Saturday 15 August 2020

كما تعيشون تموتون الخ کی تحقیق

 ( تحقیقات سلسلہ نمبر 28)

باسمہ تعالیٰ

 السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بندہ محمد زبیر آمود 


كما تعيشون تموتون وكما تموتون تبعثون وكما تبعثون تحشرون

تحقیق مطلوب ہے؟


وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:-

بالا سوال میں مذکور الفاظ ہمیں کتب احادیثِ معتمدہ میں تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملے۔

لکین ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب" مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح"

 میں تین جگہوں پر یہ الفاظ بغیر سند کے ذکر کیے ہے۔ 


(١)  وإيماء إلى قولهم "كما تعيشون تموتون وكما تموتون تحشرون"

(مرقاة المفاتيح شرح مشكوٰة المصابيح ج1 كتاب الايمان باب إثبات عذاب القبر رقم الحديث: 183)


(٢)  لما روى  "كما تعيشون تموتون وكما تموتون تحشرون"

( مرقاة المفاتيح شرح مشكوٰة المصابيح ج7 كتاب الجهاد رقم الحديث: 3847)


(٣)  ومنه قيل : ما ترى الهرة في نومها إلا الفأرة . ومن هذا القبيل : "كما تعيشون تموتون وكما تموتون تحشرون"

( مرقاة المفاتيح شرح مشكوٰة المصابيح ج8 كتاب الرؤيا، رقم الحديث: 4614)


 لکین چونکہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں کی اس لیے ان کا بیان کرنا ( بغیر نسبت) درست اور صحیح ہے۔

 نیز " كنز الخفا في مقامات الصوفي" کے حاشیہ میں ہمیں اس بات کی وضاحت ملی کہ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں

 " ليس بحديث، إنما هو من كلام الصالحين، وورد في كتاب مرقاة المفاتيح لعلي القاري.

(كنز الخفا في مقامات الصوفي للبرليسي الحنفي ص 79)

ترجمہ۔ یہ حدیث نہیں، صلحاء کے اقوال میں سے ہے' اور ملا علی قاری رحمہ اللہ کی کتاب میں یہ الفاظ وارد ہیں۔ 


 اور آپ رحمہ اللہ کی پہلی عبارت ( وإيماء إلى قولهم) سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں، " إلى قولهم"  کی ضمیر جمع کی وجہ سے۔ 

ہاں البتہ "الابواب والتراجم" میں شیخ زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے "فیض الباری للکشمیری  ج4 ص160" کے حوالے سے فرق الفاظ کے ساتھ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتے ہوئے ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں 👇

وفي الفيض: قوله " باب عمل صالح" الخ لعله مأخوذ من قوله صلى الله عليه وسلم " كما تحيون تموتون وكما تموتون تحشرون" 

( الابواب والتراجم للكاندهلوي ج3 ص213)


راقم الحروف محمد حسان کی ناقص رائ یہ ہے کہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔


اس لیے کہ یہ الفاظ تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں کتب احادیث نہیں ملی، اگر آپ قارئین میں سے کسی کو ملے تو ہمیں ضرور متنبہ فرمائیں۔

رابطہ نمبر: 9428359610


 البتہ کتب أہل تشیع میں وہ الفاظ مذکور ہیں، (هذا حديث عند الشيعة، جاء في كتاب "عوالي اللئالي4/72)

(وجاء أيضا بلفظ آخر في السيرة الحلبية 1/272)


لکین چونکہ وہ معتبر نہیں اور اسی طرح تمام تر کتب شیعہ غیر معتبر ہیں، موضوع اور من گھڑت روایات کا مجموعہ ہیں

 جیسے  (مستدرك الوسائل للطبرسي،الكافي للكليني،المحاسن للبرقی ، مکارم الاخلاق، حلیۃ المتقین) 

اور ان کی یہ سب کتابیں بھی غیر معتبر ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہے،چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ روافض کی روایات کے متعلق علامہ سیوطی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:-

(واما البدعة الكبرى كالرفض الكامل،والغلو فيه والحط عن الشيخين -ابي بكر وعمر رضي الله عنهما- فلا ، ولا كرامة،لا سيما لست استحضر الآن من هذا الضرب رجلا صادقا ، ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والنفاق والتقية دثارهم، فكيف يقبل من هذا حاله)

(مقدمہ فتح الملہم، روایات أہل البدع و الاہواء ص 172)

ترجمہ۔  اور اگر کسی راوی میں بدعت کبریٰ پائی جائے جیسے کوئی غالی رافضی اور شیعہ ہو،اور حضرات شیخین یعنی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو ان کے مقام سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہو، تو ان کی روایات قابل قبول نہیں ،کیوں کہ ابھی تک میں نے اس قبیل کے لوگوں میں کسی کو صادق اور امین نہیں پایا ہے، بلکہ جھوٹ منافقت اور تقیہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، تو ایسے شخص کی بات روایت کیوں قبول کی جا سکتی ہے؟

اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے دور میں فرمایا تھا کہ یہ لوگ یعنی شیعہ حضرات کافر ہیں۔

                 ( کتاب الاعتصام للشاطبی ج2)

اس لیے ان الفاظ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا درست اور صحیح نہ ہوگا۔ 


اس جیسی دوسری روایت کے متعلق فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ سے سوال دریافت کیا گیا، سوال وجواب درج ذیل ہیں 👇 

والذي نفسي بيده لتموتن كما تنامون، ولتبعثن كما تستيقظون، ألا وإنها الجنة أبدًا أو النار أبدًا"، هل هو من كلام النبي صلى الله عليه وسلم وما حكم مرتبته؟


لا نعلم له أصلاً عن النبي صلى الله عليه وسلم، وإنما يروى من كلام قس بن ساعدة . وبالله التوفيق. وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب

كتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

17/اگست/2020 بروز اتوار

3 Comments:

At 15 August 2020 at 19:03 , Blogger  أبو أحمد حسان بن سماحة الشيخ محمد يونس التاجفوري الغجراتي الأجوبة المستحكمة في سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة said...

جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء وبارک اللہ فیکم ۔

لیکن حضرت مجھے لگتا ہے یہ الفاظ روایت بالمعنی کے طور پر ذکر کئے گئے ہیں ، کیوں کہ ابن ماجہ وغیرہ کی روایت میں ان کی اصل موجود ہے:

ابن ماجه «٤٢٦٨» کی ایک طویل روایت میں ہے:

"عَلى اليَقِينِ كُنْتَ، وعَلَيْهِ مُتَّ، وعَلَيْهِ تُبْعَثُ إنْ شاءَ اللهُ" .

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

(وعَلَيْهِ تُبْعَثُ): يَعْنِي كَما تَعِيشُ تَمُوتُ وكَما تَمُوتُ تُحْشَرُ .

[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ١/‏٢٢١]

واللہ تعالیٰ اعلم
⁦✍️⁩ محمد ابرار متعلم دار العلوم دیوبند۔

 
At 15 August 2020 at 19:29 , Blogger mosoheltajpuri52shahid said...

Masha allah

 
At 14 February 2022 at 05:40 , Blogger Mufti fahad said...

اللہ کے راستہ کی دعاء کی بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح قبول ہوتی ہے
کیا یہ حدیث ہے

 

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home