Tuesday 23 November 2021

*مرد کا مرد کے ساتھ بد فعلی کا انجام* اور اس کی تحقیق

 باسمہ تعالیٰ


(تحقیقات سلسلہ نمبر: 64)


( *جو مرد، مرد کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو تیسرے دن قبر سے اٹھا کر لوط کی قوم میں ڈال دیتا ہے* *اس کی مکمل تحقیق*)


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


*سوال:-* کیا یہ واقعہ درست ہے، یا من گھڑت ہے؟👇👇👇


*مرد کا مرد کے ساتھ بد فعلی کا انجام*

 ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک نوکر لڑکے نے اپنے مالک کو قتل کردیا،  معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لڑکے سے قتل کی وجہ پوچھی: لڑکے نے کہا:  اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ اس قسم کا پہلا مقدمہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس معاملے کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بات سن کر فرمایا: *آپ میرے پاس تیسرے دن آنا آپ کا فیصلہ کرو گا*  تیسرا دن آیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:  *"اس کی قبر کھودو"*  قبر کھودی گئی، اس مالک کی قبر میں اس کی میت نہ تھی، حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے فرمایا: *"لڑکا سچا ہے،* کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اقدس ہے: *"جو مرد، مرد کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو تیسرے دن قبر سے اٹھا کر لوط کی قوم میں ڈال دیتا ہے"*

اس واقعے کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے۔ 

فجزاکم اللہ خیرا و أحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ


وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- *سوال میں ذکر کردہ واقعہ اور اس کے آخر میں مذکور روایت تلاش بسیار کے بعد بھی کسی بھی کتاب میں نہیں ملا،حتی کہ موضوعات میں بھی نہیں ملا، لہذا جب تک وہ واقعہ اور اس میں درج حدیث معتبر صحیح یا ضعیف سند کے ساتھ نہ ملے اس وقت تک اس کی نسبت حضرات صحابہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے*


ہاں البتہ یہ واقعہ اور حدیث کتب اہل تشیع(جیسے: مناقب آل أبی طالب اور شرح الأخبار فی فضائل الأئمۃ الأطھار وغیرہ کتب) میں بغیر سند کے موجود ہے۔ اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

*رفع إلى عمر أن عبدا قتل مولاه، فأمر بقتله فدعاه علي علیه السلام* (رضی اللہ عنہ)

 ( یہاں میں ایک وضاحت کردوں کہ ہم أہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ صلاۃ و سلام یعنی درود صرف انبیاء پر جائز ہے ان کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر بھی جائز نہیں ہے، چونکہ أہل تشیع حضراتِ أہل بیت کو معصوم سمجھتے ہیں لہذا ان پر بھی درود شریف پڑھتے ہیں، جو درست نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے رضی اللہ عنہم کے الفاظ استعمال کیے جائیں گے، اس سے پہلے والی ہماری تحقیق میں اس پر مفصل کلام کیا گیا ہے)  

*فقال له: أقتلت مولاك؟ قال: نعم، قال: فلم قتلته؟ قال: غلبني على نفسي و أتاني في ذاتي فقال لأولياء المقتول: أ دفنتم وليكم؟ قالوا: نعم، قال: و متى دفنتموه؟ قالوا: الساعة قال لعمر: احبس هذا الغلام فلا تحدث فيه حدثا حتى تمر ثلاثة أيام ثم قل لأولياء المقتول إذا مضت ثلاثة أيام فاحضرونا   فلما مضت ثلاثة أيام حضروا فأخذ علي  بيد عمر و خرجوا ثم وقف على قبر الرجل المقتول فقال لأوليائه: هذا قبر صاحبكم؟ قالوا: نعم، قال: احضروا فحضروا حتى انتهوا إلى اللحد فقال: أخرجوا ميتكم فنظروا إلى أكفانه في اللحد و لم يجدوه فأخبروه بذلك فقال علي: الله أكبر الله أكبر و الله ما كذبت و لا كذبت*

 *سمعت رسول الله ص يقول من يعمل من أمتي عمل قوم لوط ثم يموت على ذلك فهو مؤجل إلى أن يوضع في لحده فإذا وضع فيه لم يمكث أكثر من ثلاث حتى تقذفه الأرض إلى جملة قوم لوط المهلكين فيحشر معهم۔*

(شرح الإخبار للقاضی نعمان ج٢ ص ٣٢٠، عن أبی القاسم الكوفي)


نوٹ:- یہ ایک شیعہ عالم کی کتاب ہے، اس کتاب میں ذکر کردہ روایات و احادیث اس پر دال ہیں، نیز اس کے مقدمے میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معصوم لکھا ہے جو صحیح نہیں ہے مقدمے کی عبادت ملاحظہ فرمائیں 👇👇👇

الحمد لله ربّ العالمين والصلاة والسلام على أفضل رسله وأشرف بريّته أبي القاسم محمّد وعلى آله الطيّبين الطاهرين *المعصومين* واللعنة الدائمة على أعدائهم ومخالفيهم ومنكري فضائلهم من الآن إلى قيام يوم الدين. آمين يا ربّ العالمين. نیز اس میں أعداء کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے ان کی مراد (العیاذ باللہ) ابو بکر وعمر وعثمان اور دیگر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ جس کی تائید کتاب میں ذکر کردہ مواد سے لگایا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

یہ کتاب نیز شیعہ حضرات کی سب کتابیں غیر معتبر ہیں، اس لیے کہ جب ان کی کتابوں میں کوئی روایت سند کے ساتھ ہوتی ہے تب بھی غیر معتبر اور من گھڑت ہوتی ہے یہ تو بغیر سند کے ہے، *کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا* پس اس کے موضوع اور من گھڑت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، اس لیے کہ علماء نے لکھا ہیں: کہ یہ جس طرح الفاظ حدیث کو گڑھتے ہیں اسی طرح سند کو بھی گڑھتے ہیں۔  راقم الحروف نے الحمد للہ أہل تشیع کی کافی کتب احادیث کا مطالعہ کیا ہے مثلاً فروع الکافی محمد بن یعقوب الکلینی کی، المحاسن ابو جعفر البرقی کی، بحار الانوار مجلسی صاحب کی، نیز ان ہی کی ایک اور کتاب ہے حلیۃ المتقین، مستدرک الوسائل میرزا حسین نوری طبرسی کی اور مکارم الأخلاق رضی الدین ابو نصر طبرسی کی، وغیرہ، بس اس میں موضوعات اور من گھڑت روایات کا مجموعہ ہوتا ہیں' اور ایک ایک چیز پر بیسیوں احادیث ذکر کی جاتی ہیں مثلاً پیاز اور لہسن، جن کا نہ تو کوئی ثبوت ہوتا ہے اور نہ کوئی صحیح اور معتبر سند، نیز حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھما اور حضرات حسنین رضی اللہ عنھما کو معصوم ثابت کرنے اور دیگر صحابۂ کرام کو نیچا دکھانے کے لئے بھی من گھڑت اور موضوع باتیں بیان کی گئی ہیں( العیاذ باللہ) 

 سب شیعہ حضرات کی ذکر کردہ روایات موضوع اور من گھڑت ہے،اور ان کی یہ سب کتابیں بھی غیر معتبر ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہے،چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ روافض کی روایات کے متعلق علامہ سیوطی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

*(واما البدعة الكبرى كالرفض الكامل،والغلو فيه والحط عن الشيخين -ابي بكر وعمر رضي الله عنهما- فلا ، ولا كرامة،لا سيما لست استحضر الآن من هذا الضرب رجلا صادقا ، ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والنفاق والتقية دثارهم، فكيف يقبل من هذا حاله)*

(مقدمہ فتح الملہم، روایات أہل البدع و الاہواء ص 172)

*ترجمہ:*  اور اگر کسی راوی میں بدعت کبریٰ پائی جائے جیسے کوئی غالی رافضی اور شیعہ ہو،اور حضرات شیخین یعنی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو ان کے مقام سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہو، تو ان کی روایات قابل قبول نہیں ،کیوں کہ ابھی تک میں نے اس قبیل کے لوگوں میں کسی کو صادق اور امین نہیں پایا ہے، بلکہ جھوٹ منافقت اور تقیہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، تو ایسے شخص کی بات روایت کیوں قبول کی جا سکتی ہے؟

اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے دور میں فرمایا تھا کہ یہ لوگ یعنی شیعہ حضرات کافر ہیں۔

( کتاب الاعتصام للشاطبی ج2)

*خلاصہ کلام:* یہ واقعہ اور روایت دونوں موضوع اور من گھڑت ہیں، ان کی کوئی اصل نہیں ہے، اور شیعہ اور روافض حضرات کی کتب بھی غیر معتبر ہیں، واللہ اعلم بالصواب، لہذا اس طرح کی روایات وواقعات کو پھیلانے سے پرہیز اور اجتناب کرنا چاہیے،اللہ تعالی ہماری اس طرح کی روایات کو پھیلانے سے اور اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے سے حفاظت فرمائے۔ آمین 

أہل تشیع کے متعلق مکمل تحقیق حاصل کرنے کے لیے پڑھے ارشاد الشیعہ لحضرت مولانا سرفراز خاں صفدر رحمۃ اللہ علیہ۔ 


فقط والسلام


واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واكمل


جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند


مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا


رابطہ نمبر:- 919428359610+

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home