Saturday 27 February 2021

(ایک دیہاتی صحابی رضی اللہ عنہ کا واقعہ اور اس کی تحقیق) تحقیقات سلسلہ نمبر 60

 


(تحقیقات سلسلہ نمبر 60)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

(ایک دیہاتی صحابی کا واقعہ اور اس کی تحقیق)

سوال:- آج کل سوشل میڈیا خاص طور سے فیس بک پر مسند احمد کے حوالے سے ایک واقعہ گردش کررہا ہے۔ اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ وہ درج ذیل ہے 👇👇👇

 ایک حسِین واقعہ 

حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم طواف فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی کو اپنے آگے طواف کرتا پایا،جو پڑھ رہا تھا " یا کریم " حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی پیچھے پڑھنا شروع کر دیا " یا کریم " وہ اعرابی رکنِ یمانی کی طرف جاتا تو پڑھتا " یا کریم " حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم بھی پیچھے پڑھتے " یا کریم " وہ میزابِ رحمت کی طرف جاتا تو پڑھتا " یا کریم " حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم بھی پیچھے پڑھتے " یا کریم " اعرابی نے حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا تو کہا: " اے روشن چہرے والے اور خوبصورت قد والے،اللّہ کی قسم! اگر تیرا اِتنا روشن چہرہ اور عمدہ قد نہ ہوتا تو میں تیری شِکایت اپنے محبوب نبی کی بارگاہ میں کرتا کہ مجھے دیہاتی سمجھ کر مذاق کرتا ہے۔ " حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ مسکرائے فرمایا: " کیا تُو اپنے نبی کو نہیں پہچانتا؟ " عرض کِیا:" نہیں۔ " حضور نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا: " پِھر ایمان کیسے لایا؟ "عرض کِیا: " بِن دیکھے ان کی نبوت کو مانا اور بغیر ملاقات کیسے ان کی رسالت کی تصدیق کی۔ " حضور نبی ﷺ اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: " تجھے مبارک ہو! میں دنیا میں تیرا نبی ہوں اور آخرت میں تیری شفاعت کروں گا۔ " وہ حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پہ گِرا اور بوسے دینے لگا۔حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا: " میرے ساتھ وہ معاملہ نہ کر جو عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔اللّہ تعالیٰ نے مجھے متکبر و جابر بنا کر نہیں بھیجا بلکہ بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ " راوی کہتے ہیں کہ: " اتنے میں حضرت جبرئیل علیہ السّلام آئے۔عرض کِیا! اللّہ تعالیٰ آپ (صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم ) کو سلام فرماتا ہے اور فرماتا ہے اس اعرابی کو فرما دیں ہم اس کا حساب لیں گے۔ اعرابی نے کہا: " یارسول اللّہ ( صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم )! کیا اللّہ تعالیٰ میرا حساب لے گا؟ "حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: " ہاں! اگر چاہے گا تو لے گا۔ " اعرابی نے عرض کِیا: " اگر وہ میرا حساب لے گا تو میں اس کا حساب لوں گا۔ "حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: " تُو کس بات پہ اللّہ تعالیٰ کا حساب لے گا؟ "اس نے کہا: " اگر اس نے میرے گناہوں کا حساب لیا تو میں اس کی بخشش کا حساب لوں گا ( کہ میرے گناہ زیادہ ہیں کہ تیری بخشش ) اگر اس نے میری نافرمانیوں کا حساب لیا تو میں اس کی معافی کا حساب لوں گا،اگر اس نے میرے بخل کا امتحان لیا تو میں اس کے کرم کا حساب لوں گا۔ "حضور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم یہ سُن کر اِتنا روئے کہ: " داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ " پِھر جبرئیل علیہ السّلام آئے۔عرض کِیا: اللّہ تعالیٰ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے: " رونا کم کریں،آپ ( صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم ) کے رونے نے فرشتوں کو تسبیح و تحلیل بُھلا دی ہے۔اپنے اُمّتی کو کہیں نہ وہ ہمارا حساب لے نہ ہم اس کا حساب لیں گے اور اس کو خوشخبری سُنا دیں یہ جنّت میں آپ ( صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم ) کا ساتھی ہو گا۔ " (مسند احمد)

 اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ 

فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔


وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- تلاش بسیار کے بعد بھی یہ حدیث اور واقعہ ہمیں نہ مسند احمد میں دستیاب ہوا اور نہ دیگر کتب معتمدہ میں، یہ واقعہ موضوع اور من گھڑت ہے، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

بينما النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - في الطواف إذْ سَمِعَ أعرابياً يقول: يا كريم فقال النبي خلفه: يا كريم فمضى الأعرابي إلى جهة الميزاب وقال: يا كريم فقال النبي خلفه: يا كريم فالتَفَتَ الأعرابيُّ إلى النبي وقال: يا صبيح الوجه، يا رشيق القَدِّ، أَتَهْزَأُ بي لكوني أعرابياً؟ والله لولا صباحةُ وَجْهِكَ، ورشاقة قدك، لشكوتك إلى حبيبي محمد صلى الله عليه وآله وسلم. فتبسم النبي وقال: أما تعرف نبيك يا أخا العرب؟ قال الأعرابي: لا قال النبي: فما إيمانك به؟ قال: آمنت بنبوته ولم أره، وصدقت برسالته ولم ألقه. قال النبي: يا أعرابي، اعلم أني نبيُّكَ في الدنيا وشفيعُكَ في الآخرة. فأقبل الأعرابي يُقَبِّل يَدَ النبي - صلى الله عليه واله وسلم - فقال النبي: مه يا أخا العرب، لا تفعل بي كما تفعل الأعاجم بملوكِهَا، فإن الله سبحانه وتعالى بعثني لا مُتَكَبِّراً ولا مُتَجَبِّراً، بل بعثني بالحق بشيراً ونذيراً. فهَبَطَ جبريل على النبي -صلى الله عليه وسلم- وقال له: يا محمد، السلام يُقرِئُك السَّلام ويخصُّك بالتحية والإكرام، ويقول لك: قل للأعرابي: لا يغُرَّنَّهُ حلمُنا ولا كرمُنا، فغداً نحاسبه على القليل والكثير، والفتيل والقِطْمِير. فقال الأعرابي: أَوَيحاسبني ربي يا رسول الله؟ قال: نعم يحاسبك إن شاء. فقال الأعرابي: وعزتِهِ وجلالِهِ، إن حاسبني لأحاسبنه. فقال النبي - صلى الله عليه وآله وسلم -: وعلى ماذا تحاسب ربك يا أخا العرب؟ قال الأعرابي: إن حاسبني ربي على ذنبي حاسبته على مغفرته، وإن حاسبني على معصيتي حاسبته على عفوه، وإن حاسبني على بخلي حاسبته على كرمه. فبكى النبيُّ حتى ابتلَّتْ لِحْيَتُهُ. فَهَبَطَ جبريل على النبي وقال: يا محمد، السلام يقرئك السلام، ويقول لك: يا محمد قلل من بكائك؛ فقد ألهيت حملة العرش عن تسبيحهم، وقل لأخيك الأعرابي: لا يحاسبنا ولا نحاسبه فإنه رفيقك في الجنة".

ان الفاظ کا من گھڑت ہونا چند وجوہات سے واضح ہورہا ہے

(١) وقد ظَهَرت عليها أَمَاراتُ الوضع من رَكاكَةِ اللَّفظِ ( لفظ کے ضعف اور عدم اتساق کی وجہ سے)

(٢) وضعف التركيب (آپسی الفاظ کے ملن میں ضعف کی وجہ سے)

(٣) وسَمْجِ الأوصاف ( قبیح اور برے اوصاف کی وجہ سے)

(٤) وعدم وجودها في شيء من دواوين السُّنَّةِ المطهرة. ( کتب احادیث معتمدہ میں سے کسی بھی کتاب میں نہ ہونے کی وجہ سے) 

ہاں البتہ اس سے ملتی جلتی ایک روایت امام ابو حامد غزالی نے اپنی کتاب احیاء العلوم (ج٤ ص١٣٠) میں ذکر کی ہے۔ اس کی بھی تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇👇

ان أعرابياً قال لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-: يا رسول الله من يلي حساب الخلق يوم القيامة؟ فقال - صلى الله عليه وسلم- الله - تبارك وتعالى- قال: هو بنفسه؟ قال : نعم! فضحك الاعرابي فقال النبي صلي الله عليه وسلم : ما اضحكك يا اعرابي ؟ قال : ان الكريم اذا قدر عفا، واذا حاسب سامح…. الخ 

یہ روایت بھی بے اصل ہے، موضوع اور من گھڑت ہے، اس کتاب کی تخریج کرنے والے ابن عراقی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: لم اجده له أصلاً. اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

 وقال السبكي (الابن) (٧٧١ھ) في طبقات الشافعية الكبرى:  لم أجد له إسنادا. میں نے اس کی کوئی سند نہیں پائی۔  

تنبیہ:- امام سبکی رحمہ اللہ نے کتاب بالا ج 6 میں احیاء علوم الدین للغزالی کی مستقل وہ تمام روایات جمع کی ہیں جن کی کوئی سند نہیں ہے، اور اوپر والی روایت بھی اس میں مذکور ہے۔ فليراجع 

خلاصۂ کلام:- سوال بالا میں ذکر کردہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ 

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

✍️ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا شمالی گجرات (الھند)

مدرس:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا

رقم الاتصال:- 919428359610+

27/ فروری/ 2021 بروز سنیچر

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home