Saturday, 29 February 2020

حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الہند مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا (ازواج مطہرات کے نکاح کی صورت)


بسم اللہ الرحمن الرحیم
(ازواج مطہرات کے نکاح کی صورت)
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
سوال۔   حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا فرمایا کرتی تھی کہ میرے خصوصیت یہ ہے کہ میرا نکاح اللہ نے آسمان پر کیا ہے،جب یہ خصوصیت حضرت زینب کی ہے تو لامحالہ دیگر ازواج مطہرات کا نکاح زمین پر ہوا ہوگا۔
اب اب سوال ہوتا ہے کہ ان کا نکاح کس نے پڑھایا؟ اور ایجاب و قبول کی کیا شکل رہی ہوگی؟ کتب حدیث اور کتب تاریخ کے حوالے سے جواب مطلوب ہے؟ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث کی تخریج مطلوب ہے؟
سائل:۔ مولوی معاویہ گڑھوی
فاضل:- جامعہ مانیکپور ٹکولی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جواب۔ مذکور سوال کے سلسلے میں چار باتیں قابل ذکر ہیں۔
(١) ازواج مطہرات کے نکاح کا خطبہ کس نے پڑھا یا
(٢) انعقاد نکاح مسجد میں ہوا یا غیر مسجد میں۔
(٣) حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث کی تخریج۔
(٤) ایجاب و قبول کی کیا شکل رہی ہوگی۔
تفصیل الجواب (١) ازواج مطہرات کے نکاح کا خطبہ کس نے پڑھا یا۔
صحیح اور مشہور مذہب کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ازواج مطہرات کے ساتھ نکاح کرنے میں نہ کسی ولی کی ضرورت تھی، اور نہ دو گواہوں کی اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی،تاریخ کی کتابوں میں صرف بعض ازواج مطہرات کے نکاح پڑھانے والوں کے بارے میں صراحت ملتی ہے۔
(١) حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا کا نکاح ابو طالب نے پڑھایا۔۔  (الاصابہ جلد 8 ص 60،شرح الزرقانی جلد 3 ص 220)
(٢)حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح خود ان کے والد محترم حضرت زمعہ نے پڑھایا۔ (شرح الزرقانی جلد 3 صفحہ 260)
(٣)حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہما کا نکاح حضرت نجاشی نے تمام مسلمانوں کو جمع کرکے پڑھایا۔۔         (تاریخ طبری واقعات سن ہجری ٦)
(٤)حضرت عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہما کا نکاح حضرت ابوبکر نے پڑھایا۔     ( طبقات ابن سعد جلد 8 ص 40)
(٥) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ سبحانہ نے اپنے خاص ولایت سے آسمانوں پر فرشتوں کی موجودگی میں کردیا،تفسیر مظہری میں ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت زینب سے آسمانوں پر پڑھایا تھا۔ (فلما قضى زيد منها وطرا زوجنكها) (سورة الاحزاب آیت ٣٧)
باقی ازواج مطہرات کے نکاح پڑھانے والوں کے بارے میں صراحت نہیں ملی لی۔
تفصیل الجواب (٢) انعقاد نکاح مسجد میں ہوا یا غیر مسجد میں۔
انعقاد نکاح کا غیر مسجد میں ہونا  اس سلسلے میں تو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے،مثلا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے گھر میں ہوا (شرح زرقانی جلد 3 ص 260) لیکن مسجد میں انعقاد نکاح کے سلسلے میں کوئی صراحت ہمیں نہیں ملی،البتہ احادیث میں اس کا حکم دیا گیا ہے،گویا یہ آپ کی قولی سنت ہے (عن عائشة رضي الله تعالى عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أعلنوا هذا النكاح واجعلوه في المساجد (رواه الترمذي ج1ص207)
تفصیل الجواب (٣) حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تخریج۔
حضرت زینب کے نکاح کے متعلق فخر کرنے کی روایات متعدد کتب احادیث میں وارد ہوئی ہے،چنانچہ ترمیزی شریف میں ہے(عن انس رضي الله قال كانت زينب تفخر على ازواج النبي صلى الله عليه وسلم وتقول زوجكن اهاليكن وزوجني الله فوق سبع سماوات) رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن صحيح ( جامع الترمذی کتاب التفسیر باب سورۃ الاحزاب رقم الحدیث:3213) اسی طرح دیگر کتب حدیث میں مختلف الفاظ کے ساتھ یہ روایت مروی ہے۔
تفصیل الجواب (٤) ایجاب و قبول کی کیا شکل رہی ہوگی؟
اس سلسلے میں کوئی روایت نہیں ملی البتہ اتنا ضرور ہے کہ آج جس طرح ایجاب و قبول ہوتا ہے اسی طرح کا ایجاب و قبول ہوتا ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
فقط والسلام
ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ
01/مارچ 2020 بروز اتوار
(احادیث کی تحقیق و تخریج کے لئے اس واٹساپ نمبر پر رابطہ کریں 9428359610)

Thursday, 27 February 2020

(کھجوریں گھر میں رکھنے کے متعلق تحقیق)


باسمہ تعالی
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
(کھجور کو گھر میں رکھنے کے متعلق تحقیق)
سوال۔ بنی کھجوریں گھر میں رکھنے کے متعلق اگر کوئی حدیث ہے تو باحوالہ ارسال کریں؟ اور اس کی کیا حقیقت ہے؟ مکمل اور مدلل جواب دے کر عنداللہ ماجور ہو۔
سائل: مولانا اسلم کبڑا بناسکانٹھا
    مدرس: جامعہ گولا طالع پورہ بناسکانٹھا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب۔ اولا یہ بات جان لینی چاہیے کہ بنی، یہ صحیح لفظ نہیں ہے،بلکہ برنی ہے۔ ( باء اور نون کے درمیان راء کے ساتھ)
ثانیاً برنی کھجور کو گھر میں رکھنے کے متعلق احادیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، البتہ مطلق کھجور کو گھر میں رکھنے کی فضیلت احادیث میں آئی ہے ، اور ان میں کوئی خاص کھجور کا ذکر نہیں ہے، چنانچہ مسلم شریف میں روایت ہے،
عن عائشة أم المؤمنين قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا عائِشَةُ، بَيْتٌ لا تَمْرَ فيه جِياعٌ أهْلُهُ، يا عائِشَةُ، بَيْتٌ لا تَمْرَ فيه جِياعٌ أهْلُهُ، أوْ جاعَ أهْلُهُ قالَها مَرَّتَيْنِ، أوْ ثَلاثًا
(صحیح مسلم رقم الحدیث 2046)
ترجمہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اےعائشہ وہ گھر جس میں کھجور نہیں ہوتی وہ گھر والے بھوکے ہیں،اور آپ نے یہ دو  یا تین مرتبہ فرمایا۔
اور ابوداؤد شریف میں ہے:- عن عائشة أم المؤمنين قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم  بَيْتٌ لا تَمْرَ فيه جِياعٌ أهْلُهُ۔ (رواه ابو داود الرقم الحديث 3831) وابو داود سكت عنه وكل ما سكت عنه فهو صالح .
اور انہی الفاظ کے ساتھ صحیح ابن حبان میں ہے (صحیح ابن حبان رقم الحدیث 5206)
اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی الفاظ کے ساتھ اپنی معجم میں ذکر کی ہے( المعجم الاوسط للطبرانی ج 8ص83)
اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور اس کو علامہ ناصر الدین البانی نے صحیح قرار دیا ہے( صحیح ابن ماجہ رقم الحدیث 2704)
اسی طرح دیگر محدثین نے اپنی کتب میں اس کو ذکر کیا ہے
اور اس طرح کی ایک روایت مسلم شریف میں ہے:-عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يجوع أهل بيت عندهم التمر (رواه مسلم )
ترجمہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ گھر والے بھوکے نہیں رہتے جن کے پاس کھجور ہو۔
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مطلق کھجور کو گھر میں رکھنے کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، کوئی خاص کھجور کا ذکر نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ نظام خانہ داری میں یہ بات شامل ہے کہ گھر میں کوئی معمولی چیز جو بازار میں سستی ملتی ہو ہونی چاہیے،جیسے مدینہ میں کھجوریں اور ہمارے دیار میں گاجریں اور نمکین وغیرہ تاکہ اگر نا وقت کسی کو بھوک لگے اور گھر میں کھانا ہو تو ٹھیک ہے، ورنہ گھر میں اس موجود چیز سے ضرورت پوری کرلی جائے گی، اور اگر لوگ اس بات کا اہتمام نہیں کریں گے تو کسی بھی وقت بھوک ان کو ستائے گی، اس کی نظیر لاون ہے، سرکہ اچار وغیرہ کچھ نہ کچھ گھر میں ہونا چاہیے تاکہ بوقت ضرورت اسے کام چلایا جا سکے۔
(رحمۃ اللہ الواسعۃ ج 5ص484)
تالثاً برنی کھجور کی فضیلت بھی احادیث میں آئی ہے ،جس کی تخریج مع الحکم ذیل میں مذکور ہے:-
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خير تمراتكم البرني يخرج الداء ولا داء فيه "
رواه الهيثمي في مجمع الزوائد. حكم الحديث ضعيف. لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ نے  اس روایت کو اپنی کتاب صحیح الجامع میں حسن قرار دیا ہے۔
ترجمہ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  تمہاری کھجوروں میں سب سے بہتر کھجور برنی  ہے ،جو بیماری کو ختم کرتی ہے، اور اس میں کوئی بیماری نہیں ہے۔۔   اسی طرح برنی کھجور کے سلسلے میں ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے:-
وعن أنس بن مالك رضي الله عنه أن وفد عبد القيس من أهل هجر قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فبينما هم قعود عنده إذ أقبل عليهم فقال لهم تمرة تدعونها كذا وتمرة تدعونها كذا حتى عد ألوان تمراتهم أجمع فقال له رجل من القوم بأبي أنت وأمي يا رسول الله لو كنت ولدت في جوف هجر ما كنت بأعلم منك الساعة أشهد إنك رسول الله فقال : " إن أرضكم رفعت لي منذ قعدتم إلي فنظرت من أدناها إلى أقصاها فخير تمراتكم البرني يذهب الداء ولا داء فيه " )أخرجه الحاكم في المستدرك رقم ( 7450 – 4751 ) 4/ص226) وقال : هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ، 
 والعقيلي في الضعفاء من حديث أنس بن مالك رقم ( 1208 ) 3 / 206 ،
 والبيهقي في شعب الإيمان من حديث بريدة رقم ( 5876 ) 5 / 86 ،
 والطبراني في الأوسط من حديث أنس بن مالك رقم ( 6092 ) 6 / 165، ومن حديث أبي سعيد رقم ( 7406 ) 7 / 274 ، 

والبخاري في التاريخ الكبير من حديث بريدة رقم ( 335 ) 5 / 112، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني من حديث مزيدة رقم ( 1690 ) 3 / 314 ،

 وأخرجه أحمد من حديث شهاب بن عباد بلفظ : أتسمون هذا البرني قلنا نعم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " أما أنه خير تمركم وأنفعه لكم " . مسند أحمد رقم ( 15597 ) 3 / 432، ورقم ( 17865 ) 4 / 206 ، 

وأبو يعلى من حديثه رقم ( 6850 ) 12 / 245 ،

 وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد 8 / 178 وقال : رواه أحمد ورجاله ثقات ، وفي مجمع الزوائد 5 / 40 وقال : عن حديث أنس بن مالك رواه الطبراني في الأوسط وفيه عبيد بن وافد القيسي وهو ضعيف ، وعن حديث أبي سعيد الخدري رواه الطبراني في الأوسط وفيه سعيد بن سويد وهو ضعيف ، 

وصححه الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة رقم ( 1844 ) 4 / 459 ، وحسنه في صحيح الجامع رقم ( 3303 ) .
اس حدیث  کو بعض محدثین نے ضعیف اور بعض نے منکر قرار دیا ہیں، جن میں حافظ ذہبی اور ابن  جوزی وغیرہ ہیں ، البتہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحة میں کثرت طرق کی وجہ سے  اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، اور راقم محمد حسان کی ناقص رائے بھی علامہ البانی کے قول کی تائید کرتی ہے، اس لیے کہ بعض حضرات ضعیف روایات  کو کثرت طرق کی وجہ سے صحیح قرار دیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل۔
                                   فقط والسلام
⁦✍️    ⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری
    مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا
                  واٹساپ نمبر۔ 9428359610
27 / فروری 2020 بروز جمعرات



Tuesday, 25 February 2020

ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الہند مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا

(موضوع اور من گھڑت حدیث کی تحقیق)

باسمہ الرزاق
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
سوال۔  سوشل میڈیا پر ایک حدیث گردش کر رہی ہے ، اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے ؟ وہ حدیث یہ ہے👇
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اذا دخلتم بلادا فكلوا من بصلها يطرد عنكم وباءها 
ترجمہ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کسی شہر میں داخل ہو تو سب سے پہلے وہاں کی پیاز کھا لو تو اس شہر کی بیماریاں تم سے دور ہو گی۔
    سائل: یاسین بن عبد الحفیظ اسلام پوری
     متعلم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ
     وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب۔  سوشل میڈیا پر پر گردش کرنے والی مذکورہ بالا روایت کتب احادیث معتمدہ میں نہیں ہے،نہ صحیح وضعیف روایت سے ثابت ہے،اور نہ اس کی کوئی اصل ہے، بلکہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے،لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔
ہاں البتہ اس روایت کو اہل تشیع نے اپنے کتب میں ذکر کی ہیں، اور اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہیں، ان کا اس روایت کو بیان کرنا اور اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا صحیح اور درست نہیں ہے۔
شیعہ حضرات کے کتب میں مذکورہ حدیث کی تخریج  اور اس کی تحقیق درج ذیل ہیں۔
(١) عده من اصحابنا،عن احمد بن محمد بن خالد،عن محمد بن علي،عن عبد الرحمن بن زيد بن اسلم،عن ابى عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (اذا دخلتم بلادا فكلوا من بصلها يطرد عنكم وباءها)
               (الكافي للكليني ج6 ص 233٨)
الکافی یہ شیعہ کی سب سے معتبر حدیث کی کتاب ہے،شیعہ مذہب میں اس کا وہی مقام ہے جو ہمارے یہاں صحیح بخاری کا ہے،لیکن اہل سنت و الجماعت علماء کا اس پر اتفاق ہیں کہ یہ اور ان کی دیگر کتب موضوع اور من گھڑت روایات کا مجموعہ ہیں،آپ اس میں دیکھ سکتے ہیں کہ بے شمار آیاتوں کے بارے میں لکھا ہوا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے قرآن مجید کی آیتوں کو اپنی طرف سے بدل دیا ہے( العیاذ باللہ) جو مصنف قرآن کو محرف مانے اور صحابہ کے بارے میں اس طرح کی واہیات باتیں کرے، وہ کیا مسلمان ہوسکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں!وہ کافر ہیں۔ اور احادیث کے باب میں کافر کی بات معتبر نہیں ہے۔( کما انتم تعرفون) 
(٢) ابو العباس المستغفري في طب النبي صلى الله عليه وسلم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (اذا دخلتم بلدا فكلوا من بقله وبصله يطرد عنكم داءه)
(مستدرك الوسائل للطبرسي ص432 كتاب الاطعمة باب البصل)
(٣) عنه، عن محمد بن علي، عن محمد بن الفضيل، عن عبد الرحمن بن زيد بن اسلم،عن ابي عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم  الخ
(المحاسن للبرقی جلد 2 ص330 حدیث نمبر 2127،ہکذا فی بحار الانوار للمجلسی ج 66ص 437، مکارم الاخلاق ص 233، حلیۃ المتقین ص173)
ان سب شیعہ حضرات کی ذکر کردہ روایات موضوع اور من گھڑت ہے،اور ان کی یہ سب کتابیں بھی غیر معتبر ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہے،چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ روافض کی روایات کے متعلق علامہ سیوطی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:-
(واما البدعة الكبرى كالرفض الكامل،والغلو فيه والحط عن الشيخين -ابي بكر وعمر رضي الله عنهما- فلا ، ولا كرامة،لا سيما لست استحضر الآن من هذا الضرب رجلا صادقا ، ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والنفاق والتقية دثارهم، فكيف يقبل من هذا حاله)
(مقدمہ فتح الملہم، روایات أہل البدع و الاہواء ص 172)
ترجمہ۔  اور اگر کسی راوی میں بدعت کبریٰ پائی جائے جیسے کوئی غالی رافضی اور شیعہ ہو،اور حضرات شیخین یعنی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو ان کے مقام سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہو، تو ان کی روایات قابل قبول نہیں ،کیوں کہ ابھی تک میں نے اس قبیل کے لوگوں میں کسی کو صادق اور امین نہیں پایا ہے، بلکہ جھوٹ منافقت اور تقیہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، تو ایسے شخص کی بات روایت کیوں قبول کی جا سکتی ہے؟
اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے دور میں فرمایا تھا کہ یہ لوگ یعنی شیعہ حضرات کافر ہیں۔
              ( کتاب الاعتصام للشاطبی ج2)
خلاصہ کلام۔ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے، اور شیعہ اور روافض حضرات کی کتب بھی غیر معتبر ہے واللہ اعلم بالصواب، لہذا اس طرح کی روایات کو پھیلانے سے پرہیز اور اجتناب کرنا چاہیے،اللہ تعالی ہماری اس طرح کی روایات کو پھیلانے سے اور اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے سے حفاظت فرمائے۔ آمین 
أہل تشیع کے متعلق مکمل تحقیق حاصل کرنے کے لیے پڑھے ارشاد الشیعہ حضرت مولانا سرفراز خاں صفدر رحمۃ اللہ علیہ
                               فقط والسلام
⁦✍️⁩ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الہند
مدرس۔ جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا
25/فروری2020 بروز منگل









Saturday, 22 February 2020

حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الہند مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
(ایک واقعہ کی تحقیق) 
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
سوال۔  ایک واقعہ کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے؟ 
عن حذيفة بن اليمان رضي الله تعالى عنه انه كان ياكل في بلاد الشام فسقطت اللقمة فأراد أن يميط الأذى عنها وياكلها فلامه اصحابه لانه في بلاد الشام فقال: أأترك سنة حبيبي لهؤلاء الحمقى فأخذ اللقمة وأكلها
ترجمہ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے اس دوران کے وہ شام کے کسی شہر میں کھانا کھا رہے تھے کہ لقمہ نیچے گر گیا،تو آپ نے چاہا کہ اس پر لگی گندگی کو صاف کرلے اور اس کو کھا لے، تو آپ کے ساتھی میں سے کسی نے آپ کو ملامت کی،اس لیے کہ وہ بلاد شام میں تھے، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:کیا میں ان بےوقوفوں کی وجہ سے میرے نبی کی سنت کو ترک کروں گا،چنانچہ آپ نے لقمہ لے لیا اور اس کو کھا لیا۔
   سائل: محمد عدنان بن عبد الحمید احمد آباد
متعلم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب۔  تلاشِ بسیار کے باوجود حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب یہ روایت اور یہ الفاظ ہمیں نہیں ملے، اور بعض کتابوں میں ہمیں یہ مذکورہ واقعہ ملا جو کہ بغیر سند اور بغیر حوالے کے مذکور ہے لہذا وہ معتبر نہیں ہے، ہاں البتہ ایک روایت سنن ابن ماجہ میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ہے، جو ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔ 
حدثنا سويد بن سعيد،حدثنا يزيد بن زريع،عن يونس، عن الحسن،عن معقل بن يسار رضي الله تعالى عنه قال: بينما هوَ يَتغدّى، إذ سقَطت منهُ لقمةٌ، فتَناولَها، فأماطَ، ما كانَ فيها من أذًى، فأَكَلَها، فتغامزَ بِهِ الدَّهاقينُ، فقيلَ: أصلحَ اللَّهُ الأميرَ، إنَّ هؤلاءِ الدَّهاقينَ يتَغامزونَ، مِن أخذِكَ اللُّقمةَ، وبينَ يديكَ هذا الطَّعامُ، قالَ: إنِّي لم أَكُن لأدَعَ، ما سَمِعْتُ من رسولِ اللَّهِ ﷺ: لِهَذِهِ الأعاجمِ إنّا كنّا نأمر أحدُنا، إذا سقطت لقمتُهُ، أن يأخذَها، فيُميطَ، ما كانَ فيها من أذًى ويأكلَها، ولا يدعَها للشَّيطانِ
سنن ابن ماجه رقم الحدیث 3278 کتاب الأطعمۃ 
ترجمہ۔ حضرت معقل بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ دوپہر کا کھانا کھانے کے دوران ان کے ہاتھ سے لقمہ گر گیا،تو انہوں نے اس کو اٹھا لیا،اور اس پر لگے کچرے کو صاف کیا ، اور اس کو کھا لیا،(یہ دیکھ کر) یہ عجمی کسان  آپس میں ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارہ کرنے لگے،لوگوں نے کہا: اللہ امیر کا بھلا کرے،آپ کے سامنے یہ کھانا موجود ہوتے ہوئے اس لقمے کو آپ کے اٹھانے پر یہ کسان لوگ آنکھوں سے باہم اشارہ کر رہے ہیں،حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: میں عجمیوں کی (چہ مہ گوئیوں کی) وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی بات کو ترک نہیں کر سکتا،ہم میں سے جب کسی کا لقمہ گرتا تو ہم اسے کہتے کہ اسے اٹھا لے،اس میں لگی گندگی کو صاف کرلے، اور اس کو کھا لے، اور شیطان کے لیے اس کو نہ چھوڑے۔
                        واللہ اعلم بالصواب
                            فقط والسلام
⁦✍️⁩ حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات الہند
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات
فون نمبر۔ 9428359610
22/فروری 2020ء بروز سنیچر
احادیث کی تحقیق و تخریج کے لئے مذکور واٹساپ نمبر پر رابطہ کریں۔
9428359610

Thursday, 20 February 2020

(آیات حمصیہ کی تحقیق) حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الہند

باسمہ تعالی 
(آیات حمصیہ کی تحقیق)

سوال : ہمارے ہا ں عام مروجہ مصاحف ِ قرآنیہ میں سورۃ البروج میں ایک آیت ہے {ان الذین اٰ منوا وعملوا الصلحت لہم جنت تجری من تحتہا الانہٰرظ ذلک الفوز الکبیر } اس آیت کے درمیان میں ’’الا نہر‘‘ پر ایک حاشیہ میں مرقوم ہے آیۃ حمصیہ اس حاشیہ کا کیا مطلب ہے ؟
جواب : اس حاشیہ کا تعلق نہ تفسیر سے ہے نہ علم قرأت سے بلکہ علوم القرآن میں ایک مستقل فن علم آیات القرآن کا ہے اس حاشیہ کا تعلق اسی علم سے ہے ۔ فنون الافنان فی عیون علوم القرآن میں علامہ ابن الجوزی ؒ نے ’’ فصل فی مذاہب البلدان فی عد آی القرآن‘‘ کے تحت تعداد آیات ِ قرآنی کے پانچ مذاہب بیان فرمائے ہیں ۔ملاحظہ ہو:
والعدد منسوب الی خمسۃ بلدان : مکۃ المدینۃ الکوفۃ والبصرۃ والشام۔ (فنون الافنان ص ۲۳۷)
آگے چل کر ابن الجوزی ؒنے پانچوں مذاہب کی تفصیل اور ناقلین بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ اہل شام کے مسلک کی تفصیل کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں ۔
وقد روی عن اہل حمص خلاف لما روی عن اہل الشام مطلقاً۔( فنون الافنان ص۲۴۱)
اس عبارت سے معلوم ہوگیا کہ ابتداہی سے اہل حمص کا مسئلہ عدّ آی القرآن میں مستقل مسلک تھا اس طریقہ سے جہاں سارے ا قوال ذکر کئے گئے ہیں وہیں اخیر میں اہل حمص کی روایت مستقلاً مذکور ہے ۔ ملاحظہ ہو ’’ونقل عن اہل حمص انہم قالوا ، واثنتان وثلاثون آیۃ ‘‘(فنون الافنانص۲۴۴)
سورۃ البروج کے تحت یہ عبارت مرقوم ہے :
سورۃ البروج اثنان وعشرون آیۃ فی قول الجمیع ، بلاخلاف بینہم فی شئی منہا ، الا قول اہل حمص فانہا فی عدہم ثلاث وعشرون ، قال ابو الحسن المنادی فان کانوا عدوا {تجری من تحتہا الانہر} آیۃ والا فلا یدری من این جاء ت زیادتہم۔
(فنون الافنان ص ۳۲۱)
اس عبارت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ عندالجمہور سورۃ البروج میں’’ ۲۲‘‘آیات ہیں اور ہمارے مروجہ مصاحف میں بھی یہی تعداد ہے ، البتہ اہل حمص کے ہاں ایک آیت زائد ہے اور ان کے نزدیک سورۃ البروج میں’’ ۲۳‘‘آیات ہیں ، وہ اس طرح کہ عند الجمہور آیت نمبر’’ ۱۱‘‘ایک آیت شمار ہوتی ہے جب کہ اہل حمص اسے دو آ یات شمار کرتے ہیں، وہ اس طرح کہ{تحتہا الانہر }پر ان کے ہاں آیت تام ہو تی ہے جب کہ جمہور کے ہاں اس پر آیت تام نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ آیت کے وسط میں ہے ، اس آیت کے اختلاف کو ’’آیت حمصیہ‘‘ حاشیہ پر درج کر کے واضح کیا گیا ہے ۔واللہ أعلم بالصواب
              فتاویٰ دار العلوم زکریا جلد اول ص350

مکمل تفصیل کے لیے کاشف العسر شرح ناظمۃ الزھر ص٥٢تا٥٥ کا مطالعہ کیا جائے۔
نوٹ۔  علامہ شاطبی رحمہ اللہ ایک کتاب ناظمۃ الزھر اس فن میں متداول کتاب ہے۔
⁦✍️⁩  ابو احمد حسان بن سماحة الشيخ محمد يونس التاجفوري الغجراتي
المدرس بجامعة تحفيظ القرآن الاسلامفورا بمديرية سابركانتا بولاية غجرات الهند
فون نمبر۔ 9428359610
                             فقط والسلام
20/فروری 2020 بروز جمعرات






Tuesday, 18 February 2020

کھانے سے پہلے پڑھی جانے والی دعا کی تحقیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کھانے سے پہلے پڑھی جانے والی دعا کی تحقیق 
 سوال۔  کھانے سے پہلے کی دعا بسم اللہ اللہ وعلی برکۃ اللہ جو مکاتب میں پڑھائی جانے والی آسان مسنون دعاؤں پر مشتمل کتابوں میں پائی جاتی ہے، تو کیا یہ دعا انہی الفاظ کے ساتھ احادیث رسول، آثار صحابہ یا احادیث کی معتمد کتابوں میں موجود ہے؟
            سائل: محمد صابر بن شفیع اللہ بمبئی
          متعلم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ  سابرکانٹھا گجرات
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جواب۔  مذکور سوال کے سلسلے میں اولا تین باتیں قابل ذکر ہیں۔
(١) کتب صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث معتمدہ میں کھانا کھانے سے پہلے پڑھی جانے والی دعا کیا ہے؟
(٢) کیا کتب حدیث میں بسم اللہ و علیٰ برکۃ اللہ ( علی حرف جر کے ساتھ) کی روایت موجود ہے؟
(٣) مستدرک حاکم کی حدیث کا حکم اور تحقیق الحدیث کیا ہے؟
تفصیل الجواب (١) 
*صحیح البخاری عن عمر بن ابي سلمة رضي الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم سم الله وكل بيمينك وكل مما يليك (صحيح البخاري كتاب الاطعمهة باب التسميه على الطعام)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے فقط اتنا معلوم ہوتا ہے کہ کھانے سے پہلے اللہ کا نام لے چاہے کسی بھی الفاظ سے ہو.
*صحیح مسلم وزاد في اخر الحديث ثم ذكر اسم الله واكل (صحيح مسلم ص١٧٢)
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب المنہاج شرح مسلم میں اس باب کے ماتحت لکھا ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کو افضل قرار دیا ہے ۔(حاشیہ مسلم ص 171)
لیکن فتح الباری میں ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نےعلامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ پڑھنے میں کوئی خاص دلیل موجود نہیں ہے
والافضل ان يقول بسم الله الرحمن الرحيم وان قال بسم الله كفاه وحصلت السنة، ولم ار لما ادعاه من الافضلية دليلا خاصا ( فتح الباري رقم الحديث ٥٣٧٦)
*قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا اكل احدكم فليذكر اسم الله الى اخر الحديث (سنن ابي داود كتاب الاطعمة باب التسميه على الطعام ص٥٢٩) اس حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ پڑھ لے اور زیادتی الفاظ اور وعلی برکۃ للہ پر دال نہیں ہے۔
* عن عائشة رضي الله تعالى عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا اكل احدكم  فليقل بسم الله (سنن الترمذي كتاب الاطعمة باب التسمية عند الطعام)
* عن عمر بن ابي سلمة رضي الله تعالى عنه قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا آكل سم الله عز وجل (سنن ابن ماجه ابواب الاطعمة باب التسمية عند الطعام ص ٢٣٥) 
ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لینا کافی ہے اور بسم اللہ وبرکۃ اللہ اور بسم اللہ وعلی برکۃ اللہ کے الفاظ ان کتب صحاح ستہ میں نہیں ہیں۔
تفصیل الجواب (٢)
بسم اللہ وعلیٰ برکۃ اللہ (علی حرف جر کے ساتھ) یہ الفاظ نہ کسی صحیح روایت میں موجود ہے اور نہ کسی ضعیف روایت میں ، البتہ اس کے متعلق صاحب سلاح المؤمن ابو الفتح محمد بن محمد المعروف  بابن الامام کا تفرد ہے، انہوں نے اس کو علی حرف جر کے ساتھ اپنی کتاب سلاح المؤمن فی الدعاء والذكر صفحہ نمبر 393 میں ذکر کیا ہے آپ کا ذکر کرنا سہو شمار کیا گیا ہے۔
اسی طرح صاحب حصن حصین نے انہیں سے نقل کرکے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے، اور اسی کتاب کو دیکھتے ہوئے دارالعلوم دیوبند نے فتویٰ دیا ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ وعلی برکۃ اللہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔
تفصیل الجواب (٣) 
المستدرك على الصحيحين للحاكم جلد 4 صفحہ 107، مجمع الزوائد للہیثمی جلد 10 صفحہ 320،المعجم الاوسط للطبرانی جلد 2 صفحہ نمبر 345 میں بسم اللہ وبرکۃ اللہ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں،جبکہ صحیح ابن حبان جلد 12 صفحہ نمبر 14 حدیث نمبر 5216 میں یہی روایت اسی سند سے ہے جس میں خالص بسم اللہ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں،لہذا معلوم ہوا کہ ان احادیث میں اصطراب ہے،بوج ہے اصطراب زیادتی الفاظ کو نہ پڑھنا افضل معلوم ہوتا ہے،صحیح ابن حبان کی حدیث 👇👇👇
اخبارنا محمد بن اسحاق بن سعيد قال اخبرنا علي بن خشرم قال اخبرنا الفضل بن موسى عن عبد الله بن كيسان قال حدثنا عكرمة عن ابن عباس رضي الله تعالى عنه قال قال النبي صلى الله عليه وسلم قولوا بسم الله الى اخر الحديث صحیح ابن حبان کی اس روایت میں عبداللہ بن کیسان حضرت عکرمہ سے روایت کرتے ہیں،تہذیب التہذیب میں ابن حجر عسقلانی رحمه الله نے لکھا ہے کہ قال ابن عدي  لعبد الله بن كيسان احاديثه عن عكرمة غير محفوظۃ وعن ثابت كذلك (تہذیب التہذیب جلد نمبر 4 صفحہ 132) 
خلاصہ کلام۔  کھانا کھانے کے شروع میں بسم اللہ کہنے پر اکتفا کرے یہی صحیح روایات سے ثابت ہیں، اور اگر و برکۃ اللہ کی زیادتی کر لے تو کوئی مضائقہ نہیں چونکہ طبرانی میں یہ زیادتی موجود ہے۔
                         واللہ اعلم بالصواب 
⁦✍️⁩ابو أحمد حسان بن سماحة الشيخ محمد يونس التاجفوري الغجراتي
المدرس بجامعة تحفيظ القرآن الاسلامفورا بمديرية سابركانتا بولاية غجرات الهند
                                 فقط والسلام
                                 ١٩  / فروری ٢٠٢٠ بروز بدھ



Monday, 17 February 2020

حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعوت کا قصہ

باسمه الفتاح
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
السوال۔ حضرت ایک واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے ، جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالی سے خواہش کی کہ میں تمام انس وجن چرندوپرند کی دعوت کرنا چاہتا ہوں  تو اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کی اس خواہش کو پورا کیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کی دعوت کی،مختصراً تو سمندر کی ایک مچھلی آئی اور ایک ہی لقمے میں سارا کھانا کھا گئی،اور اس نے کہا اے سلیمان  آپ نے مجھے ایک ہی لقمہ کھلایا ، میرا رب مجھے روزانہ ایسے تین لقمے کھلاتا ہے۔
                 فقط والسلام
سائل: مولوی مجاہد حنفی ایلولوی 
فاضل: جامعہ امین القرآن پانپور
               واٹساپ نمبر: ٧٢٢٩٠٢٣٠٨٥
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب۔ یہ قصہ مجھے کتب احادیث میں تلاشِ بسیار کے بعد بھی نہیں ملا،البتہ مشہور ومعروف مؤرخ وادیب " عبد الرحمن الصفوری الشافعی رحمہ اللہ(متوفی ٨٩٤) " نے اپنی مشہور کتاب نزھۃ المجالس (ص:٢١٣) میں ایک حکایت اور محض واقعے کی حیثیت سے بلا سند اور حوالے کے ذکر کیا ہے،لہذا اس کو حدیث نہیں مانا جاسکتا ۔ اس واقعہ کی عربی عبارت یہ ہے 👇👇👇
قال سليمان عليه السلام لنملة: كم رزقك في كل سنة؟ قالت: حبة حنطة. فحبسها في قارورة وجعل عندها حبة حنطة فلما مضت السنة فتح القارورة فوجدها قد أكلت نصف الحبة فسألها عن ذلك فقالت: كان اتكالي على الله قبل الحبس، وبعده كان عليك فخشيت أن تنساني فادخرت النصف إلى العام الآتي. فسأل ربه أن يضيف جميع الحيوانات يوما واحدا فجمع طعاما كثيرا فأرسل الله تعالى حوتا فأكله أكلة واحدة، ثم قال: يا نبي الله؛ إني جائع. فقال: رزقك كل يوم أكثر من هذا؟ قال: بأضعاف كثيرة. وفي حادي القلوب الطاهرة قال: إني آكل كل يوم سبعين ألف سمكة. وكان طعام سليمان عليه السلام لعسكره كل يوم خمسة آلاف ناقة وخمسة آلاف بقرة وعشرين ألف شاة.


■ *کتاب نزہت المجالس کی حیثیت:*
یہ کتاب ہر موضوع پر مشتمل مواد سے بھری پڑی ہے اور اس کتاب میں ہر طرح کی صحیح اور غلط روایات کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، ابتداء سے ہی علمائے کرام نے اس کتاب پر اعتماد نہیں کیا.
بلکہ اس کتاب میں ذکر کردہ موضوع روایات کی بنیاد پر شیخ شہاب الدین الحمصی نے جامع اموی سے ان کی درس کی کرسی ہٹانے کا حکم دیا تھا.


*وبسبب كتابه هذا حكم عليه الشهاب الحمصي برفع كرسيه من الجامع الأموي يوم 15 جمادى الأولى 899هـ كما حكى في كتابه "حوادث الزمان". وذلك بسبب ما حشره فيه من الحديث الموضوع.*



■ *اس کتاب پر علمائےکرام کے تبصرے:*

*١. یہ کتاب ہر طرح کی موضوعات سے بھری ہوئی ہے.*

○ والكتاب المذكور المسمى "نزهة المجالس" فيه موضوعات وأشياء لا أصل لها، وقد نبه على هذا السيوطي في فتاواه وخرج بعض تلك المرويات، والواجب الحذر من هذا الكتاب.

*٢. اس کتاب کے مصنف شافعی تھے، لیکن حضرات شوافع نے اس کتاب کو باطل لکھا ہے.*

○ الكتاب متكلم فيه حتى من السادة الشافعية أنفسهم وكنت قد طالعت بعض كلام الشافعية ممن وقف على الكتاب ونبه على بطلان ما فيه وعلى عدم الاعتماد على صاحبه لكونه حشى كتابه بالبواطل.

*٣. اس کتاب میں ہر طرح کی چیزیں اور اسرائیلیات موجود ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے.*

                                فقط والسلام
جمعه ورتبه: أبو أحمد حسان بن سماحة الشيخ يونس التاجفوري الغجراتي
المدرس بجامعة تحفيظ القرآن الاسلامفورا بمديرية سابركانتا بولاية غجرات الهند
رقم الجوال: ٩٤٢٨٣٥٩٦١٠
17/فروری/2020 بروز پیر