Wednesday, 15 April 2020

دجال کی آنکھ کے متعلق تحقیق


تحقیقات سلسلہ نمبر 25
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(دجال کی داہنی آنکھ یا بائیں آنکھ کانی ہوگی) 
سوال۔  دجال کی داہنی آنکھ کانی ہوگی یا بائیں آنکھ؟ یہ سوال اس لیے ہوتا ہے کہ مسلم شریف میں دونوں طرح کی روایات موجود ہیں۔ دونوں روایتوں میں تطبیق دیں؟ مہربانی ہوگی۔ 
(١) ‌عن ابن عمر رضى الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر الدجال بين ظهرانى الناس فقال: (إن الله ليس بأعور، ألا إن المسيح الدجال أعــــــــــــــــــــــور العيـــــــــــــــــــن اليمنـــــــــــــــــــــى، كأن عينــــــــــــــه عنبـــــــــــــة طافئــــــــــة)، رواه مسلم والبخاري وابو داود والترمذي والحديث صحيح.
(٢)  عن حذيفة بن اليمان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الدَّجّالُ أعْوَرُ العَيْنِ اليُسْرى، جُفالُ الشَّعَرِ، معهُ جَنَّةٌ ونارٌ، فَنارُهُ جَنَّةٌ وجَنَّتُهُ نارٌ. ( رواه مسلم في صحيحه) 
فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب باسمہ سبحانہ وتعالیٰ۔   

مذکور سوال کے سلسلے میں دو باتوں کا جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(١)  مذکور احادیث کی تخریج اور حکم الحدیث۔
(٢)  ان دونوں احادیث کے درمیان تطبیق۔

تفصیل الجواب(١)  مذکور احادیث کی تخریج اور حکم الحدیث۔
اعور العین الیمنی کی احادیث۔ 
(١) عن عبدالله بن عمر قال:  ذَكَرَ النبيُّ ﷺ، يَوْمًا بيْنَ ظَهْرَيِ النّاسِ المَسِيحَ الدَّجّالَ، فَقالَ: إنَّ اللَّهَ ليسَ بأَعْوَرَ، ألا إنَّ المَسِيحَ الدَّجّالَ أعْوَرُ العَيْنِ اليُمْنى، كَأنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طافِيَةٌ……….
( صحيح البخاري رقم الحديث: ٣٤٣٩، صحيح مسلم رقم الحديث:١٦٩، صحيح الجامع للالباني رقم الحديث: ٢٦٣٦ باختلاف يسير، حکم الحدیث: صحیح ) 
ترجمہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان دجال کا ذکر کیا، پس آپ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ کانے نہیں ہے، سنو! یقیناً مسیح دجال کہ اس کی داہنی آنکھ کانی ہوگی، گویا کہ وہ آنکھ ابھرا ہوا انگور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢) عن سعد بن أبي وقاص قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إِنَّهُ لم يكنْ نَبِيٌّ إلّا وقدْ وصفَ الدجالَ لأُمَّتِهِ، ولَأَصِفُهُ صِفَةً لم يصفْها نَبِيٌّ قبْلِي: إِنَّهُ أعورُ العينِ اليُمْنى
(البحر الزخار للبزار ٣/٣١٤ ، لا نعلم روى داود إلا هذا الحديث بغير اختلاف)
ترجمہ۔  سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی نے اپنی امت کو دجال کے متعلق بتایا ہیں، اور میں ایک ایسی چیز بتانے جارہاہوں جو میرے پہلے کسی نبی نے نہیں بتائی: یقیناً وہ اس دجال کی داہنی آنکھ کانی ہوگی۔
(٣) عن عبدالله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بَيْنا أنا نائمٌ رأَيْتُني أطوفُ……….فالتَفَتُّ فإذا رجُلٌ أحمَرُ جسيمٌ جَعْدُ الرَّأسِ أعورُ العَينِ اليُمنى كأنَّ عينَه عِنَبةٌ طافيةٌ قُلْتُ مَن هذا قالوا الدَّجّالُ أقرَبُ النّاسِ به شَبَهًا ابنُ قَطَنٍ.
(المعجم الأوسط للطبراني ٩/٧٤،لم يرو هذا الحديث عن ابن أخي الزهري إلا الدراوردي تفرد به إبراهيم بن حمزة، مسند أحمد ٨/٢٠٩ باختلاف يسير،صحيح البخاري رقم الحديث:٧٠٢٦، ومسلم رقم الحديث:١٧١ باختلاف يسير)
ترجمہ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس درمیان کے میں سویا ہوا تھا، کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں طواف کررہاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں متوجہ ہوا تو اچانک ایک شخص ہے سرخ، موٹا، گھونگھریالوں بال والا، داہنی آنکھ کانی، گویا کہ اس کی آنکھ ابھرا ہوا انگور ہے، میں نے کہا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: دجال ہے' اس سے لوگوں میں مشابہت کے اعتبار سے زیادہ قریب ابن قطن ہے۔ 
اعور العین الیسری کی احادیث

(١) عَنْ حُذَيْفَةَ  قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الدَّجَّالُ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى، جُفَالُ الشَّعَرِ ، مَعَهُ جَنَّةٌ وَنَارٌ، فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ "
(صحيح مسلم رقم الحديث:٢٩٣٤،مسند أحمد | مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ  | حَدِيثُ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رقم:286 ،شعيب الأرنؤوط (متوفی ١٤٣٨ هـ)، تخريج المسند رقم الحدیث: ٢٣٣٦٥, إسناده صحيح على شرط الشيخين،صحيح الجامع للانباني رقم الحديث: ٣٤٠٠، صحيح ابن ماجه للانبانی ٣٣٠٦ باختلاف یسیر حکم الحدیث: صحیح ) 
ترجمہ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کے اس کی بائیں آنکھ کانی ہوگی، گھونگھریالوں بال والا ہوگا، اس کے ساتھ جنت اور آگ ہوگی، حقیقت یہ ہے کہ اس کی آگ جنت ہے، اور اس کی جنت آگ ہے۔ 
(٢) عن سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنَّهُ لم يَكُن نبيٌّ قبلي إلّا قَد حذَّرَ الدَّجّالَ أمَّتَهُ، هوَ أعورُ العينِ اليُسرى بعينِهِ اليُمنى ظَفَرةٌ غليظةٌ بينَ عينيهِ كافرٌ معَهُ واديانِ أحدُهُما جنَّةٌ والآخرُ نارٌ فجنَّتُهُ نارٌ وَنارُهُ جنَّةٌ…………..
(الصحيح المسند للوادعي رقم الحديث: ٤٣٨   حسن، مجمع الزوائد للهيثمي ٧/٣٤٣ باختلاف يسير،    رجاله ثقات وفي بعضهم كلام لا يضر‏‏)
ترجمہ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پہلے ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے، وہ اس کی بائیں آنکھ کانی ہوگی، اس کی داہنی آنکھ پر غلیظ ناخنہ ( پھلی) ہوگی، آنکھوں پر کافر لکھا ہوا ہوگا، اس کے ساتھ جنت اور آگ کی دو وادیاں ہوگی، تو اس کی جنت آگ ہے اور آگ جنت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٣)  عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  إني خاتمُ ألفِ نبيٍّ أو أكثرَ وما بعث اللهُ نبيًّا يُتَّبَعُ إلا وحذَّر أمّتَه منه وإني قد بُيِّن لي فيه ما لم يُبيَّنْ لأحدٍ منهم وإنه أعورُ وإنَّ ربَّكم ليس بأعورَ وعينُه اليمنى عوراءُ جاحظةٌ لا تخفى كأنها نخامةٌ في حائطٍ مُجصَّصٍ وعينُه اليسرى كأنها كوكبٌ دُرٍّيٌّ معه من كل لسانٍ ومعه صورةُ الجنةِ خضراءُ يجري فيها الماءُ وصورةَ النارِ سوداءُ تُدخِّنُ.
( البداية والنهاية لإبن كثير ٢/١٤٠ ،  حكم الحديث: غريب، مجمع الزوائد للهيثمي ٧/٣٤٩    فيه مجالد بن سعيد وضعفه جماعة‏‏) 
ترجمہ۔ ماقبل احادیث کی طرف کچھ فرق کے ساتھ آسان ہے۔ 
اعور العین الیمنی اور اعور العین الیسری اس طرح کی دونوں روایتوں کو علامہ عینی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں صحیح قرار دیا ہے: (كلاهما صحيح، كما قال النووي في شرح مسلم)

تفصیل الجواب (٢) ان دونوں احادیث کے درمیان تطبیق۔
ان دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے قاضی عیاض اپنی کتاب مشارق الانوار میں لکھتے ہیں: وقال عياض في مشارق الانوار: قوله في الدجال: أعور العين اليمنى.وفي حديث آخر: أعور العين اليسرى.
وقد ذكر مسلم الروايتين ووجه الجمع بينهما بأن كل واحدة عوراء من وجه إذا أصل العور العيب لا سيما ما اختص بالعين فإحداهما عوراء حقيقة ذاهبة وهي التي قال فيها ممسوح العين، والأخرى معيبة، وهي التي قال فيها عليها ظفرة وكأنها كوكب وعنبة طافية. هـ.
وَلَكِنْ يُجْمَع بَيْن الْأَحَادِيث وَتُصَحَّح الرِّوَايَات جَمِيعًا بِأَنْ يَكُون الْمَطْمُوسَة وَالْمَمْسُوحَة وَاَلَّتِي لَيْسَتْ بِجَحْرَاءَ وَلَا نَاتِئَة هِيَ الْعَوْرَاء الطَّافِئَة بِالْهَمْزِ وَهِيَ الْعَيْن الْيُمْنَى كَمَا جَاءَ هُنَا ، وَتَكُون الْجَاحِظَة وَاَلَّتِي كَأَنَّهَا كَوْكَب ، وَكَأَنَّهَا نُخَاعَة هِيَ الطَّافِيَة بِغَيْرِ هَمْز ، وَهِيَ الْعَيْن الْيُسْرَى كَمَا جَاءَ فِي الرِّوَايَة الْأُخْرَى وَهَذَا جَمْع بَيْن الْأَحَادِيث وَالرِّوَايَات فِي الطَّافِيَة بِالْهَمْزِ وَبِتَرْكِهِ وَأَعْوَر الْعَيْن الْيُمْنَى وَالْيُسْرَى لِأَنَّ كُلّ وَاحِدَة مِنْهُمَا عَوْرَاء "

النووي على شرح مسلم

أعتراض من القرطبي:

" وَقَالَ الْقُرْطُبِيّ فِي " الْمُفْهِم " : حَاصِل كَلَام الْقَاضِي أَنَّ كُلّ وَاحِدَة مِنْ عَيْنَيْ الدَّجَّال عَوْرَاء إِحْدَاهُمَا بِمَا أَصَابَهَا حَتَّى ذَهَبَ إِدْرَاكهَا وَالْأُخْرَى بِأَصْلِ خَلْقهَا مَعِيبَة ، لَكِنْ يُبْعِد هَذَا التَّأْوِيل أَنَّ كُلّ وَاحِدَة مِنْ عَيْنَيْهِ قَدْ جَاءَ وَصْفهَا فِي الرِّوَايَة بِمِثْلِ مَا وُصِفَتْ بِهِ الْأُخْرَى مِنْ الْعَوَر فَتَأَمَّلْهُ . وَأَجَابَ صَاحِبه الْقُرْطُبِيّ فِي التَّذْكِرَة بِأَنَّ الَّذِي تَأَوَّلَهُ الْقَاضِي صَحِيح ، فَإِنَّ الْمَطْمُوسَة وَهِيَ الَّتِي لَيْسَتْ نَاتِئَة وَلَا جَحْرَاءَ هِيَ الَّتِي فَقَدَتْ الْإِدْرَاك ، وَالْأُخْرَى وُصِفَتْ بِأَنَّ عَلَيْهَا ظَفَرَة غَلِيظَة وَهِيَ جِلْدَة تَغْشَى الْعَيْن وَإِذَا لَمْ تُقْطَع عَمِيَتْ الْعَيْن ، وَعَلَى هَذَا فَالْعَوَر فِيهِمَا لِأَنَّ الظَّفَرَة مَعَ غِلَظهَا تَمْنَع الْإِدْرَاك أَيْضًا ، فَيَكُون الدَّجَّال أَعْمَى أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ  

اسی طرح ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ  فتح الباری شرح صحیح البخاری میں رقم طراز ہے: 
وقال ابن حجر في الفتح: قوله في حديث الباب: أعور العين اليمنى. وقد اتفقا عليه من حديث ابن عمر.
فيكون أرجح وإلى ذلك أشار ابن عبد البر، لكن جمع بينهما القاضي عياض فقال: تصحح الروايتان معا بأن تكون المطموسة والممسوحة هي العوراء الطافئة بالهمز أي التي ذهب ضوؤها وهي العين اليمنى ـ كما في حديث ابن عمر ـ وتكون الجاحظة التي كأنها كوكب وكأنها نخاعة في حائط هي الطافية بلا همز وهي العين اليسرى ـ كما جاء في الرواية الأخرى ـ وعلى هذا، فهو أعور العين اليمنى واليسرى معا، فكل واحدة منهما عوراء أي معيبة، فإن الأعور من كل شيء المعيب، وكلا عيني الدجال معيبة، فإحداهما معيبة بذهاب ضوئها حتى ذهب إدراكها، والأخرى بنتوئها. انتهى
 ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق پسندیدہ ہے۔

راجح یہ ہے کہ اُس کی دونوں ہی آنکھیں خراب ہوں گی ، بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور دائیں آنکھ پر ایک موٹی پھلی ہوگی۔بائیں آنکھ کے بارے میں روایات میں ”طافئۃ “کا لفظ آتا ہے جس کا مطلب ہے” بے نور اور بجھی ہوئی“ اور اِسی کو ”ممسوح العین الیسریٰ بھی کہا گیا ہے ۔اور دائیں آنکھ کے بارے میں ”طافِیہ“ کا لفظ آیا ہے جو ابھری ہوئی اور باہر نکلی ہوئی کو کہا جاتا ہے اور اِسی کو بعض روایات میں باہر نکلے ہوئے انگور سے تشبیہ دی گئی ہے ۔


خلاصۂ تطبیق۔  اس سلسلے میں اتنی بات تو متعین ہے کہ دجال ایک آنکھ سے کانا ہو گا، اسی وجہ سے عوام میں وہ ’’کانے دجال‘‘ کے نام سے ہی مشہور ہے، اسی طرح یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اس کی دوسری آنکھ انگور کے دانے کی طرح پھولی ہوئی ہو گی اور اس کی پلکوں کے پاس گوشت کا اُبھرا ہوا چھوٹا سا ٹکڑا ہو گا، لیکن یہ بات متعین نہیں ہے کہ وہ دائیں آنکھ سے کانا ہو گا یا بائیں آنکھ سے، اسی طرح اس کی پھولی ہوئی آنکھ کون سی ہو گی؟ احادیث کی روشنی میں اسے متعین کرنا خاصا مشکل ہے کیونکہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ بائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اور ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ دائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اسی بنا پر اس کی دوسری آنکھ کی کیفیت بھی متعین کرنا دشوار  ہے، چنانچہ بعض علماء نے دائیں آنکھ والی روایات کو ترجیح دی ہے اور بعض علماء نے بائیں آنکھ والی روایت کو ترجیح دی ہے، اس ناکارہ کا رجحان اسی دوسری رائے کی جانب ہے جس کے مطابق دجال بائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اکثر روایات میں بھی یہی آتا ہے، اس طرح یہ بات خود بخود متعین ہو جاتی ہے کہ اس کی دائیں آنکھ پھولی ہوئی ہو گی، جسے بعض روایات میں انگور کے دانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور بعض روایات میں اسے موٹے ناخنہ سے تعبیر کیا گیا ہے،اُس کی دونوں آنکھیں خراب ہوں گی ، بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور دائیں آنکھ پر ایک موٹی پھلی ہوگی ۔ جیسے 👇

 وَهُوَ أَعْوَرُ عَيْنِهِ الْيُسْرَى، بِعَيْنِهِ الْيُمْنَى ظُفْرَةٌ غَلِيظَةٌ۔(مسند احمد :21929)
أَعْوَر الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ۔(مسلم:169)
 أَلَا وَإِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِئَةٌ۔(مسلم:4/2247)
إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ، عَيْنُهُ طَافِئَةٌ۔(مسلم:2937)
 مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى كَأَنَّهَا عَيْنُ أَبِي يَحْيَى لِشَيْخٍ مِنَ الْأَنْصَارِ۔(مستدرکِ حاکم:1230)

خلاصۂ کلام۔ یہ کہ دجال کی دونوں آنکھیں ہی عیب دار ہوں گی، ایک آنکھ ’’جس کا بایاں ہونا راجح تر ہے‘‘ سے وہ کانا ہو گا اور دوسری آنکھ بھی عیب دار ہی ہو گی ، نیز پہلی حدیث میں ایک اضافی بات یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس کے بال خوب گھنے ہوں گے۔

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل
جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات
16/اپریل/ 2020ء بروز جمعرات

Tuesday, 7 April 2020

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک ویڈیو کی مکمل وضاحت

ہماری تحقیق پڑھنے سے پہلے آپ محترم سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس 👇 ویڈیو کو 
ضرور سن لے

تحقیقات سلسلہ نمبر 24
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک غلط ویڈیو کی وضاحت) 
سوال۔ اوپر میں نے آپ کو جو ویڈیو ارسال کیا ہے اس کی تحقیق مطلوب ہے؟ 
جس میں بتایا گیا ہے کہ09/ اپریل/2020ء بروز جمعرات سے لیکر13/ اپریل / 2020ء بروز پیر تک ایام تشریق ہیں، لہذا ان پانچ دنوں میں تکبیر تشریق "الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله والله اكبر، الله اكبر ولله الحمد" پڑھنا ہے، تو آپ سے سوال یہ ہے کہ ان دنوں میں یعنی14/شعبان المعظم/ 1441ھ بروز جمعرات سے لیکر 18/ شعبان المعظم/  1441ھ بروز پیر تک کیا یہ دن ایام تشریق ہیں؟ اور ان میں کیا تکبیر تشریق پڑھی جائیں؟ محقق جواب دیکر عند اللہ ماجور ہو۔۔ 
فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔۔
سائل: قاسم بمبئی 
متعلم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا گجرات الھند
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جواب۔ مذکور سوال کے سلسلے میں دو باتوں کا جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(١) ویڈیو کے ساتھ چھیڑخانی، اور مکمل دلائل کی روشنی میں وضاحت۔
(٢) ایام تشریق کے سلسلے میں۔

تفصیل الجواب(١) ویڈیو کے ساتھ چھیڑخانی، اور مکمل دلائل کی روشنی میں وضاحت۔

 آپ محترم نے جو ویڈیو ارسال کیا ہے اصل بات یہ ہے کہ اس میں بتائی ہوئی باتیں درست اور صحیح ہیں،لیکن اس عالم کی ویڈیو کے ساتھ جو چھیڑخانی کی گئی ہے وہ غلط ہے، درست اور صحیح نہیں ہے۔
 اب آپ کو سوال ہوگا کہ ایسا کیوں؟ حالہ کہ اس کے اوپر تو تاریخ آج کل کی یعنی 09 اپریل/ 2020ء کی ہے، جو موافق ہے 14/ شعبان المعظم 1441ھ کو، اور اس بات کو ہر مسلمان ( چھوٹا بڑا ، عالم ناواقف)  جانتا ہیں کہ ایام تشریق جن میں تکبیر تشریق پڑھی جاتی ہے وہ شعبان میں نہیں بلکہ ذی الحجہ کے ایام میں ہے۔ تو وہ بتائی ہوئی باتیں درست کیسے ہوسکتی ہیں؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس ویڈیو کے ساتھ چھیڑخانی کی گئی ہے،( چھیڑخانی پر دلائل کی وضاحت اس کے بعد میں درج ہیں)  اس طور پر کہ وہ وائس مسیج کسی عالم کا ہے، جو ایام تشریق کے سلسلے میں تکبیر تشریق پڑھنے کی ترغیب دے رہے ہے، یہ ترغیب اور ان کا بیان ابھی(اپریل/2020ء موافق شعبان المعظم 1441ھ) کا نہیں ہے، بلکہ 31/ اگست / 2017 بروز جمعرات سے پہلے کا ہے، اور وہ عالم  2017ء کے ان ایام تشریق کے سلسلے میں تکبیر تشریق پڑھنے کی ترغیب دے رہے ہے، آپ نے آواز سنی ہوگی اس میں وہ عالم تاریخ کا بھی ذکر کرتے ہے اور ایام کا بھی، یعنی نو 09 تاریخ یعنی جمعرات سے لیکر پیر کی عصر تک، اب میں آپ سے مؤدبانہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ 2017ء کا اسلامی کلینڈر اٹھائیے اور اس میں ملاحظہ فرمائیں کہ 31/اگست/ 2017ء کو ذی الحجہ کی 09 تاریخ تھی اوروہ بھی جمعرات کے دن،اور ان ایام میں یعنی 31/ اگست 2017ء بروز جمعرات سے لیکر 04/ سپتمبر /2017ء بروز پیر کے دنوں میں ایام تشریق تھے۔ (ایام تشریق یعنی 09 ذی الحجہ سے لیکر 13/ ذی الحجہ تک)۔
( اخیر میں ہمنے آپ کی معلومات کے لئے 2017 کے کلینڈر کے کچھ اسکرین شاٹ پیش کئے ہیں، ملاحظہ فرمائیں)  لہذا معلوم ہوتا ہے کہ اس ویڈیو کے ساتھ چھیڑخانی کی گئی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب 
(چھیڑخانی پر دلائل)
اس ویڈیو کے چھیڑخانی پر کچھ دلائل پیش کیے دیتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
دلیل نمبر (١)  
 اس بیان کے وائس(آواز) کے شروع حصے کو حذف کر کے باقی وائس (آواز) کو برقرار رکھا گیا ہے، تاکہ کسی کو اس چھیڑخانی پر شک نہ ہو، (اور شک کرنے والا کہے کہ اس میں تو شعبان المعظم کا ذکر ہی نہیں بلکہ ذی الحجہ کی نو تاریخ کا ذکر ہے) پھر اس پر اس طرح کی امیج کا سیٹنگ کیا گیا ہے جس پر آج کل کی تاریخ
(09/04/2020se 13/04/2020)   لکھی گئی ہے، میں آپ قارئ سے دوبارہ اس ویڈیو کے سننے کی گزارش کرتا ہوں، آپ محسوس کریں گے کہ اس کے بالکل ابتداء کی آواز کا تعلق اگلے والی گفتگوں سے ہے، لیکن اس کو کاٹدیا گیا ہے، اور اس کا مقصد صرف اور صرف دین اسلام کو نقصان پہنچانا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی ان دشمنان اسلام سے حفاظت فرمائیں۔ آمین
دلیل نمبر (٢) 
جب آپ غور سے اس ویڈیو کو سنیں گے تو آپ کو اس میں کچھ لوگوں کی آواز بھی سنائی دیں گی جو ان کے ساتھ تکبیر تشریق کو پڑھتے ہیں، اب آپ غور کریں کہ  لوگوں کے درمیان اس طرح کی باتیں ( اگر ویڈیو کی بات درست مانے تو) کیا ممکن ہیں؟ ہرگیز نہیں! ایک ناواقف شخص بھی جانتا ہے کہ یہ تکبیر تشریق ذی الحجہ میں پڑہی جاتی ہے، نہ کہ شعبان المعظم میں۔ واللہ اعلم
دلیل نمبر (٣) 
ویڈیو میں لوگوں کا بھی تکبیر تشریق پڑھنا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ یہ ویڈیو ابھی کا نہیں ہے، بلکہ پہلے کا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سے تقریباً  12۔13 دنوں پہلے سے مساجد میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے باجماعت نماز تین چار افراد کو چھوڑ کر بند ہے، جب نماز بند ہے تو ترغیب اور بیان کا کیا کہنا۔
دلیل نمبر (٤) 
مولانا کا یہ کہنا بیان میں " آنے والی جمعرات" اس سے تو قطعی طور پر معلوم ہوگیا کہ ویڈیو پہلے کی ہے، ابھی کی نہیں، اس لیے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیانات سب بند ہیں۔ 

تفصیل الجواب (٢) ایام تشریق کے سلسلے میں۔
ایام تشریق پانچ دن ہیں، جس کی ابتداء نویں ذی الحجہ کی فجر سے ہوتی ہے اور جس کا اختتام تیرہویں ذی الحجہ کی عصر پر ہوتا ہے، اسلامی تاریخ کی ابتداء غروب شمس سے ہوتی ہے عصر سے نہیں۔ ان ایام میں 9تاریخ کے سوا باقی سارے ایام ایامِ تشریق ہیں، اس لیے تغلیباً ان تکبیرات کو تکبیراتِ تشریق کہتے ہیں، اگرچہ ان  تکبیرات کے حکم میں ایک دن ایامِ تشریق سے پہلے کا(یعنی نو ذی الحجہ ) بھی شامل ہے۔یہی (یعنی 9 ذوالحجہ کی فجر سے تکبیراتِ تشریق کا آغاز کرنا) احناف کامفتی بہ قول ہے۔
تکبیر تشریق کا کلمہ یہ ہے:
اللہ أکبر اللہ أکبر لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر اللہ أکبر وللہ الحمد. 
واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل
فقط والسلام
⁦✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا گجرات الھند
رابطہ نمبر۔ 9428359610
08/اپریل/ 2020ء برور بدھ 






Sunday, 5 April 2020

کورونا وائرس کے متعلق پیشین گوئی

تحقیقات سلسلہ نمبر 23
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(آج کل سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کے متعلق گردش کرنے والی پیشینگوئی کی تحقیق)
سوال۔ آج کل خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایک پیشینگوئی گردش کررہی ہے، جس کی نسبت ابراہیم بن سالوقیہ کی طرف ان کی کتاب کتاب اخبار الزمان صفحہ نمبر 365 کے حوالے سے کی گئی ہے، کیا یہ پیشینگوئی درست اور صحیح ہے؟  وہ پیشینگوئی یہ ہے 👇
جب دو عدد (20.20) برابر ہو جائیں  گے، زمانے میں مرض پھیل جائے گا، حج کرنا روک دیا جائے گا،شور و غل برپا ہوگا، ٹڈیاں ہلاک کریں گی، لوگ لاچار ہو جائیں گے، روم کا بادشاہ اس پھیلے ہوئے  مرض سے ہلاک ہو جائے گا، بھائی اپنے بھائی سے خوفزدہ ہوگا، اور گھمنڈ میں یہودیوں کی طرح ڈینگے ماریں گے، بازاروں میں مندی ہوگی، گناہوں کا زور ہوگا، جڑوں کو ہلانے والے خوف کا مارچ کے مہینے میں عروج ہوگا، ایک تہائی لوگ مرجائیں گے، اور چھوٹے بچے ذہنی اعتبار سے جوان ہوجائیں گے۔ 
* اس کتاب اور مصنفِ کتاب کے متعلق بھی تحقیق پیش کریں؟
فقط والسلام مع الاحترام
سائل: مولوی مجاہد ایلولوی گجراتی
فاضل: جامعہ امین القرآن پانپور گجرات
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جواب۔  مذکور سوال کے سلسلے میں تین باتوں کا جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔(١) مذکور پیشینگوئی کا غلط ہونا، اور اس کی وجوہات۔(٢) کتاب اخبار الزمان کے مصنف کے متعلق۔(٣)  کتاب "اخبار الزمان" کے متعلق۔

تفصیل الجواب (١)  مذکور پیشینگوئی کا غلط ہونا، اور اس کی وجوہات۔
 اولاً یہ بات جان لینی چاہیے کہ مذکور سوال میں جو پیشینگوئی ذکر کی گئی ہے وہ بالکل غلط ہے، درست اور صحیح نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کی اردو اور عربی عبارات کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو خراب کیا جارہاہے، اللہ تعالیٰ پوری امتِ مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین 
اس کی عربی عبارت یہ ہے 👇
حتى اذا تساوى الرقمان (20=20)وتفشى مرض الزمان،منع الحجيج،واختفى الضجيج،واجتاح الجراد،وتعب العباد،ومات ملك الروم من مرضه الزؤوم،وخاف الأخ من أخيه،وصرتم كما اليهود في التيه،وكسدت الأسواق،وارتفعت الأثمان،فارتقبوا شهر مارس زلزال يهد الأساس،يموت ثلث الناس،ويشيب الطفل منه الرأس۔
(غلط ہونے کی وجوہات)
(١) کتاب اخبار الزمان کا جو صفحہ سوال مذکور میں دیا گیا ہے (صفحہ نمبر 365) اصل بات تو یہ ہے کہ اس کتاب میں اتنے صفحات ہے ہی نہیں، وہ کتاب  فقط 278 ہی صفحات پر مشتمل ہے، واللہ اعلم کہاں سے اس طرح کے واہیات کو پھیلایا جارہا ہے۔
(٢) اس کتاب " اخبار الزمان" کی جس مصنف (ابراہیم بن سالوقیہ) کی طرف نسبت کی گئی ہے، وہ نسبت بھی غلط ہے، وہ کتاب مؤرخ کبیر  أبو الحسن علي بن الحسين بن علي المسعودي کی ہے، ابراہیم بن سالوقیہ کی طرف اس کی نسبت کرنا صحیح اور درست نہیں ہے، ابراہیم بن سالوقیہ نامی کوئی مؤرخ نہیں گزرے) وهو لا يعلم الغيب 
(٣)  (حتى اذا تساوى الرقمان (20۔20،جب دو عدد (20.20) برابر ہو جائیں  گے) اس پوری کتاب میں کسی جگہ پر 20.20 کا ذکر نہیں ہے، حتی کہ مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس کتاب میں کسی بھی عدد کا ذکر نہیں ہے(في كل كتابه لم يكتب الرقم 20 ولا اي رقم اخر)  واللہ اعلم بالصواب۔ ( جن حضرات کو وہ کتاب مطلوب ہو وہ ہمارے واٹساپ نمبر 9428359610 پر رابطہ کریں) 
(٤)   (فارتقبوا شهر مارس زلزال يهد الأساس، جڑوں کو ہلانے والے خوف کا مارچ کے مہینے میں عروج ہوگا) اور اس کو آج جو کورونا وائرس پھیلا ہے اس پر تطبیق دی جاتی ہے، تو اس سلسلے میں حقیقی بات یہ ہے کہ جس صدی( قرن رابع /4) میں یہ کتاب لکھی گئی اس وقت یہ شمسی تاریخ (مارچ)کا شمارہ تھا ہی نہیں، بلکہ بعد میں وجود میں آیا (ولم يكن النظام الغريغوري الذي تعمل به كل الدول الآن موجوداً في زمان أبو الحسن المسعودي الذي توفي عام  957ء، فهذا النظام اعتُمد في عهد البابا غريغوريوس الثالث عشر، وسُمي بالتقويم الغريغوري عام 1582ء. وتجدر الإشارة أيضاً أنّ تسمية الشهور بالأسماء اللاتينية "يناير، فبراير، مارس، ..." لم تكن معتمدةً في حينه) معلوم ہوا کہ مارچ کے مہینے کا ذکر بھی بے بنیاد اور بے اصل ہے، ( هذا غير صحيح ، العرب قديما لايعرفون شهر مارس،الله أعلم بالغيب ولا علم لنا الا ماعلمنا ربنا من القرآن والسنة) اور اس کے غلط ہونے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ وائرس مارچ کے مہینے میں نہیں بلکہ تقریباً 2019 کے دسمبر مہینے میں وجود میں آیا۔ واللہ اعلم بالصواب
 تفصیل الجواب (٢) کتاب اخبار الزمان کے مصنف کے متعلق۔
ہم پہلے آپ کو بتا چکے کہ یہ کتاب " اخبار الزمان" ابراہیم بن سالوقیہ کی نہیں ہے، بلکہ ابو الحسن علی بن حسین بن علی المسعودی ( متوفیٰ 346ھ) کی ہے، اور ابراہیم بن سالوقیہ کی کوئی کتاب ہمے تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملی، حتیٰ کہ ابراہیم بن سالوقیہ نامی کوئی مؤرخ بھی ہمارے مطالعہ سے نہیں گزرے۔ واللہ اعلم۔  اخبار الزمان کے مصنف کا نام علی بن حسین بن علی ہے، کنیت ابو الحسین، لقب المسعودی اور قطب الدین ہے، اعتقادا معتزلی تھے، مسلکا شافعی تھے، صحابئ رسول عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے خاندان سے تعلق تھا، سن 283 ھ اور896م بغداد۔عراق میں آپ کی پیدائش ہوئی،وفات سن 346 هـ957 م قاھرہ میں ہوئی، اور مختلف کتابیں لکھیں مثلاً
 "مروج الذهب" "معادن الجوهر في تحف الأشراف" "الملوك وأهل الديارات" "أخبار
الزمان اور "سر الحياة" وغیرہ
یہ مذکور اقتباس تو اخبار الزمان مقدمہ کا ہے،جو عبداللہ الصاوی کا ہے، لکین وہ غلط ہے، صحیح اور درست نہیں ہے، تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ مصنف شیعی ہے، اور مقدمہ میں ان کا شافعی لکھنا بھی غلط ہے، کچھ شیعی مصنفین نے شافعی ۔مالکی وغیرہ القاب اختیار کرکے شہرت پائ ہے ۔تحفہ اثنا عشریہ میں ذکر ہے۔ مکائدِ شیعہ کتاب ص 57.58میں مرقوم ہے (اگر کسی شیعہ دوست کومسعودی مؤرخ کے تشیع میں شبہ ہو تو وہ تھڑی سی تکلیف فرماکر اپنی کتاب تنقيح المقال في أحوال الرجال للشيخ عبد الله المامقاني ج 2 ص283 کے تحت علی بن حسین المسعودی ملاحظہ فرمادیں، اس کو تسلی ہوجائے گی، نیز شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب "تحفۃ الاحباب" ص 227 پر ( تحت علی بن حسین المسعودی) کے حق میں درج کیا ہے کہ " مسعودی، امامیہ کے بڑے بزرگوں میں سے ہے،اور بعض علماء پر یہ بات مشتبہ ہوگئی ہے کہ انہوں نے مسعودی کو سنی علماء میں سے شمار کردیا" 
اس کتاب کے مصنف علی بن حسین المسعودی أہل تشیع (شیعہ) میں سے تھے، مکمل تحقیق کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں 
( رجال نجاشی ص 178 ایران، تنقیح المقال فی احوال الرجال ج 2 ص282، الکنی والالقاب ج3ص 185، اعیان الشیعہ ج1ص 160، سیر اعلام النبلاء ج 15ص 185، تحفۂ اثنا عشریہ ص91، معجم المطبوعات العربیہ ج 2 ص1744)  ۔
واللہ اعلم بالصواب

تفصیل الجواب (٣)   کتاب "اخبار الزمان" کے متعلق۔
کتاب اخبار الزمان کے حوالے سے مذکور سوال میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں وہ سب غلط اس وجہ سے بھی ہیں کہ اس میں ماضی کی تاریخ مذکور ہے ( ذكر الأمم المخلوقات قبل آدم عليه السلام سے لیکر ذكر ملوك مصر بعد الطوفان  کا ذکر ہے) اس سے بھی معلوم ہوگیا کہ اس میں مستقل کی کسی بھی چیز اور تاریخ کا ذکر نہیں ہے، (وفي الختام فإن هذا الكتاب يتحدث عن اخبار الزمن الماضي وليس المستقبل)
واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل
 فقط والسلام
كتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند
مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا گجرات الھند
رابطہ نمبر: 9428359610
05/اپریل  2020 م بروز اتوار مطابق 10 شعبان المعظم 1441ھ


Thursday, 2 April 2020

قراءت متواترہ اور قراءت شاذہ کے متعلق تحقیق

تحقیقات سلسلہ نمبر22
باسمہ الرزاق
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال۔ "عن أنس رضي الله عنه قال: قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم"لقد جاءكم رسول من أنفسكم" بفتح الفاء، وقال أنا أنفسكم نسبا وصهرا وحسبا، ليس في آبائي من لدن آدم سفاح، كلنا نكاح" اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "لقد جاءكم رسول من أنفسكم" میں انفسکم کے فاء پر فتحہ پڑھا، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور اگر کوئی شخص اس کو نماز میں تلاوت کرلے تو کیا نماز فاسد ہو جائے گی؟ یا فاسد نہیں ہوگی؟ مدلل ومحقق جواب مطلوب ہے؟
فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔۔۔
سائل: طلحہ کبڑا
متعلم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا گجرات الھند
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جواب۔ مذکور سوال کے سلسلے میں پانچ باتوں کا جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(١) انفسکم کے فاء پر فتحہ اور ضمہ کی قراءت کس کس کے نزدیک ہے۔
(٢) بالا سوال میں جو روایت مذکور ہے اس کی تحقیق و تخریج۔
(٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتحہ پڑھنا یہ کونسی قراءت ہے؟ سبعہ،عشرہ یا شاذہ۔
(٤) نماز میں قرأت سبعہ،عشرہ اور شاذہ کی تلاوت کا حکم۔
(٥) "انفُسكم" بضم الفاء کے بجاۓ "انفَسكم" بفتح الفاء پڑھنے کی وجہ کیا؟ یعنی معنی کا فرق۔
تفصیل الجواب (١) انفسکم کے فاء پر فتحہ اور ضمہ کی قراءت کس کس کے نزدیک ہے۔
اس سلسلے میں جمہور نے "انفسکم" میں ضمہ پڑھا ہیں، اور حضرت ابنِ عباس رض اور ابو العالیہ وغیرہ  نے فتحہ پڑھا ہیں، چنانچہ ابن جوزی نے اپنی تفسیر زاد المسیر میں لکھا ہے 
قَوْلُهُ تَعالى: ﴿لَقَدْ جاءَكم رَسُولٌ مِن أنْفُسِكُمْ﴾ قَرَأ الجُمْهُورُ بِضَمِّ الفاءِ. وقَرَأ ابْنُ عَبّاسٍ، وأبُو العالِيَةِ، والضَّحّاكُ، وابْنُ مُحَيْصِنٍ، ومَحْبُوبٌ عَنْ أبِي عَمْرٍو: بِفَتْحِها.
اور روح المعانی میں علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں
وقَرَأ ابْنُ عَبّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعالى عَنْهُما وابْنُ مُحَيْصِنٍ والزُّهْرِيُّ (أنْفَسِكُمْ) أفْعَلُ تَفْضِيلٍ مِنَ النَّفاسَةِ والمُرادُ الشَّرَفُ فَهو صَلّى اللَّهُ تَعالى عَلَيْهِ وسَلَّمَ مِن أشْرَفِ العَرَبِ۔
اور ابن عطیۃ اپنی تفسیر (المحرر الوجیز) میں اسی آیت کے تحت لکھتے 
قَرَأ عَبْدُ اللهِ بْنُ قُسَيْطٍ المَكِّيُّ: "مِن أنْفَسِكُمْ" بِفَتْحِ الفاءِ مِنَ النَفاسَةِ، ورُوِيَتْ عَنِ النَبِيِّ ﷺ وعن فاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ عنها، وذَكَرَ أبُو عَمْرٍو أنَّ ابْنَ عَبّاسٍ رَضِيَ اللهُ عنهُما رَواها عَنِ النَبِيِّ ﷺ.

تفصیل الجواب (٢) بالا سوال میں جو روایت مذکور ہے اس کی تحقیق و تخریج۔
حدیث:- "عن أنس رضي الله عنه قال: قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم"لقد جاءكم رسول من أنفسكم" بفتح الفاء، وقال أنا أنفسكم نسبا وصهرا وحسبا، ليس في آبائي من لدن آدم سفاح، كلنا نكاح" (رواه ابن مَردُويه)
ترجمہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا "لقد جاءكم رسول من أنفسكم" میں فاء کے فتحہ کے ساتھ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں باعتبارِ حسب ونسب تم میں افضل اور بہتر ہوں، میرے آباء و اجداد میں حضرت آدم  سے لے کر اب تک کہیں زنا نہیں، سب نکاح ہے۔
* اس حدیث کو علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الدر المنثور میں ابن مردویہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے، لکین الفاظ میں کچھ فرق ہے،    
وأخْرَجَ ابْنُ مَرْدُويَهْ عَنْ أنَسٍ قالَ: «قَرَأ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:  ﴿لَقَدْ جاءَكم رَسُولٌ مِن أنْفُسِكُمْ﴾ فَقالَ عَلِيُّ بْنُ أبِي طالِبٍ: يا رَسُولَ اللَّهِ ما مَعْنى: ”أنْفَسِكُمْ“ فَقالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: أنا أنْفَسُكم نَسَبًا وصِهْرًا وحَسَبًا لَيْسَ فِيَّ ولا في آبائِي مِن لَدُنْ آدَمَ سِفاحٌ كُلُّنا نِكاحٌ»
(الدر المنثور للسيوطي ج 3 ص 294) 
حكم الحديث: اس کے سلسلے میں ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (النشر فی القراءت العشر) میں قراءت کے چھ انواع بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ( أن أنواع القراءات ستة الأول المتواتر……... الثاني المشهور……... النوع الثالث الصحيح  وهو ما صح سنده وخالف الرسم أو العربية, أو لم يشتهر الاشتهار المذكور, و هذا النوع لا يقرأ به ولا يجب اعتقاده من ذلك ما أخرجه الحاكم من طريق عاصم الجحدري عن أبي بكرة أن النبي قرأ: (متكئين على رفارف خضر وعبقري حسان)
ومنه قراءة (لقد جاءكم رسول من أنفسكم) بفتح الفاء. الرابع الشاذ……..الخامس الموضوع………) ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ کی اس تیسری قسم سے معلوم ہو گیا کہ یہ قرأت صحیح ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
تفصیل الجواب(٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتحہ پڑھنا، کیا یہ قرأت سبعہ،عشرہ یا شاذہ میں سے ہے؟
مذکور سوال میں حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "أنفسكم" میں فتحہ پڑھا ہے، لکین اس قراءت کا تعلق قراءت متواترہ سے نہیں ہے، بلکہ قراءت شاذہ سے ہے، جیسے کہ اس کی وضاحت علامہ سمرقندی (متوفی ٣٧٣ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر بحر العلوم میں اس آیت کے تحت کی ہے، 
قرأ بعضهم مِنْ أَنْفُسِكُمْ بنصب الفاء يعني: من أشرفكم وأعزكم، وهي قراءة شاذة.
(بحر العلوم للسمرقندي)
ترجمہ۔ وهي قراءة شاذة یہ قراءت شاذہ میں سے ہے۔
ارو اسی طرح علامہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے
﴿لقد جَاءَكُم رَسُول من أَنفسكُم﴾ قرىء فِي الشاذ: من أَنفَسكُم، وَيُقَال: إِن هَذِه الْقِرَاءَة قِرَاءَة فاطمه - رَضِي الله عَنْهَا - قَالَ يَعْقُوب الْحَضْرَمِيّ: طلبت هَذَا الْحَرْف خمسين سنة فَلم أجد لَهُ رَاوِيا. وَمعنى هَذَا: أشرفكم وأفضلكم.وَالْقِرَاءَة الْمَعْرُوفَة: ﴿من أَنفُسكُم﴾ 
(تفسیر القرآن للسمعانی)

تفصیل الجواب (٤) نماز میں قرأت سبعہ،عشرہ اور شاذہ کی تلاوت کا حکم۔

علماء نے عموماً قراء ت کی دو مشہور قسمیں ذکر کی ہیں: (۱) قراء اتِ متواترہ (۲) قراء اتِ شاذہ
قراء اتِ متواترہ سے مراد وہ صحیح اور مقبول قراء ات مراد لی جاتی ہیں جو نبی کریم ﷺ سے بطریق ِتواتر مروی ہوں اور عربی قواعد ورسم عثمانی کے موافق ہوں۔ صرف انہی کی تلاوت جائز ہے۔ موجودہ قرآن انہی پر مشتمل ہے۔
قراء اتِ شاذہ سے مراد ضعیف سند والی قراء ات ہیں یا پھر وہ قراء ات جو عربی قواعد اور رسم عثمانی کے موافق نہ ہوں۔(شاذہ کی مختلف اقسام ہیں، قراء سے رجوع کیا جاسکتا ہے)
اب نماز میں قرأت کے تعلق سے یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ جن قراءات کا تعلق متواترہ سے ہیں ان کو نماز میں اور خارج نماز میں تلاوت کرنا درست اور صحیح ہے، اور جن کا تعلق قرآءت شاذہ سے ہیں ان کی تلاوت نہ تو نماز میں درست ہے اور نہ خارج نماز میں، چنانچہ البدور الزاھرۃ میں ہے 
وعلى هذا، فكل قراءة وراء العشر لا يحكم بقرآنيته، بل قراءة شاذة، لا تجوز القراءة بها لا في الصلاة ولا خارجها، قال الشيخ محي الدين النووي: لا تجوز القراءة في الصلاة ولا في غيرها بالقراءات الشاذة وليست قرآنا، لان القران لا يثبت الا بالتواتر،واما الشاذة  فليست متواترة…….(البدور الزاهرة ص 407)
ترجمہ۔  اس پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہر وہ قراءت جو عشرہ کے علاوہ ہے وہ قرآن نہیں ہے، بل کہ وہ قرآءت شاذہ میں سے ہیں، اور قرآءت شاذہ کی تلاوت نہ تو نماز میں جائز ہے اور نہ خارج نماز میں، علامہ محی الدین النووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: قراءت شاذہ کی تلاوت نہ تو نماز میں درست ہے اور نہ غیر نماز میں، اس لیے کہ وہ قرآن نہیں، اس لئے کہ قرآن صرف تواتر سے ثابت ہے،اور شاذہ یہ متواتر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہٰذا سب علمائے اُمت کا اتفاق ہے کہ قراء ت شاذہ قرآن نہیں۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ:’’ اس بات پراجماع ہے کہ قراء ات شاذہ کی تلاوت اورانہیں مصحف میں لکھنا جائز نہیں۔‘‘ (المحلی:۴؍۲۵۵)
علامہ ابن عبد البررحمہ اللہ :’’ قراء ت شاذہ نماز میں پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے۔‘‘ (التمہید :۸؍۲۹۳) وغیرہ اقوال کتبِ قراءت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ثانیاً یہ بات جاننا ضروری ہے کہ قراءت سبعہ بالاجماع متواتر ہیں، لکین قراءات ثلاثہ (ماسوی السبعۃ) میں علماء کا اختلاف منقول ہیں، لکین صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ وہ بھی سبعہ کی طرح متواتر ہیں۔ چنانچہ جمع الجوامع کی شرح منع الموانع میں قاضی القضاۃ امام سبکی کہتے ہیں: عشرہ کے علاوہ باقی تمام قرأتیں شاذہ ہیں،ابو جعفر یعقوب خلف رحمۃ اللہ علیہ کا تین قراءتوں کا شاذ کہنا حد سے گراہوا قول ہے۔۔۔۔
مکمل تفصیل کے لیے البدور الزاھرۃ ص 407،النشر 38,39 اور عنایات رحمانی ج 1 ص55 کا مطالعہ کیا جاسکتاہے)

تفصیل الجواب (٥) "انفُسكم" بضم الفاء کے بجاۓ "انفَسكم" بفتح الفاء پڑھنے کی وجہ کیا؟ یعنی معنی کا فرق۔
اس سلسلے میں انوار التنزیل قاضی بیضاوی کی عبارت پیش کرتاہوں فقط، 
﴿لَقَدْ جاءَكم رَسُولٌ مِن أنْفُسِكُمْ﴾ مِن جِنْسِكم عَرَبِيٌّ مِثْلُكم. وقُرِئَ « مِن أنْفَسِكم» أيْ مِن أشْرَفِكم. 
خلاصۂ کلام۔۔ "انفسکم" میں فاء کا ضمہ قراءت متواترہ میں سے ہے،جس کی تلاوت درست اور صحیح ہے، اور فاء کا فتحہ قراءت شاذہ میں سے ہے،اور جس روایت سے یہ ثابت ہے گرچہ صحیح ہے لیکن متواتر نہ ہو نے کی وجہ شاذ ہے، جس کی تلاوت درست اور صحیح نہیں ہے نہ تو نماز میں اور نہ خارج نماز میں۔ واللہ اعلم بالصواب
كتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند
مدرس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات
رابطہ نمبر۔ 9428359610
3/اپریل 2020 بروز جمعہ