Friday, 28 August 2020

دعائے عاشورہ، ایک سال تک زندگی کا بیمہ

 


(تحقیقات سلسلہ نمبر 31)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

سوال:- ایک سال تک زندگی کا بیمہ

یہ ایک مجرب دعا ہے:  حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص عاشورۂ محرم کو طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک اس دعا کو پڑھ لے یا کسی سے پڑھوا کر سن لے تو ان شاء اللہ تعالی یقینا سال بھر تک اس کی زندگی کا بیمہ ہو جائے گا،ہرگز موت نہ آئیگی اور اگر موت آنی ہی ہے تو عجیب اتفاق ہے کہ پڑھنے کی توفیق نہ ہوگی

دعا یہ ہے: يا قابل توبة آدم يوم عاشوراء،يا فارج كرب ذي النون يوم عاشوراء،يا جامع شمل يعقوب يوم عاشوراء ، يا سامع دعوة موسى و هارون يوم عاشوراء ، يا مغيث إبراهيم من النار يوم عاشوراء ، يا رافع إدريس إلي السماء يوم عاشوراء ، يا مجيب دعوة صالح في الناقة يوم عاشوراء ، يا ناصر سيدنا محمد صلى عليه وسلم يوم عاشوراء ، يا رحمن الدنيا والاخرة و رحيمهما صل على سيدنا محمد وعلى ال سيدنا محمد و صل على جميع الأنبياء والمرسلين و اقض حاجاتنا فى الدنيا والاخرة و أطل عمرنا في طاعتك و محبتك و رضاك و أحيينا حياة طيبة و توفنا على الإيمان و الإسلام برحمتك يا ارحم الراحمين؛اللهم بعز الحسن و أخيه و أمه و أبيه و جده و بنيه فرج عنا ما نحن فيه۔

پھر سات بار پڑھیں۔ سبحان الله ملء الميزان و منتهي العلم و مبلغ الرضا و زنة العرش لا ملجأ  ولا منجأ من الله إلا إليه،سبحان الله عدد الشفع و الوتر و عدد كلمات الله التامات كلها نسئلك السلامة برحمتك يا ارحم الراحمين ؛ و هو حسبنا ونعم الوكيل،نعم المولى و نعم النصير،و لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم، وصلي الله تعالى علي سيدنا محمد وعلى اله وصحبه و على المؤمنين و المؤمنات و المسلمين و المسلمات عدد ذرات الوجود و عدد معلومات الله و الحمد لله رب العالمين

اس کی تحقیق مطلوب ہے؟

کیا یہ صحیح ہے ؟ اگر صحیح ہے تو اس دعاء عاشورہ کو پڑھ سکتے ہیں۔۔۔؟؟؟

فقط والسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- یہ مجرب عمل ہمیں تلاش بسیار کے بعد بھی کتب احادیث معتمدہ میں نہیں ملا، ہاں البتہ اس کو علامہ عالم حسین فقری نے اپنی کتاب مجموعہ وظائف ص636,637 پر بغیر سند وحوالہ ذکر کیا ہے۔ 

اس پر عمل کے سلسلے میں 👇

اولا شیخ طلحہ بلال منیار حفظہ اللہ ورعاہ کی درج ذیل تحریر ملاحظہ فرمائیں 👇

۲۔دوسرے وہ واقعات جو انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف (یوم عاشورہ میں واقع ہوئے) منسوب ہیں ، وہ مختلف روایات جمع کرنے سے تقریبا  ۱۴  انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب کئے گئےہیں ، بعض انبیاء کی طرف متعدد باتیں منسوب کی گئیں ، جن کی یہ فہرست ہے :

۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ، اور اس دن ان کی توبہ قبول ہونا۔

۲۔ حضرت نوح علیہ السلام کی نجات ، اور کشتی کا جودی پہاڑ پر جاکرٹھیرنا۔

۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش، اور  آگ سے نجات۔

۴۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دنبہ کے ذریعہ فداء۔

۵۔ حضرت موسی علیہ السلام کی پیدائش ،تورات کا نزول ،بنی اسرائیل کی نجات ، دریا پار کرنا، اور فرعون کا غرق۔

۶۔ حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے نکلنا ، اور ان کی قوم کی توبہ قبول ہونا ۔

۷۔ حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالینا۔

۸۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا شفایاب ہونا۔

۹۔ حضرت داود علیہ السلام کی فیصلہ والی غلطی معاف ہونا۔

۱۰۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کاحکومت و سلطنت پر فائز ہونا۔

۱۱۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا قید خانہ سے نکلنا۔

۱۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس لوٹنا۔

۱۳۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش، اور آسمان پر اٹھالینا۔

۱۴۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ، اور اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت کی بشارت ۔

۞ ان واقعات میں سے پایۂ ثبوت تک پہنچ نے والا صرف حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون سے نجات کا واقعہ ہے ، جو بروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، کتب احادیث میں صحیح سند سے مروی ہے۔

۞  اس کے علاوہ چار واقعات اسانید ضعیفہ سے وارد ہوئے ہیں ، ضعف سند کے ساتھ ان کا کچھ اعتبا ر کرسکتے ہیں ، وہ ہیں :

۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہونا

۲۔  حضرت نوح علیہ السلام کی طوفان سے نجات۔

۳۔ فرعون کے جادوگروں کی توبہ قبول ہونا۔

۴۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ۔

بقیہ جتنے بھی واقعات ہیں جو عاشوراء کی طرف منسوب کئے گئے ، اسی طرح عاشوراء کے فضائل ، وہ سب غیر مستند ، جھوٹے اور من گھڑت ہیں ۔ انتہی کلام الشیخ 

بالا سوال میں جو الفاظِ دعا منقول ہیں اس میں بھی ان واقعات کی طرف نداء کی گئی ہیں، جن میں "يا سامع دعوة موسى و هارون يوم عاشوراء" ہے جو صحیح سند سے منقول ہے، جسے آپ نے بالا تحریر شیخ میں ملاحظہ فرمایا، اس کے علاوہ چار واقعات اسانید ضعیفہ سے وارد ہوئے ہیں جن کی طرف نداء کی گئی ہے، مثلاً "  يا قابل توبة آدم" بعض نے یہ الفاظ بھی ذکر کیے ہیں  "يا مُسْكِنَ سَفينَةِ نُوح عَلَى الْجُودِىِّ يَوْمَ عاشُورآءَ"   تو یہ ضعف سند کے ساتھ ان کا کچھ اعتبا ر کرسکتے ہیں، 

باقی ان کے علاوہ نداء (یا حرف نداء) کے صیغے یہ ان واقعات میں سے ہیں جو غیر مستند اور من گھڑت ہیں، مثلاً " يا رافِعَ اِدْريسَ اِلَى السَّمآءِ يَوْمَ عاشُورآءَ"  اور" يا غِياثَ اِبْرهيمَ مِنَ النّارِ يَوْمَ عاشُورآءَ" وغیرہ ،  لہٰذا راقم الحروف ابو احمد حسان کی ناقص رائ یہ ہے کہ ان الفاظ کو پڑھنے، پڑھا نے اور نشر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اگرچہ مجرب ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

نیز شفاء الصدور میں  درج ذیل تحریر منقول ہے 👇

وقراءة ذلك الدّعاء لا شكّ انّها بدعة محرّمة والدّعاء هو :

سُبْحانَ اللهَ مِلاَْ الْمِيزانِ وَمُنْتَهَى الْعِلْمِ وَمَبْلَغَ الرِّضا وَزِنَةَ الْعَرْشِ وفيه بعد عدّة سطور ثمّ صلّ على محمّد وآله عشر مرّات وقل : يا قابِلَ تَوْبَةَ آدَمَ يَوْمَ عاشُورآءَ يا رافِعَ اِدْريسَ اِلَى السَّمآءِ يَوْمَ عاشُورآءَ يا مُسْكِنَ سَفينَةِ نُوح عَلَى الْجُودِىِّ يَوْمَ عاشُورآءَ يا غِياثَ اِبْرهيمَ مِنَ النّارِ يَوْمَ عاشُورآءَ الخ ولا شكّ انّ هذا الدّعاء قد وضعه بعض نواصب المدينة أو خوارج المسقط أو أمثالهم متمّماً به ظلم بني اميّة .

تمّ ملخصّاً ما ذكره مؤلّف شفاء الصّدُور

جس میں انہوں نے ان الفاظ وغیرہ کو موضوع اور من گھڑت کہا ہے۔ 

اسی طرح یوم عاشورہ کی فضیلت میں اس جیسی دوسری روایت نقل کی جاتی ہے 

الفاظ حدیث ملاحظہ فرمائیں 👇

حديث: ((من قال في يوم عاشوراء سبعين مرة: حسبنا الله ونعم الوكيل, نعم المولى, ونعم النصير, ودعا بالدعاء الآتي سبع مرات، لم يمت في تلك السَّنة, وإذا دنا أجله لا يُوفَّق لقراءته, وهذا هو الدعاء: سبحان الله مِـلء الميزان, ومُنتهى العلم, ومَبلغ الرِّضا, وزِنة العرش, لا ملجأ ولا منجا من الله إلا إليه، سبحان الله عدد الشفع والوتر, وعدد كلمات ربِّنا التامات كُلها، أسألك السلامة بِرحمتك يا أرحم الراحمين, ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم, وهو حسبي ونعم الوكيل, نعم المولى, ونعم النصير)).

الدرجة : كذب. ( الدرر السنية)

ترجمہ۔ جس شخص نے یوم عاشورہ کو ستر مرتبہ حسبنا الله و نعم الوكيل،نعم المولى ونعم النصير پڑھا اور پھر اس دعا کو سات مرتبہ پڑھا تو اس سال اس کی موت نہ آئیگی اور اگر موت آنی ہی ہے تو اسے اس دعا کو پڑھنے کی توفیق نہ ہوگی اور وہ دعا یہ ہے: سبحان الله ملء الميزان الخ......

یہ روایت جھوٹی ہے. اگر کسی طرح کی کوئی غلطی ہو تو ہم سے درج ذیل نمبر پر ضرور رابطہ کریں۔

فقط والسلام ۔۔۔۔۔

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات الھند

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

28/ اگست 2020 بروز جمعہ

Thursday, 27 August 2020

یکم محرم الحرام کی دعا

 


(تحقیقات سلسلہ نمبر30)

باسمہ تعالیٰ 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 

■سوال:- پہلی محرم الحرام کو جو یہ دعا پڑھے تو شیطان لعین سے محفوظ  رہے گا، اور سارا سال دو فرشتے

اس کی ( جاد ، نظر بد اور حادثات وغیرہ سے ان شاء الله ) حفاظت پر مقررہوں گے۔  دعایہ ہے: اللهم انت الله الابد القديم و هذه سنة جديدة اسألك فيها العصمة من الشيطان الرجیم والامان من السطان الجابر ومن شر کل ذی شر ومن البلاء والآفات واسألک العون والعدل  علي ھذہ  النفس الامارة بالسوء واسألك الاشتغال بما یقربني اليك یا بر یا رؤف یا رحیم يا ذا الجلال والاكرام 

(فضائل الشھور والایام 267 بحوالہ نزھۃ المجالس ) 

یہ دعا مختلف الفاظ کے ساتھ کتابوں میں مذکور ہیں

اس کی مکمل تحقیق مطلوب ہے؟ کیا اس دعا کو سال کی ابتداء میں پڑھ سکتے ہے؟ یا نہیں۔  جواب دے کر عند اللہ ماجور و مقبول ہو۔ 

فقط والسلام۔۔۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعون الملک الوھاب :- بالا سوال میں مذکور دعا اور اس کی فضیلت  ہمیں تلاش بسیار کے بعد بھی کتب احادیث معتمدہ میں نہیں ملی، ہاں البتہ علامہ صفوری  نے اپنی کتاب نزھۃ المجالس و منتخب النفائس میں اس دعا کو بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں 👇

 "فائدۃ من قال أول المحرم اللهم أنت الأبدي القديم وهذه سنة جديدة أسألك فيها العصمة من الشيطان وأوليائه والعون على هذه النفس الأمارة بالسوءوالاشتغال بما يقربني إليك يا كريم قال الشيطان أيسنا من نفسه، ويوكل الله به ملكين يحرسانه تلك السنة" 

 ■ کتاب نزہت المجالس کی حیثیت: 

یہ کتاب ہر موضوع پر مشتمل مواد سے بھری پڑی ہے اور اس کتاب میں ہر طرح کی صحیح اور غلط روایات کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، ابتداء سے ہی علمائے کرام نے اس کتاب پر اعتماد نہیں کیا.

بلکہ اس کتاب میں ذکر کردہ موضوع روایات کی بنیاد پر شیخ شہاب الدین الحمصی نے جامع اموی سے ان کی درس کی کرسی ہٹانے کا حکم دیا تھا.

وبسبب كتابه هذا حكم عليه الشهاب الحمصي برفع كرسيه من الجامع الأموي يوم 15 جمادى الأولى 899هـ كما حكى في كتابه "حوادث الزمان". وذلك بسبب ما حشره فيه من الحديث الموضوع.

■ اس کتاب پر علمائےکرام کے تبصرے:

 ١. یہ کتاب ہر طرح کی موضوعات سے بھری ہوئی ہے.

 ○ والكتاب المذكور المسمى "نزهة المجالس" فيه موضوعات وأشياء لا أصل لها، وقد نبه على هذا السيوطي في فتاواه وخرج بعض تلك المرويات، والواجب الحذر من هذا الكتاب.

 ٢. اس کتاب کے مصنف شافعی تھے، لیکن حضرات شوافع نے اس کتاب کو باطل لکھا ہے.

 ○ الكتاب متكلم فيه حتى من السادة الشافعية أنفسهم وكنت قد طالعت بعض كلام الشافعية ممن وقف على الكتاب ونبه على بطلان ما فيه وعلى عدم الاعتماد على صاحبه لكونه حشى كتابه بالبواطل.

 ٣. اس کتاب میں ہر طرح کی چیزیں اور اسرائیلیات موجود ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے.

 اسی طرح سید محمد حقی النازلی نے خزینۃ الاسرار (ص/43) میں اس طرح نقل کیا ہے ملاحظہ فرمائیں 👇 

"فی اول يوم من المحرم يصلي ركعتين ويقرأ فيهما ما يشاء فاذا فرغ رفع يديه ويقول اللهم انت ربي قديم وهذه سنة جديدة فاسألك من خيرها و اعوذ بك من شرها واستكفيك مؤنها وشغلها يا ذا الجلال و والاكرام اللهم انت الابدي القديم وهذه سنة جديدة  اسألك فيها العصمة من الشيطان و العون علي هذه النفس الامارة بالسوء و الاشتغال بما يقربني اليك يا ذا الجلال و الاكرام من قالها وكل الله به ملكا يذب عنه الشيطان واعانه علي نفسه وقفه لمر ضاتہ ورزقہ الیسر فی جمیع امورہ" 

علامہ سبط ابن الجوزی نے اپنی کتاب مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان میں اس دعا کے متعلق یہ لکھا ہے 

" وروى لنا الحديث، وعلمني دعاء السنة ، فقال: ما زال

مشایخنا يواظبون على هذا الدعاء في أول كل سنة

وآخرها، وما فاتني طول عمري، وأما أول السنة فإئك

تقول: اللهم أنت الأبدي القديم، وهذه سنة جديدة،

أسألك فيها العصمة من الشيطان وأوليائه، والعون على

هذه النفس الأمارة بالسوء، والاشتغال بما يقربني إليك

يا ذا الجلال والإكرام، فإن الشيطان يقول: قد ایسنا من

نفسه فيما بقي، ويوكل الله به ملكين يحرسانه" 

لکین چونکہ اس میں سند نہیں، اور نہ وہ حدیث کی کتابیں ہیں، اس لیے بالا دعا کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے، مجربات کے قبیل سے ہو تو بغیر نسبت کیے ہوئے عمل کرنے کی گنجائش ہے۔ 

● بالا سوال کے تحت فضائل الشھور والایام کا حوالہ دیا گیا ہے یہ کتاب علامہ ابن الجوزی کی ہے،  اس کتاب میں تلاش بسیار کے باوجود یہ دعا ہمیں نہیں ملی۔ واللہ اعلم

اسی طرح ایک اور ورق سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے۔ 

👈  یکم محرم الحرام کے پہلے دن ایک دعا پڑھی جاتی ہے جس کی ترتیب یہ ہے 

سورج نکلنے کے [20 منٹ] بعد دو رکعت ادا کرے پھر سلام کے بعد 7مرتبہ کلمہ طیبہ اور 3مرتبہ یہ دعا پڑھے 

اللھم انت الابد القدیم و ھذہ سنۃ جدیدۃ اسألک فیھا العصمۃ من الشیطان والعون علی النفس الامارۃ بالسوء واسألک الاشتغال بما تقربنی الیک یا ذاالجلال والاکرام 

                        (جواہر خمسہ/18) 

● مذکور دعا میں جواہر خمسہ کا حوالہ دیا گیا ہے کتاب کی اول تا آخر ورق گردانی کے باوجود یہ دعا نہ مل سکی لہذا جواہر خمسہ کا حوالہ دینا درست نہیں ہے۔ البتہ ایک دعا ملی ہے جو درج ذیل ہے 

●حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری نے اپنی کتاب (جواہر خمسہ /71) میں  لکھا ہے کہ 

پیغمبر خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے کہ جب ماہ محرم کا چاند نظر آیے تو یہ پڑھے 

مرحبا بالسنۃ الجدیدۃ و الشھر الجدید و الیوم الجدید و الساعۃ الجدیدۃ مرحبا بالکاتب و الشھادۃ و الشھید اکتبا صحیفتی بسم اللہ الرحمن الرحیم اشھد ان لا الہ الہ اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ و ان الجنۃ حق والنار حق وان الساعۃ آتیۃ لا ریب فیھا و ان اللہ یبعث من فی القبور (جواہر خمسہ /71) 

لکین مصنف کتاب کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا درست اور صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ یہ دعا کتب احادیث معتمدہ میں مذکور نہیں۔ اور اس کتاب میں کثرت سے رطب و یابس ہیں، لہاذا وہ معتبر نہیں ہے۔ 

● محمدبن خطیر الدین العطار کی عربی کتاب الجواھر الخمسۃ(ص/32) میں اس دعا کو اس طرح لکھا ہے 

"قال صلی اللہ علیہ وسلم اذا رأیتم ھلال محرم فقولوا مرحبا بالسنۃ الجدیدۃ والشھر الجدید………." 

□ محشی نے اس کے متعلق لکھا ہے 

ھذا الاثر لم اجدہ بلفظہ فیما لدی من مصادر ومراجع 

یہ اثر مصادر ومراجع میں موجود نہیں ہے لہذا اس کی نسبت اللہ کے رسول کی طرف کرنا درست نہیں ہے،  اگر اکابرو  مشائخ سے منقول ہے تو بغیر نسبت کیے ہوے لکھنا پڑھنا درست ہے۔ 

فقط والسلام۔۔۔۔۔

واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

رتبه: الطالب عدنان بن عبد الحميد احمدآباد

جمعه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

28/اگست 2020 بروز جمعہ

بارش کے پانی میں شفاء

 


(تحقیقات سلسلہ نمبر 29)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

(بارش کے پانی میں شفاء)

سوال۔ علامہ یافعی یمنی نے اپنی کتاب " الدر النظیم" میں ایک روایت نقل کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بارش کے پانی پر سورہ فاتحہ ستر (70) مرتبہ، آیت الکرسی ستر مرتبہ،سورۂ اخلاص ستر مرتبہ، سورۂ فلق ستر مرتبہ، اور سورۂ ناس ستر مرتبہ پڑھ کر دم کرے تو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے حضرت جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ جو شخص اس دن کئے ہوئے پانی کو سات دن تک لگاتار پیئے گا اللہ تعالی اس کے جسم سے ہر بیماری نکال دیگا، اور اس کی رگوں، ہڈیوں اور تمام اعضاء سے بھی بیماریوں کو نکال دے گا۔ 

اس حدیث کی تحقیق مطلوب ہے؟


وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ


الجواب بعون الملک الوھاب:- جی۔۔۔۔۔ علامہ یافعی یمنی نے  اس کو بغیر سند کے ذکر کیا ہے، اور ان کی مذکور کتاب میں رطب و یابس ہیں، نیز وہ موضوع اور من گھڑت احادیث کا مجموعہ ہے،  اور کثیر وہ احادیث جو من گھڑت ہیں مصنف کتاب نے اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے'جو درست اور صحیح نہیں ہے، لہذا بالا الفاظ کو حدیث ماننا اور نشر کرنا درست نہیں ہے۔ 

عبداللہ بن اسعد الیافعی بظاھر صوفی علماء میں سے ہیں۔ائمہ شیعہ کی مدح کے کلمات ان سے منقول ہیں اس لئے شیعہ ان کی باتوں کو نقل کرتے ہیں۔۔

واللہ اعلم بالصواب



بالا حدیث کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  من أخذ من ماء المطر وقرأ عليه فاطحة الكتاب سبعين مرة، وآية الكرسي سبعين مرة، وقل هو الله أحد سبعين مرة، والمعوذتين سبعين مرة، والذي نفسي بيده أن جبرئيل جاءني واخبرني انه من يشرب من الماء سبعة أيام متواليات فان الله يدفع عنه كل داء في جسده ويعافيه منه، ويخرجه مِن عروقه ولحمه وجميع أعضائه.

( الدر النظيم في خواص القرآن الكريم لليافعي ص 13) 

 

نیز تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں یہ حدیث کتب احادیث معتمدہ میں بالسند نہیں ملی، ہاں البتہ بعض أہل تشیع نے اس کو بالسند ذکر کیا ہے، لیکن چونکہ ان کی کتب موضوع اور من گھڑت احادیث کا مجموعہ ہیں، اس لیے ہمارے نزدیک وہ معتبر نہیں۔ 

أہل تشیع کی کتب کے متعلق معلومات کے لئے ہماری درج ذیل لینک سے استفادہ کریں 👇


https://mohassantajpuri.blogspot.com/2020/02/blog-post_25.html?m=1


شیخ طلحہ بلال منیار صاحب حفظہ اللہ ورعاہ اس کے متعلق لکھتے ہیں:

یہ عمل اس ترکیب کے ساتھ عموما روافض کی کتابوں میں نیسان (سریانی، شمسی تقویم کے چوتھے مہینے) کے اعمال ووظائف میں ملتا ہے.

رافضی عالم مجلسی کی کتاب (بحار الأنوار) میں یہ عمل حسین بن حسن بن خلف کاشونی کی کتاب (زاد العابدین) کے حوالے سے منقول ہے، اور اسکی سند اس طرح سے مذکور ہے:

○ قال الکاشونی: أخبرنا الوالد أبوالفتح، حدثنا أبوبکر محمد بن عبدالله الخشابی البلخی، حدثنا أبونصر محمد بن أحمد بن محمد الباب حریزی، أخبرنا أبونصر عبدالله بن عباس المذکر البلخی، حدثنا أحمد بن أحید، حدثنا عیسی بن هارون، عن محمد بن جعفر بن عبدالله بن عمر، حدثنا نافع، عن ابن عمر.... فذكره.


سند مذکور (علی فرض ثبوته) کے بعض رواۃ اواخر سند میں معروف ہیں، باقی مجاھیل یا ضعفاء ہیں، خصوصا اوائل سند میں مذکورہ رواۃ تو روافض ہیں، مزید یہ ہے کہ اس روایت سے اہل سنت کی کتابیں خالی ہیں، اس لئے اس پر اعتماد نہیں کرسکتے، اسی طرح مذکورہ دعا کے جو عجیب وغریب فضائل روایت میں بتائے گئے ہیں، اسی سے اس روایت کا موضوع ومن گھڑت ہونا واضح ہے.انتھی



جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں 👇


یہ روایت ذخیرہ حدیث میں کہیں نہیں ملی، شاید کسی بزرگ کا مجرب عمل ہوگا، بطورِ علاج مذکورہ عمل اختیار کرنے میں حرج نہیں، مگر اسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا شرعاً درست نہیں۔ انتہی 



خلاصۂ کلام:-  بارش کا پانی خود بابرکت ہے، قرآن کریم میں ہے: "ونزلنا من السماء ماء مبارکا".

(سورۃ ق: ٩)

ترجمہ: اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی اتارا (بارش برسائی)۔


اسی طرح سورۃ الفاتحہ، معوذتین اور سورۃ الاخلاص کی الگ الگ فضیلتیں احادیث میں آئی ہیں۔

لیکن بالا سوال میں جس ترکیب سے شفاء کا عمل ذکر کیا گیا ہے، اس ترکیب سے یہ عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، البتہ اس عمل کا تذکرہ روافض کی کتابوں میں ملتا ہے، جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ (منقول۔۔۔۔) لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ فقط والسلام۔۔۔۔۔۔۔ 

واللہ اعلم بالصواب

جمعه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

27/اگست 2020 بروز جمعرات

Saturday, 15 August 2020

كما تعيشون تموتون الخ کی تحقیق

 ( تحقیقات سلسلہ نمبر 28)

باسمہ تعالیٰ

 السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بندہ محمد زبیر آمود 


كما تعيشون تموتون وكما تموتون تبعثون وكما تبعثون تحشرون

تحقیق مطلوب ہے؟


وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:-

بالا سوال میں مذکور الفاظ ہمیں کتب احادیثِ معتمدہ میں تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملے۔

لکین ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب" مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح"

 میں تین جگہوں پر یہ الفاظ بغیر سند کے ذکر کیے ہے۔ 


(١)  وإيماء إلى قولهم "كما تعيشون تموتون وكما تموتون تحشرون"

(مرقاة المفاتيح شرح مشكوٰة المصابيح ج1 كتاب الايمان باب إثبات عذاب القبر رقم الحديث: 183)


(٢)  لما روى  "كما تعيشون تموتون وكما تموتون تحشرون"

( مرقاة المفاتيح شرح مشكوٰة المصابيح ج7 كتاب الجهاد رقم الحديث: 3847)


(٣)  ومنه قيل : ما ترى الهرة في نومها إلا الفأرة . ومن هذا القبيل : "كما تعيشون تموتون وكما تموتون تحشرون"

( مرقاة المفاتيح شرح مشكوٰة المصابيح ج8 كتاب الرؤيا، رقم الحديث: 4614)


 لکین چونکہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں کی اس لیے ان کا بیان کرنا ( بغیر نسبت) درست اور صحیح ہے۔

 نیز " كنز الخفا في مقامات الصوفي" کے حاشیہ میں ہمیں اس بات کی وضاحت ملی کہ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں

 " ليس بحديث، إنما هو من كلام الصالحين، وورد في كتاب مرقاة المفاتيح لعلي القاري.

(كنز الخفا في مقامات الصوفي للبرليسي الحنفي ص 79)

ترجمہ۔ یہ حدیث نہیں، صلحاء کے اقوال میں سے ہے' اور ملا علی قاری رحمہ اللہ کی کتاب میں یہ الفاظ وارد ہیں۔ 


 اور آپ رحمہ اللہ کی پہلی عبارت ( وإيماء إلى قولهم) سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں، " إلى قولهم"  کی ضمیر جمع کی وجہ سے۔ 

ہاں البتہ "الابواب والتراجم" میں شیخ زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے "فیض الباری للکشمیری  ج4 ص160" کے حوالے سے فرق الفاظ کے ساتھ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتے ہوئے ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں 👇

وفي الفيض: قوله " باب عمل صالح" الخ لعله مأخوذ من قوله صلى الله عليه وسلم " كما تحيون تموتون وكما تموتون تحشرون" 

( الابواب والتراجم للكاندهلوي ج3 ص213)


راقم الحروف محمد حسان کی ناقص رائ یہ ہے کہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔


اس لیے کہ یہ الفاظ تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں کتب احادیث نہیں ملی، اگر آپ قارئین میں سے کسی کو ملے تو ہمیں ضرور متنبہ فرمائیں۔

رابطہ نمبر: 9428359610


 البتہ کتب أہل تشیع میں وہ الفاظ مذکور ہیں، (هذا حديث عند الشيعة، جاء في كتاب "عوالي اللئالي4/72)

(وجاء أيضا بلفظ آخر في السيرة الحلبية 1/272)


لکین چونکہ وہ معتبر نہیں اور اسی طرح تمام تر کتب شیعہ غیر معتبر ہیں، موضوع اور من گھڑت روایات کا مجموعہ ہیں

 جیسے  (مستدرك الوسائل للطبرسي،الكافي للكليني،المحاسن للبرقی ، مکارم الاخلاق، حلیۃ المتقین) 

اور ان کی یہ سب کتابیں بھی غیر معتبر ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہے،چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ روافض کی روایات کے متعلق علامہ سیوطی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:-

(واما البدعة الكبرى كالرفض الكامل،والغلو فيه والحط عن الشيخين -ابي بكر وعمر رضي الله عنهما- فلا ، ولا كرامة،لا سيما لست استحضر الآن من هذا الضرب رجلا صادقا ، ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والنفاق والتقية دثارهم، فكيف يقبل من هذا حاله)

(مقدمہ فتح الملہم، روایات أہل البدع و الاہواء ص 172)

ترجمہ۔  اور اگر کسی راوی میں بدعت کبریٰ پائی جائے جیسے کوئی غالی رافضی اور شیعہ ہو،اور حضرات شیخین یعنی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو ان کے مقام سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہو، تو ان کی روایات قابل قبول نہیں ،کیوں کہ ابھی تک میں نے اس قبیل کے لوگوں میں کسی کو صادق اور امین نہیں پایا ہے، بلکہ جھوٹ منافقت اور تقیہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، تو ایسے شخص کی بات روایت کیوں قبول کی جا سکتی ہے؟

اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے دور میں فرمایا تھا کہ یہ لوگ یعنی شیعہ حضرات کافر ہیں۔

                 ( کتاب الاعتصام للشاطبی ج2)

اس لیے ان الفاظ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا درست اور صحیح نہ ہوگا۔ 


اس جیسی دوسری روایت کے متعلق فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ سے سوال دریافت کیا گیا، سوال وجواب درج ذیل ہیں 👇 

والذي نفسي بيده لتموتن كما تنامون، ولتبعثن كما تستيقظون، ألا وإنها الجنة أبدًا أو النار أبدًا"، هل هو من كلام النبي صلى الله عليه وسلم وما حكم مرتبته؟


لا نعلم له أصلاً عن النبي صلى الله عليه وسلم، وإنما يروى من كلام قس بن ساعدة . وبالله التوفيق. وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.

فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب

كتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری سابرکانٹھا گجرات الھند

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات

رابطہ نمبر: 9428359610

17/اگست/2020 بروز اتوار

Tuesday, 11 August 2020

اویس قرنی رحمہ اللہ کا بروز قیامت شفاعت کرنا اور مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ ورعاہ کا بیان

 (تحقیقات سلسلہ نمبر 27) 

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

( اویس قرنی رحمہ اللہ کا بروز قیامت شفاعت کرنا اور مولانا طارق جمیل صاحب زید مجدہم کا بیان) 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- ایک حدیثِ مبارکہ جو سوشل میڈیا پر بہت گردش کر رہی ہے لیکن اسکی سند مجھے نہیں مل سکی ازراہِ کرم اسکی تخریج کردیجیئے؟


"آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب لوگ جنت میں جا رہے ہوں گے تو حضرت اویس قرنی بھی چلیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کے باقیوں کو جانے دو اور اویس کو روک لو اس وقت حضرت اویس قرنی ؓ پریشان ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ اے خدا آپ نے مجھے دروازے پرکیوں روک لیا؟ تو اللہ تعالی ٰ فرمائیں گے کہ پیچھے دیکھو جب پیچھے دیکھیں گے توپیچھے کروڑوں اربوں کے تعداد میں جہنمی کھڑے ہوں گے، تو اس وقت خدا فرمائیں گے کہ اویس تیری ایک نیکی نے مجھے بہت خوش کیا ہے’’ ماں کی خدمت‘‘تو انگلی کا اشارہ کرجدھرجدھرتیری انگلی پھرتی جائے گی میں تیرے طفیل ان کوجنت میں داخل کرتا جاوں گا۔

سائل: مولوی صامت اسلام پوری گجرات

مدرس: جامعۃ العلوم گڑھا گجرات

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الوہاب:- اس واقعے کو  مولانا طارق جمیل صاحب زید مجدہم نے اپنے ایک بیان میں ذکر کیا ہے۔ اس کو اس لینک سے دیکھا جاسکتا ہے ۔

https://www.dailymotion.com/video/x4hk1x8


لیکن تحقیق یہی ہے کہ یہ واقعہ کسی مستند کتاب میں مذکور نہیں ہے۔  مولانا ( دامت برکاتہم العالیہ)   بھی شاید بلاسند بیان کررہے ہیں ۔

ہاں ۔اویس قرنی کی بابت کچھ روایات اس قسم کی ہیں جن کا حکم بھی دیکھتے جائیں ۔

ولعل من أعظم ما روي في مناقبه (أويس القرني)  الأحاديث الواردة في شفاعة رجل من أمة محمد صلى الله عليه وسلم لأناس كثيرين ، وقد جاءت من روايات كثيرة ، أصحها حديث عبد الله بن أبي الجدعاء مرفوعا: ( ليدخُلَنَّ الجنة بشفاعة رجل من أمتي أكثر من بني تميم ) رواه الترمذي (رقم/2438) وقال حسن صحيح . وصححه الألباني .

ترجمہ۔ عین ممکن ہے کہ اویس قرنی رحمہ اللہ کے فضائل  کے متعلق سب سے عظیم حدیث وہ ہو جس میں امت محمدیہ  میں سے ایک شخص کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کیلئے شفاعت کرنے کا   ذکر ہے، اور اس بات کا تذکرہ متعدد روایات میں ہے، ان میں سے صحیح ترین روایت  عبد اللہ بن ابی جدعاء کی مرفوع روایت ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (میری امت کے لوگوں میں سے ایک شخص ایسا بھی ہوگا  جس کی شفاعت کے ذریعے بنی تمیم سے بھی زیادہ  لوگ جنت میں داخل ہونگے) ترمذی: (2438) نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث "حسن صحیح" ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔


فقد صح عن الحسن البصري أن هذا الشافع هو أويس القرني۔

ترجمہ۔ اور اس شفاعت کرنے والے اس شخص کے بارے میں حسن بصری رحمہ اللہ سے صحیح ثابت ہے کہ حدیث میں شافع سے مراد اویس قرنی ہی ہے،

 اس سلسلے میں تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذي کی عبادت ملاحظہ فرمائیں 👇

( بشفاعة رجل من أمتي أكثر من بني تميم ) وهي قبيلة كبيرة وقال القاري : فقيل الرجل هو عثمان بن عفان رضي الله عنه ، وقيل أويس القرني۔۔۔

ترجمہ۔ ملا علی قاری رحمہ نے اس حدیث کے لفظ رجل کی تفسیر میں کہا کہ وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہے' اور ایک قول یہ ہے کہ وہ اویس قرنی رحمہ اللہ ہے۔ 


 وورد ذلك في أحاديث أخرى مرفوعة لكنها ضعيفة۔ اس بات کا ذکر دیگر مرفوع احادیث میں بھی ہوا ہے، لیکن وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں۔  ترتیب وار ملاحظہ فرمائیں 👇

(١) [عن أبي هريرة:] يدخلُ الجنةَ بشفاعةِ رجلٍ من أمتي أكثرُ من مضرَ وتميمٍ. قيل: من هو يا رسولَ اللهِ؟ قال: أُويسٌ القَرَنيُّ

ميزان الاعتدال للذھبی  ٢‏/٤٤٥    [فيه] عبد الله بن صالح الجهني له مناكير۔ 

سير أعلام النبلاء للذھبی ٤‏/٣٣  •  منكر تفرد به الأعين ، وهو: ثقة۔ 

ترجمہ۔  میری امت کے لوگوں میں سے ایک شخص کی شفاعت کے ذریعے مضر اور بنی تمیم سے بھی زیادہ  لوگ جنت میں داخل ہونگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ وہ شخص کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا: وہ اویس قرنی ہے۔ 


(٢)[عن عطاء الخراساني:] قيلَ لِأُوَيْسٍ: أما حَجَجتَ؟ فسَكَتَ، فأعطَوْه نَفَقةً وراحِلةً، فحَجَّ، أبو بَكرٍ الأعْيَنُ: حدَّثَنا أبو صالِحٍ، حدَّثَنا اللَّيثُ، عنِ المَقبُريِّ: عن أبي هُرَيرةَ، مَرفوعًا: يَدخُلُ الجَنَّةَ بشفاعةِ رَجُلٍ مِن أُمَّتي أكثَرُ مِن مُضَرَ وتَميمٍ. قيلَ: مَن هو يا رَسولَ اللهِ؟ قال: أُوَيْسٌ القَرَنيُّ.

شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج سير أعلام النبلاء ٤‏/٣٣  •  [فيه] علة الحديث شيخ الاعين أبو صالح واسمه عبد الله بن صالح وهو ضعيف لكثرة غلطه.

(٣) 34065 يدخل الجنة بشفاعة رجل من أمتي يقال له أويس فئام (1) من الناس (ابن عساكر من طريق عبد الرحمن بن يزيد بن أسلم عن أبيه عن جده).

ترجمہ۔ میری امت کے ایک شخص کی شفاعت کی وجہ سے لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت جنت میں داخل ہوگی۔ 

(٤) وروى البيهقي من حديث أبي بكر بن عياض عن هشام ، عن الحسن ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يدخل بشفاعة رجل من أمتي الجنة أكثر من ربيعة ومضر " . قال هشام : أخبرني حوشب ، عن الحسن أنه أويس القرني . قال أبو بكر بن عياش : قلت لرجل من قومه : أويس بأي شيء بلغ هذا ؟ قال : فضل الله يؤتيه من يشاء .

(٥) وروى العسقلاني في «لسان الميزان» أيضًا عن أبي صالح عن الليث عن المقبري عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:«ليشفعن رجل من أمتي في أكثر من مضر» قال أبو بكر: يا رسول الله إن تميمًا من مضر، قال: «ليشفعن رجل من أمتي لأكثر من تميم ومضر، وإنه أويس القرني».

اور مولانا طارق جمیل صاحب زید مجدہم نے اور آپ محترم نے سوال میں جس واقعہ کا ذکر کیا ہے اس کو بھی ہم مختصراً بیان کردیتے ہے 👇

ورويت في فضله أحاديث أخرى ضعيفة ، منها حديث طويل جاء فيه : ( ليصلين معكم غدا رجل من أهل الجنة ...ذاك أويس القرني ) ...إلى آخر الحديث ، وفيه حوار مطول بينه وبين عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب .


اس میں یہ الفاظ بھی مذکور ہیں

۔۔۔۔۔۔ألا وإنَّه إذا كان يومُ القيامةِ قيل للعبادِ : ادخلوا الجنَّةَ ، ويُقالُ لأويسٍ : قفْ فاشفعْ . فيشفعُ اللهُ عزَّ وجلَّ في مثلِ عددِ ربيعةَ ومُضَرَ۔۔۔۔۔۔

ترجمہ۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو بندوں سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہوجاؤ، اور اویس قرنی سے کہا جائے گا: ٹھیرجاؤ! اور شفاعت کروں، تو اللہ تعالیٰ ان شفاعت کی وجہ سے ربیعہ و مضر کے مثل افراد کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ 

رواه أبو نعيم في " حلية الأولياء " (2/81) وأشار إلى ضعفه .سير أعلام النبلاء ٤‏/٢٧    هذا سياق منكر لعله موضوع، وقال الشيخ الألباني في " السلسلة الضعيفة " (رقم/6276) : منكر جدا۔

خلاصۂ کلام:- سوال مذکور میں جو روایت اویس قرنی رحمہ اللہ کی شفاعت کے متعلق ذکر کی گئی ہے وہ ضعیف ہے، اور جتنی روایات ان کی شفاعت کے متعلق ذکر کی گئی ہیں ان پر بھی محدثین نے سخت کلام کیا ہیں، لکین اس کے بیان کرنے اور نشر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا تعلق ایک واقعہ سے ہے، اور واقعات کے متعلق علماء نے نرم پہلو اختیار کیا ہیں۔ مکمل تحقیق باحوالہ درج ذیل ہے 👇


👈 کوئی بات اگر حدیث نہ ہو اور وہ شرعی نقطہ نظر سے کسی نص سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کیا جاسکتا ھے, حکایات میں سند کی تفتیش جبکہ اس میں کوئی الزام یا خرابی نہ ہو بے جا غلو ھے, حکمت کی باتیں جہاں بہی ملیں ان کو لے لو, محدثین نے خود حکایات کے باب میں سند کے متعلق نرم پہلو اختیار کیا ھے۔

کیونکہ سند کی اہمیت خاص طور پر وہاں ھے جہاں امر شرعی بیان کیا جارہا ہو۔سند مل جائے تو عمدہ بات ھے ورنہ چشم پوشی کی جائے۔

1⃣ قال الصغانی: اذا علم ان حدیثا متروک او موضوع, فلیروہ ولکن لا یقول علیہ: قال رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم۔

ترجمہ: اگر کسی روایت کے متعلق معلوم ہو کہ وہ متروک یا منگھڑت ھے لیکن وہ نص شرعی سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کرنا درست ہوگا۔

( تذکرة الموضوعات/صفحة: 8. مؤلف: الادیب الفاضل اللبیب العلامہ محمد طاہر پٹنی الہندی رح.

 مطبع: ادارہ الطباعة المنيرية.مصر )

2⃣ واما اخبار الصالحین وحکایات الزاھدین والمتعبدین ومواعظ البلغاء وحکم الادباء, فالاسانید زینة لها.وليست شرطا لتاديتها(نوادر الحدیث شیخ یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ)

واللہ اعلم بالصواب

فقط والسلام

⁦✍️⁩ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجراتی الھند

مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ سابرکانٹھا گجرات

رابطہ نمبر: 0919428359610

12/اگست/2020 بروز بدھ