Tuesday 14 December 2021

ربنا لک الحمد کے متعلق تحقیق

 باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

*فائدۂ مہمہ:-* نماز میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد جو دعا (ربَّنا لك الحمْدُ)  پڑھی جاتی ہے اس کے متعلق *صحیح بخاری* میں چار طرح کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، مصلِّی کو اختیار ہے کہ ان چاروں میں سے کسی بھی دعا کو پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے، ہاں البتہ چاروں کو علی سبیل البدلیت پڑھنا چاہیے۔ 

*وہ چار الفاظ یہ ہیں:* 

‏1ـ اللهمَّ ربَّنا لك الحمْدُ.

‏2- اللهمَّ ربَّنا ولك الحمْدُ (واو کی زیادتی کے ساتھ).

‏3ـ ربَّنا لك الحمْدُ.

‏4- ربَّنا ولك الحمْدُ (واو کی زیادتی کے ساتھ).

اس پر ایک سوال اور اس کا مدلل جواب 👇👇

*سوال:* *ابن قيم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ اللهم اور واؤ دونوں کو جمع کرنا خلاف سنت ہے، تین کو درست قرار دیا ہے*

1- اللهم ربنا لك الحمد

2- ربنا لك الحمد

3- ربنا ولك الحمد

*الجواب بعون الملک الوھاب:*  فیه نظر ظاھر۔

*خلاف سنت* فیا للعجب عن ابن القيم رحمہ اللہ تعالیٰ. 

*ابن قیم رحمہ اللہ کی بات درست اور صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ صحیح احادیث مبارکہ میں یہ الفاظ بھی وراد ہوئے ہیں، ملاحظہ فرمائیں 👇

1- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، قَالَ : " اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ " ۔۔۔۔

(رقم الحدیث:7346

صحيح البخاري 

 كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ  

 بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى : لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ)

 2- حَدَّثَنَا آدَمُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ : " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ". قَالَ : " اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ".۔۔۔۔۔

(رقم الحدیث: 795

صحيح البخاري 

كِتَابُ الْأَذَانِ  

 بَابُ مَا يَقُولُ الْإِمَامُ وَمَنْ خَلْفَهُ) 

3- اسی طرح کے الفاظ ان کتابوں میں مذکور ہے 

مسلم (٣٩٢)

وأبو داود (٨٣٦)

 والنسائي (١١٥٦)

 وأحمد (٧٦٦١) اور ان کے علاوہ کثیر محدثین نے یہ لفظ نقل کیا ہے، لہذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کی بات درست اور صحیح نہیں ہے۔ 

نیز علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:’’ والمراد بالتحمید واحد من اربعۃ الفاظ، افضلھا اللھم ربنا ولک الحمد، کما فی المجتبی ، ویلیہ اللھم ربنا لک الحمد ،ویلیہ ربنا ولک الحمد ويليه ربنا لک الحمد “ یعنی قومہ میں حمد کرنے سے مراد چار طرح کے الفاظ میں سے کوئی ایک طرح کے الفاظ پڑھنا ہے : ان میں سے افضل ” اللھم ربنا ولک الحمد “ ہے جیسا کہ مجتبی میں ہے اس کے بعد” اللھم ربنا لک الحمد “ہے، اس کے بعد’’ ربنا ولک الحمد ‘‘ہے اور اس کے بعد’’ربنا لک الحمد‘‘ہے۔

( البحر الرائق ، جلد 1 ، صفحہ 553  ، مطبوعہ کوئٹہ)

    علامہ عالم بن علاء اندرپتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی تاتار خانیہ میں لکھتے ہیں :’’ وفی الکافی : صفۃ التحمید ربنا لک الحمد ،ربنا ولک الحمد ، اللھم ربنا لک الحمد ، اللھم ربنا ولک الحمد،وھو الاحسن ،والکل منقول عن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم‘‘ یعنی  کافی میں ہے کہ تحمید کی صفت اس طرح ہے:’’ربنا لک الحمد ،ربنا ولک الحمد ،اللھم ربنا لک الحمد ، اللھم ربنا ولک الحمد‘‘اور یہ آخری بہت اچھا ہے اور تمام الفاظ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں ۔

(فتاوی تاتار خانیہ ، جلد 1 ، صفحہ 539 ، مطبوعہ کراچی)

✍️ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

 سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

*مدرس:-* جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home