کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا جانتے تھے؟
(تحقیقات سلسلہ نمبر 44)
(هل كتب النبي صلى الله عليه وسلم الكتابة بعد نزول الوحي)
باسمہ تعالیٰ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
◾سوال:- بخاری شریف کی حدیث میں ہے
*و قد کتب النبی ﷺ "من محمد رسول اللہ الی ھرقل عظیم الروم..." البخاری ۵:۱*
نیز دوسری جگہ ہے
*و قد کتب النبی ﷺ فی صلح الحدیبیۃ" ھذا ما قاضی علیہ محمد ﷺ۔۔۔ " البخاری ص ۳۷۲*
*(الفوز الکبیر ص ۸۸)*
ان جیسی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سے کتابت کرنا یعنی لکھنا ثابت ہے، جبکہ یہ بات مشہور ہے کہ آپ ﷺ تو امی تھے تو سوال یہ ہے کہ پھر آپ ﷺ نے لکھا کیسے؟
برائے مہربانی تسلی بخش جواب دے کرعند اللہ ممنون و مشکور ہوں
◾سائل : محمد عادل بھاونگری
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:-اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے محبوب ﷺ کو اس دار فانی میں امی بنا کر بھیجا ، نہ وہ لکھنا جانتے تھے اور پڑھنا جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے فرقان حمید میں ارشاد فرمایا:
🔹وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذاً لارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ [العنكبوت:48].
ترجمہ:- اور تم اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھےاور نہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ، اگر ایسا ہوتا تو یہ جھوٹے لوگ شک میں پڑتے۔
🔹قال تعالى: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [الجمعة:2].
ترجمہ:- اللہ وہ ذات ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا ، جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں، اور ان کو پاکیزہ بنائیں، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں، جب کہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوے تھے۔
🔹وقال تعالى: لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [آل عمران:164].
ترجمہ:- حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے ، انہیں پاک صاف بنائیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے جب کہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
⬛واقعہ صلح حدیبیہ میں کتابت رسول کی تفصیل درج ذیل ہے۔
واقعہ صلح حدیبیہ کی حدیث جس میں کتابت رسول کا ذکر ہے ملاحظہ فرمائیں 👇
١- [عن البراء بن عازب:] لَمّا اعْتَمَرَ النبيُّ ﷺ في ذِي القَعْدَةِ، فأبى أهْلُ مَكَّةَ أنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ، حتّى قاضاهُمْ على أنْ يُقِيمَ بها ثَلاثَةَ أيّامٍ، فَلَمّا كَتَبُوا الكِتابَ، كَتَبُوا: هذا ما قاضى عليه مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ، قالوا: لا نُقِرُّ لكَ بهذا، لو نَعْلَمُ أنَّكَ رَسولُ اللَّهِ ما مَنَعْناكَ شيئًا، ولَكِنْ أنْتَ مُحَمَّدُ بنُ عبدِ اللَّهِ، فقالَ أنا رَسولُ اللَّهِ، وأنا مُحَمَّدُ بنُ عبدِ اللَّهِ، ثُمَّ قالَ: لِعَلِيِّ بنِ أبِي طالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عنْه: امْحُ رَسولَ اللَّهِ، قالَ عَلِيٌّ: لا واللَّهِ لا أمْحُوكَ أبَدًا، فأخَذَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ الكِتابَ، وليسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، فَكَتَبَ: هذا ما قاضى عليه مُحَمَّدُ بنُ عبدِ اللَّهِ، لا يُدْخِلُ مَكَّةَ السِّلاحَ إلّا السَّيْفَ في القِرابِ، وأَنْ لا يَخْرُجَ مِن أهْلِها بأَحَدٍ إنْ أرادَ أنْ يَتْبَعَهُ، وأَنْ لا يَمْنَعَ مِن أصْحابِهِ أحَدًا، إنْ أرادَ أنْ يُقِيمَ بها. فَلَمّا دَخَلَها ومَضى الأجَلُ أتَوْا عَلِيًّا، فقالوا: قُلْ لِصاحِبِكَ: اخْرُجْ عَنّا، فقَدْ مَضى الأجَلُ، فَخَرَجَ النبيُّ ﷺ، فَتَبِعَتْهُ ابْنَةُ حَمْزَةَ، تُنادِي يا عَمِّ يا عَمِّ، فَتَناوَلَها عَلِيٌّ فأخَذَ بيَدِها، وقالَ لِفاطِمَةَ عليها السَّلامُ: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ حَمَلَتْها، فاخْتَصَمَ فيها عَلِيٌّ وزَيْدٌ وجَعْفَرٌ، قالَ عَلِيٌّ: أنا أخَذْتُها، وهي بنْتُ عَمِّي، وقالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وخالَتُها تَحْتِي، وقالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أخِي. فَقَضى بها النبيُّ ﷺ لِخالَتِها، وقالَ: الخالَةُ بمَنْزِلَةِ الأُمِّ وقالَ لِعَلِيٍّ: أنْتَ مِنِّي وأنا مِنْكَ وقالَ لِجَعْفَرٍ: أشْبَهْتَ خَلْقِي وخُلُقِي، وقالَ لِزَيْدٍ: أنْتَ أخُونا ومَوْلانا، وقالَ عَلِيٌّ: ألا تَتَزَوَّجُ بنْتَ حَمْزَةَ؟ قالَ: إنَّها ابْنَةُ أخِي مِنَ الرَّضاعَةِ.( صحیح البخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء رقم الحدیث : 4251)
حدیث بالا میں ہے: فأخَذَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ الكِتابَ، وليسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، فَكَتَبَ: هذا ما قاضى عليه مُحَمَّدُ بنُ عبد الله
اللہ کے رسول ﷺ نے معاہدے کا کاغذ لیا اور آپ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے، آپ نے لکھا : یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ نے فیصلہ کیا ہے۔
علامہ ابن حجر العسقلانی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کے ماتحت لکھا ہے: » وقد تمسك بظاهر هذه الرواية أبو الوليد الباجي، فادعى أن النبي صلى الله عليه وسلم كتب بيده بعد أن لم يكن يحسن يكتب ، فشنع عليه علماء الأندلس في زمانه ورمواه بالزندقة ، وأن الذي قاله يخالف القرآن حتى قال قائلهم : برئت من شري دنيا بآخرة وقال إن رسول الله قد كتبا، فجمعهم الأمير فاستظهر الباجي عليهم بما لديه من المعرفة وقال للأمير : هذا لا ينافي القرآن ، بل يؤخذ من مفهوم القرآن لأنه قيد النفي بما قبل ورود القرآن فقال وماكنت تتلو من قبله من كتاب ولا تخطه بيمينك وبعد أن تحققت أمنيته وتقررت بذلك معجزته وأمن الارتياب في ذلك لا مانع من أن يعرف الكتابة بعد ذلك من غيرتعليم فتكون معجزة أخرى . وذكر ابن دحية أن جماعة من العلماء وافقوا الباجي في ذلك ، منهم شيخه أبو ذرالهروي وأبو الفتح النيسابوري وآخرون علماء إفريقية وغيرها۔
(◾فتح الباری ( ج 7 ، ص 575 ت 576 )
”طبع علی نفقۃ صاحب السمو الملکی الامیر سلطان بن عبد العزیز آل سعود )
ترجمہ:- س روایت کے ظاہر سے ابو الولید کا استدلال کرتے ہوئے یہ دعوی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے تحریر فرمایا جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح کتابت کرنا نہیں جانتے تھے،
ان کی اس بات پران کے ہم عصر علماء اندلس نے ان کو بڑی تنقیدوں کا نشانہ بنایا اور ان کا شمار زنادقہ میں کر دیا، اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو بھی اس کے علاوہ دوسری بات کہتا ہے وہ آیت قرآنی کے مخالف ہے۔۔حتی کہ ان کی رائے کے قائلین میں سے کسی نے یہ بھی فرمایا ہے:
برئت من شري دنيا بآخرة و قال إن رسول الله قد كتبا
(میں دنیا کا سودا آخرت کے بدلہ میں کرنے سے بری ہو گیا،
اور کہا کہ یقینا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا ہے)
چنانچہ امیر نے ان تمام علماء کو جمع کیا تو باجی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معرفت کے ذریعہ تمام پر غالب آ گیے اور انہوں نے امیر سے عرض کیا کہ یہ قرآن کے منافی نہیں،بلکہ مفہوم قرآنی سے ماخوذ ہےاس لیے کہ قرآن مجید نے نفی کی قید کو نزول قرآن سے قبل کے ساتھ مقید کیا ہے چنانچہ قرآن مجید نے کہا۔۔وما كنت تتلوا من قبله من كتاب و لا تخطه بيمينك۔۔۔۔۔۔۔الخ
ترجمہ۔اور تم اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے اور نہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔
لہذا اللہ تعالی کی چاہت پوری ہو جانے کے بعد اور آپ علیہ السلام کا معجزہ(یہ کہ آپ امی ہونے کے باوجود ایسا فصیح و بلیغ کلام قرآن مجید پڑھتے اور لوگوں کو سناتے)ظاہر ہونے کے بعد اس بات سے کوئی چیز مانع نہیں کہ آپ اس کے بعد بغیر کسی کے سکھائے آپ کتابت جانتے ہو اور وہ بھی ایک اور معجزہ ہو جائے۔ابن دحیہ وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ علماء کی ایک جماعت نے باجی رحمت اللہ علیہ سے اس باب میں اتفاق کر لیا تھا جن میں سے شیخ ابوذر ہروی،ابو فتح نیساپوری اور دوسرے بہت سے افریقی علماء کرام ہیں۔۔۔
◾اور آگے لکھتے ہے:
واحتج بعضهم لذلك بما أخرجه ابن أبي شيبةوعمر بن شبة من طريق مجاهد عن عون بن عبدالله قال « ما مات رسول الله صلی الله عليه وسلم حتى كتب وقرأ » قال مجاهد : فذكرته للشعبى فقال صدق قد سمعت من يذكر ذلك
ترجمہ:- اور بعض حضرات نے اس بات سے دلیل قائم کی ہے جس کی ابن ابی شیبہ اور عمر بن شبہ نے تخریج کی ہے مجاھد کے طریق سے اور انہوں نے عون بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے تو عون بن عبداللہ نے فرمایا کہ : اللہ کے رسول ﷺ نے وفات نہیں پائی یہاں تک کہ آپ نے لکھا اور پڑھا. حضرت مجاہد نے فرمایا : میں نے اس بات کا ذکر امام شعبی سے کیا تو انہوں نے کہا کہ درست ہے میں نے اس کو بیان کرنے والوں کو سنا ہے ( حوالہ سابق)
کتاب المغازی میں علامہ بدر الدین العینی الحنفی علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے:
قوله: «وليس يحسن يكتب»، أي: والحال أن النبي ع ليس یحسن الكتابة «هذاما قاضی». (فإن قلت) قال الله تعالى[: الرسول النبي الأمي. الأعراف: ۱۰۷] والأمي لا یحسن الكتابة، فكيف كتب؟ (قلت): فيه أجوبة.
(الأول): أن الأمي من لا يحسن الكتابة ،لا يكتب.
(الثاني: أن الإسناد فيه مجازي، إذ هو الآمر بها. وقال السهيلي: والحق أن قوله: فكتب، أي: أمر عليا أن يكتب. قلت: هو بعينه الجواب الثاني.
(الثالث: أنه كتب بنفسه خرقة للعادة على سبيل المعجزة۔
◾عمدۃ القاری فی شرح البخاری ( ج16، ص351) مطبوعہ” مکتبہ دار الکتاب العلمیۃ بیروت لبنان“
خلاصۂ ترجمہ:- اللہ تعالی نے فرمایا : رسول امی ۔ اور امین تو اچھی طرح لکھنا نہیں جانتا تو آپ نے کیسے لکھا؟
میں نے کہا اس کی چند وجوہات ہیں
1:امی وہ نہیں جسے بلکل لکھنا نہ آتا ہو بلکہ امی وہ ہے جسے اچھی طرح لکھنا نہ آتا ہو ( لہذا اللہ کے رسول ﷺ کو لکھنا آتا تھا مگر اچھی طرح نہیں)
2: اسناد مجازی ہے یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے لکھا نہیں مگر حکم دیا، اور سھیلی نے کہا کہ فکتب کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ لکھے
3:اللہ کے رسول ﷺ نے بذات خود لکھا ہے خرق عادت کے طور پر بطور معجزہ۔
علامہ آلوسی علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے: ورَأيْتُ في بَعْضِ الكُتُبِ، ولا أدْرِي الآنَ أيَّ كِتابٍ هو أنَّهُ صَلّى اللَّهُ تَعالى عَلَيْهِ وسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْرَأُ ما يَكْتُبُ، لَكِنْ إذا نَظَرَ إلى المَكْتُوبِ عَرَفَ ما فِيهِ بِإخْبارِ الحُرُوفِ إيّاهُ عَلَيْهِ الصَّلاةُ والسَّلامُ عَنْ أسْمائِها، فَكُلُّ حَرْفٍ يُخْبِرُهُ عَنْ نَفْسِهِ أنَّهُ حَرْفُ كَذا، وذَلِكَ نَظِيرُ إخْبارِ الذِّراعِ إيّاهُ صَلّى اللَّهُ تَعالى عَلَيْهِ وسَلَّمَ بِأنَّها مَسْمُومَةٌ۔ وأنْتَ تَعْلَمُ أنَّ مِثْلَ هَذا لا يُقْبَلُ بِدُونِ خَبَرٍ صَحِيحٍ، ولَمْ أظْفَرْ بِهِ.
◾روح المعانی ( ج 11، ص 6)
مطبوعہ ” مکتبہ دار الکتاب العلمیۃ بیروت لبنان
ترجمہ:- آلوسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہے کہ : میں نے بعض کتابوں میں پڑھا اور مجھے اس وقت معلوم نہیں کی وہ کونسی کتاب ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ لکھی ہوئی چیزوں کو نہیں پڑھ سکتے تھے ، لیکن جب آپ ﷺ کسی لکھی ہوئی چیز پر نظر ڈالتے تو آپ پہچان لیتے کہ کیا لکھا ہوا ہے، اس وجہ سے کہ ہر حرف آپ ﷺ خبر دیتا کہ وہ کونسا حرف ہے، اس کی مثال : جانور کی پنڈلی کا اس کے مسموم ہونے کی خبر دینے کا واقعہ آپ تو جانتے ہی ہے کہ اس جیسی باتوں کو خبر صحیح کے بغیر قبول نہیں کیا جاسکتا اور اس معاملہ میں مجھے کامیابی نہ ملی۔
حافظ ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر القریشی الدمشقی نے سورہٴ عنکبوت کی آیت نمبر 48 وما كنت تتلوا من قبله الاخ…… کے ماتحت یہ بات لکھی ہے:
وهكذا کان، صلوات الله وسلامه عليه دائما ابدا الی یوم القیامۃ،لایحسن الكتابةولا ویخط سطرا ولا حرفاً بیدہ،بل كان لہ كتّاب یکتبون بين يديه الوحي والرسائل إلى الأقاليم.
ومن زعم من متأخری الفقهاء کالقاضي أبي الوليد الباجي ومن تابعه أنه عليه السلام كتب يوم الحديبية : "هذا ما قاضی علی محمد بن عبد لله"
فانما حمله على ذلك رواية في صحيح البخاري: "ثم أخد
فكتب": وهو محمولة على الرواية الأخرى: "ثم أمر فكتب"
ولهذا اشتد النکیر بين فقهاء المغرب والمشرق على من قال
بقول الباجي، وتبرؤوا منه، وأنشدوا في ذلک أقوالا وخطبوا به في محافلهم: وإنما أراد الرجل - أعني الباجي، فيما يظهر عنه -كتب ذلک على وجه المعجزة، لا أنه كان يحسن الكتابة، کماقال، عليه الصلاه والسلام إخبارا عن الدجال : "مكتوب بين عینیہ کافر " وفي رواية : "ك في ر، يقرﺅها كل مؤمن وما اوردہ بعضهم من الحديث أنه لم يمت، عليه السلام حتى تعلم الكتابة، فضعيف لا أصل له
◾تفسیر ابن کثیر ( ج 5 ، ص 55 ت 56 )
مطبوعہ” دار الکتاب العربی بیروت لبنان “
خلاصۂ ترجمہ:-ابن کثیر رحمۃ اللہ لکھتے ہے:
اللہ کے رسول ﷺ اچھی طرح کتابت کرنا نہیں جانتے تھے اور آپ نے کبھی اپنے ہاتھوں سے نہ کوئی سطر لکھی ہے اور کوئی حرف ، بلکہ آپ کے پاس تو کاتبین موجود تھیں جو وحی اور پیغامات کو لکھتے تھے۔
اور متاخرین فقہاء میں سے جیسے قاضی ابو الولید الباجی اور ان کے متبعین کا عدویٰ ہے کہ آپ ﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر
”ھذا ما قاضی علیہ محمد بن عبد اللہ “ لکھا ہے
بلاشبہ انہوں نے اس بات کو صحیح بخاری کی روایت ” ثم اخذ فکتب “ پر محمول کیا ہے، حالانکہ اس کا حمل ایک دوسری روایت ” ثم امر فکتب“ پر ہوتا ہے ، اور وجہ سے مشرق و مغرب کے فقہاء کے درمیان کشمکش بڑھ گئی اس بات پر کہ جس نے بھی باجی کے قول طرفداری کی، اور وہ حضرات ان بری ہو گیے اور ان کے متعلق قیل و قال کرنے لگے اور اس کے بارے میں ان کی محفلوں میں تبصرے ہونے لگے ، اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی شخص ”میری مراد باجی علیہ الرحمۃ ہے “ ایسی بات بیان کرنا چاہتا ہے جو اس پر ظاہر ہوئی تو انہوں نے بطور معجزہ کے اس کو لکھا ہے نہ کہ آپ کو اچھی طرح کتابت کرنا آتا ہے جیسا کہ آپ نبی کریم ﷺ نے دجال کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا اور ایک روایت میں ک ف ر لکھا ہوگا اس کو ہر مومن پڑھ سکیگا
اور بعض حضرات نے ایک حدیث ذکر کی کہ آپ نبی کریم ﷺ نے وفات نہیں پائی یہاں تک کہ آپ نے کتابت سیکھ لی
یہ روایت ضعیف ہے کوئی اصل نہیں ہے۔
🔹خلاصۂ بحث:- مذکورہ تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ : آپ نبی کریم ﷺ کا امی ہونا یہ بھی معجزہ ہے اور اس سے مبطلین کا منھ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا اور امی ہونے کے باوجود لکھنا اور پڑھنا یہ بھی ایک الگ معجزہ ہے اور اس سے آخری نبی کی آخری امت کے لیے تعلیم و تعلم کا پیغام بھی ملا ہے۔
فقط والسلام
واللہ اعلم بالصواب
كتبه: الطالب عدنان من احمدآباد
جمعه وصححه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
06/اکتوبر 2020ء بروز منگل
4 Comments:
Masha Allah
اللہ تعالیٰ قبول کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاندار اور عمدہ
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ
Masha.allah
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home