکے تو نافرمان قوم کو(جس میں آپ علیہ السلام کی نافرمان بیوی بھی تھی) اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص عذاب سے ہلاک کردیا، كما قاله في جلالين: "(إنّهُ مُصِيبها ما أصابَهُمْ﴾ فَقِيلَ لَمْ يَخْرُج بِها" وہ واقعہ مفصل نیچے کی سطروں میں آرہا ہے۔  

 (٢) حالت رفعی میں، اس وقت لفظ "أحد" سے بدل بنے گا، معنی ہوگا: اور تم میں کا کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں مگر آپ کی بیوی، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم تھا کہ پیچھے مڑ کر مت دیکھنا، ہاں البتہ آپ کی بیوی چونکہ نافرمان قوم کی مددگار تھی اس لیے وہ پیچھے مڑ کر ضرور دیکھے گی، اور ہلاک ہوگی، کما فی جلالین: "﴿إلّا امْرَأَتك﴾ بِالرَّفْعِ بَدَل مِن أحَد" تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی آپ کے ساتھ نکلی تھی اور پھر ہلاک ہوئی، اسی طرح ابن جریر طبری رحمہ اللہ وغیرھم نے بھی اس کی وضاحت کی ہے: "وقرأ ذلك بعض البصريين: ﴿إلا امْرَأَتُكَ﴾ رفعًا= بمعنى: ولا يلتفت منكم أحد، إلا امرأتك = فإن لوطًا قد أخرجها معه، وإنه نهي لوط ومن معه ممن أسرى معه أن يلتفت سوى زوجته، وأنها التفتت فهلكت لذلك." کما قالہ ابن جریر طبری فی تفسیرہ۔

 اب اس پر بھی سوال ہوتا ہے کہ کس طرح ہلاک ہوئی؟ تو اس سلسلے میں بھی مفسرین کی مختلف آراء منقول ہے:

(١) اکثر مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ اس(نافرمان بیوی) نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور (نافرمان قوم کے عذاب کو دیکھ کر) بولی "وا قَوْماہ!" ہائی میری قوم، تو اچانک غیب سے ایک پتھر گرا اور وہ ہلاک ہوگئی، کما نقله السيوطي رحمة الله عليه في جلالين: "وقِيلَ خَرَجَتْ والتَفَتَتْ فَقالَتْ واقَوْماه فَجاءَها حَجَر فَقَتَلَها" اسی طرح اکثر مفسرین نے اس کو نقل کیا ہیں، فلیراجع فی أمھات التفاسیر۔ 

(٢) اور بعض مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ اس بیوی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب اس پر مسلط ہوا اور اس کو پتھر بنادیا گیا، ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اپنی مایا ناز تفسیر میں اس کو اپنی سند سے حضرت امام ضحاک رحمہ اللہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے:" وقد حُدّثتُ عن المسيِّب بن شريك، عن أبي روق، عن الضحاك ﴿إِلا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ﴾ يقول: إلا امرأته تخلَّفت فمسخت حجرا، وكانت تسمى هيشفع." 

(تفسیر ابن جریر طبری ج19 ص622)

اور آپ کے حوالے سے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الدر المنثور میں بھی یہ قول نقل کیا ہے: "أخْرَجَ ابْنُ جَرِيرٍ عَنِ الضَّحّاكِ: ﴿إلا عَجُوزًا في الغابِرِينَ﴾ . يَقُولُ: إلّا امْرَأتَهُ تَخَلَّفَتْ فَمُسِخَتْ حَجَرًا، وكانَتْ تُسَمّى هَيْشَفَعَ."

(الدر المنثور للسیوطی ج05 ص286)

نیز اسی طرح علامہ ثعالبی نے بھی اس کو اپنی کتاب قصص الانبیاء المسمی بعرائس المجالس میں بطریق أبو روق اپنی سند سے ذکر کیا ہے۔ (وفیہ: وكانت تسمى هلسفع)

(قصص الانبیاء المسمی بعرائس المجالس للثعالبي، طبعة الحلبي ١٠٦)

اب اس اختلاف کے سلسلے میں راقم الحروف ابو احمد حسان کی دو ناقص تحقیقات ہیں، ملاحظہ فرمائیں 👇

(١) ان دونوں اختلافات میں سے بعض حضرات نے پہلے والوں کا قول راجح قرار دیا ہے، یعنی جن حضرات کا یہ کہنا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی نافرمان بیوی کو خروج میں ساتھ نہ لینے کا حکم تھا، چونکہ اکثر مفسرین نے ﴿إِلا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ﴾ کی تفسیر میں لکھا ہیں: أی فی الھالکین، یا فی الباقین، "(قَدَّرْنا إنَّها لَمِنَ الغابِرِينَ﴾ أيِ الباقِينَ في عَذابِ اللَّهِ تَعالى كَما أخْرَجَ ابْنُ أبِي حاتِمٍ عَنْ قَتادَةَ أوِ الباقِينَ مَعَ الكَفَرَةِ لِتَهْلَكَ مَعَهُمْ" كما قاله الآلوسي البغدادي في روح المعاني.  لہذا اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ علیہ السلام کی بیوی نافرمان قوم کے ساتھ ہی رہی اور ان کے ساتھ ہی ہلاک ہوئی، اس اعتبار سے مجسمہ کا کیا مطلب؟ واللہ اعلم بالصواب

اور بعض حضرات نے دوسرے اختلاف والوں کے قول کو راجح قرار دیا ہے، یعنی ان حضرات کے قول کو راجح قرار دیا ہے جن کے نزدیک حضرت لوط علیہ السلام کو مع اپنے اہل و عیال کے نکلنے کا حکم تھا، اور ان میں ان کی بیوی بھی تھی، لکین اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا (جو منہی عنہ تھا) تو اللہ تعالیٰ نے اس کو پتھر مار کر ہلاک کر دیا، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ ان کی بیوی کو پتھر سے ہلاک کردیا گیا، اس کو اکثر مفسرین نے لکھا ہے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجسمہ والی بات جمہور علماء کے اقوال کے خلاف ہے۔ 

 (٢) اب سوال یہ ہے کہ ویڈیو میں دکھائی دینے والے مجسمہ کے متعلق کیا تحقیق ہونی چاہیے؟ تو راقم الحروف کا اس سلسلے میں یہ کہنا ہے کہ اگرچہ امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ذکر کیا ہیں کہ اس عورت کو پتھر کی شکل میں بُت بنادیا گیا "فمسخت حجرا" اور اس کو ان حضرات کے حوالے سے وضاحت کے ساتھ ذکر کرنا بھی درست ہے، لیکن یہ بات عین الیقین سے ثابت نہیں ہے کہ یہ مجسمہ اور بُت جو پہاڑ پر دکھایا جارہا ہے یہ وہی ہے؟ اور یہ مجسمہ وہی حضرت لوط علیہ السلام کی نافرمان بیوی کا ہی ہے؟ چونکہ آپ علیہ السلام کا زمانہ گزرے کافی عرصہ ہوگیا ہے، لہذا یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مجسمہ ان کی نافرمان بیوی کا ہے۔

خلاصۂ کلام:  حضرت لوط علیہ السلام کے ایک بیٹے کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے ایک مجسمہ بن جانا تلاش بسیار کے بعد بھی کہی نہیں ملا، لہذا اس کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اور آپ علیہ السلام کی نافرمان بیوی کا مجسمہ تو اس سلسلے میں ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے ایک روایت امام ضحاک رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کی ہے: "فمسخت حجرا" تو اس روایت کو آپ کے حوالے سے ذکر کرنا درست تو ہے، لیکن کیا یہ بات ممکن ہے کہ یہ پہاڑ پر نظر آنے ولا مجسمہ آپ کی نافرمان بیوی کا ہی ہے؟ یہ بات یقینی نہیں ہے، لہذا ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی روایت کو اس مجسمے کے ساتھ منسوب کرنا درست اور صحیح معلوم نہیں ہوتا ہے، نیز امام ضحاک رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا روایت جمہور علماء کے اقوال کے خلاف ہے، اور نیز امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اس قول کو مرجوح قرار دیا ہے، اور "کانت من الغابرین أی من الباقین" والے قول کو راجح قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: "والصواب من القول في ذلك عندنا." لہذا یقینی طور پر اس کو ثابت کرنا اور مجسمہ کی طرف منسوب کرنا قابل نظر ہے، اتنی بات قول مرجوح کے طور پر کہی جاسکتی ہے کہ آپ کی بیوی کو پتھر کی شکل کا ایک بت بنا دیا گیا۔ ھذا ما ظهر لي والله أعلم بالصواب

قوم لوط کا مختصر تعارف جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ویب سائٹ کے حوالے سے، ملاحظہ فرمائیں 👇

قرآنِ مجید میں قوم لوط   کاذکر سترہ (17) مرتبہ آیا ہے،قومِ لوط کا مسکن شہر سدوم اور عمورہ تھا  جو بحر مردار کے ساحل پر واقع تھا، اورقریش  مکہ اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے ، یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اورضُغر تھے، ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات (یعنی الٹی ہوئی بستیاں) کے الفاظ میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومت اور مرکز سمجھا جاتا تھا۔

  جب حضرت لوط علیہ السلام  اردن  میں بحیرہ لوط  کے پاس جہاں سدوم اور عامورہ کی بستیاں تھیں  وہاں آکر رہائش پذیر ہوئے تو   اللہ تعالیٰ نے  انہیں اہلِ سدوم کی ہدایت کے لیے نبی مبعوث فرمایا، یہاں کے باشندے فواحش اور   بہت سے گناہوں  میں مبتلا تھے،  دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں تھی جو ان میں موجود نہ ہو ، یہ  دنیا کی سرکش، متمرد   اور بداخلاق قوم   تھی، ان سب  برائیوں کے ساتھ ساتھ یہ قوم ایک خبیث عمل کی موجد بھی تھی، وہ یہ کہ  وہ  اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنے کے لیے عورتوں کے بجائے لڑکوں سے اختلاط رکھتے تھے، دنیا کی قوموں میں اس عمل کا اب تک کوئی رواج نہ تھا ، یہی وہ بدبخت قوم تھی جس نے  اس ناپاک عمل کو شروع کیا تھا، اور اس سے بھی زیادہ بے حیائی یہ تھی کہ وہ  اپنی اس بدکرداری کو عیب نہیں سمجھتے تھے، بلکہ کھلم کھلا فخر کے ساتھ اس کو کرتے رہتے تھے۔

ان حالات میں  حضرت  لوط علیہ السلام نے اس قوم کو  ان کی بے حیائیوں  اور برائیوں پر ملامت کی اور شرافت وطہارت کی زندگی کی رغبت دلائی،  اور  ہر ممکن طریقے سے نرمی اور پیار سے انہیں سمجھایا اور نصیحتیں کیں ، اور  پچھلی قوموں کی بداعمالیوں کے نتائج  اور  ان پر آئے ہوئے عذابات بتاکر عبرت دلائی، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ الٹا   طنز کرتے ہوئے یہ کہنے لگے: " یہ بڑے  پاک باز لوگ ہیں، ان کو اپنی بستی سے نکال دو" اور بارہا  سمجھانے کے بعد یہ کہنے لگے: "ہم تو نہیں مانتے ، اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ"،  ادھر یہ ہورہا تھا  اور دوسری جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ کے فرشتے انسانی شکل میں  آئے ،  ابراہیم علیہ السلام نے انہیں مہمان سمجھ کر ان کی تواضع  کرنی چاہی لیکن انہوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا، یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ کوئی دشمن ہے جو حسبِ دستور کھانے سے انکار کررہا ہے، اور پریشان سے ہوگئے،  تو مہمانوں نے کہا: آپ  گھبرائیں نہیں، ہم اللہ کے فرشتے ہیں، آپ کے لیے بیٹے کی بشارت لائے ہیں اور قومِ لوط کی تباہی کے لیے بھیجے گئے ہیں، ابراہیم ؑ نے فرمایا: تم ایسی قوم کو ہلاک کرنے جارہے ہو جس میں لوط ؑ جیسا خدا کا برگزیدہ نبی موجود ہے؟ انہوں نے کہا: ہمیں معلوم ہے، لیکن اللہ کا یہی فیصلہ ہے کہ قومِ لوط اپنی  بے حیائی اور فواحش پر اصرار کی وجہ سے ضرور ہلاک ہوگی، اور لوط (علیہ السلام) اور ان کا خاندان  اس عذاب سے محفوط رہے گا، سوائے لوط  (علیہ السلام) کی بیوی کے وہ  قوم کی حمایت اور ان کی بداعمالیوں میں شرکت کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوگی۔

 فرشتے حضرت ابراہیم  علیہ السلام کے پاس  سے روانہ ہوکر  سدوم پہنچے ، اور  لوط علیہ السلام کے یہاں مہمان  ہوئے، اور یہاں یہ  فرشتے خوب صورت اور نوجوان لڑکوں کی شکل میں  تھے، لوط  علیہ السلام نے  ان کو دیکھا  تو بہت پریشان ہوئے کہ اب نہ جانے قوم ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گی،  ابھی  وہ اسی پریشانی میں تھے کہ قوم  کو خبر ہوگئی اور وہ لوط علیہ السلام کے  مکان پر چڑھ گئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ ان کو ہمارے حوالہ کردو، لوط  (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا، لیکن وہ  نہ مانے، تو انہوں سخت پریشانی میں کہا:  "کاش میں کسی مضبوط سہارے کی حمایت حاصل کرسکتا" !!

            فرشتوں نے ان کو پریشان دیکھ کر کہا کہ  آپ گھبرائیں نہیں ، ہم انسان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، اور ان کے عذاب کے لیے نازل ہوئے ہیں ، آپ راتوں رات  اپنے خاندان سمیت یہاں سے نکل جائیں ، تو فرشتوں کے پیغام کے بعد لوط  علیہ السلام  اپنے خاندان سمیت بستی سے نکل کر سدوم سے رخصت ہوگئے اور ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے انکارکردیا اور یہیں رہ گئی،  جب رات کا آخری پہر ہوا تو عذاب شروع ہوگیا، سب سے پہلے ایک سخت ہیبت ناک چینخ  نے ان کو تہہ وبالاکردیا،  پھر ان کی آبادی کو اوپر  اٹھا کر  زمین کی طرف الٹ دیا گیا، اور پھر اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کا نام ونشان مٹادیا، اور گزشتہ قوموں کی طرح یہ بھی اپنی سرکشی کی وجہ سے انجام کو پہنچے۔

مزید تفصیل  مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی رحمہ اللہ کی کتاب "قصص القرآن" (اردو، چار جلدیں) میں ملاحظہ کیجیے۔ 

رقمه العبد الضعيف: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

استاذ حدیث:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا

رقم الاتصال: 9428359610

تاریخ: 07/جنوری/2022 بروز جمعہ۔

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home