غیبت سے بچنے کا نسخہ، اس کی تحقیق
(تحقیقات سلسلہ نمبر 37)
(غیبت سے بچنے کا نسخہ، اس کی تحقیق)
باسمہ تعالیٰ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال: حضرت علامہ مجد الدین فیروز آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے :
جب کسی مجلس میں (یعنی لوگوں میں ) بیٹھوتو یوں کہہ لیاکرو، بسم الله الرحمن الرحيم وصلى الله علی محمد، (اس کی
برکت سے) اللہ عزوجل تم پر ایک فرشتہ مقرر فرمادےگا جوتم کوغیبت سے بازرکھے گا اور جب مجلس سے اٹھوتو اس وقت بھی بسم الله الرحمن الرحیم و صلی اللہ علی محمد کہہ لیا کرو تو فرشتہ لوگوں کو تمہاری غیبت کرنے سے باز رکھے گا ۔
اس دعا کی اطمینان بخش تحقیق مطلوب ہے؟
حذیفہ بادرپورہ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:- سوال بالا میں جو دعا مذکور ہے اس کی تحقیق درج ذیل ہے👇
◼ محمد بن عبد الرحمن السخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب `القول البدیع فی الصلاۃ علی حبیب الشفیع` مطبوعہ {مکتبۃ المؤید و مکتبۃ دار البیان } میں ص194 پر اس دعا کو ذکر کیا ہے:
ذكر العلامة المجد الفيروز أبادي بسنده إلى أبي المظفر السمرقندی يعني محمد بن عبد الله بن الخيام - قال : دخلتُ يومًا في مغارةِ كعبٍ ، فضللتُ الطَّريقَ ، فإذا أنا بالخضِرِ عليه السَّلامُ قد رأيتُه ، فقال لي (تجد)، أي امشِ ، فمشيتُ معه فظننتُ، فقلتُ : لعلَّه خضِرٌ ، فقلتُ : ما اسمُك ؟ قال : خضِرُ بنُ أيْشا أبو العبَّاسِ ، ورأيتُ معه صاحبًا فقلتُ له : ما اسمُك ؟ فقال : إلياسُ بنُ سامٍ ، فقلتُ : رحِمكما اللهُ ! هل رأيتما محمَّدًا صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ؟ قالا : نعم ، قلتُ : بعزَّةِ اللهِ وبقدرتِه لتخبراني شيئًا حتَّى أرويَ عنكما ، فقالا : سمِعنا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ : ما من مؤمنٍ صلَّى على محمَّدٍ إلَّا نُضِّر به قلبُه ونوَّره اللهُ عزَّ وجلَّ . وسمِعت الخضِرَ وإلياسَ يقولان : كان في بني إسرائيلَ نبيٌّ يقالُ له : أشموئيلُ قد رزقه اللهُ النَّصرَ على الأعداءِ ، وأنَّه خرج في طلبِ العدوِّ ، فقالوا : هذا ساحرٌ جاء ليسحرَ أعينَنا ويفسدَ عساكرَنا فنجعلَه في ناحيةِ البحرِ ونهزمَه ، فخرج في أربعين رجلًا ، فجعلوه في ناحيةِ البحرِ ، فقال أصحابُه : كيف نفعلُ ؟ فقال : احملوا وقولوا صلَّى اللهُ على محمَّدٍ ، فحملوا وقالوا ، فصار أعداؤُهم في ناحيةِ البحرِ فغرِقوا أجمعون . قال الخضِرُ : كان بحضرتِنا ، وسمعتُهما يقولان : سمِعنا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ : من صلَّى على محمَّدٍ طُهِّر قلبُه من النِّفاقِ كما يُطهِّرُ الثَّوبَ الماءُ . وسمعتهما يقولان سمعنا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ : ما من مؤمنٍ يقولُ صلَّى اللهُ على محمَّدٍ إلَّا أحبَّه النَّاسُ وإن كانوا أبغضوه واللهِ لا يحبُّونه حتَّى يحبَّه اللهُ عزَّ وجلَّ . وسمعناه يقولُ على المنبرِ : من قال صلَّى اللهُ على محمَّدٍ فقد فتح على نفسِه سبعين بابًا من الرَّحمةِ ، وسمعتهما يقولان : جاء رجلٌ من الشَّامِ إلى النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال : يا رسولَ اللهِ ! إنَّ أبي شيخٌ كبيرٌ وهو يحبُّ أن يراكَ ، فقال : ائتني به ، فقال : إنَّه ضريرُ البصرِ ، فقال : قل له ليقلْ في سبعِ أسبوعٍ – يعني في سبعِ ليالٍ – صلَّى اللهُ على محمَّدٍ ، فإنَّه يراني في المنامِ حتَّى يرويَ عنِّي الحديثَ . ففعل فرآه في المنامِ ، فكان يروي عنه الحديثَ . وسمعتهما يقولان سمعنا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ : إذا جلستم مجلسًا فقولوا : بسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ ، وصلَّى اللهُ على محمَّدٍ يُوكِّلُ اللهُ بكم ملكًا يمنعُكم من الغيبةِ حتَّى لا تغتابوا ، فإذا قمتم فقولوا ؛ بسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ ، وصلَّى اللهُ على محمَّدٍ ، فإنَّ النَّاسَ لا يغتابونكم ويمنعُكم الملَكُ من ذلك۔
القول البديع للسخاوی ص ١٩٤ وقال: لا أعتمد على شيء منها وألفاظها ركيكة۔
ترجمہ۔ابو المظفر محمد بن عبداللہ خیام سمرقندی نے کہا کہ میں ایک دن مغارہ کعب میں راستہ بھول گیا تھا اتفاقا ایک آدمی کو دیکھا کہ مجھ سے کہتا ہے میرے ساتھ آؤ لہٰذا میں اس کے ہمراہ ہوگیا اور مجھے گمان ہوا کہ شاید خضر ہے، میں نے دریافت کیا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ جواب دیا خضر بن اشیا ابو العباس، ان کے ساتھ ایک دوسرے شخص کو بھی میں نے دیکھا ان کا نام دریافت کیا تو کہا کہ الیاس بن شام ہے میں نے کہا کہ اللہ تعالی تمہارے اوپر رحمتیں نازل فرمائے، کیا تم دونوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے انہوں نے کہا کہ ہاں، میں نے عرض کیا کہ مجھے وہ باتیں سنایئے جو آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو تاکہ میں آپ کی سند سے دوسرے لوگوں پر روایت کروں، انہوں نے کہا کہ ہاں ہاں ہم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے کہ کہ جو مومن بندہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اس کے ذریعے اس کے دل کو پاک کر دیا جاتا ہے اور اللہ تعالی اس کو منور فرما دیتے ہے، اور اسی سند سے ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک نبی تھے جنہیں اشموئیل کہا جاتا تھا انہیں اللہ تعالی نے دشمنوں کے خلاف نصرت عطا فرمائی اور وہ دشمن کی طلب میں نکل پڑے چنانچہ لوگ نے کہا کہ یہ ساحر ہے جو اس لیے آیا ہے تاکہ ہماری نظروں پر سحر کر دے اور ہمارے لشکریوں میں فساد ڈال دے،تو ہم اسے سمندر کے کنارے ڈال دیں اور ہم بھاگ جائیں چنانچہ وہ نبی چالیس آدمیوں کے ساتھ نکلے اور وہ سب نے انہیں سمندر کے کنارے ڈال دیا،تو نبی کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم کیسے کریں تو انہوں نے فرمایا اٹھاؤ اور کہو صلی اللہ علی محمد چنانچہ انہوں نے اٹھایا اور درود پڑھا تو ان کے تمام دشمنان سمندر کنارے گر گۓ اور غرق ہو گئے خضر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ ہماری حاضری میں ہوا تھا،اور اسی سند سے ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی کہے صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دل نفاق سے پاک کیا جائے گا جس طرح پانی کپڑے کو پاک کر دیتا ہے اور اسی سند سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مومن بندہ بندہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور اگر چہ وہ اس سے بغض رکھتے ہو خدا کی قسم لوگ اس سے تب تک محبت نہیں کر سکتے جب تک کہ اللہ تعالی اس سے محبت نہ کرنے لگے اور اسی سند سے مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر ارشاد فرمایا جو کہے صلی اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے رحمت کے ستر دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اسی سند سے ہے خضر و الیاس علیہم السلام نے کہا کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ملک شام سے آیا، اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرا باپ بوڑھا ہے، اور ضعیف ہو کر نا بینا بھی ہو گیا ہے، چلنے کی قوت نہیں جو یہاں آئے اور اس کی دیلی خواہش ہے کہ وہ آپ کے دیدار سے مشرف ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے کہہ دینا کہ ایک ہفتے تک صلی اللہ علی محمد کہاں کرے ہمیں خواب میں دیکھ لے گا اور کہنا نہ کہ رات مجھ سے یہ حدیث کو روایت کرے، اس نے ایسا ہی کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا،اور اسی سند سے ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور کہیں بسم اللہ الرحمن الرحیم وصلی اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو حق تعالی ایک فرشتہ کو اس بات پر موکل کرتا ہے کہ وہ تم کو غیبت سے باز رکھے، اور جب وہ شخص مجلس سے اٹھے تو کہے بسم اللہ الرحمن الرحیم و صلی اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو حق تعالیٰ لوگوں کو اس کی غیبت سے منع کر دیتا ہے۔
خلاصۂ ترجمہ:- علامہ مجد الدین فیروز آبادی نے اپنی سند آبو المظفرسمرقندی یعنی محمد بن عبد الله بن خیام تک پہونچاتے ہوئے یہ روایت ذکر کرتے ہیں: کہ انہوں نےحضرت خضر و حضرت الیاس کو یہ بھی کہتے سنا: جب تم کسی مجلس میں بیٹھو تو بسم الله الرحمن الرحیم پڑھ کر صلى الله على محمد یہ درود پڑھ لیاکرو! الله ایک فرشتے کو مقرر کریگا جو تمکو لوگوں کی غیبت سے روکے گا، جب مجلس سے اٹھو! تب بھی یہی پڑھ لینا؛ تمہارے واپس آجانے کے بعد لوگ تمہاری غیبت نہ کرسکیں گے؛ کیونکہ فرشتہ ان کو غیبت سے روکے گا۔
◾علامہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب ”جذب القلوب الی دیار المحبوب“ اس کا ترجمہ تاریخ مدینہ کے نام سے موسوم ہے اس میں 333 پر اس رویت کو اسی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے اس کے علاوہ دوسری کوئی بھی سند موجود نہیں ہے۔
اور اسی سند سے کہتے
ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور کہے بسم اللہ الرحمن الرحیم صلی اللہ علی محمد تو حق تعالی شانہ ایک فرشتہ کو اس بات پرموکل کرتا ہے کہ وہ تم کو غیبت سے باز رکھے اور جب وہ شخص مجلس سے اٹھے تو کہے بسم اللہ الرحمن الرحیم صلی اللہ علی محمد تو حق تعالی لوگوں کو اس کی غیبت سے منع کر دیتا ہے۔
کتاب : تاریخ مدینہ
مؤلف: علامہ عبد العزیز محدث دہلوی
مترجم: محمد منشا تابش قصوری
صفحہ: 333
مطبوعہ:مکتبہ برادرز لاہور
(حکم دعا)
:علامہ سخاوی نے القول البدیع میں دعا ماتحت یہ بات لکھی ہے
هذه النسخة ذكرها المجد رحمه الله بإسناده، وتبعته
في ذكرها، ولا أعتمد علي شيئ منها، والفاظها ركيكة.
علامہ مجد الدین نے اپنی سند سے جس نسخے کا ذکر کیا ہے
اس پر مجھے اعتماد نہیں ہے اور اس کے الفاظ بھی کمزور اور پھسپھسے ہیں
* نام کتاب: القول البديع
* مؤلف: السخاوی
* الصفحة 194
* الطبع : مکتبۃ المؤید، السعودية.
محمد عدنان وقار صدیقی کی تحریر ملاحظہ فرمائیں 👇
:میزان الاعتدال
جس نسخہ کا حوالہ علامہ سخاوی نے دیا هے اسکے
متعلق امام ذھبی کی وضاحت یہ ھے کہ میں نہیں
جانتا کہ اس کو کس نے گھڑا هے۔ یعنی یہ درود کی یہ
فضیلت معتبر نہیں ہے۔
محمد بن عبد الله بن الخيام السمرقندي، أبو المظفر لا
أدري من ذا، وهو القائل: سمعت الخضر والياس الخ
قلت: هذه نسخة ما ادري من وضعها. ملخصا۔
* المصدر: میزان الاعتدال
- المؤلف: الذهبي
* المجلد:6
+ الصفحة: 210
+الرقم 7777
+الطبع:دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان۔ انتھی۔۔۔
خلاصۂ کلام:- مذکورہ تفصیل سے بات واضح ہو گئ کہ یہ روایت مستند نہیں ہے لہذا اس کی نشرو اشاعت کرنا، بیانات میں پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔
فقط والسلام
واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل
تقبل اللہ منا ومنکم صالح الاعمال۔۔۔۔۔۔
كتبه: الطالبان محمد عدنان بن عبد الحميد، عبد المتين بن فضيلة الاستاذ عبد المجيد كلاهما من احمدآباد.
راجعه وصححه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات
رابطہ نمبر:9428359610
15/ستمبر/2020ء بروز منگل
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home