Thursday, 28 January 2021

پانچ انگلیوں کے متعلق ایک من گھڑت حدیث



(تحقیقات سلسلہ نمبر 57)

باسمہ تعـالی

(انگلیوں کے متعلق ایک من گھڑت حدیث)

الســـــلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال :- ایک تصویر سوشل میڈیا پر کثرت سے گردش کررہی ہے۔ جس میں درج ذیل بات منقول ہے کیا وہ صحیح ہے؟

قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی پوچھا جائے گا کہ اپنی انگلیوں کے نام بتاؤں؟

انگلیوں کے نام یہ ہیں👇

آمین, امانت, جنت, شہادت اور فرض. 

کیا یہ درست ہے؟

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب :- سوال بالا میں جو بات ذکر کی گئی ہے وہ بکواس ہے, من گھڑت اور موضوع ہے, لہذا اس کے نشرواشاعت سے اجتناب کرنا چاہیے, بلکہ تصویر میں جو انگلیوں کے نام بتائیں گئے ہیں وہ بھی غلط ہے, صحیح نام یہ ہے👇

خنصر, بنصر, وسطی, سبابۃ اور ابہام. 

فقط والسلام

والله أعلم بالصواب

✍️ کتبه : ابواحمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا شمالی گجرات

مدرس:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

رقم الاتصال:- 919428359610+


Tuesday, 26 January 2021

من ضَحِکَ ضُحِکَ کی تحقیق

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 56)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

(من ضَحِکَ ضُحِکَ کی تحقیق)

سوال:- " من ضَحِکَ ضُحِکَ " یہ الفاظ کثرت سے سوشل میڈیا پر گردش کررہے ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث ہیں، نیز بعض جگہوں پر مکتب کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو یہ الفاظ بھی (چہل حدیث میں) سکھائے جاتے ہے، تو آپ محترم سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ حدیث میں ہے؟ چونکہ میں نے (چالیس احادیث پر مشتمل) ایک کتابچہ دیکھا تھا جو مکاتب میں پڑھا یا جاتا ہے اس میں یہ الفاظ بھی حدیثِ رسول کے طور پر مذکور تھے۔ تو کیا یہ حدیث میں ہے؟ مکمل ومحقق جواب مطلوب ہے؟ 

فقط والسلام

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- " من ضَحِکَ ضُحِکَ "  ( جو ہنسے گا اس پر ہنسا جائے گا)

 اولاً یہ بات واضح ہو کہ یہ الفاظ ہمیں تلاش بسیار کے بعد بھی ذخیرۂ احادیث میں نہیں ملے۔ لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موضوع اور من گھڑت روایت کا انتساب گناہ کبیرہ ہے، چونکہ حدیث پاک میں ہے: "إن كذبا عليَّ ليس ككذب على أحد،من كذب علي متعمدًا فليتبوأ مقعده من النار"

 (متفق عليه (بخاری رقم الحدیث:1291، مسلم رقم: 4) 

ترجمہ:- ”میرے اوپر جھوٹ بولنا کسی عام شخص پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے، جو شخص جان بوجھ کر میری جانب جھوٹی بات منسوب کرے تو اس کو چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے“ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان ہی الفاظ کا انتساب کریں جو صحیح یا ضعیف روایات سے ثابت ہو۔ 

ثانیاً یہ بات واضح ہو کہ " من ضَحک ضُحک"عربی قاعدہ کے خلاف ہے، اس لیے کہ "ضحک" فعل لازم ہے، اور اس سے فعل مجہول نہیں آتا (کما ھو المشہور والمعلوم)عربی میں : "ضُحِکَ علیه" بولتے ہیں۔ چونکہ عربی کا قاعدہ ہے کہ جب فعل لازم سے مجھول لانا ہو تو حرف جر کے ذریعے متعدی کرتے ہیں۔ لہذا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں۔ 

اس مفہوم کی ایک روایت ترمذی شریف میں ہے :

……. .عن مكحول، عن واثلة بن الاسقع، قال:‌‌‌‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ " لا تظهر الشماتة لاخيك فيرحمه الله ويبتليك "،‌‌‌‏ قال:‌‌‌‏ هذا حديث حسن غريب 

(سنن الترمذي | أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ  رقم: 2506)

ترجمہ:- سیدنا واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے مسلمان بھائی کی کیسی مصیبت و مشکل پر خوشی کا اظہار مت کرو، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور تمہیں آزمائش میں ڈال دے“۔

(امام ترمذی کہتے ہیں:  یہ حدیث حسن غریب ہے)

خلاصۂ کلام:- "من ضَحِکَ ضُحِکَ" یہ حدیث نہیں ہے، اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ کی جائے، ہاں البتہ" لا تظهر الشماتة لاخيك فيرحمه الله ويبتليك " کا انتساب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست اور صحیح ہے۔ 

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

✍️ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا شمالی گجرات (الھند)

مدرس:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا

رقم الاتصال:- 919428359610+

26/ جنوری 2020ء بروز منگل

Saturday, 23 January 2021

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تین روٹیاں

 ( تحقیقات سلسلہ نمبر 55)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

(حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تین روٹیاں)

سوال:- درج ذیل ایک واقعہ ہے اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ کہ کیا یہ واقعہ حدیث رسول سے ثابت ہے؟

واقعہ:- حضرت عیسیٰؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ : " تمہاری جیب میں کچھ ہے ...؟ "

شاگرد نے کہا : " میرے پاس دو درہم ہیں ...! "

حضرت عیسیؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا : " یہ تین درہم ہوجائیں گے، قریب ہی آبادی ہے، تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لے آئو ...! "

وہ گیا اور تین روٹیاں لیں، راستے میں آتے ہوئے سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰؑ کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھال لوں، چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہنچا ....!

آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا : " تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں ...؟ "

اس نے کہا : " دو روٹیاں ملی تھیں، ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی ...! "

حضرت عیسیٰؑ وہاں سے روانہ ہوئے، راستے میں ایک دریا آیا، شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا : " اے اللہ کے نبی ...!

ہم دریا عبور کیسے کریں گے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی نظر نہیں آتی ...؟ "

حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا : " گھبراؤ مت، میں آگے چلوں گا تم میری عبا کا دامن پکڑ کر میرے پیچھے چلتے آو ،خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کرلیں گے ....! "

چنانچہ حضرت عیسیٰؑ نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا، خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے ...!

شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا : " میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان ...! آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہوا ...! "

آپ نے فرمایا : " یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ...؟ "

اس نے کہا : " جی ہاں ...! میرا دل نور سے بھر گیا ...! "

پھر آپ نے فرمایا : " اگر تمہارا دل نورانی ہوچکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں ...؟ "

اس نے کہا : " حضرت روٹیاں بس دو ہی تھیں ...! "

پھر آپ وہاں سے چلے، راستے میں ہرنوں کا ایک غول گزر رہا تھا، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا، وہ آپ کے پاس چلا آیا، آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا۔

جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰؑ نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا : " اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا ! "

ہرن زندہ ہو گیا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسرے ہرنوں سے جا ملا !

شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہو گیا او رکہنے لگا : " اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے ! "

حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا : " یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ؟ "

شاگرد نے کہا : " اے اللہ کے نبی ...! میرا ایمان پہلے سے دوگنا ہو چکا ہے ! "

آپ نے فرمایا : " پھر بتاؤ کہ روٹیاں کتنی تھیں ...؟ "

شاگرد نے کہا : " حضرت روٹیاں دو ہی تھیں ! "

دونوں راستہ چلتے گئے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی ہیں،

آپ نے فرمایا : " ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس شخص کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی ! "

یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا : " حضرت تیسری روٹی میں نے ہی کھائی تھی ...! "

حضرت عیسی نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور فرمایا : " تینوں اینٹیں تم لے جاؤ ! "

یہ کہہ کر حضرت عیسی وہاں سے روانہ ہوگئے اور لالچی شاگرد اینٹوں کے قریب بیٹھ کر سوچنے لگا کہ انہیں کیسے گھر لے جائے !

اسی دوران تین ڈاکو وہاں سے گزرے انہوں نے دیکھا، ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں، انہوں نے اسے قتل کر دیا اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں، لہٰذا ہر شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آتی ہے، اتفاق سے وہ بھوکے تھے، انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دئیے اور کہا کہ شہر قریب ہے تم وہاں سے روٹیاں لے آو، اس کےبعد ہم اپنا اپنا حصہ اٹھالیں گے، وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو دونوں ساتھ مر جائیں گےاور تینوں اینٹیں میری ہو جائیں گی، ادھر اس کے دونوں ساتھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے اس ساتھی کو قتل کر دیں تو ہمارے میں حصہ میں سونے کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی !

جب ان کا تیسرا ساتھ زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو ان دونوں نے منصوبہ کے مطابق اس پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا، پھر جب انہوں نے روٹی کھائی تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے مر گئے، واپسی پر حضرت عیسیٰؑ وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں جبکہ ان کے پاس چار لاشیں بھی پڑی ہیں، آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر ی اور فرمایا : " دنیا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے۔ 

اس کی تحقیق مطلوب ہے؟ اور کیا اس کو بیان اور نشر کرسکتے ہیں؟ 

فقط والسلام

سائل:- سمیر انصاری صاحب بمبئی سے

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- اولا اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇

يروى أن عيسى بن مريم عليه السلام كان بصحبته رجل من اليهود وكان معهما (مع اليهودي) ثلاثة أرغفة من الخبز، ولما أرادا أن يتناولا طعامهما وجد عيسى أنهما رغيفان فقط، فسأل اليهودي: أين الرغيف الثالث، فأجاب: والله ما كانا إلا اثنين فقط. لم يعلق نبي الله وسارا معاً حتى أتيا رجلاً أعمى فوضع عيسى عليه السلام يده على عينيه ودعا الله له فشفاه الله عز وجل ورد عليه بصرَه, فقال اليهودي متعجباً: سبحان الله! وهنا سأل عيسى صاحبه اليهودي مرة أخرى: بحق من شفى هذا الأعمى ورد عليه بصره أين الرغيف الثالث، فرد: والله ما كانا إلا اثنين. سارا ولم يعلق سيدنا عيسى على الموضوع حتى أتيا نهرا كبيرا، فقال اليهودي: كيف سنعبره؟ فقال له النبي: قل باسم الله واتبعني، فسارا على الماء، فقال اليهودي متعجبا: سبحان الله! وهنا سأل عيسى صاحبه اليهودي مرة ثالثة: بحق من سيرنا على الماء أين الرغيف الثالث؟ فأجاب: والله ما كانا إلا اثنين. لم يعلق سيدنا عيسى وعند ما وصلا الضفة الأخرى جمع عليه السلام ثلاثة أكوام من التراب ثم دعا الله أن يحولها ذهباً، فتحولت الى ذهب، فقال اليهودي متعجبا: سبحان الله لمن هذه الأكوام من الذهب؟؟! فقال عليه السلام: الأول لك، والثاني لي، وسكت قليلا، فقال اليهودي: والثالث؟؟ فقال عليه السلام: الثالث لمن أكل الرغيف الثالث!، فرد بسرعة: أنا الذي أكلته!! فقال سيدنا عيسى: هي كلها لك، ومضى تاركاً اليهودي غارقاً في لذة حب المال والدنيا. بعد أن جلس اليهودي منهمكا بالذهب لم يلبث إلا قليلا حتى جاءه ثلاثةُ فرسان، فلما رأوا الذهب ترجلوا، وقاموا بقتله شر قتلة. مسكين!! مات ولم يستمتع به إلا قليلا! بل دقائق معدودة!! سبحانك يا رب!! ما أحكمك وما أعدلك!! بعد أن حصل كل واحد منهم على كومة من الذهب بدأ الشيطان يلعب برؤوسهم جميعا، فدنا أحدهم من أحد صاحبيه قائلا له: لم لا نأخذ أنا وأنت الأكوام الثلاثة ونزيد نصف كومة إضافية بدلا من توزيعها على ثلاثة، فقال له صاحبه: فكرة رائعة!!! فنادوا الثالث وقالوا له: ممكن تشتري لنا طعاما لنتغدى قبل أن ننطلق؟؟ فوافق هذا الثالث ومضى لشراء الطعام؟ وفي الطريق حدثته نفسه فقالت له: لم لا تتخلص منهما وتظفر بالمال كله وحدك؟؟ إنها حقا فكرة ممتازة!! فقام صاحبُنا بوضع السم في الطعام ليحصل على المال كله!! وهو لا يعلم كيد صاحبيه له!!، وعندما رجع استقبلاه بطعنات في جسده حتى مات، ثم أكلا الطعام المسموم فما لبثا أن لحقا بصاحبيهما وماتا وماتوا جميعاً، وعندما رجع نبي الله عيسى عليه السلام وجد أربعة جثث ملقاة على الأرض ووجد الذهب وحده ، فقال:هكذا تفعل الدنيا بأهلها فاعبروها ولا تعمروها۔

 ثانیاً حکم ملاحظہ فرمائیں 👇

یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات اسرائیلیات کے قبیل سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے، ہاں البتہ بغیر منسوب کیے ہوئے وعظ و نصیحت کے لیے بیان کرنے کی گنجائش ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں۔ 

تین قسمیں مع الحکم ملاحظہ فرمائیں 👇 

(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔

(۲)دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔

(۳)تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لا تصدقوھا ولاتکذبوھا"۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔ (علوم القرآن مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ :۳۶۴)

اب ہم ہمارے بالا سوال میں مذکور واقعہ کو ان تین قسموں کے ساتھ تطبیق دے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تیسری قسم سے ہے۔ لہذا اس کو وعظ و نصیحت کے طور پر بیان کرنے کی گنجائش ہے۔ 

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

جمعہ ورتبہ:- ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات (الھند)

23/ جنوری/2020ء بروز سنیچر

Friday, 22 January 2021

رشتہ نہ ہونے کا عمل اور اس کی تحقیق و تخریج

 ( تحقیقات سلسلہ نمبر 54)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

( رشتہ نہ ہونے کا عمل اور اس کی تحقیق و تخریج)

سوال:- درج ذیل ایک تحریر ہے۔ اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ آیا اس کا ذکر حدیث شریف میں ہے؟

" جس لڑکی کا رشتہ نہ  ھوتا ھو اس کے لٸے کسی بھی سرمہ پر یہ آیت کا ٹکڑا ”وزینّھا للنّٰظرین “ 1349 مرتبہ پڑھ کر دم کردیں، جس کا رشتہ نہ ھوتا ہو وہ رات کو سوتے وقت اس سرمے سے تین تین سلاٸی دونوں آنکھوں میں لگالیا کرے ان شاء اللہ بہت جلد اس کا رشتہ ھوجاٸیگا "

اس کی تحقیق مطلوب ہے؟

فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:-  بالا سوال میں جو بات مذکور ہے حدیث شریف میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، بلکہ مجربات کے قبیل سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کیے بغیر عمل کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس کو سنت نہ سمجھا جائے۔ 

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

کتبہ:- ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)

مدرس:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا

30/ اکتوبر 2020ء بروز جمعہ

Thursday, 21 January 2021

چھ جہنمی عورتوں کا واقعہ اور اس کی تحقیق و تخریج

( تحقیقات سلسلہ نمبر53) 

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

( چھ جہنمی عورتوں کا واقعہ، اور اس کی تحقیق و تخریج) 

سوال:- میں نے حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ کی ایک کتاب " اہل دل کے تڑپا دینے والے واقعات" ص 94 پر ایک واقعہ پڑھا، اس کی تحقیق مطلوب ہے؟ وہ واقعہ درج ذیل ہے 👇 

واقعہ:- ایک مرتبہ حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)حضور اکرم ﷺ‎ سے ملنے کے لیے آپ ﷺ‎ کے گھر تشریف لے گئے۔حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی ﷺ‎ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ نبی کریم ﷺ‎  رو رہے ہیں آپ  ﷺ‎  پر گریہ طاری ہے  جب میں نے آپ ﷺ‎ کی یہ حالت دیکھی تو عرض کیا کہ یارسول اللہ  ﷺ‎ میرے ماں باپ آپﷺ‎ پر قربان ہوں آپﷺ‎ کو کس چیز نے رلایا ہے؟ اور کس بنا پر آپﷺ‎ رو رہے ہیں؟ آپﷺ‎ نے جواب میں فرمایا کہ میں نے شبِ معراج میں اپنی اُمت کی عورتوں کو جہنم کے اندر  قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا دیکھا اور ان کو جو عذاب ہو رہا تھا وہ اتنا شدید  اور ہولناک تھا کہ اس عذاب کے تصور سے مجھے رونا آرہا ہے۔اس کے بعد آپ ﷺ‎ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ میں نے جہنم کے اندر عورتوں کو کس کس عذاب میں مبتلا دیکھا چنانچہ آپﷺ‎ نے فرمایا:

 میں نے ایک عورت كو دیکھا کہ وہ اپنے بالوں کے ذریعے جہنم کے اندر لٹکی ہوئی ہے اور اس کا دماغ ہانڈی کی طرح پک رہا ہے۔ 

میں نے دوسری عورت کو جہنم میں اسطرح دیکھا کہ وہ زبان کے بل لٹکی ہوئی ہے۔

تیسری عورت کو میں نے دیکھا کہ وہ چھاتیوں کے بل جہنم میں لٹکی ہوئی ہے۔

چوتھی عورت کو میں نے  اس طرح دیکھا کہ اس کے دونوں پیر سینے سے بندھے ہوئے ہیں اور اس کے دونوں ہاتھ پیشانی سے بندھے ہوئے ہیں۔

پانچویں عورت کو میں نے اس حالت میں دیکھا کہ اس کا چہرہ خنزیر کی طرح ہے اور باقی جسم گدھےکی طرح ہے مگر حقیقت میں وہ عورت ہے اور سانپ بچھو اس عورت سے لپٹے ہوئے ہیں۔

چھٹی عورت کو میں نے اس حالت میں دیکھا کہ وہ کتے کی شکل میں ہے اور اس کے منہ کے راستے سے جہنم کی آگ داخل ہو رہی ہے۔اور پاخانہ کے راستے آگ نکل رہی ہے اور عذاب دینے والے فرشتے جہنم کے گُرز اس کو مار رہے ہیں۔

اس کے بعد حضرت فاطمہ زہرا (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)  نے عرض کیا ابا جان ان عورتوں پر یہ عذاب ان کے کون سے عمل کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ انکے کون سے ایسے اعمال تھے جن کی وجہ سے آپ ﷺ‎ نے ان کو اس ہولناک عذاب میں مبتلا دیکھا؟آپﷺ‎ نے فرمایا جس عورت کو میں نے جہنم میں لٹکا ہوا دیکھا اور اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح پک رہا تھا اِس کو یہ عذاب گھر سے باہر ننگے سر جانے کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ وہ عورت نا محرم مردوں سے اپنے سر کے بال نہیں چھپاتی تھی۔

دوسری عورت جس کو آپﷺ‎ نے دیکھا کہ زبان  کے بل جہنم میں لٹکی ہوئی ہے۔وہ عورت زبان درازی سے اپنے شوہر کو تکلیف دیا کرتی تھی۔

تیسری عورت جس کو آپﷺ‎ نے دیکھا کہ وہ اپنی چھاتیوں کے بل لٹکی ہوئی ہے وہ عورت ہے جو شادی شدہ ہونے کے باوجود دوسرے مردوں سے ناجائز تعلق رکھتی تھی۔

چوتھی عورت جس کو آپﷺ‎ نے اس حالت میں دیکھا کہ اس کے دونوں پیر سینے سے بندھے ہوئے ہیں اور دونوں ہاتھ سر سے بندھے ہوئے ہیں اس کے بارے میں آپﷺ‎ نے فرمایا کہ یہ وہ عورت ہے جو دنیا میں جنابت اور حیض سے پاک نہیں رہتی تھی اور نمازوں میں سستی کیا۔ کرتی تھی۔

پانچویں عورت جس کو آپﷺ‎ نے اس حالت میں دیکھا کہ اس کا چہرہ خنزیر کی طرح ہے اور باقی جسم گدھےکی طرح ہے اور سانپ بچھو اس سے لپٹے ہوئے ہیں۔اِس کے بارے میں آپﷺ‎  نے فرمایا کہ یہ وہ عورت ہے جس کو جھوٹ بولنے اور چغلی کھانے کی وجہ سے  یہ عذاب ہو رہا تھا۔

       اس روایت کی تحقیق و حوالہ مطلوب ھے؟

سائل: مولوی بلال اسلام پوری

فاضل: جامعہ امداد العلوم وڈالی

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- اس واقعے کو علامہ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب" کتاب الکبائر" میں بغیر حوالہ وسند کے ذکر کیا ہے۔ 

اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇

عن الإمام علي بن أبي طالب قال: دخلت أنا وفاطمة على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فوجدته يبكي بكاء شديدا فقلت: فداك أبي وأمي يا رسول الله ما الذي أبكاك؟ فقال صلى الله عليه وآله وسلم: يا علي ليلة أسري بي إلى السماء رأيت نساء من أمتي في عذاب شديد واذكرت شأنهن لما رأيت من شدة عذابهن رأيت امرأة معلقة بشعرها يغلي دماغ رأسها، ورأيت امرأة معلقة بلسانها والحميم يصب في حلقها، ورأيت امرأة معلقة بثديها، ورأيت امرأة تأكل لحم جسدها والنار توقد من تحتها، ورأيت امرأة قد شد رجلاها إلى يداها وقد سلط عليها الحيات والعقارب، ورأيت امرأة عمياء في تابوت من النار يخرج دماغ رأسها من فخذيها وبدنها يتقطع من الجذاع والبرص، ورأيت امرأة معلقة برجليها في النار، ورأيت امرأة تقطع لحم جسدها في مقدمها ومؤخرها بمقارض من نار، ورأيت امرأة تحرق وجهها ويدها وهي تأكل امعاءها، ورأيت امرأة رأسها رأس خنزير وبدنها بدن حمار وعليها ألف ألف لون من بدنها، ورأيت امرأة على صورة الكلب والنار تدخل من دبرها وتخرج من فمها والملائكة يضربون على رأسها وبدنها بمقاطع من النار، فقالت فاطمة: حسبي وقرة عيني أخبرني ما كان عملهن وسيرهن حتى و ضع الله عليه هذا العذاب فقال صلى الله عليه وآله وسلم: يا بنيتي أما المعلقة بشعرها فإنها كانت لا تغطي شعرها من الرجال، أما المعلقة بلسانها كانت تؤذي زوجها، أما المعلقة بثديها فإنها كانت تمتنع عن فراش زوجها، أما المعلقة برجلها فإنها كانت تخرج من بيتها بغير أذن زوجها، أما التي تأكل لحم جسمها فإنها كانت تزين بدنها للناس، أما التي شد رجلاها إلى يداها وسلط عليها الحيات والعقارب فإنها كانت قليلة الوضوء قذرة اللعاب وكانت لا تغتسل من الجنابة والحيض ولا تنظف وكانت تستهين بالصلاة، أما العمياء والصماء والخرساء فإنها كانت تلد من الزنا فتعلقه بأعنق زوجها، أما التي كانت تقرض لحمها بالمقارض فإنها كانت قوادة، أما التي رأسها رأس خنزير وبدنها بدن حمار فإنها كانت نمامة كذابة، أما التي على صورة الكلب والنار تدخل من دبرها وتخرج من فمها فإنها كانت معلية نواحه۔ 

(کتاب الکبائر للذھبی ص177 مطبوعہ:دار الندوة الجديدة، بيروت، لبنان) 

لکین اس کتاب کے محقق مصطفی عاشور لکھتے ہیں: "لم نقف عليه" کہ ہمیں یہ روایت نہیں ملی۔ 

اسی طرح  ابن حجر الهيتمي رحمہ اللہ نے اس کو اپنی کتاب "الزواجر عن اقتراف الكبائر" (2/97) پر بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔ اب چونکہ اس حدیث کی کوئی سند نہیں ہے، نہ صحیح اور نہ ضعیف، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرکے بیان کرنے سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہیے،

محمد عدنان وقار صدیقی صاحب کی تحقیق 👇

(نیز) اصل اس کا ماخذ شیعی کتابیں ہیں مثلا: " عیون اخبار الرضا " میں ذکر ھے: 

حدثنا علي بن عبد الله الوراق رضي الله عنه قال حدثنا محمد بن أبي عبد الله الكوفي عن سهل بن زياد الأدمي  عن عبد العظيم بن عبد الله الحسني عن محمد بن علي الرضا عن أبيه الرضا عن أبيه موسى بن جعفر عن أبيه جعفر بن محمد عن أبيه محمد بن علي عن أبيه علي بن الحسين عن أبيه الحسين بن علي عن أبيه أمير المؤمنين علي بن أبي طالب : قال دخلت أنا و فاطمة على رسول الله (ص) فوجدته يبكي بكاءً شديدا الخ 

٭ المصدر: عيون أخبار الرضا

٭ المجلد: 2

٭ المؤلف: ابو جعفر الصدوق

٭ الصفحة: 13

٭ الرقم: 24

٭ الطبع: منشورات الشريف الرضي، ايران.

💠 *روایت کا حکم*💠

یہ روایت خود شیعی علماء کی نظر میں قابل بیان نہیں ھے؛ کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی " أبو سعيد سهل بن زياد الآدمي " ھے جو روایت میں غیر مستند ہے نیز جھوٹا ھے: 

🔷 سهل بن زياد أبو سعيد الآدمي الرازي كان ضعيفاً في الحديث، غير معتمد فيه. وكان أحمد بن محمد بن عيسى يشهد عليه بالغلو والكذب وأخرجه من قم إلى الري وكان يسكنها..)ا.هـ

٭ المصدر: رجال النجاشي

٭ المؤلف: ابو العباس النجاشي

٭ الصفحة:185

٭ الرقم: 490

٭ الطبع: مؤسسة النشر الاسلامي، قم، إيران، انتہی

وقد كتبت عن الحديث اللجنة الدائمة للافتاء نشرة تحذيرية وبينت أنه موضوع مكذوب على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال بوضعه كذلك عدة من العلماء المعاصرين.

خلاصۂ کلام:- اس حدیث و واقعہ کی کوئی سند نہیں ہے، نہ صحیح اور نہ ضعیف،بس اھل تشیع کی کتب میں موجود ہے، اور اس میں بھی مجاھیل ہیں،نیز ان کی تمام کتب اھل سنت والجماعت کے نزدیک غیر معتبر ہیں، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرکے بیان کرنے سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہیے۔

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

کتبہ:- ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا شمالی گجرات (الھند)

استاذ: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات

22/ جنوری/2020ء بروز جمعہ

Saturday, 16 January 2021

صوت المرأة عورة کیا یہ حدیث ہے؟

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 52) 

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- " صوت المرأةعورة " کیا یہ الفاظ حدیث میں ہیں؟ بینوا توجروا۔۔۔۔ 

سائل:- محمد حارث روڈکی (اتراکھنڈ)

 وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- "صوت المرأۃ عورۃ" 

ترجمہ:- عورت کی آواز پردہ ہے۔ 

حکم الحدیث:- لیس بحدیث۔ یہ حدیث نہیں ہے، تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں یہ الفاظ کتب احادیث میں نہیں ملے، نہ ضعیف وصحیح سند سے اور نہ موضوع اور من گھڑت کتب میں۔ لہذا ان الفاظ کو حدیث رسول سمجھ کر بیان کرنا نیز ان کا انتساب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ ہاں البتہ عورت کی آواز کے پردہ ہونے میں علماء کا اختلاف ہے، کتب فتاویٰ وفقہ سے اس کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

 ہم یہاں امداد الفتاوی کے حوالے سے مختصر فتویٰ ذکر کردیتے ہیں:  " نامحرم عورت کی آواز کے ستر ہونے میں اِختلاف ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ وہ ستر نہیں،  لیکن عوارض کی وجہ سے بعض جائز اُمور کا ناجائز ہوجانا فقہ میں معروف و مشہور ہے،  اِس لیے عورت کی آواز سے اگر لذت محسوس ہوتی ہو  یا فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو  عورت کی آواز کا سننا جائز نہ ہوگا "۔(امداد الفتاوی)

فقط والسلام

 واللہ اعلم بالصواب

✍️ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات

مدرس:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا، سابرکانٹھا

16/ جنوری/2021ء بروز سنیچر