Thursday 27 August 2020

بارش کے پانی میں شفاء

 


(تحقیقات سلسلہ نمبر 29)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

(بارش کے پانی میں شفاء)

سوال۔ علامہ یافعی یمنی نے اپنی کتاب " الدر النظیم" میں ایک روایت نقل کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بارش کے پانی پر سورہ فاتحہ ستر (70) مرتبہ، آیت الکرسی ستر مرتبہ،سورۂ اخلاص ستر مرتبہ، سورۂ فلق ستر مرتبہ، اور سورۂ ناس ستر مرتبہ پڑھ کر دم کرے تو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے حضرت جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ جو شخص اس دن کئے ہوئے پانی کو سات دن تک لگاتار پیئے گا اللہ تعالی اس کے جسم سے ہر بیماری نکال دیگا، اور اس کی رگوں، ہڈیوں اور تمام اعضاء سے بھی بیماریوں کو نکال دے گا۔ 

اس حدیث کی تحقیق مطلوب ہے؟


وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ


الجواب بعون الملک الوھاب:- جی۔۔۔۔۔ علامہ یافعی یمنی نے  اس کو بغیر سند کے ذکر کیا ہے، اور ان کی مذکور کتاب میں رطب و یابس ہیں، نیز وہ موضوع اور من گھڑت احادیث کا مجموعہ ہے،  اور کثیر وہ احادیث جو من گھڑت ہیں مصنف کتاب نے اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے'جو درست اور صحیح نہیں ہے، لہذا بالا الفاظ کو حدیث ماننا اور نشر کرنا درست نہیں ہے۔ 

عبداللہ بن اسعد الیافعی بظاھر صوفی علماء میں سے ہیں۔ائمہ شیعہ کی مدح کے کلمات ان سے منقول ہیں اس لئے شیعہ ان کی باتوں کو نقل کرتے ہیں۔۔

واللہ اعلم بالصواب



بالا حدیث کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  من أخذ من ماء المطر وقرأ عليه فاطحة الكتاب سبعين مرة، وآية الكرسي سبعين مرة، وقل هو الله أحد سبعين مرة، والمعوذتين سبعين مرة، والذي نفسي بيده أن جبرئيل جاءني واخبرني انه من يشرب من الماء سبعة أيام متواليات فان الله يدفع عنه كل داء في جسده ويعافيه منه، ويخرجه مِن عروقه ولحمه وجميع أعضائه.

( الدر النظيم في خواص القرآن الكريم لليافعي ص 13) 

 

نیز تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں یہ حدیث کتب احادیث معتمدہ میں بالسند نہیں ملی، ہاں البتہ بعض أہل تشیع نے اس کو بالسند ذکر کیا ہے، لیکن چونکہ ان کی کتب موضوع اور من گھڑت احادیث کا مجموعہ ہیں، اس لیے ہمارے نزدیک وہ معتبر نہیں۔ 

أہل تشیع کی کتب کے متعلق معلومات کے لئے ہماری درج ذیل لینک سے استفادہ کریں 👇


https://mohassantajpuri.blogspot.com/2020/02/blog-post_25.html?m=1


شیخ طلحہ بلال منیار صاحب حفظہ اللہ ورعاہ اس کے متعلق لکھتے ہیں:

یہ عمل اس ترکیب کے ساتھ عموما روافض کی کتابوں میں نیسان (سریانی، شمسی تقویم کے چوتھے مہینے) کے اعمال ووظائف میں ملتا ہے.

رافضی عالم مجلسی کی کتاب (بحار الأنوار) میں یہ عمل حسین بن حسن بن خلف کاشونی کی کتاب (زاد العابدین) کے حوالے سے منقول ہے، اور اسکی سند اس طرح سے مذکور ہے:

○ قال الکاشونی: أخبرنا الوالد أبوالفتح، حدثنا أبوبکر محمد بن عبدالله الخشابی البلخی، حدثنا أبونصر محمد بن أحمد بن محمد الباب حریزی، أخبرنا أبونصر عبدالله بن عباس المذکر البلخی، حدثنا أحمد بن أحید، حدثنا عیسی بن هارون، عن محمد بن جعفر بن عبدالله بن عمر، حدثنا نافع، عن ابن عمر.... فذكره.


سند مذکور (علی فرض ثبوته) کے بعض رواۃ اواخر سند میں معروف ہیں، باقی مجاھیل یا ضعفاء ہیں، خصوصا اوائل سند میں مذکورہ رواۃ تو روافض ہیں، مزید یہ ہے کہ اس روایت سے اہل سنت کی کتابیں خالی ہیں، اس لئے اس پر اعتماد نہیں کرسکتے، اسی طرح مذکورہ دعا کے جو عجیب وغریب فضائل روایت میں بتائے گئے ہیں، اسی سے اس روایت کا موضوع ومن گھڑت ہونا واضح ہے.انتھی



جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں 👇


یہ روایت ذخیرہ حدیث میں کہیں نہیں ملی، شاید کسی بزرگ کا مجرب عمل ہوگا، بطورِ علاج مذکورہ عمل اختیار کرنے میں حرج نہیں، مگر اسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا شرعاً درست نہیں۔ انتہی 



خلاصۂ کلام:-  بارش کا پانی خود بابرکت ہے، قرآن کریم میں ہے: "ونزلنا من السماء ماء مبارکا".

(سورۃ ق: ٩)

ترجمہ: اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی اتارا (بارش برسائی)۔


اسی طرح سورۃ الفاتحہ، معوذتین اور سورۃ الاخلاص کی الگ الگ فضیلتیں احادیث میں آئی ہیں۔

لیکن بالا سوال میں جس ترکیب سے شفاء کا عمل ذکر کیا گیا ہے، اس ترکیب سے یہ عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، البتہ اس عمل کا تذکرہ روافض کی کتابوں میں ملتا ہے، جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ (منقول۔۔۔۔) لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ فقط والسلام۔۔۔۔۔۔۔ 

واللہ اعلم بالصواب

جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

27/اگست 2020 بروز جمعرات

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home